Anwar-ul-Bayan - At-Talaaq : 10
اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا١ۙ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ١ۛۖۚ۬ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۛ۫ؕ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكُمْ ذِكْرًاۙ
اَعَدَّ اللّٰهُ : تیار کیا اللہ نے لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابًا شَدِيْدًا : شدید عذاب فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ سے يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے ہو قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ : تحقیق نازل کیا اللہ نے اِلَيْكُمْ ذِكْرًا : تمہاری طرف ایک ذکر کو
خدا نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ تو اے ارباب دانش جو ایمان لائے ہو خدا سے ڈرو۔ خدا نے تمہارے پاس نصحیت (کی کتاب) بھیجی ہے۔
(65:10) اعد۔ ماضی واحد مذکر غائب اعداد (افعال) مصدر۔ بمعنی کسی چیز کو اس طرح تیار کرنا کہ وہ شمار کی جاسکے۔ اس نے تیار کیا۔ لہم میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب بستیوں میں رہنے والوں کے لئے ہے۔ عذابا شدیدا : عذابا مفعول بہ موصوف، شدیدا صفت، سخت عذاب۔ فائدہ : اعد اللہ لہم عذابا شدیدا۔ (آخرت میں بھی اللہ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ترجمہ مولنا حقانی (رح)) مخاطبین کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ تم نے بستیوں کے مکینوں کا حال سنا کہ کس طرح ان کی رب سے سرکشی اور اس کے رسول کی نافرمانی ان کے سخت محاسبہ اور شدید عذاب پر منتج ہوئی اور ان کا انجام خسران یعنی گھاٹا ہی رہا۔ اب بتایا جا رہا ہے کہ یہ تو نتیجہ انہوں نے اپنی کرتوتوں کا اس دنیا میں دیکھ لیا آخرت میں عذاب شدید ان کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ فاتقوا اللہ میںسببیہ ہے۔ پس بایں وجہ اتقوا اللہ اللہ سے ڈرو۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر اتقاء (افتعال) مصدر سے پس ڈرو اللہ سے۔ یاولی الالباب : یا حرف ندی۔ اولی والے۔ جمع ہے۔ اس کا واحد نہیں آتا۔ بعض ذو کو اس کا واحد بتاتے ہیں اولوا بحالت رفع اور اولی بحالت نصب یا جر ہوگا۔ یہاں اولی منادی ہے۔ اور مفعول بہ آتا ہے۔ لہذا منصوب ہے ۔ یہ مضاف ہے اور الباب جمع ہے۔ لب کی بمعنی عقلیں۔ مجاف الیہ ہے۔ یاولی الالباب : اے عقلمندد۔ اے دانشمندو۔ فائدہ : الالباب پر معانقہ ہے اور امنوا پر بھی۔ معانقہ کی صورت میں الالباب پر بھی وقف کرسکتے ہیں اور امنوا پر بھی۔ لیکن الالباب پر معانقہ کے اشارہ کے ساتھ صلے کا اشارہ ہے جو الوصل اولی کا اختصار ہے یعنی یہاں ملا کر پڑھنا بہتر ہے آگے امنوا پر اشارہ وقف ہے جس کے معنی ہیں ٹھہر جاؤ۔ لہٰذا یہاں امنوا پر وقف کرنا بہتر ہے۔ اس صورت میں عبارت یوں آئے گی :۔ فاتقوا اللہ یاولی الالباب الذین امنوا۔ تو اس صورت میں الذین امنوا بدل ہوگا۔ فاتقوا اللہ کا۔ یعنی اے ارباب دانش جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو۔ اولی الالباب سے مقصود الذین امنوا ہے۔ (مراد وہ مومن جو نزول قرآن کے بعد ایمان لائے) قد انزل اللہ الیکم ذکرا : قد ماضی کے ساتھ تحقیق کا فائدہ دیتا ہے ۔ اور فعل کو زمانہ حال کے قریب کردیتا ہے۔ ذکرا : ای القران۔ رسولا : اس سے قبل فعل محذوف ہے : ای وارسل رسولا : رسولا مفعول بہ ہے۔
Top