Ahsan-ut-Tafaseer - Yaseen : 65
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰۤى اَفْوَاهِهِمْ وَ تُكَلِّمُنَاۤ اَیْدِیْهِمْ وَ تَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
اَلْيَوْمَ : آج نَخْتِمُ : ہم مہر لگا دیں گے عَلٰٓي : پر اَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ وَتُكَلِّمُنَآ : اور ہم سے بولیں گے اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ وَتَشْهَدُ : اور گواہی دیں گے اَرْجُلُهُمْ : ان کے پاؤں بِمَا : اس کی جو كَانُوْا : وہ تھے يَكْسِبُوْنَ : کماتے (کرتے تھے)
آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور جو کچھ یہ کرتے رہے تھے ان کے ہاتھ ہم سے بیان کردیں گے اور ان کے پاؤں (اس کی) گواہی دیں گے
65۔ صحیح مسلم، ترمذی، نسائی، مسند امام احمد، مسند بزار، تفسیر ابن جریر، تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں جو چند روایتیں 2 ؎ اس آیت تفسیر میں حضرت انس ؓ وغیرہ کی روایت سے آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جس حالت کا ذکر اس آیت میں ہے وہ قیامت کے دن لوگوں کا حساب جس وقت ہوگا اس وقت کی حالت کا ذکر ہے جب نیک وبدسب طرح کے لوگ اللہ تعالیٰ کے روبر وکھڑے ہوں گے تو بعضے نیک گناہ گار لوگ ایسے ہوں گے کہ اپنے نامہ اعمال کو دیکھ کر جس قدر گناہ اس میں لکھے ہوں گے ان کا اقرار کریں گے ان کے اقرار پر اللہ تعالیٰ کو رحم آئے گا اس لیے اللہ تعالیٰ ان کے سب گناہ بخش دے گا اور بعضے کافر اور منافق ایسے ہوں گے کہ اپنے گناہوں کا انکار کریں گے اور کہیں گے کہ یا اللہ تیرے فرشتوں نے ہمارے نامہ اعمال میں وہ برے کام لکھ دئے ہیں جو ہم نے ہرگز دنیا میں نہیں کئے اور بعضے یہ بھی کہیں گے کہ یا اللہ کیا آج کے دن تجھ کو انصاف درکار نہیں ہے اللہ تعالیٰ فرمادے گا کہ ہاں مجھ کو ضرور آج کے دن انصاف درکار ہے اس پر وہ لوگ کہویں گے کہ آج کے دن ہم ایسا گواہ چاہتے ہیں کہ جس پر ہمارا بھروسہ ہو اس پر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے منہ پر اپنی قدرت سے خاموشی کی مہر لگا دیوے گا جس سے ان کی زبان بالکل بند ہوجاوے گی اور ان کے ہاتھ پیروں کو گویائی دیوے گا ان کے ہاتھ پیر ان کے سب گناہوں کا حال اس طرح بیان کر دیویں گے کہ جب ہاتھ گناہوں کا حال بیان کرے گا تو پیر اس کے بیان کے سچے ہونے کی گواہی دیوے گا اور جب پیر گناہوں کا حال بیان کرے گا تو ہاتھ گواہی دیوے گا اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آیت میں باتیں کرنا اور گواہی دینا دو لفظ فرمائے ہیں جب یہ ہوچکے گا تو وہ کافر اور منافق لوگ اپنے ہاتھ پیروں پر خفا ہوں گے کہ تم نے ہمارے مخالف گواہی کیوں دی ہاتھ پیر جواب دیں گے کہ ہم نے جو کچھ کیا اللہ کے حکم سے کیا۔ تفسیر کرخی میں ہے کہ جس اللہ نے گوشت کے ایک ٹکڑے زبان کا گوشت اور اور سب گوشت یکساں ہے۔ تفسیر مقاتل میں ہے کہ جب یہ کافر اور منافق لوگ سچی بات کے کہتے کہنے سے زبان کو بند کریں گے تو اللہ تعالیٰ خود ان کے ہاتھ پیروں سے ان کو قائل کراوے گا مسند امام احمد مستدرک حاکم نسائی بیہقی تفسیر عبدالرزاق اور تفسیر ابن ابی حاتم میں معاویہ ؓ بن حیدہ سے روایت 1 ؎ ہے (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 363 ج) کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا شام کی سر زمین پر مخلوقات کا حشر ہوگا سوار پیدل اور منہ کے بل تین طرح کے لوگ قبروں سے میدان حشر تک جائیں گے اور اپنے برے اعمالوں سے لوگ منکر ہوں گے تو سب سے پہلے ہتھیلی اور ران کو قوت گویائی دی جائے گی اور زبان بند کردی جاوے گی حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے 2 ؎ (2 ؎ تفسیر الدرالمنثور ایضا) اس آیت میں تو اللہ تعالیٰ نے فقط ہاتھ اور پاؤں کو گویائی دیے جانے کا ذکر فرمایا ہے اور حمٓ السجدہ میں آگے ذکر آئے گا وہاں کان آنکھ اور سارے جسم کا ذکر فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن اعضا سے آدمی دنیا میں برا کام کرے گا وہ سب قیامت کے دن گواہی دیں گے امام فخر الدین رازی نے حم السجدہ کی تفسیر میں کان آنکھ اور جلد کا ذکر کر کے یہ بات ثابت کی ہے کہ باقی کے سب اعضاء اس ذکر میں داخل ہیں صحیح مسلم اور نسائی کی۔ روایت 3 ؎ میں یہ بھی ہے (3 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 267 ج 5) کہ ایک روز آنحضرت ﷺ کو ہنسی آئی صحابہ ؓ نے آپ کی ہنسی کا سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگ جس طرح خدا تعالیٰ سے جھگڑیں گے وہ ذکر یاد کر کے مجھ کو ہنسی آئی ہے پھر آپ نے لوگوں کے گناہوں سے انکار کرنے اور منہ پر مہر لگنے اور ہاتھ پاؤں کی گواہی دینے کا ذکر فرمایا قتادہ کا قول ہے کہ منہ پر سکوت کی مہر لگ جانے سے پہلے یہ لوگ طرح طرح کی حجتیں کریں گے جب ان کے منہ پر سکوت کی مہر لگ جاوے گی تو پھر زبان کے کھل جانے کے بعد بھی ان کو کوئی موقع ہاتھ پیروں کی گواہی کے جھٹلانے کا باقی نہ رہے گا قرآن شریف اور صحیح حدیثوں میں یہ جو ہے کہ دوزخی دوزخ میں طرح طرح سے فریاد کریں گے اس سے قتادہ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیوں کہ اس قسم کی آیتوں اور حدیثوں سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ میں جانے سے پہلے ان لوگوں کی زبان کھل جاوے گی۔
Top