Dure-Mansoor - Al-Baqara : 199
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر اَفِيْضُوْا : تم لوٹو مِنْ حَيْثُ : سے۔ جہاں اَفَاضَ : لوٹیں النَّاسُ : لوگ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت چاہو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پھر تم اسی جگہ سے واپس آؤ جہاں سے دوسرے لوگ واپس آئیں، اور اللہ سے مغفرت طلب کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ غفو رہے، رحیم ہے
(1) امام بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابو نعیم نے دلائل میں اور بیہقی نے سنن میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ قریش اور جو لوگ ان کے دین پر تھے وہ مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے اور ان کو حمس کہا جاتا تھا حالانکہ سارا عرب عرفات میں ٹھہرتے تھے۔ جب اسلام آیا تو اپنے نبی ﷺ کو عرفات میں آنے کا حکم ہوا پھر آپ یہاں ٹھہرتے تھے اور یہاں سے چلتے تھے اس بات کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ثم افیضوا من حیث افاض الناس “۔ (2) بخاری اور مسلم نے ہشام بن عروہ (رح) سے روایت کیا کہ اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عرب کے لوگ سوائے حمس کے بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے اور حمس سے مراد قریش تھے اور جو ان سے پیدا ہونا تھا عرب لوگ ننگے طواف کرتے تھے مگر حمس ان کو کپڑے دیتے تھے اور مرد مردوں کو کپڑے دیتا تھا اور عورت عورتوں کو کپڑے دیتی تھی۔ اور حمس مزدلفہ سے نہیں نکلتے تھے (یعنی حج میں مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے تھے) اور دوسرے سب لوگ عرفات پہنچتے تھے ہشام نے کہا کہ میرے باپ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ حمس وہ لوگ تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ثم افیضوا من حیث افاض الناس “ پھر انہوں نے فرمایا کہ لوگ عرفات سے واپس آئے تھے اور حمس مزدلفہ سے واپس آجاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم حرم سے آگے نہیں چلیں گے جب یہ آیت لفظ آیت ” ثم افیضوا من حیث افاض الناس “ نازل ہوئی تو وہ لوگ بھی عرفات کی طرف لوٹ آئے۔ (3) ابن ماجہ اور بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ قریش نے کہا ہم بیت اللہ کے رہنے والے ہیں ہم حرم سے تجاوز نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ثم افیضوا من حیث افاض الناس “۔ (4) بخاری، مسلم، نسائی، طبرانی نے جبیر بن مطعم ؓ سے روایت کیا کہ میرا اونٹ گم ہوگیا تو میں عرفات کے دن ڈھونڈنے لگا میں نے رسول اللہ ﷺ کو لوگوں کے ساتھ عرفات میں ٹھہرا ہوا دیکھا میں نے کہا اللہ کی قسم یہ حمس والوں میں سے ہیں آپ یہاں کیا کر رہے ہیں اور قریش (اپنے آپ کو) حمس میں سے شمار کرتے تھے۔ اور طبرانی نے یہ زیادہ کیا کہ شیطان نے ان کو راہ راست سے ہٹانے کے لئے یہ کہا تھا اگر تم اپنی حرمت کے علاوہ کسی اور چیز کو عظیم سمجھو گے تو لوگ تمہاری حرمت کو حقیر سمجھیں گے۔ (اس لئے) وہ لوگ حرم سے نہیں نکلتے تھے۔ (5) طبرانی اور حاکم نے جبیر بن مطعم ؓ سے روایت کیا کہ قریش مزدلفہ سے واپس آجاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم حمس ہیں ہم حرم سے نہیں نکلیں گے اور انہوں نے عرفات میں وقوف کرنا چھوڑ دیا تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے ساتھ ایک اونٹ پر عرفات میں ٹھہرا ہوا دیکھا۔ پھر آپ نے اپنی قوم کے ساتھ مزدلفہ میں صبح کی اور آپ ان کے ساتھ (مزدلفہ میں) ٹھہرے رہے جب وہ لوگ وہاں سے چلے گئے تو آپ بھی چل دئیے۔ نبوت ملنے سے پہلے حج میں وقوف عرفہ (6) طبرانی اور حاکم نے جبیر بن مطعم ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو (وحی) نازل ہونے سے پہلے لوگوں کے ساتھ عرفات میں دیکھا کہ آپ اونٹ پر وقوف فرما رہے تھے (پھر) آپ عرفات میں سے ان کے ساتھ روانہ ہوئے اور یہ کام اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ ہی ہوسکتا ہے۔ (7) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عرب لوگ عرفات میں ٹھرتے تھے اور قریش اس سے کم یعنی مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی۔ لفظ آیت ” ثم افیضوا من حیث افاض الناس “۔ (8) ابن المنذر نے اسماء بنت ابوبکر ؓ سے روایت کیا کہ قریش مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے اور دوسرے لوگ عرفات میں ٹھہرتے تھے سوائے شیبہ بن ربیعہ کے تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری۔ لفظ آیت ” ثم افیضوا من حیث افاض الناس “۔ (9) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ قریش اور ان کے رشتہ دار اور دوست لوگوں کے ساتھ عرفات میں نہیں ٹھہرتے تھے اور وہ لوگ مغمس سے نکلتے تھے اور کہتے تھے ہم اہل اللہ ہیں اس لئے اس کے حرم سے باہر نہیں نکلیں گے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا جہاں سے لوگ نکلتے ہیں وہ بھی وہاں سے نکلیں عرفات سے نکلنا سنت ہے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کی۔ (10) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” من حیث افاض الناس “ سے مراد ہے ابراہیم علیہ السلام۔ (11) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ثم افیضوا من حیث افاض الناس “ سے مراد عرفہ ہے قریش کہتے تھے ہم حمس اہل حرم ہیں اور مزدلفہ حرم سے خارج نہیں ہے پھر انہیں عرفات میں پہنچنے کا حکم دیا گیا۔ (12) عبد بن حمید اور عبد الرزاق نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ لوگ عرفات میں ٹھہرتے تھے مگر قریش اور ان کے حلیف مزدلفہ میں رہتے تھے (وہ عرفات نہیں جاتے تھے) اور یہ لوگ حمس کہلاتے تھے۔ ان کے بعض لوگوں نے کہا تم لوگ نہ تعظیم کرو مگر حرم کی اگر تم غیر حرم کی تعظیم کرو گے تو قریب ہے لوگ تمہاری عزت کو نظر انداز کردیں گے پس وہ حق کی جگہوں میں نہ ٹھہرے اور وہ مزدلفہ میں ٹھہرنے لگے (پھر) اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا کہ تم پہنچو اس جگہ کو جہاں لوگ پہنچتے ہیں یعنی عرفات میں۔ وأما قولہ تعالیٰ : واستغفروا اللہ، ان اللہ غفور رحیم : (13) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب عرفہ کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے آسمان دنیا میں فرماتے ہیں میرے بندے ! میرے وعدہ پر ایمان لائے، میری رسولوں کی تصدیق کی۔ اب ان کی کیا جزا ہونی چاہئے ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں ان کی مغفرت کر دیجئے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ثم افیضوا من حیث افاض الناس واستغفروا اللہ، ان اللہ غفور رحیم “ (اس آیت میں اسی بخشش کا ذکر ہے) ۔ (14) امام مسلم، نسائی، ابن ماجہ، ابن ابی الدنیا نے کتاب الاضاحی میں اور حاکم نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے قریب ہوجاتے ہیں پھر فرشتوں پر فخر فرماتے تھے اور فرماتے ہیں۔ انہوں نے کیا ارادہ کیا (ان کے لئے وہی ہے جو وہ چاہتے ہیں) ۔ وقوف عرفہ والوں کی تعریف (15) امام احمد، ابن حبان، حاکم، انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ عرفات والوں کے بارے میں آسمان والوں سے فخر فرماتے ہیں اور ان سے فرماتے ہیں دیکھو ! میرے بندوں کی طرف جو میرے پاس پراگندہ بال اور غبار آلود حالت میں آئے ہیں۔ (16) البزار، ابو یعلی، ابن خریمہ، ابن حبان اور بیہقی نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دنیا کے دنوں میں سے افضل دن وہ دس دن ہیں یعنی ذی الحجہ کے پہلے دس دن پوچھا گیا اللہ کے راستہ میں ان کو کوئی مثال ہے ؟ فرمایا نہیں ان کی کوئی مثل نہیں مگر ان کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جس کا چہرہ اللہ کی راہ میں خاک آلود ہو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک عرفہ کے دن سے کوئی افضل دن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر تشریف لاتے ہیں اور زمین کے رہنے والوں کی وجہ سے آسمان والوں پر فخر فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں میرے بندوں کی طرف دیکھو میرے پاس پراگندہ بال اور غبار آلود ہو کر قربانی کرتے ہوئے آئے ہیں اور دور دراز راستوں سے آئے ہیں میری رحمت کی امید رکھتے ہیں اور میرے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں حالانکہ انہوں نے اس کو نہیں دیکھا اور آگ سے آزاد ہوتے مرد اور عورتیں اس دن سے زیادہ کبھی نہیں ہوتیں۔ (17) امام احمد اور طبرانی نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ عرفہ کی رات کو اہل عرفہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دیکھو میرے بندوں کی طرف میرے پاس پراگندہ ہال غبار آلود حالت میں قربانی کرتے ہوئے دور دراز راستوں سے آئے ہیں میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت دی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عرفات کے دن سے زیادہ کسی دن میں لوگ آگ سے آزاد نہیں کئے جاتے۔ (18) امام احمد اور بیہقی اور اصبہانی نے ترغیب میں طلحہ بن عبید اللہ بن کریز ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عرفہ کے دن سے بڑھ کر اور کسی دن میں شیطان ذلیل اور حقیر اور رسوا اور غیط و غضب میں نہیں جلتا اور یہ اس وجہ سے کہ عرفہ کے دن اللہ کی رحمت کا نازل ہونا اور بڑے بڑے گناہوں سے اللہ تعالیٰ کا درگزر فرمانا ہے اور جو اس نے بدر کے دن بھی دیکھا تھا صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! بدر کے دن اس نے کیا دیکھا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا اس نے جبرئیل (علیہ السلام) کو فرشتوں کی صفوں کو ترتیب دیتے ہوئے دیکھا تھا۔ (19) بیہقی نے فضل بن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ عرفات میں رسول اللہ ﷺ کی سواریوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے یہ نوجوان عورتوں کو دیکھ رہا تھا نبی اکرم ﷺ نے آنکھوں کی حفاظت کے متعلق فرمایا اور اس کا چہرہ دوسری طرف پھیر دیا اور فرمایا اے میرے بھتیجے ! آج کے دن جس نے قابو میں رکھا اپنی نگاہ کو مگر ان سے صرف حق دیکھا اور اپنے کانوں کو قابو میں رکھا مگر حق کی آواز سنی اور اپنی زبان کو قابو میں رکھا مگر اس سے حق بات کی تو اس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ (20) بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا افضل دعا عرفات کے دن کی دعا ہے اور افضل قول میرا اور انبیاء کا قول ہے جو مجھ سے پہلے تھے اور وہ یہ ہے : لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحییٰ ویمیت وھو علی کل شیء قدیر (21) بیہقی نے عمرو بن شعیب سے روایت کیا کہ اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ عرفات کے دن رسول اللہ ﷺ کی اکثر دعا (یہ تھی) ۔ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحییٰ ویمیت وھو علی کل شیء قدیر (22) امام ترمذی، ابن خزیمہ اور بیہقی نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ عرفہ کی رات رسول اللہ ﷺ کی اکثر دعا یہ تھی۔ اللہم لک الحمد کالذی تقول وخیرا مما نقول ترجمہ : اے اللہ ! تیری تعریف ایسی جیسء تو نے خود فرمائی اور اس سے بہتر جو ہم تیری تعریف کریں۔ اللہم ان لک صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی والیک مالی ولک رب ترابی ترجمہ : اے اللہ ! میری نماز اور میری قربانی، میری زندگی اور میری موت تیرے لئے ہے اور تیری طرف میرا ٹھکانہ ہے اور اے میرے رب تیرے لئے میری محنت اور کوشش۔ اللہم انی اعوذبک من عذاب القبر ووسوسۃ الصدر وشتات الامر ترجمہ : اے اللہ ! میں آپ سے قبر کے عذاب سے پناہ مانگتا ہے اور سینہ کے وسوسہ سے اور کام کے پراگندہ ہونے سے۔ اللہم انی اسئلک من خیر ما تجیء بہ الریح واعوذبک من شرما تجیء بہ الریح ترجمہ : اے اللہ ! میں آپ سے اس خیر کا سوال کرتا ہوں جس کو یہ ہوا لے کر آئی اور میں آپ سے اس شر سے پناہ مانگتا ہوں جس کو یہ ہوا لے کر آئی۔ (23) بیہقی نے الشعب میں جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مسلمان عرفات میں شام کے وقت ٹھہرتا ہے اور قبلہ کی طرف رخ کرکے کہتا ہے : لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر “ سو مرتبہ پھر سورة ” قل ھو اللہ احد “ سو مرتبہ پڑھتا ہے۔ پھر سو مرتبہ پڑھتا ہے۔ اللہم صلی علی محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید وعلینا معھم سو مرتبہ پڑھتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے میرے فرشتو ! اس میرے بندے کی کیا جزاء ہے اس نے میری تسبیح تہلیل میری کبریائی اور میری عظمت بیان کی اور مجھ کو پہچانا اور میری تعریف بیان کی اور میرے نبی پر درود پڑھا اے میرے فرشتوں گواہ ہوجاؤ میں نے اس کی مغفرت فرما دی۔ اور میں نے اس کی ذات کے بارے میں اس کی شفارش قبول کی ہے اگر میرے بندے نے مجھ سے سوال کیا تو میں سارے اہل موقف کے بارے میں اس کی سفارش قبول کروں گا۔ امام بیہقی (رح) فرماتے ہیں یہ متن غریب ہے اس کی سند میں ایسا راوی ہے جو وضع (یعنی حدیث کھڑے) کی طرف منسوب ہے۔ (24) بیہقی نے الشعب میں بکیر بن عتیق (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حج کیا تو میں نے ایک آدمی کو فراست سے پہچانا کہ میں اس کی اقتدار کروں گا جبکہ وہ سالم بن عبد اللہ ؓ موقف (یعنی عرفات) میں تھے اور (یہ کلمات) کہہ ہے تھے : لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یبدہ الخیر وھو علی کل شیء قدیر لا الہ الا اللہ الھا واحد او نحن لہ مسلمون لا الہ الا اللہ ولوکرہ المشرکون لا الہ الا اللہ ربنا ورب ابائنا الاولین : وہ یہ کلمات برابر کہتے رہے یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا پھر میری طرف دیکھا اور کہا مجھے میرے والد نے بیان کیا اپنے دادا عمر بن خطاب ؓ سے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس شخص کو میرے ذکر نے مجھ سے مانگنے سے مشغول کردیا میں اس کو مانگنے والوں سے زیادہ کروں گا۔ (25) ابن ابی شیبہ، الجندی نے فضائل مکہ میں علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اکثر میری دعا اور مجھ سے پہلے (دوسرے) انبیاء کی دعا عرفات میں (یہ تھی) ۔ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحییٰ ویمیت وھو علی کل شیء قدیر ترجمہ : اے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کی تعریف ہے وہ زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہم اجعل فی سمعی نورا وفی بصری نور اللہم اشرح لی صدری ویسرلی امری ترجمہ : اے اللہ میرے کانوں میں اور میری آنکھوں میں نور کر دے اے اللہ میرے لئے میرے سینے کو کھول دے اور میرے لئے میرے کام کو آسان فرما دے۔ ” واعوذبک من وسواس الصدر وتشیت الامور و عذاب القبر اللہم انی اعوذبک من شرما یلج فی الیل وشرما یلج فی النھار وشر ما تھب بہ الریاح وشربوائق الدھر “ آپ سے سینے کے وسوسوں سے پناہ مانگتا ہوں اور کاموں کے منتشر ہونے سے اور قبر کے عذاب سے اے اللہ میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں اس شر سے جو رات میں داخل ہوتا ہے اور اس شر سے جو دن میں داخل ہوتا ہے اور اس شر سے جو ہوائیں لے کر آئیں اور زمانے کی ہلاکتوں کے شر سے۔ (26) جندی ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ موقف (یعنی عرفات) میں اس دعا کو اکثر (پڑھنے) کا حکم دیا گیا۔ لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار “ (27) ابن ابی الدنیا نے کتاب الاضاحی میں اور ابن ابی عاصم اور طبرانی دونوں نے الدعاء میں اور بیہقی نے الدعوات میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جو کوئی بندہ یا بندی عرفہ کی رات میں اللہ تعالیٰ سے ان کلمات سے دعا کرے گا۔ ایک ہزار مرتبہ اور وہ دس کلمات ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا سوال نہیں کرے گا مگر اللہ تعالیٰ اس کو عطا فرمائیں گے لیکن قطع رحمی اور گناہ کی دعا نہ ہو (وہ دعا یہ ہے) سبحان الذی فی السماء عرشہ پاک ہے وہ ذات جس کا عرش آسمان ہے۔ سبحان الذی فی الارض موطنہ پاک ہے وہ ذات جس کا زمین میں ہے۔ سبحان الذی فی البحر سبیلہ پاک ہے وہ ذات جس کا راستہ سمندر میں ہے۔ سبحان الذی فی النار سلطانہ پاک ہے وہ ذات کہ آگ میں اس کی بادشاہی ہے۔ سبحان الذی فی الجنۃ رحمتہ پاک ہے وہ ذات کہ جنت اس کی رحمت ہے۔ سبحان الذی فی القبور قضاء ہ پاک ہے وہ ذات کہ قبروں میں اس کا فیصلہ ہے۔ سبحان الذی فی الھواء روحہ پاک ہے وہ ذات کہ ہوا میں اس کی روح ہے۔ سبحان الذی رفع السماء پاک ہے وہ ذات جس نے آسمان کو بلند کیا۔ سبحان الذی وضع الارض پاک ہے وہ ذات جس نے زمین کو نیچے رکھا۔ سبحان الذی لا ملجا ولا منجی منہ الا الیہ پاک ہے وہ ذات کہ نہیں ہے ٹھکانہ اور نہیں ہے بجات کی جگہ مگر اس کی طرف ان سے کہا گیا آپ نے یہ دعا رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے تو انہوں نے فرمایا ہاں ! (28) ابن ابی شیبہ نے صدقہ بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ میں مجاہد (رح) سے پوچھا کہ عرفہ کے دن قرآن کی تلاوت افضل ہے یا ذکر ؟ انہوں نے فرمایا قرآن کی قرأت افضل ہے۔ (29) ابن ابی الدنیا نے کتاب الاضاحی میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے عرفات میں فرمایا میں اس موقف کو نہیں چھوڑوں گا جب تک مجھ میں یہاں ٹھہرنے کی طاقت ہے اس لئے کہ زمین میں ایسا کوئی دن نہیں ہے جس میں عرفہ سے زیادہ لوگوں کو (آگ سے) آزاد کیا جاتا ہو (اس لئے) اس دن میں یہ دعا کثرت سے پڑھو۔ اللہم اعتق رقبتی من النار واوسع لی فی الرزق واصرف عنی فسقۃ الجن والانس ترجمہ : اے اللہ ! میری گردن کو آگ سے آزاد کر دے اور میرے لئے رزق میں وسعت کر دے اور مجھ سے بدکار اور نافرمان جنوں اور انسانوں کو پھیر دے۔ آپ اکثر یہ دعا مانگتے تھے۔ (30) طبرانی نے الدعاء میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عرفہ کی رات کو رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا ہوتی تھی : اللہم تری مکانی وتسمع کلامی و تعلم سری وعلانتی ولا یخفی علیک شیء من امری انا البائس الفقیر المستعیث المستجیر الوجل المشفق المقر المعترف بذنبہ اسألک مسألہ المساکین وانتھل الیک انتھال المذنب الذلیل وادعوک دعاء الخائف المضرور من حضعث لک رقبۃ وقاصت لک عیناہ ونحل لک جسدہ ورغم أنفہ اللہم لا یجعلنی بدعائک متقیا ولکن بنی رؤوفا وحیما یا خیر المؤولین وخیر المعطین۔ ترجمہ : اے اللہ تو میری جگہ کو دیکھتا ہے اور میرے کلام کو سنتا ہے اور تو میرے چھپے ہوئے اور ظاہر حالات کو جانتا ہے اور میرے کام میں سے کوئی چیز آپ پر چھپی ہوئی نہیں ہے، میں مصیبت زدہ، فقیر، مدد طلب کرنے والا، اجرت طلب کرنے والا، خوف زدہ ہونے ولا، ڈرنے والا، اقرار کرنے والا، اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے والا، میں آپ سے مساکین کے معاملہ کا سوال کرتا ہوں اور میں آپ سے گڑ گڑا کر دعا کرتا ہوں گناہگار اور ذلیل کی طرح اور میں آپ سے ڈرنے والے اور تکلیف زدہ آدمی کی طرح دعا کرتا ہوں جس نے آپ کے لئے اپنی گردن کو جھکا دیا ہے اور اس کی آنکھیں آپ کے لئے بہہ پڑیں اور تیرے لئے اس کا جسم دبلا ہوگیا اور اس کی ناک مٹی میں مل گئی اے اللہ ! مجھے اپنی دعا کے ساتھ بدبخت نہ بنا اور میرے لئے مہربان اور رحم کرنے والا بن جا اے بہترین ذمہ داری دینے والے اور بہترین عطا کرنے والے۔ (31) طبرانی نے الدعا میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ عرفہ کی شام بلند آواز سے یہ دعا مانگتے تھے اللہم اھدنا بالھدی وربنا بالتقوی واغفرلنا فی الاخرۃ والاولی ترجمہ : اے اللہ ! ہم کو ہدایت عطا فرما اور ہم کو تقوی کے ساتھ مزین فرما اور ہم کو آخرت اور دنیا میں بخش دے۔ پھر آہستہ آواز میں یہ دعا کرتے فرمایا : اللہم انی امرت بالدعا وقضیت علی نفسک بالاجابۃ وانک لا تخلف وعدک ولا تنکث عھدک ترجمہ : اے اللہ میں حکم دیا گیا ہوں دعا کا اور آپ نے اپنی ذات پر اس کو قبول کرنے کا فیصلہ فرما لیا ہے اور آپ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں فرماتے اور اپنے وعدہ کو آپ نہیں توڑتے۔ اللہم ما احببت من خیر فحببہ الینا ویسرہ لنا وما کرھت من شر فکرہہ الینا وجنبناہ ترجمہ : اے اللہ جس چیز کو آپ خیر میں سے محبوب فرماتے ہیں وہ ہم کو محبوب بنا دیجئے اور ہمارے لئے آسان بنا دیجئے اور جس چیز کو شر میں سے آپ ناپسند فرماتے ہیں اس چیز کو ہمارے لئے بھی ناپسند بنا دیجئے اور اس سے ہم کو بچا دیجئے۔ ولا تنزع منا الاسلام بعد ما اعطیتناہ ترجمہ : اور ہم سے اسلام کو نہ کھینچ لیجئے بعد اس کے کہ آپ نے ہم کو عطا فرمایا ہے۔ (32) عبد الرزاق نے المصنف میں، سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، ابوذر نے المناسک میں ابو مجلز (رح) سے روایت کیا کہ میں حضرت ابن عمر ؓ کے ساتھ عرفات کے موقف میں حاضر تھا۔ میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ اکبر وللہ الحمد تین مرتبہ۔ پھر آپ نے فرمایا : لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر ایک مرتبہ پھر آپ نے فرمایا : اللہم اجعلہ حجا مبرورا وذنبا مغفورا اس کے بعد آپ فاتحہ الکتاب کے پڑھنے کے بقدر خاموش رہے پھر آپ نے اسی طرح دعائیں مانگیں جیسے پہلے مانگی تھیں۔ اس کے بعد وہاں سے روانہ ہوگئے۔ وقوف عرفہ کی وجہ کیا ہے ؟ (33) امام بیہقی نے الشعب میں ابو سلیمان الدارمی سے انہوں نے عبد اللہ بن احمد بن عطیہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے علی بن ابی طالب ؓ سے پہاڑ پر وقوف کرنے کے بارے میں پوچھا اور یہ پوچھا کہ یہ حرم میں کیوں داخل نہیں ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کعبہ اللہ کا گھر ہے اور حرم شریف اللہ کا دروازہ ہے۔ جب وفد آتے تھے تو دروازہ پر کھڑے ہوجاتے تھے اور آہ وزاری کرتے تھے پھر پوچھا اے امیر المؤمنین ! مشعر (یعنی مزدلفہ) میں وقوف کیوں ہے ؟ تو فرمایا اس لئے کہ جب ان کو داخل ہونے کی اجازت ہوئی تو پھر انہیں دوسرے پردے کے پاس ٹھہرایا اور وہ مزدلفہ ہے جب ان کی آوہ وزاری لمبی ہوگئی تو ان کو منی میں قربانیاں دے کر قرب حاصل کرنے کی اجازت دی گئی پھر جب وہ اپنی میل کچیل کو دور کرچکے اور اپنی قربانیاں بھی کرچکے تو وہ پہلے گناہوں سے پاک ہوگئے پھر انہوں پاکیزگی کی حالت میں احد بن کر اپنی بارگاہ میں حاضری کی اجازت عطا فرمائی۔ پھر پوچھا گیا اے امیر المؤمنین ایام تشریق میں روزہ رکھنا کیوں حرام ہوا ؟ آپ نے فرمایا کہ لوگ اللہ کی زیارت کرنے والے ہیں اور وہ اس کی مہمانی میں ہوتے ہیں (اس لئے) مہمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ میزبان کی اجازت کے بغیر روزہ رکھے پھر پوچھا گیا اے امیر المؤمنین ایک آدمی کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹ جاتا ہے یہ کیا مطلب ہے ؟ فرمایا اس کی مثال اس طرح ہے کہ غلام اپنے آقا کا کوئی جرم کرتا ہے تو وہ اس کے کپڑوں سے لپٹ جاتا ہے اس کی طرف جاتا ہے اس کا ارادہ کرتا ہے تاکہ اس کے جرم کو معاف کر دے۔ (34) امام ابن زنجویہ، الازرقی، الجندی، مسدد، البزار، ابن مردویہ اور الاصبہانی نے الترغیب میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مسجد خیف میں بیٹھا ہوا تھا ایک آدمی انصار میں سے اور ایک آدمی تقیف میں سے آئے۔ انہوں نے سلام کیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم آپ سے پوچھنے کے لئے آئے ہیں آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں بتادوں کہ تم مجھ سے کیا پوچھنے آئے ہو۔ اور اگر چاہو تو خود پوچھ لو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ خود بتادیں تو ہمارے ایمان اور یقین میں قوت آئے گی آپ نے انصاری سے فرمایا تو اس لئے آیا ہے کہ تو اپنے گھر سے نکلنے اور بیت الحرام کے ارادہ کرنے کے بارے میں پوچھے اور یہ سوال کرے کہ اس میں تیرے لئے کیا اجر وثواب ہے۔ اور تیرا طواف کرنا اور اس کا اجر کیا ہے اور طواف کے بعد تیرا دو رکعتیں پڑھنا اس کا کیا اجر ہے ؟ اور صفا مروہ کے درمیان تیرا سعی کرنے کا اس کا کیا اجر ہے۔ اور عرفات میں تیرا وقوف کرنا اس کا اجر کا ہے۔ اور جمرات کو تیرا کنکری مارنا اس کا اجر کیا ہے۔ اور تیرا بیت اللہ کے احاطہ کا طواف کرنا اس کا اجر کیا ہے اس نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ میں آپ کے پاس ان کے بارے میں سوال کرنے کے لئے آیا ہوں۔ (پھر) آپ نے فرمایا لیکن تو جو اپنے گھر سے بیت حرام کا ارادہ کرتے ہوئے نکلتا ہے بلاشبہ تیرا اونٹ جو قدم اٹھاتا ہے اور رکھتا ہے اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تیرے لئے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں اور تجھ سے ایک گناہ مٹا دیتے ہیں لیکن بیت اللہ کا طواف کرنا بلاشبہ تو نہیں اٹھاتا (اپنے قدم اور نہ ان کو رکھتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے تیرے لئے ایک نیکی لکھ دیتے ہیں اور ایک گناہ تجھ سے معاف کردیتے ہیں اور اس کی وجہ سے تیرے لئے ایک درجہ بلند کردیتے ہیں لیکن طواف کے بعد تیرا دو رکعت پڑھنا (اس کا اتنا ثواب ہے) جیسے تو نے ستر غلاموں کو آزاد کیا لیکن تیرا وقوف کرنا عرفات کی رات میں بلاشبہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں دیکھو میرے بندوں کی طرف میرے پاس آئے ہیں دور دراز راستوں سے بکھرے ہوئے بالوں اور غبار آلود چہروں کے ساتھ میری رحمت اور میری مغفرت کی اماید رکھتے ہیں اگر ان کے گناہ ریت کے ذروں یا بارش کے قطروں یا سمندر کی جھاگ یا آسمان کے ستاروں کے برابر ہوں تو ان کو بخش دوں۔ اور فرماتے ہیں میرے بندو بخشے بخشائے روانہ ہوجاؤ اور ان کی بھی مغفرت کردی گئی جن کے بارے میں تم نے سفارش کی۔ لیکن تیرا شیطانوں کو کنکری مارنا بلاشبہ اللہ تعالیٰ پر کنکری کے بدلے تیرے ایسے گناہوں کو معاف فرماتا ہے جو ہلاک کرنے والے اور جہنم کو واجب کرنے والے تھے لیکن تیری قربانی کرنا وہ تیرے رب ! تیرے لئے ذخیرہ ہے اور تیرا بیت اللہ کا طواف کرنا (یعنی طواف افاضہ) بلاشبہ تو طواف کرتا ہے تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ اور تیرے پاس فرشتہ آتا ہے جو اپنے ہاتھوں کو تیرے کنوھوں کے درمیان رکھتا ہے کہ باقی زندگی کے لئے (نئے سرے سے) عمل کر۔ تیرے پچھلے گناہ معاف کردیتے ہیں۔ (35) البزار، طبرانی، ابن حبان نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ منی کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی انصار میں سے اور ایک آدمی ثقیف میں سے آیا دونوں نے سلام کیا اور پھر عرض کیا یا رسول اللہ ! پم آپ کے پاس سوال کرنے کے لئے آئے ہیں آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں تم کو بتاؤں جس مقصد کے لئے تم آئے ہو اگر چاہوں تو میں نہ بتاؤں خود پوچھو ان دونوں نے کہا رسول اللہ ہم کو بتائیے ثقفی نے انصاری سے کہا تم پوچھو (پھر) اس نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے بتائیے آپ ﷺ نے فرمایا تو اس لئے میرے پاس آیا ہے تاکہ تو اپنے گھر سے نکلے اور بیت حرام کے ارادہ کرنے کے بارے میں اور اس میں جو ثواب ہے اس کے متعلق پوچھنے آیا ہے اور رات دو رکعتوں کے بارے میں پوچھنے آیا ہے جو طواف کے بعد ہوتی ہیں اور ان میں کتنا ثواب ہے اور صفا مروہ کے درمیان سعی اور ان میں جو ثواب ہے وہ پوچھنے کے لئے آیا ہے اور عرفہ میں ٹھہرنے اور اس کا ثواب پوچھنے کے لئے آیا ہے، رمی جمار اور اس کا ثواب پوچھنے کے لئے آیا ہے اپنی قربانی اور اس کا ثواب پوچھنے کے لئے آیا ہے انصاری نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے واقعی میں یہی پوچھنے کے لئے آیا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا بلاشبہ جب تو آنے گھر سے نکل کر بیت اللہ کا ارادہ کرتا ہے تیری اونٹنی جو قدم رکھتی ہے اور اٹھاتی ہے اس کے بدلے تیرے لئے ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔ اور طواف کے بعد تیرا دو رکعت پڑھنا مشکل ایک غلام آزاد کرنے کے ہے بنو اسماعیل میں سے اور صفا مروہ کے درمیان تیرا سعی کرنا ستر غلاموں کے آزاد کرنے کی مانند ہے اور عرفہ کی رات کو تیرا وقوف کرنا بالشبہ اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں اور تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں میرے بندے میرے پاس آئے ہیں بال بکھرے ہوئے غبار آلور چہروں کے ساتھ ہر کشادہ اور دو رستوں سے میری جنت کی امید رکھے ہوئے اگر ان کے گناہ ریت کے ذرات یا بارش کے قطروں یا سمندر کے جھاگ کے برابر ہوتے ہیں تو میں نے سفارش کی لیکن تمہارا شیطانوں کو کنکریاں مارنا تو تیرے لئے ہر کنکری کے بدلہ میں جو تو نے ماریں تمہارے ہلاک کرنے والے بڑے گناہوں کا یہ کفارہ ہیں اور تیرا قربانی کرنا تو وہ ذخیرہ ہے تیرے لئے تیرے رب کے پاس اور تیرا اپنے سر کا حلق کرانا تو ہر بال کے بدلہ میں جس کو تو نے حلق کرایا ایک نیکی ہے اور اس کے بدلہ ایک برائی تجھ سے مٹا دی گی اور اس کے بعد تیرا بیت اللہ کا طواف کرنا بلاشبہ تو طواف کرتا ہے اور تجھ پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (یعنی سب گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں) ایک فرشتہ آتا ہے اور وہ اپنے ہاتھوں کو تیرے کندھوں کے درمیان رکھتا ہے اور کہتا ہے آئندہ نئے سرے سے عمل کر۔ تیرے لئے گزشتہ سب گناہ معاف کر دئیے گئے۔ عرفہ کی رات خطبہ ارشاد فرمایا (36) ابن جریر اور ابو نعیم نے الحلیہ میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو عرفہ کی رات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے اس مقام میں تم پر احسان فرمایا اور اس نے تمہارے نیک لوگوں کو قبول فرما لیا۔ اور تمہارے نیک لوگوں کو وہ عطا فرما دیا جو انہوں نے سوال کیا تھا اور تمہارے برے لوگوں کو تمہارے نیک لوگوں کے طفیل بخش دیا سوائے ان فرضوں کے جو تمہارے ایک دوسرے کے اوپر ہیں سو تم اللہ کے نام لے کر روانہ ہوجاؤ۔ جب مزدلفہ میں صبح ہوتری تو آپ نے فرمایا اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے اس مقام میں تم پر احسان فرمایا اور تمہارے نیک لوگوں کی نیکیاں قبول فرمائیں اور تمہارے برے لوگوں کو تمہارے نیک لوگوں کے طفیل بخش دیا اور جو تمہارے آپس میں ایک دوسرے پر حقوق تھے وہ بھی اس نے اپنی طرف سے دے دئیے ہیں اللہ کا نام لے کر روانہ ہوجاؤ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کل آپ ہمارے ساتھ غمگین اور رنجیدہ حالت میں چلے تھے اور آج آپ ہمارے ساتھ خوب خوش ہو کر چل رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا میں نے گزشترہ اور اپنے رب سے ایک سوال کیا تھا تو مجھے عطا نہ ہوا میں نے تمہارے حقوق العباد کی معافی کے متعلق سوال کیا تھا۔ جب دوسرا دن آیا جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا تمہارا رب آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ آج میں نے آپ کے غلاموں کی ضمانت دی ہے۔ میں نے ان کا عوض اپنے پاس سے دے دیا ہے۔ (37) طبرانی نے عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفات کے دن فرمایا اے لوگو ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آج کے دن تم پر احسان فرمایا ہے (اور) تمہارے سب گناہ معاف کر دئیے ہیں سوائے حقوق العباد کے اور تمہارے گناہ گاروں کو تمہارے نیک لوگوں کے طفیل بخشش فرما دیا اور تمہارے نیک لوگوں کو ہر وو چیز دے دی جو انہوں نے سوال کیا (اب یہاں سے) اللہ کا نام لے کر چلو آپ ﷺ جب مزدلفہ میں تھے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہارے نیک لوگوں کی مغفرت فرما دی ہے اور تمہارے نیک لوگوں کی سفارش تمہارے برے لوگوں کے بارے میں قبول فرمائی ہے۔ رحمت کو نازل ہونا ہے تو سب پر نازل ہوتی ہے عام فرما دیا پھر مغفرت کو زمین میں پھیلا دیا جو توبہ کرنے والے پر واقع ہوئی جو بھی اپنی زبان اور ہاتھوں کی حفاظت کرتا ہے ابلیس اور اس کے لشکر واویلا کر رہے ہیں اور ہلاکت کو پکار رہے ہیں۔ (38) ابن ماجہ، ترمذی نے نوادر الاصول میں، عبد اللہ بن احمد نے زوائد المسند میں، ابن جریر، طبرانی اور بیہقی نے سنن میں الفیاء المقدس نے المختارہ میں عباس بن مرداس اسلمی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ کی شام اپنی امت کی مغفرت اور رحمت کے لئے بہت دعا مانگی اور بہت عاجزی کرنے سے دعا مانگی اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی بھیجی میں نے سب کی مغفرت اور رحمت کردی مگر بعض کا بعض پر جو ظلم ہے (وہ معاف نہیں کرے گا) لیکن وہ گناہ جو میرے اور ان کے درمیان ہیں میں نے ان سب کو معاف کردیا پھر آپ نے فرمایا اے میرے رب تو اس پر قادر ہے کہ اس مظلوم کو اس ظلم کے بدلہ میں بہتر ثواب عطا فرما دے اور اس ظالم کو مغفرت فرما دے۔ اس رات کوئی جواب نہ ملا پھر اگلی صبح کو مزدلفہ میں آپ نے اس دعا کا اعادہ فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور ان کی مغفرت فرما دی۔ رسول اللہ ﷺ نے تبسم فرمایا تو صحابہ کرام ؓ نے پوچھا (آپ نے کیوں تبسم فرمایا ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا میں اللہ کے دشمن ابلیس کی وجہ سے مسکرایا ہوں جب اسے علم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے بارے میں دعا قبول کرلی ہے تو ہلاکت کو پکارنے لگا اور اپنے سر میں مٹی ڈالنے لگا۔ (39) ابن ابی الدنیا نے الاضاحی میں اور ابو یعلی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ نے عرفات والوں پر احسان فرمایا اور ان کی وجہ سے فرشتوں پر فخر فرماتے ہیں۔ اور فرماتے ہیں اے میرے فرشتو ! دیکھو میرے بندوں کی طرف دیکھو بکھرے ہوئے بالوں والے غبار آلود چہروں والے جو ہر دور دراز راستوں سے آرہے ہیں تم گواہ ہوجاؤ میں نے ان کی دعاؤں کو قبول کرلیا اور ان کے گناہگاروں کو ان کے نیک لوگوں کے طفیل بخش دیا گیا اور ان کے نیک لوگوں کو ہر وہ چیز دے دی گئی جس کا انہوں نے مجھ سے سوال کیا سوائے حقوق العباد کے۔ جب لوگ مزدلفہ کی طرف جاتے ہیں وہاں ٹھہرتے ہیں اور اللہ کی طرف رغبت اور طلب دوبارہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے میرے فرشتو ! میرے بندے ٹھہرے ہوئے ہیں اور رغبت دوبارہ (میری طرف) کرنے لگے ہیں۔ تم گواہ ہوجاؤ میں نے ان کی دعاؤں کو قبول کرلیا اور ان کی سفارش کو قبول کرلیا اور ان کے گناہگاروں کو ان کے نیک لوگوں کے طفیل بخش دیا اور ان کے نیک لوگوں کو وہ سب چیزیں دے دی گئیں جس کا انہوں نے مجھ سے سوال کیا اور میں نے ذمہ داری لے لی جو ان پر ایک دوسرے کے حقوق تھے۔ (40) ابن المبارک نے حضرت انس بن مالک ؓ سے بیان فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے عرفات میں وقوف فرمایا اور قریب تھا کہ سورج ذوب جائے آپ نے فرمایا اے بلال ! لوگوں کو چپ کراؤ بلال کھڑے ہوئے اور کہا رسول اللہ ﷺ کی بات سنو۔ لوگ چپ ہوگئے اور فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے عرفات والوں کو بخش دیا اور مزدلفہ والوں کو اور ان کی طرف سے حقوق العباد کا ضامن بن گیا ہے۔ عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا یا رسول اللہ ! کیا یہ ہمارے لئے خاص ہے۔ آپ نے فرمایا یہ تمہارے لئے ہیں اور اس شخص کے لئے جو تمہارے بعد آئے گا قیامت کے دن تک حضرت عمر ؓ نے فرمایا اللہ کی خیر زیادہ اور پاکیزہ ہے۔ (41) ابن ماجہ نے بلال بن رباح ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کو مزدلفہ کی صبح میں فرمایا لوگوں کو چپ کراؤ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ اس تمہارے جمع ہونے میں تم پر فخر فرما رہے ہیں (اور) تمہارے گناہ گار لوگوں کو تمہارے نیک لوگوں کے طفیل بخش دیا اور تمہارے نیک لوگوں کو وہ سب کچھ دے دیا جو انہوں نے سوال کیا۔ اللہ کا نام لے کر روانہ ہوجاؤ۔ (42) امام الک، ابن ابی شیبہ، بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ نے محمد بن ابوبکر ثقفی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے انس بن مالک ؓ سے پوچھا اور وہ دونوں منی سے عرفات کی طرف لوٹ رہے تھے کہ اس دن میں تم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ انہوں نے فرمایا ہم میں سے جو تلبیہ پڑھنے والا تلبیہ پڑھتا تھا کوئی اس پر اعتراض کرتا تھا۔ (43) بخاری، مسلم اور ابو داؤد نے ام الفضل بنت حرث ؓ سے روایت کیا کہ لوگ ان کے پاس عرفہ کے دن نبی اکرم ﷺ کے روزہ کے بارے میں اختلاف کرنے لگے۔ بعض نے کہا کہ آپ ﷺ روزہ سے تھے اور بعض نے کہا وہ روزہ سے نہیں تھے۔ میں نے آپ ﷺ کے پاس ایک پیالہ دودھ کا بھیجا۔ آپ نے اس کو پی لیا اس حال میں کہ آپ نے اپنے اونٹ پر وقوف کیا ہوا تھا۔ (44) ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن ابی الدنیا نے الاضاحی میں اور حاکم نے (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے عرفات کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ (45) ترمذی نے ابو نجیح (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عمر ؓ سے عرفہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا۔ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حج کیا۔ آپ نے روزہ نہیں رکھا۔ حضرت عمر ؓ کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے روزہ نہیں رکھا۔ حضرت عثمان کے ساتھ حج کیا تو انہوں نے بھی روزہ نہیں رکھا۔ اور میں نے بھی روزہ نہیں رکھا۔ اور نہ اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ میں اس سے منع کرتا ہوں۔ (46) ابن ابی شیبہ، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور بیہقی نے أبو قتادہ رضی الہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا عرفہ کے دن کا روزہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس سے پہلے ایک سال اور اس کے بعد ایک سال کے گناہ مٹا دے گا۔ (47) امام مالک نے موطاء میں قاسم بن محمد کے طریق سے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ عرفہ کے دن کا روزہ رکھتی تھیں قام (رح) نے کہا عرفہ کی رات کو میں نے ان کو دیکھا۔ امام چل پڑے اور وہ کھڑی رہیں یہاں تک کہ آپ کے سامنے جگہ خالی ہوگئی۔ پھر آپ نے بیٹے کی چیز منگوائی اور افطار فرمایا۔ (48) ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ عرفہ کے دن سے بڑھ کر سال میں کوئی دن مجھے اتنا محبوب نہیں کہ جس میں روزہ رکھوں۔ حج نہ کرنے والوں کے لئے عرفہ کے روزہ کی فضیلت (49) بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے عرفہ کے دن کا روزہ (ثواب میں) ہزار دنوں کے روزوہ کے برابر ہے۔ (50) امام بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے۔ عرفہ کے دن کا روزہ (ثواب ہے) ہزار سال کے روزوں کی طرح ہے۔ (51) بیہقی نے مسروق (رح) سے روایت کیا کہ وہ عرفہ کے دن حضرت عائشہ ؓ کے پاس تشریف لائے عرض کیا مجھے پانی پلاؤ۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا اے مسروق تجھے روہ نہیں ہے ؟ عرض کیا نہیں۔ مجھے خوف ہے کہ یہ یوم اضحی یعنی قربانی کا دن ہو۔ حضرت عائشہ نے فرمایا ایسا نہیں ہے یہ عرفہ کا دن ہے۔ جس دن امام عرفات میں آتا ہے۔ اور یوم النحر وہ ہے جس دن امام قربانی کرتا ہے۔ اسے مسروق تو نے نہیں سنا کہ رسول اللہ ﷺ عرفہ کے دن کے روزہ کو ہزار دنوں کے برابر فرماتے تھے۔ (52) ابن ابی الدنیا نے کتاب الاضاحی میں اور بیہقی نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ (ذی الحجہ کے) دس دنوں کے بارے میں کہا جاتا تھا ایک دن ہزار دنوں کے برابر ہے (فضیلت میں) اور عرفہ کا دن دس ہزار دنوں کے برابر ہے یعنی فضیلت میں۔ (53) بیہقی نے فضل بن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا عرفہ کے دن جس شخص نے اپنی زبان اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں کی حفاظت کی۔ تو اس کے عرفہ کے دن سے آئندہ عرفہ کے دن تک گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ یعنی ایک سال کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ (54) ابن سعد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عرفہ کے دن رسول اللہ ﷺ کی سواری کے پیچھے فضل بن عباس بیٹھے ہوئے تھے یہ جوان عورتوں کی طرف دیکھنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے میرے بھتیجے اس دن میں جو شخص اپنے کانوں کو اپنی آنکھوں کو اور اپنی زبان کو قابو میں رکھے تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ (55) انمروزی نے کتاب العیدین میں محمد بن عباس مخزومی (رح) سے روایت کیا کہ کوئی مؤمن شہید نہیں ہوتا مگر جس کا نام عرفہ کی رات میں شہیدوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ (56) ابن ابی شیبہ، ابن ابی الدنیا نے الاضاحی میں اور المروزی نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ ان سے شہروں میں تعریف کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ تعریف عرفات میں ہوتی ہے۔ (57) ابن ابی الدنیا نے ابو عوانہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حسن بصری (رح) کو عرفہ کے دن عصر کے بعد بیٹھا ہوا دیکھا۔ انہوں نے اللہ کا ذکر کیا اور دعا مانگی اور لوگ ان کے پاس جمع تھے۔ (58) المروزی نے مبارک (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حس بصری، بکر بن عبد اللہ ثابت بنانی محمد بن واسع اور غیلان بن جریر رحمہم اللہ کو دیکھا کہ یہ لوگ بصرہ میں عرفہ مناتے تھے (یعنی عرفہ کے دن کی طرح جمع ہوتے تھے) (59) ابن ابی شیبہ اور المروزی نے موسیٰ بن ابی عائشہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عمرو بن حریث (رح) کو عرفہ کے دن مسجد میں دیکھا اور لوگ ان کے پاس جمع تھے۔ (60) ابن ابی شیبہ، ابن ابی الدنیا اور المروزی نے حضرت حسن (رح) سے روایت کیا کہ سب سے پہلے جس نے بصرہ میں تعریف کی وہ ابن عباس ؓ تھے۔ (61) المروزی نے حکم (رح) سے روایت کیا کہ سب سے پہلے جس نے کوفہ میں سب سے پہلے یہ کام کیا وہ مصعب بن زبیر ؓ تھے (یعنی سب سے پہلے تعریف کی) (62) ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، ترمذی (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) نسائی، ابن ابی الدنیا حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یوم عرفہ، یوم نحر اور یوم تشریق اہل اسلام کی عہد ہیں اور وہ کھانے اور پینے کے دن ہیں۔ (63) ابن ابی الدنیا نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ جب عرفہ کے دن صبح کی نماز پڑھتے اور سلام پھیرتے تھے تو اپنے گھٹنوں پر بیٹھ جاتے اور فرماتے لفظ آیت ” اللہ اکبر لا الہ الا اللہ اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد “ ایام تشریق کے آخری دن کی عصر تک یہ تکبیر کہتے تھے۔ (64) امام حاکم نے (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے اور ذہبی نے اسے ضعیف کہا ہے) ابو الفضیل کے طریق سے حضرت انس و عمار ؓ دونوں حضرات سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ فرض نمازوں میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز میں پڑھتے تھے اور فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے تھے اور عرفہ کے دن کی نماز سے تکبیر کہتے تھے۔ اور عصر کی نماز میں اس کو ختم فرماتے تھے ایام تشریق کے آخری دن میں۔ تکبیرات تشریق عرفہ کی صبح سے 13 کے عصر تک ہے (65) ابن ابی شیبہ، ابن ابی الدنیا، المروزی نے عیدین میں اور حاکم نے عبید بن عمیر ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ عرفہ کے دن کی نماز سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن کی ظہر یا عصر تک تکبیر کہتے تھے۔ (66) ابن ابی شیبہ اور حاکم نے شقیق (رح) سے روایت کیا کہ وہ عرفہ کے دن کی صبح کی نماز سے تکبیر (شروع) کرتے تھے۔ پھر نہ ختم کرتے تھے یہاں تک ایام تشریق کے آخری دن کی عصر کی نماز پڑھ لیتے۔ (67) ابن ابی شیبہ، المروزی اور حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ عرفہ کے دن کی صبح کی نماز سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن کی عصر کی نماز تک تکبیر پڑھتے تھے۔ (68) ابن ابی شیبہ، ابن ابی الدنیا اور حاکم نے عمری بن سعد (رح) سے روایت کیا کہ ہمارے پاس ابن مسعود ؓ تشریف لائے تو وہ عرفہ کے دن کی صبح کی نماز سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن کی عصر کی نماز تک تکبیر پڑھتے تھے۔ (70) ابن ابی الدنیا نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ فرمایا کرتے تھے جو میرے پاس کوئی مرد یا عورت آئے تو عرفہ کے دن ہرگز روزہ نہ رکھے کیونکہ یہ دن کھانے پینے اور تکبیر کا ہے
Top