Tafseer-e-Baghwi - An-Noor : 37
رِجَالٌ١ۙ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِیْتَآءِ الزَّكٰوةِ١۪ۙ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُۗۙ
رِجَالٌ : وہ لوگ لَّا تُلْهِيْهِمْ : انہیں غافل نہیں کرتی تِجَارَةٌ : تجارت وَّلَا بَيْعٌ : اور نہ خریدو فروخت عَنْ : سے ذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کی یاد وَاِقَامِ : اور قائم رکھنا الصَّلٰوةِ : نماز وَاِيْتَآءِ : اور ادا کرنا الزَّكٰوةِ : زکوۃ يَخَافُوْنَ : وہ ڈرتے ہیں يَوْمًا : اس دن سے تَتَقَلَّبُ : الٹ جائیں گے فِيْهِ : اس میں الْقُلُوْبُ : دل (جمع) وَالْاَبْصَارُ : اور آنکھیں
(یعنی ایسے) لوگ جن کو خدا کے ذکر اور نماز پڑھنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ سوداگری غافل کرتی ہے نہ خریدو فروخت۔ وہ اس دن سے جب دل (خوف اور گھبراہٹ کے سبب) الٹ جائیں گے اور آنکھیں (اوپر کو چڑھ جائیں گی) ڈرتے ہیں
تفسیر۔ 37۔ رجال “ ان میں مردوں کو خصوصی طور پر ذکر کیا کیونکہ عورتوں کا مساجد میں جانا نہ جمعہ کے لیے ہے ، اور نہ ہی جماعت کے لیے ، لاتلھیھم ، ان کی یاد سے وہ غافل نہ ہوں، تجارۃ، یہاں پر تجارت کو خصوصی ذکر کیا کیونکہ یہی بڑا عمل ہے جس کی مشغولیت کی وجہ سے انسان اور دوسری طاعات سے رہ جاتا ہے، تجارت سے مراد خریدنا ہے۔ اگرچہ تجارت کا لفظ خریدنے اور بیچنے دونوں پر بولاجاتا ہے۔ اسی وجہ سے لفظ تجارت کے بعد لفظ بیع کا تذکرہ نہیں کیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ، واذا راؤ تجارۃ، اس سے مراد خریدنا ہے فراء کا قول ہے کہ تجارت کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو باہر ہے مال لانے والے ہیں اور بیع کا تعلق اس کے ہاتھ سے ہے۔ ” ولابیع عن ذکراللہ۔ نماز کے لیے مساجد میں حاضر ہونا۔ واقام ، اس کو قائم کرنے کے لیے۔ الصلوۃ، اس سے مراد اس کے وقت میں ادا کرنا اس لیے کہ نما زکو وقت مقررہ سے موخر کرنے والا نماز کو قائم کرنے والا نہیں ہوتا۔ اقامت صلوہ کا اعادہ دراصل نماز کے اوقات خمسہ کو اچھی طرح یاد رکھنا۔ حضرت سالم نے ابن عمر کا قول نقل کیا ہے ک ہمیں بازار میں تھا اتنے میں نماز کی اقامت ہوئی لوگ اٹھ کردکانیں بندکرکے مسجد میں چلے گئے۔ انہی کے متعلق آیت، لاتلھیھم تجارۃ ولابیع، نازل ہوئی ، وایتاء الزکوۃ، اس سے مراد فرض زکوۃ ادا کرنا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہماکاقول ہے جب ادا زکوۃ کا وقت آجاتا ہے تو زکوۃ کو روکتے نہیں۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ زکوۃ سے تمام اچھے اعمال مراد ہیں۔ ” یخافون یوما تتقلب فیہ القلوب والابصار، ، ان کے دل خوف اور مید کی طرف پلٹ جائیں گے ہلاک ہونے سے ڈریں گے اور نجات کی امیدہوگی اور ان کی آنکھیں گردوپیش کی طرف دیکھ کرچکرائیں گی اور ہر طرف پلٹ کر دیکھیں گی کہ کس طرف سے پکڑہوتی ہے دائیں جانب یا بائیں جانب سے اور کس رخ سے اعمال نامہ ملتا ہے۔ سیدھی طرف سے یا الٹی طرف سے یا پیچھے سے اور وہ اس وجہ سے بھی ڈرتے ہیں کہ ان اعمال نامہ سامنے سے ملے گا، یاپیٹھ کے پیچھے سے اور یہ سب کچھ قیامت کے دن ہوگا، بعض حضرات نے ، تتقلب، کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ کافروں کے دل میں اس کفر وشرک سے پلٹ جائیں گے جس پر دنیا میں قائم تھے اور ان کی آنکھوں سے پردے ہٹ جائیں گے اور وہ اشیاء ان کو دکھائی دے گی جس کا انکار کرتے تھے اور بعض حضرات نے کہا ا کی دل ان کے پیٹ میں ہی پلٹ جائے گا، اور وہ گلے کی طرف نکلے گا نہ وہ اپنی جگہ ٹھہر سکے گا اور نہ ہی وہ باہر نکلے گ اور ان کی آنکھیں خوف وشدت کی وجہ سے چندھیا جائیں گی۔
Top