Anwar-ul-Bayan - Yaseen : 26
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ١ؕ قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَۙ
قِيْلَ : ارشاد ہوا ادْخُلِ : تو داخل ہوجا الْجَنَّةَ ۭ : جنت قَالَ : اس نے کہا يٰلَيْتَ : اے کاش قَوْمِيْ : میری قوم يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتی
اس سے کہا گیا کہ جنت میں داخل ہوجا، وہ کہنے لگا کہ کاش میری قوم کو یہ بات معلوم ہوجاتی کہ
(قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ ) اللہ تعالیٰ نے اس کو ایمان اور دعوت توحید اور شہادت کا انعام دیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوا کہ جنت میں داخل ہوجا۔ (قَالَ ٰیلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَلِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکَرَّمِیْنَ ) جنت میں داخل ہو کر اس شخص نے کہا کیا اچھا ہوتا کہ میری قوم کو اس کا پتہ چل جاتا جو میرے رب نے میری مغفرت فرمائی اور جو مجھے معزز بندوں میں شامل فرمایا (یہ بات اس نے آرزو کے طور پر کہی کہ میری قوم کو اللہ کے انعام کا پتہ چل جاتا تو وہ بھی مسلمان ہوجاتے۔ ) معالم التنزیل میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب بستی والوں نے اس آدمی کو قتل کردیا جو بستی کے آخر والے حصہ سے آیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب بھیج دیا۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کے ہلاک کرنے کا حکم دیا انہوں نے وہاں زور سے ایک چیخ ماری جس کی وجہ سے وہ سب لقمہ اجل بن گئے، ان لوگوں کی ہلاکت کے بارے میں فرمایا (وَمَا اَنْزَلْنَا عَلٰی قَوْمِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَمَا کُنَّا مُنزِْلِیْنَ اِِنْ کَانَتْ اِِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِِذَا ھُمْ خَامِدُوْنَ ) (اور ہم نے اس شخص کی قوم پر اس کے بعد آسمان سے کوئی لشکر نازل نہیں کیا اور ہم لشکر نازل کرنے والے نہ تھے وہ تو صرف ایک چیخ تھی سو اچانک وہ بجھ کر رہ گئے) یعنی مذکورہ بستی والے جو ہلاک کردئیے گئے۔ ان کی ہلاکت کے لیے ہمیں کوئی لشکر اور جماعت کبیرہ بھیجنے کی ضرورت نہ تھی بس ایک چیخ ہی کے ذریعے ہلاک کردئیے گئے۔ اس میں عبرت ہے دوسرے منکرین و مکذبین کے لیے، کوئی فرد یا جماعت یہ نہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے انتقام نہیں لے سکتا اگر وہ انتقام لینا چاہے گا تو العیاذ باللہ اسے دشواری نہ ہوگی نہ اسے کوئی لشکر بھیجنا پڑے گا۔ وہ تو قادر مطلق ہے، اس کے صرف کن کے خطاب سے سب کچھ ہوجاتا ہے جو چیخ بھیجی اس کی بھی ضرورت نہ تھی لیکن حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ انہیں ایک چیخ کے ذریعے ہلاک کردیا جائے، ایک چیخ آئی اور یہ لوگ بجھے ہوئے رہ گئے، بڑے غرور اور طمطراق میں بھرے ہوئے تھے نہ خود رہے نہ جماعت رہی نہ غرور رہا، بالکل ایسے ہوگئے جیسے آگ کسی لکڑی کو بجھا کر راکھ بنا دے۔ (قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ ) جو فرمایا ہے اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ بلاحساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے اس شخص کو انہیں میں شامل فرما دیا اور اسے مزید یہ فضیلت دی کہ وقوع قیامت کا انتظار نہیں کیا گیا ابھی سے جنت میں داخل کردیا گیا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ کوئی بعید نہیں ہے۔ (کما قال النّبی ﷺ لقد رأیت رَجُلاً یتقلب فی الجنّۃ فی شجرۃ قطعھا من ظھر الطریق کانت تؤذی النّاس) (رواہ مسلم ص 328) (جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے جنت میں ایک آدمی کو آزادی سے پھرتے دیکھا جس نے راستہ سے لوگوں کو تکلیف دینے والا درخت کاٹا۔ ) اور بعض حضرات نے (قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ ) کا مطلب یہ لیا ہے کہ اس سے محض بشارت دینا مقصود ہے اور جنت کا داخلہ قیامت کے دن اپنے وقت پر ہوگا، اگر یہ قول مراد لیا جائے تو (قَالَ ٰیلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ ) کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ موت کے بعد ہی برزخ میں جو حسن سلوک ہوا اسی سے متاثر ہو کر اس نے یہ بات کہی۔ (وَاللّٰہُ تَعَالیٰ اَعْلَمْ )
Top