Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 66
وَ لَوْ نَشَآءُ لَطَمَسْنَا عَلٰۤى اَعْیُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰى یُبْصِرُوْنَ
وَلَوْ نَشَآءُ : اور اگر ہم چاہیں لَطَمَسْنَا : تو مٹا دیں (ملیا میٹ کردیں) عَلٰٓي : پر اَعْيُنِهِمْ : ان کی آنکھیں فَاسْتَبَقُوا : پھر وہ سبقت کریں الصِّرَاطَ : راستہ فَاَنّٰى : تو کہاں يُبْصِرُوْنَ : وہ دیکھ سکیں گے
اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا کر (اندھا کر) دیں پھر یہ راستے کو دوڑیں تو کہاں دیکھ سکیں گے
66 تا 68۔ اوپر ذکر تھا کہ قیامت کے دن ہاتھ پیر گواہی دیویں گے اس کے سمجھانے کے لیے فرمایا کہ دنیا میں جب کہ اللہ اس پر قادر ہے کہ جس کو چاہے اندھا کرے اور جس کی صورت کو بدلنا چاہے تو بدل دیوے مثلا جس طرح آدمی کا بدن بگڑ کر یا اندھا ہو کر اس کی صورت بگڑ جاتی ہے تو وہ اس پر بھی قادر ہے کہ قیامت کے دن زبان کو گونگا کر دے اور زبان کا کام ہاتھ پیروں سے لیوے پھر فرمایا کہ ان کے اعضاء جس قدر اور جس طرح ہر وقت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں کہ اس کا حال یہ لوگ اپنے بچہ پننے، جوانی اور بوڑھاپے کی حالت سے نہیں سمجھ سکے کہ جوانی سے پہلے ان کی کمزوری کا کیا حال تھا جوانی میں وہ کمزوری کیسی قوت سے بدل گئی اور بوڑھاپا آتے ہی پھر وہی کمزوری کیوں کر پلٹ کر آگئی۔ معتبر سند سے مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت 1 ؎ ہے (1 ؎ الرغیب والترہیب ص 251 ج 4۔ ) جس میں حضرت ﷺ نے فرمایا جوانی ایسی چیز ہے کہ بوڑھاپے سے پہلے آدمی کو اس کی قدر کرنی چاہئے۔ اس حدیث کو ان آیتوں کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ بوڑھاپے میں آدمی کے اعضاء ایسے کمزور ہوجاتے ہیں کہ اس سے کچھ ہو نہیں سکتا اس لیے بوڑھاپے کے آنے سے پہلے آدمی کو چاہئے کہ جوانی کی قدر کر لیوے حاصل کلام یہ ہے کہ آیتوں میں بڑھاپے کے سبب سے انسان کے اعضاء کی کمزوری کا جو ذکر ہے جس کمزوری سے نیک عملوں میں کوتاہی ہوجاتی ہے اس کوتاہی کا علاج سکھانے میں یہ حدیث گویا ان آیتوں کی تفسیر ہے۔
Top