Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 26
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ لِيُبَيِّنَ : تاکہ بیان کردے لَكُمْ : تمہارے لیے وَيَهْدِيَكُمْ : اور تمہیں ہدایت دے سُنَنَ : طریقے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَيَتُوْبَ : اور توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اللہ چاہتا ہے کہ بیان فرمائے تمہارے لیے اور تم کو بتلا دے طریقے ان لوگوں کے جو تم سے پہلے تھے اور یہ کہ وہ تمہاری توبہ قبول فرمائے اور اللہ علم والا ہے حکمت والا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو منظور ہے کہ تمہاری توبہ قبول فرمائے اور نفس کی خواہشوں کے پیچھے چلنے والے تمہیں راہ حق سے ہٹانا چاہتے ہیں ان آیات میں اول تو یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیئے ہیں اور زندگی گزارنے کے جو طریقے بتائے ہیں اس میں تمہارا فائدہ ہے تم سے پہلے جو صالحین تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے طریقے بھی تمہیں بتائے ہیں تاکہ تم سمجھو کہ گزشتہ امتوں کے لیے بھی احکام آئے تھے اور وہ ان پر عمل کرتے تھے۔ تم کو بھی عمل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کو تمہاری توبہ قبول کرنا منظور ہے اس نے جو بھی کچھ حکم دیا ہے تمہارے لیے اس میں خیر ہے وہ علیم ہے تمہارے انفرادی و اجتماعی اعمال کو جانتا ہے۔ اور حکیم بھی اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ تمہاری توبہ قبول فرمائے (لہٰذا تم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اور اس کے احکام پر چلو) اور جو لوگ نفسانی خواہشوں کا اتباع کرتے ہیں، جنہوں نے خواہشات ہی کو اپنا پیشوا بنا رکھا ہے وہ خود ڈوبے ہیں اور تمہارے لیے بھی یہی چاہتے ہیں کہ راہ حق سے ہٹ جاؤ اور بہت دور تک ہٹتے چلے جاؤ۔ ان لوگوں کو اپنے لیے عفت و عصمت اور حیاء و شرم محبوب نہیں ہے۔ فحاشی اور شہوت پرستی ہی ان کے پیش نظر ہے یہ تم کو بھی اپنی راہ پر لانا چاہتے ہیں، تمہاری عفت و عصمت بھی ان کو کھولتی ہے اور انہیں یہ گوارا نہیں کہ تم حیا و شرم کے ساتھ زندگی گزارو، تم احکام خداوندیہ پر مضبوطی سے جمے رہو تاکہ یہ شہوت کے بندے اور خواہشوں کے غلام تمہیں اپنے راستے پر نہ ڈالیں (ناول افسانے لکھنے والے سینما میں کام کرنے والے ایکٹر اور ٹیوی اور وی سی آر میں بےحیائی اور فحاشی کے مناظر سامنے لانے والے سب ہی عفت و عصمت کے دشمن ہیں) ۔ احکام شرعیہ میں انسانی کمزوریوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے : پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ تمہارے لیے احکام میں تخفیف فرمائے یعنی آسانی فرمائے۔ اس نے انسان کو پیدا فرمایا ہے۔ انسان کا ضعف اور انسان کی کمزوری اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے ان کمزوریوں کا احکام میں لحاظ رکھا ہے اور ایسے احکام دئیے ہیں جو بندہ کی قدرت سے باہر نہیں ہیں، اول تو نکاح کی نہ صرف اجازت دی بلکہ اس کا حکم دیا، اور ایک سے لے کر چار بیویوں تک کی اجازت دی اور عورتوں کے لیے مہر مقرر فرمانے کا حکم دیا تاکہ معاشرہ میں عورت کی بھی حیثیت و عزت قائم رہے اور مردوں کی باندیوں سے استمتاع کرنے کی بھی اجازت دی مملوکہ ہوں یا منکوحہ یہ سب آسانیاں ہیں جن کی انسان کو حاجت ہے احکام نکاح کے علاوہ دوسرے احکام میں بھی آسانیاں رکھی ہیں، اور کوئی حکم ایسا نہیں دیا جس کی تعمیل انسان کے بس سے باہر ہو، البتہ انسان کو شتر بےمہار کی طرح آزاد بھی نہیں چھوڑا جو مرد جس عورت سے چاہے استمتاع کرے اس کی اجازت نہیں دی کیونکہ یہ تو حیوانی زندگی ہے اگر سب کچھ حلال کردیا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق ہی کیا رہے گا ؟ اس طرح سے تو انسانیت کا شرف ہی ختم ہوجائے گا جس پر پابندی نہیں وہ تو انسان ہی نہیں۔
Top