Dure-Mansoor - An-Noor : 4
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا١ۚ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَۙ
وَ : اور الَّذِيْنَ : جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں الْمُحْصَنٰتِ : پاکدامن عورتیں ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا : پھر وہ نہ لائیں بِاَرْبَعَةِ : چار شُهَدَآءَ : گواہ فَاجْلِدُوْهُمْ : تو تم انہیں کوڑے مارو ثَمٰنِيْنَ : اسی جَلْدَةً : کوڑے وَّلَا تَقْبَلُوْا : اور تم نہ قبول کرو لَهُمْ : ان کی شَهَادَةً : گواہی اَبَدًا : کبھی وَاُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں کو تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی درے مارو۔ اور کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ اور یہ لوگ فاسق ہیں
1۔ ابن ابی حاتم نے روایت کیا کہ سعید بن جبیر (رح) نے آیت والذین یرمون المحصنت ثم لم یأتوا باربعۃ شہداء کے بارے میں فرمایا کہ حکام ان کو کوڑے لگوائیں جب ان کی طرف معاملہ لایا جا ائے تو وہ تہمت لگانے والے کو اسی کوڑ لگوائیں آیت ولا تقبلوا لہم شہادۃ ابدا۔ اور ان کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے حد لگائے جانے کے بعد جب تک وہ زندہ رہیں آیت واء لئک ہم الفسقون۔ یعنی اس میں وہ نافرمانی کرنے والے ہیں جو انہوں نے جھوٹی تہمت لگائی۔ 2۔ ابو داوٗد فی ناسخہ وابن المنذر ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت والذین یرمون المحصنت ثم لم یأتو اباربعۃ شہداء میں سے پھر استثنی کرتے ہوئے فرمایا آیت ” الا الذین تابوا من بعد ذلک واصلحوا “ یعنی اللہ تعالیٰ نے نافرنامی سے ان کی توبہ قبول فرمائی لیکن گواہی کبھی قبول نہ ہوگی۔ 3۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ نے آیت والذین یرمون المحصنت سے لے کر رحیم تک کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے جرم کرنے والے کے بارے میں کوڑے مارنے کا حکم دیا تو بہ قبول ہوگی اور گواہی کو رد کردیا جائے گا۔ 4۔ سعید بن منصور وابن جریر نے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ نے ابوبکر ؓ سے فرمایا اگر تو توبہ کرے تو میں تیری گواہی قبول کرلوں گا۔ 5۔ ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے اس آیت آیت الا الاذین تابو من بعد ذالک واصلحو کے بارے میں فرمایا ان لوگوں کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو جھٹلائیں۔ اگر وہ اپنے آپ کو جھٹلائیں تو ان کی گواہی قبول کی جائے گی۔ حد قذف والوں کی شہادت قبول نہیں۔ 6۔ ابو داوٗد فی ناسخہ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آپ نے سورة نور کی آیت آیت ” والذین یرمون المحصنت ثم لم یأتوا باربعۃ شہداء فاجلدوہم “ کے بارے میں فرمایا کہ اس حکم سے آیت ” والذین یرمون ازواجہم ولم یکن لہم شہداء الا انفسہم “ کو خارج کردیا گیا کیونکہ میاں بیوی جب دونوں قسم اٹھائیں تو ان میں جدائی کردی جائے گی اگر دونوں نے قسم نہ اٹھائی تو حد کو قائم کیا جائے گا کوڑے مارنا یا سنگسار کرنا۔ 7۔ ابن المنذر وابن جریر والبیہقی فی سننہ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ” ولا تقبلوا لہم شہادۃ ابدا “ پھر فرمایا آیت الا الذین تابو، یعنی جس نے توبہ کی اور اپنی اصلاح کرلی تو اس کی گواہی اللہ کی کتاب میں قبول کی جائے گی۔ 8۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ مغیرہ بن شعبہ کی بدکاری پر تین آدمیوں نے گواہی دی۔ اور زیاد نے گواہی دینے سے انکار کردیا اور عمر ؓ نے ان تینوں کو حد لگائی اور ان سے فرمایا تم توبہ کرو تمہاری گواہی قبول کی جائے گی دو آدمیوں نے توبہ کی اور ابوبکرہ نے توبہ نہیں کی تو اس کی گواہی کو قبول نہیں کیا جاتا تھا اور ابو بکرہ زیاد کے ماں شریک بھائی تھے جب زیاد کی وجہ سے حد قذف ہوگئی تو ابوبکرہ نے قسم کھائی کہ میں اس سے کبھی بات نہیں کروں گا تو زیاد سے مرتے دم تک بات نہیں کی۔ 9۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر نے عطاء (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ جب تہمت لگانے والا توبہ کرے اور اپنے آپ کو جھٹلادے تو اس کی گواہی کو قبول کی اجائے گا۔ 10۔ عبد بن حمید نے شعبی زہری طاؤس اور سمروق رحمہم اللہ سب نے روایت کی جب تہمت لگانے والا توبہ کرلے تو اس کی گواہی کو قبول کیا جائے اور اس کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو جھٹلا دے۔ 11۔ عبد بن حمید نے سعید بن المسیب اور حسن رحمہم اللہ سے روایت کیا کہ تہمت لگانے والا جب توبہ کرلے تو اس کی توبہ کا معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہے اور اس کی بری گواہی قبول نہ کی جائے گی۔ 12۔ عبد بن حمید نے مکحول (رح) سے تہمت لگانے والے کے بارے میں روایت کیا کہ جب وہ توبہ کرے تو اس کی گواہی قبول نہ ہوگی۔ 13۔ عبد بن حمید نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ تہمت لگانے والا جب توبہ کرے تو اس کی توبہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہے لیکین اس کی گواہی کبھی قبول نہ ہوگی۔ 14۔ عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ اس کی گواہی قبول نہیں ہے۔ 15۔ سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ اس کی توبہ اس کے اور اس کے رب کے درمیان ہے کہ اسے عذاب عظیم سے بچائے لیکن اس کی گواہی قبول نہ ہوگی۔ 16۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ولاتقبلوا لہم شہادۃ ابدا “ (یعنی ان کے لیے کبھی گواہی قبول نہ ہوگی اور حسن (رح) سے فرمایا کرتے تھے کہ تہمت لگانے والے کی کبھی گواہی قبول نہیں کی جائے اس کی توبہ کا معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہے۔ 17۔ عبد بن حمید وعبد الرزاق وابن جریر وابن المنذر نے ابن جریر (رح) سے روایت کیا کہ ہر حد والے کی گواہی جائز ہے مگر تہمت لگانے والے کی نہیں کیونکہ اس کی توبہ اس کے اور اس کے رب کے درمیان ہے۔ 18۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ تہمت لگانے والے کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی اس کی توبہ اس کے اور اس کے رب کے درمیان ہے۔ 19۔ عبد بن حمید نے عیسیٰ بن عاصم (رح) سے روایت کیا کہ ابوبکرہ کے پاس جب کوئی آدمی آتا تاکہ اس کا گواہ بنے تو وہ کہتے میرے علاوہ دوسرے کو گواہ بنا لو کیونکہ مسلمانوں نے مجھے فاسق قرار دیا ہے۔ 20۔ عبد بن حمید نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ میں عمر بن خطاب ؓ کے پاس حاضر تھا جب مغیر بن شعبہ ؓ پر تہمت لگانے والوں پر حد قذف جاری کی تھی ان میں سے ابوبکر ماتع اور شبل بھی تھے پھر انہوں نے ابوبکرہ کو بلایا اور اس سے فرمایا اگر تو اپنے آپ کو جھٹلاتا ہے تو تیری گواہی جائز ہوگی تو اس نے اپنے آپ کو جھٹلانے سے انکار کردیا اور عمر ؓ ان کی گواہی کو ان کے مرنے تک قبول نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ” الا الذین تابوا “ او ان کی توبہ سے مراد ان کا اپنے آپ کو جھٹلانا ہے۔ حد قذف اسی کوڑے 21۔ عبدالرزاق نے عمرو بن شعیب (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے یہ فیصل فرمادیا ہے کہ تین یا دو یا ایک جب بدکاری کی تہمت لگائیں تو ان کی گواہی قبول نہ کی جائے گی اور ان کو اسی اسی کوڑے لگائیں جائیں گے اور ان کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے لیے ان کی پکی توبہ اور اصلاح واضح ہوجائے۔ 22۔ عبد بن حمید نے جعفر بن یرقان (رح) سے روایت کیا کہ میں نے میمون بن مہران سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا (یعنی) آیت ” والذین یرمون المحصنت “ سے لے کر آیت ” الا الذین تابوا “ تک کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کا ذکر کیا ہے اور دوسری آیت میں فرمایا آیت ” ان الذین یرمون المحصنت الغفلت المومنت لعنوا فی الدنیا والاٰ خرۃ والہم عذاب عظیم “۔ پھر فرمایا جہاں تک پہلی آیت کا تعلق ہے تو اس میں ممکن ہے کہ عورت نے ایسا کام کیا ہوا اور جہان تک دوسری آیت کا تعلق ہے تو یہ وہ عورت ہے کہ جس نے ایسا کام بالکل ہی نہ کیا ہو۔ 23۔ ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ اور اہل مکہ کے درمیان معاہدہ تھا تو کوئی عورت ہجرت کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوجاتی تو مشرکین کہتے کہ یہ مردوں کی طلب میں نکلی ہے تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا آیت ” والذین یرمون المحصنت “ آیت کے آخر تک۔ 24۔ عبدالرزاق نے حس بصری (رح) سے روایت کیا کہ زنا جھوٹی تہمت لگانے سے زیادہ سخت ہے اور جھوٹی تہمت شراب پینے سے زیادہ سخت ہے۔ 25۔ عبدالرزاق نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ زانی کو کوڑے جھوٹ تہمت اور شراب پینے والے سے سخت لگائے جائیں اور حد قذف حد شراب سے زیادہ سخت ہوگی واللہ تعالیٰ اعلم۔
Top