Dure-Mansoor - An-Nisaa : 24
وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ١ۚ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ١ؕ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَّ : اور الْمُحْصَنٰتُ : خاوند والی عورتیں مِنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا : جو۔ جس مَلَكَتْ : مالک ہوجائیں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے داہنے ہاتھ كِتٰبَ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاُحِلَّ : اور حلال کی گئیں لَكُمْ : تمہارے لیے مَّا وَرَآءَ : سوا ذٰلِكُمْ : ان کے اَنْ : کہ تَبْتَغُوْا : تم چاہو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے مُّحْصِنِيْنَ : قید (نکاح) میں لانے کو غَيْرَ : نہ مُسٰفِحِيْنَ : ہوس رانی کو فَمَا : پس جو اسْتَمْتَعْتُمْ : تم نفع (لذت) حاصل کرو بِهٖ : اس سے مِنْھُنَّ : ان میں سے فَاٰتُوْھُنَّ : تو ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً : ان کے مہر مقرر کیے ہوئے وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْمَا : اس میں جو تَرٰضَيْتُمْ : تم باہم رضا مند ہوجاؤ بِهٖ : اس سے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد الْفَرِيْضَةِ : مقرر کیا ہوا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور حرام ہیں وہ عورتیں جو کسی مرد کے نکاح میں ہوں، سوائے ان عورتوں کے جن کے تم مالک ہوجاؤ، اللہ نے ان احکام کو تم پر فرض فرما دیا ہے، اور تمہارے لئے حلال کی گئیں ہیں وہ عورتیں جو ان کے علاوہ ہیں کہ تم اپنے مالوں کے بدلہ طلب کرو اس حال میں کہ تم پاک دامنی اختیار کرنے والے ہو، پانی بہانے والے نہ ہو، سو ان میں سے جن عورتوں سے نفع حاصل کرلو ان کے مہر دے دو جو مقرر ہوچکے ہیں اور تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ مقرر مہر کے بعد آپس کی رضا مندی سے کسی بات پر راضی ہوجاؤ بلاشبہ اللہ علیم ہے حکیم ہے
خاوند والی عورت سے نکاح حرام ہے (1) الطیالسی وعبد الرزاق والفریابی وابن ابی شیبہ واحمد وعبد بن حمید ومسلم وابو داؤد و ترمذی والنسائی وابو یعلی وابن جریر والمنذر وابن ابی حاتم والبخاری وابن حبان والبیہقی نے اپنی سنن میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن ایک لشکر اوطاس کی طرف بھیجا یہ لوگ دشمن سے ملے اور ان سے قتال کیا۔ ان پر غالب آئے اور ان کے قیدی بھی ہاتھ آئے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ نے ان قیدی عورتوں کے ساتھ جماع کرنا مناسب نہ سمجھا ان عورتوں کے مشرک خاوند موجود تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ لفظ آیت ” والمحصنت من النساء الا ما ملکت ایمانکم “ فرمایا مگر جو اللہ تعالیٰ تم کو مال غنیمت کے طور پردے اس وجہ سے کہ وہ تمہارے لئے حلال ہیں۔ (2) الطبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت حنین کے دن نازل ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے حنین کو فتح فرمایا دیا مسلمانوں نے ایسی عورتوں کو پکڑا جن کے خاوند تھے جب کوئی آدمی ارادہ کرتا کہ عورت کے پاس آئے تو وہ کہتی کہ میرا خاوند (کافر) موجود ہے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” والمحصنت من النساء الا ما ملکت ایمانکم “ یعنی قیدی عورتیں مشرکین میں سے تم جس کے ساتھ جماع کرنا چاہو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (3) ابن ابی شیبہ نے مصنف میں سعید بن جبیر (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت حنین والوں کی عورتوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے حنین کو فتح فرما لیا مسلمانوں کو کچھ قیدی (عورتیں) ہاتھ آئیں۔ (مسلمانوں میں سے) جب کوئی آدمی اس عورت کے پاس آنے کا ارادہ کرتا تو وہ کہتی میرا خاوند ہے (مشرکین میں سے) رسول اللہ ﷺ کے پاس وہ لوگ آئے اور انہوں نے اس بات کا ذکر کیا (تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی) ” والمحصنت من النساء الا ما ملکت ایمانکم “ یعنی قیدی عورتیں خاوند والی بھی حلال ہیں۔ (4) ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” والمحصنت من النساء الا ما ملکت ایمانکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہر خاوند والی عورت کے پاس آنا زنا ہے مگر جو قید ہوجائے۔ (5) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ وہ عورت جس کا خاوند موجود ہے وہ تیرے اوپر حرام ہے مگر وہ باندی کہ اس کا تو مالک ہے اور اس کا خاوند دارالحرب میں ہے وہ تیرے لئے حلال ہے جب تو نے اس کا استبراء رحم کرلیا۔ (6) الفریابی وابن ابی شیبہ و طبرانی نے حضرت علی اور ابن مسعود ؓ دونوں حضرات سے اس آیت ” والمحصنت من النساء الا ما ملکت ایمانکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا مشرکہ عورتیں جب وہ قید ہوجائیں تو اس کے مالک کے لئے حلال ہیں اور ابن مسعود ؓ نے فرمایا مشرک عورتیں اور مسلمان عورتیں دونوں حلال ہیں جب جنگ میں قید بنا لی جائیں۔ (7) ابن ابی شیبہ نے عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے لفظ آیت ” والمحصنت من النساء الا ما ملکت ایمانکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا مشرکہ عورتیں جب وہ قید ہوجائیں تو اس کے مالک کے لئے حلال ہیں اور ابن مسعود ؓ نے فرمایا مشرک عورتیں اور مسلمان عورتیں دونوں حلال ہیں جب جنگ میں قیدی بنا لی جائیں۔ (8) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لونڈی کی طلاق چھ طرح سے ہے اس کو بیچ دینا اس کی طلاق ہے، اس کو آزاد کردینا اس کی طلاق ہے، اس کو ہبہ کردینا اس کی طلاق ہے۔ اس کی برات اس کی طلاق ہے اس کے خاوند کا طلاق دے دینا اس کی طلاق ہے۔ (9) ابن جریر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جب لونڈی کو بیچ دیا جائے جبکہ اس کا شوہر بھی ہو۔ تو اس کا آقا کے بصع (یعنی وطی کی جگہ) کا زیادہ حق دار ہے۔ (10) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والمحصنت من النساء “ سے خاوند والی عورتیں مراد ہیں۔ (11) ابن ابی شیبہ نے مصنف میں وابن المنذر نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والمحصنت من النساء “ سے مراد ہے کہ خاوند والی عورتیں حرام ہیں مگر لونڈیاں (حلال ہیں) ۔ (12) ابن ابی شیبہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والمحصنت من النساء “ سے خاوند والی عورتیں مراد ہیں۔ (13) مالک وعبد الرزاق وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر اور بیہقی نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والمحصنت من النساء “ سے خاوند والی عورتیں مراد ہیں اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زنا کو حرام فرمایا ہے۔ (14) ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والمحصنت من النساء “ سے مراد ہے کہ ان کو زنا سے منع کردیا گیا۔ (15) ابن ابی شیبہ نے شعبی (رح) اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت اوطاس کے دن نازل ہوئی۔ (16) ابن جریر نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ عورتیں ہمارے پاس آئیں پھر ان کے خاوندوں نے بھی ہجرت کرلی اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” والمحصنت من النساء “ کی وجہ سے ان کے ساتھ نکاح کرنے کو روک دیا گیا۔ (17) ابن جریر وابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والمحصنت من النساء “ سے خاوند والی عورتیں مراد ہیں ان کے ساتھ نکاح کرنا حلال نہیں آپ فرماتے تھے کہ عورت کو چاہئے کہ نہ دودھ دوھے اور ہر وہ عورت گواہوں اور مہر کے ساتھ نکاح کرے وہ ان محصنات میں سے ہے جن کے ساتھ نکاح حرام ہے (پھر فرمایا ) ” الا ما ملکت ایمانکم “ یعنی جن کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا عورتوں میں سے۔ (18) عبد بن حمید وابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والمحصنت من النساء “ سے مراد ہے کہ اس کے لئے حلال نہیں کہ وہ چار سے اوپر عورتوں سے نکاح کرے جو زائد ہوجائے (چار سے) تو وہ اس پر حرام ہے جیسے اس کی ماں اور اس کی بہن کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے۔ (19) عبد بن حمید وابن جریر نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی وثلث وربع “ (النساء آیت 3) یعنی ہمارے لئے حلال ہیں جو تم کو خوش لگیں عورتوں میں سے دو یا تین چار پھر حرام کیا گیا۔ جو حرام کیا گیا نسبی رشتہ سے اور سسرالی سے پھر فرمایا لفظ آیت ” والمحصنت من النساء الا ما ملکت ایمانکم “ پھر لوٹ گئے اول سورت کی طرف چار عورتوں تک پھر فرمایا وہ بھی حرام ہیں مگر جو نکاح کرے مہر سنت طریقہ اور گواہوں کے ساتھ۔ (20) عبد الرزاق وابن ابی شیبہ وابن جریر نے عبیدہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے اول سورة میں چار عورتوں کو حلال فرما دیا۔ اور حرام قرار دیا چار کے بعد کسی عورت سے نکاح کو مگر اپنی باندیوں سے وہ اپنی خواہش پوری کرسکتا ہے۔ (21) ابن جریر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” والمحصنت من النساء “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ان میں سے چار سے زیادہ حرام ہے۔ (22) سعید بن منصور وابن جریر وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے ” والمحصنت “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد پاکدامن اور عقل مند عورتیں ہیں مسلمانوں میں سے یا اہل کتاب میں سے۔ (23) ابن جریر وابن ابی حاتم والطبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” الا ما ملکت ایمانکم “ کے بارے میں روایت کیا مگر چار عورتوں سے کہ جن سے نکاح کرسکتا ہے مہر اور گواہوں کے ساتھ۔ (24) ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” الا ما ملکت ایمانکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ یعنی مرد کو اپنے غلام کی بیوی سے الگ رکھا جائے گا۔ (25) ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” والمحصنت من النساء الا ما ملکت ایمانکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ حلال ہے آدمی کے لئے مگر ان باندیوں میں سے جن کا نکاح کسی اور سے کردے تو (اب وہ) اس کے لئے حلال نہیں ہے۔ (26) ابن جریر نے عمرو بن مرہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے سعید بن جبیر سے کہا کیا آپ نے ابن عباس ؓ کو نہیں دیکھا جب اس آیت ” والمحصنت من النساء “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس بارے میں کچھ بھی نہیں فرمایا تو سعید بن جبیر نے فرمایا کہ آپ اس کو نہیں جانتے تھے۔ (27) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اگر میں جانتا کہ کون میرے لئے اس آیت کی تفسیر بیان کرسکتا ہے تو میں اس کے ملنے کے لئے اونٹوں کو کمزور کرتا آیت یہ ہے کہ لفظ آیت ” والمحصنت من النساء “۔ (28) ابن ابی شیبہ نے ابو السوداء (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عکرمہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا تو یعنی لفظ آیت ” والمحصنت من النساء “ کے بارے میں تو انہوں نے فرمایا میں نہیں جانتا۔ (29) ابن ابی حاتم نے زہری کے طریق سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا احصان دو احصان ہیں احصان نکاح اور احصان عفاف۔ ابن ابی حاتم نے کہا کہ میرے باپ نے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے۔ (30) ابن جریر نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” والمحصنت من النساء “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ہم دیکھتے ہیں کہ وہ حرام ہیں اس آیت ” والمحصنت من النساء “ میں یعنی شوہر والی عورتوں کو منع کیا گیا کہ وہ شادی کریں۔ اور محصنات یعنی پاکدامن عورتیں اور وہ حلال نہیں ہوتیں مگر نکاح کے ساتھ یا ملک یمین سب کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے مگر نکاح اور ملک یمین کے ساتھ۔ (31) سعید بن منصور وعبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ وہ سارے قرآن میں ” والمحصنت “ صاد کے کسرہ کے ساتھ پڑھتے تھے مگر سورة نساء میں لفظ آیت ” والمحصنت “ کو صاد کے زبر کے ساتھ پڑھتے۔ (32) عبد بن حمید نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” والمحصنت من النساء “ کو صاد کے نصب کے ساتھ پڑھا اور یحییٰ بن وثاب ” والمحصنت “ صاد کے کسرہ کے ساتھ پڑھتے تھے۔ (33) عبد بن حمید نے اسود (رح) بسا اوقات ” والمحصنت “ پڑھتے تھے۔ (34) عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت ” والمحصنت من النساء الا ما ملکت ایمانکم “ جو سورة نساء میں ہے ایک عورت کے بارے میں نازل ہوئی جس کو معاذہ کہا جاتا تھا اور یہ ایک شیخ کے نکاح میں تھی جو قبیلہ بنو مسدوس میں سے تھے جس کو شجاع بن حرث کہا جاتا تھا اس عورت کے ساتھ ایک سوکن بھی تھی جس سے شجاع کی کثیر اولاد تھی اور شجاع چل دئیے تاکہ وہ ہجر سے گھر والوں کو لے آئے معاذہ کے پاس اس کا چچا زاد بھائی گزرا اس نے بھائی سے کہا مجھے میرے خاندان والوں کے پاس لے چلو کیونکہ اس شیخ کے پاس خیر نہیں ہے اس نے اس عورت کو سوار کرلیا اور اسے وہاں لے گیا اتفاق سے اس وقت شیخ بھی آگئے۔ اور وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا (اشعار پڑھے) یا رسول اللہ و افضل العرب انی خرجت ابغیھا الطعام فی رجب ترجمہ : اے اللہ کے رسول تمام عرب کے افضل ﷺ میں نکلا تلاش کرتا اس عورت کے لئے طعام کو رجب میں۔ فتولت والطت بالذنب وھی شر غالب لمن غلب ترجمہ : اس نے روگردانی کی اور بھاگ گئی وہ گناہ کے ساتھ وہ جس کے لئے بھی غالب آئی بری غالب آئی۔ رأت غلاما وازکا علی قتب لھا ولہ ارب ترجمہ : اور دیکھا ایک لڑکے کو بیٹھنے والا کجاوہ پر اس عورت اور اس مرد کی ایک ضرورت تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا یہ مجھ پر لازم ہے یہ مجھ پر لازم ہے اگر اس مرد نے عورت کے کپڑے کھول دئیے تھے تو اس عورت کو رجم کرو ورنہ شیخ کو اس کی عورت لوٹا دو ۔ مالک بن شجاع اور اس کا سوتیلا بیٹا گئے اور اس عورت کا مطالبہ کیا وہ اس کو لے آیا اور اپنے گھر میں رہائش اختیار کرلی۔ (35) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عبیدہ السلمان کے طریق سے عبیدہ سلمانی سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کتب اللہ علیکم “ سے مراد چار عورتیں ہیں۔ (36) ابن المنذر نے ابن جریج کے طریق سے ابن جریر نے عبیدہ کے طریق سے عمر بن خطاب ؓ سے اسی طرح روایت کیا کہ ابن عباس سے لفظ آیت ” کتب اللہ علیکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ نکاح میں ایک سے لے کر چار تک کرنے کا حکم ہے۔ (37) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابراہیم (رح) سے لفظ آیت ” کتب اللہ علیکم “ کے بارے میں روایت کیا کہ جو حرام کی گئیں ہیں تم پر۔ (38) عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واحل لکم “ کو الف کے ضمہ اور حاء کو کسرہ کے ساتھ پڑھا۔ (39) عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واحل لکم “ کو نصب کے ساتھ پڑھا۔ (40) ابن ابی حاتم نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ ” وراء “ کا معنی ہے سامنے سارے قرآن میں سوائے دو مقامات کے (اور) ” واحل لکم ما وراء ذلکم “ اور ” فمن ابتغی وراء ذلک “ یہاں وراء سولی کے معنی میں ہے۔ (41) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واحل لکم ما وراء ذلکم “ یعنی جو چار سے کم ہو اور تمہارے لئے حلال ہیں۔ (42) ابن ابی حاتم نے عکرمہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کتاب اللہ علیکم “ یعنی ہر نسب اللہ تعالیٰ نے تم پر لازم کیا ہے (اور) لفظ آیت ” واحل لکم ما وراء ذلکم “ یعنی اور اس نسب کے علاوہ تمہارے لئے حلال کیا گیا ہے۔ (43) ابن جریر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واحل لکم ما وراء ذلکم “ یعنی اس قرابت کے علاوہ تمہارے لئے اسے حلال کیا۔ (44) ابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واحل لکم ما وراء ذلکم “ یعنی جو تمہاری لونڈیاں ہیں وہ تم پر حلال ہیں۔ محرمات کے علاوہ بقیہ عورتوں سے نکاح حلال ہے (45) ابن ابی حاتم نے عبیدہ سلیمانی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واحل لکم ما وراء ذلکم “ سے مراد ہے کہ ایک کے علاوہ لونڈیاں تمہارے لئے حلال ہیں۔ (46) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” محصنین “ یعنی نکاح والیاں (اور) ” غیر مسفحین “ نہ کسی بدکارہ کے ساتھ بدکاری کرنے والے۔ (47) ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” السفاح “ کے بارے میں ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اس سے مراد زنا ہے۔ (48) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم ونحاس نے اپنی ناسخ میں ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” فما استمتعتم بہ منہن فاتوہن اجورہن فریضۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ جب کسی مرد نے تم میں سے کسی سے شادی کرلی پھر اس سے ایک مرتبہ جماع کرلیا تو اس پر پورا مہر واجب ہوگیا۔ (اور) لفظ آیت ” والاستمتاع “ سے نکاح مراد ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے لفظ آیت ” واتوا النساء صدقتہن نحلۃ “۔ (49) ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اسلام کے شروع میں متعہ کی اجازت تھی ایک آدمی کسی شہر میں آتا اس کے ساتھ کوئی ایسا آدمی نہیں ہوتا تھا۔ جو اس کے معاملات کی نگہداشت کرتا اور اس کے سامان کی حفاظت کرتا تو آدمی ایک عورت سے اتنے وقت کے لئے شادی کرلیتا تھا جتنے وقت میں وہ حاجت سے فارغ ہوجاتا تھا تو وہ عورت اس کے سامان کی حفاظت کرتی اور اس کے معاملات کی نگرانی کرتی تھی اور یہ آیت بھی قرات کرتا لفظ آیت ” فما استمتعتم بہ منہن “ سے ” واجل مسمی “ تک اور یہ آیت کو منسوخ کردیا ” محصنین غیر مسفحین “ نے اور احصان مرد کے ہاتھ میں ہوتا (عورت کو) جتنا عرصہ چاہتا اس کو روک لیتا جب چاہتا اسے چھوڑ دیتا۔ منکوحہ اور مملوکہ باندی کے علاوہ ہر عورت حرام ہے (50) الطبرانی اور بیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اول اسلام میں متعہ جائز تھا اور وہ لوگ یہ آیت ” فما استمتعتم بہ منہن “ سے لے کر ” واجل مسمی “ تک پڑھتے تھے آدمی کسی شہر میں آتا تھا اور اس کی جان پہچان نہیں ہوتی تھی تو وہ اتنی مدت کے لئے کسی عورت سے نکاح کرلیتا تھا جتنی مدت میں وہ اپنی حاجت سے فارغ ہوجاتا تھا تاکہ وہ اس کے سامان کی حفاظت کرے اور اس کے معاملات کی نگہبانی کرے یہاں تک کہ یہ آیت ” حرمت علیکم امھتکم “ سے لے کر آخر آیت تک نازل ہوئی۔ اس نے پہلے حکم کو منسوخ کردیا اور متعہ کو حرام کردیا گیا اور اس کی تصدیق سورة مؤمنون کی آیت ” الا علی ازواجہم او ما ملکت ایمانہم “ سے ہوئی ہے یعنی اس کے علاوہ فرج حرام ہے۔ (51) عبد بن حمید وابن جریر وابن الانباری نے مصاحف میں اور حاکم (نے اس کو صحیح کہا) اور ابو نضرہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس کے سامنے یہ آیت ” فما استمتعتم بہ منہن فاتوہن اجورہن فریضۃ “ پڑھی تو ان عباس نے ایسے پڑھا لفظ آیت ” فما استمتعتم بہ منہن الی اجل مسمی “ میں نے عرض کیا کیا ہم اس کو اسی طرح پڑھیں ؟ ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے اسی طرح نازل فرمایا۔ (52) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ابی بن کعب ؓ کی قراء ۃ میں یوں ہے لفظ آیت ” فما استمتعتم بہ منہن الی اجل مسمی “۔ (53) ابن ابی داؤد نے مصاحف میں سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ابی بن کعب ؓ کی قرات میں یوں ہے لفظ آیت ” فما استمتعتم بہ منہن الی اجل مسمی “۔ (54) عبد الرزاق نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عباس ؓ کو یوں پڑھتے ہوئے سنا لفظ آیت ” فما استمتعتم بہ منہن فاتوہن اجورہن “ ابن عباس ؓ نے فرمایا ابی کی قرأت میں ” الی اجل مسمی “۔ (56) ابن جریر نے سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ متعہ ہے ایک آدمی کسی عورت سے ایک مدت معین کی شرط کے ساتھ نکاح کرتا تھا جب وہ مدت گزر جاتی۔ تو مرد کو عورت پر کوئی اختیار نہ ہوتا اور وہ عورت اس سے آزاد ہوجاتی اور اس پر لازم ہوتا کہ وہ اپنے رحم کو خالی کرتی جو کچھ اس میں ہے اور ان کے درمیان کوئی میراث نہ ہوتی اور ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا وارث نہ ہوتا۔ (57) عبد الرزاق ابن ابی شیبہ و بخاری ومسلم نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد کرتے تھے ہمارے ساتھ ہماری عورتیں نہیں ہوتی تھیں۔ ہم نے کہا کیا ہم خصی (یعنی نامرد) نہ ہوجائیں۔ تو ہم کو اس سے منع فرمایا اور ہم کو اجازت فرمائی کہ ہم ایک کپڑے کے بدلے کسی عورت سے ایک مدت مقرر کے لئے نکاح کرلیں پھر عبد اللہ نے (یہ آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تحرموا طیبت ما احل اللہ لکم “ پڑھی (المائدہ آیت 87) ۔ (58) عبد الرزاق احمد ومسلم نے سبرہ جہنی ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت فرمائی پس میں اور میری قوم کا ایک آدمی باہر نکلا اور مجھ کو اس پر خوبصورتی میں فضیلت حاصل تھی۔ اور وہ بدصورتی کے قریب تھا ہم میں سے ہر ایک کے پاس ایک چادر نئی اور نرم تھی یہاں تک کہ جب ہم مکہ کے اوپر والے حصے میں تھے ہم ایک لمبی گردن والی خوبصورت لڑکی سے ملے۔ ہم نے (اس سے) کہا کیا تو ہم میں سے کسی ایک کے ساتھ متعہ کرو گی ؟ اس نے کہا تمہارے پاس کیا کپڑے ہیں ہم میں سے ہر ایک نے اپنی چادر پیش کردی وہ دونوں مردوں کو دیکھنے لگی تو اچانک میرے ساتھی نے اسے دیکھا اور کہا اس کی چادر تو پرانی ہے اور میری چادر نئی اور عمدہ ہے پھر وہ کہنے لگی کہ اس چادر کے ساتھ کوئی حرج نہیں پھر میں نے اس سے نکاح متعہ کیا وہ میرے پاس ہی رہی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو حرام قرار دے دیا۔ (59) ابن ابی شیبہ واحمد ومسلم سبرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رکن اور دروازہ کے ساتھ کھڑا ہوا دیکھا اور آپ فرما رہے تھے اے لوگو میں نے تم کو متعہ کی اجازت دی تھی خبردار بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت تک کے لئے حرام قرار دیا ہے۔ اگر کسی کے پاس نکاح متعہ کی وجہ سے کوئی عورت ہو تو وہ اس کو آزاد کر دے اور ان چیزوں میں سے جو تم دے چکے ہو وہ واپس نہ لو۔ اسلام میں متعہ حرام ہے (60) ابن ابی شیبہ واحمد ومسلم نے سلمی بن اکوع (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ نے جنت طاؤس کے موقع میں تین دن کے لئے متعہ کی اجازت فرمائی پھر اس کے بعد اس سے منع کردیا گیا۔ (61) ابو داؤد نے اپنی ناسخ میں وابن المنذر والنحاس نے عطا کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” فما استمتعتم بہ منہن فاتوہن اجورہن فریضۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس آیت کو ان آیات ” یایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوہن لعدتہن “ (حلال) (اور) ” والمطلقت یتربصن بانفسہن ثلثۃ قروء “ (البقرہ آیت 338) اور ” والی یئسن من المحیض من نسائکم ان ارتبتم فعدتہن ثلثۃ اشھر “ (الطلاق آیت 4) نے منسوخ کردیا۔ (62) ابوداؤد نے اپنی ناسخ میں وابن المنذر والنحاس والبیہقی نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ میراث کی آیت نے نکاح متعہ کو منسوخ کردیا۔ (63) عبد الرزاق وابن المنذر والبیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نکاح متعہ منسوخ ہے اس کو منسوخ کردیا طلاق نے، صدقہ نے، عدت نے اور میراث نے۔ (64) عبد الرزاق وابن المنذر نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رمضان نے ہر روزے کو منسوخ کردیا زکوٰۃ نے ہر صدقہ کو منسوخ کردیا اور طلاق نے عدت اور میراث نے نکاح متعہ کو منسوخ کردیا عید الضحیٰ کی قربانی نے ہر قربانی کو منسوخ کردیا۔ (65) عبد الرزاق و ابوداؤد نے اپنی ناسخ میں وابن جریر نے حکم (رح) سے روایت کیا کہ آپ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا کیا یہ منسوخ ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا نہیں اور حضرت علی نے فرمایا اگر عمر متعہ سے نہ روکتے تو نہ زنا کرتا مگر بدبخت۔ (66) بخاری نے ابو جمرہ (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ سے عورتوں کے ساتھ نکاح متعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس میں رخصت دے دی تو ان کے غلام نے ان سے کہا یہ اس وقت تھا جب عورتوں کی قلت تھی اور تنگ دستی تھی ابن عباس نے فرمایا ہاں بات ایسے ہی ہے۔ (67) بیہقی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح متعہ سے منع فرمایا یہ اس آدمی کے لئے جائز تھا جو نکاح کی طاقت نہ رکھتا۔ جب اللہ تعالیٰ نے نکاح طلاق عدت اور مرد عورت کے درمیان میراث کے احکام جاری کر دئیے تو اس (حکم) کو منسوخ کردیا گیا۔ (68) نحاس نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عباس ؓ سے کہا تم ایک سر پھرے آدمی ہو بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے متعہ سے منع فرمایا تھا۔ (69) بیہقی نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے لئے عورتوں کے ساتھ متعہ صرف تین دن کے لئے حلال کیا گیا۔ (اس کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔ (70) بیہقی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کیا حال ہے مردوں کا جو نکاح متعہ کرتے ہیں اور تحقیق رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا اب اگر کوئی ایسا نکاح کرے گا تو میں اس کو رجم کروں گا۔ (71) مالک وعبد الرزاق وابن ابی شیبہ و بخاری ومسلم و ترمذی و نسائی وابن ماجہ نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن نکاح متعہ اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے بھی منع فرمایا۔ (72) مالک عبدالرزاق نے عروہ بن زبیر (رح) سے روایت کیا کہ خولہ بنت حکیم حضرت عمر کے پاس آئیں اور کہا کہ ربیعہ بن امیہ نے ایک عورت سے متعہ کیا ہے اور اس سے وہ عورت حاملہ ہوگئی۔ حضرت عمر اپنی چادر کو گھسیٹے ہوئے گبھرا کر باہر نکلے اور فرمایا یہ متعہ ہے اور اگر میں پہلے اس کا اعلان کرچکا ہوتا تو میں اس کو رجم کردیتا۔ (73) عبد الرزاق نے خالد بن مہاجر (رح) سے روایت کیا کہ ابن عیاش لوگوں کی رخصت دیتے تھے تو ان میں سے ابن ابی عمر وانصاری نے کہا ابن عباس نے فرمایا میں نے امام المتقین (محمد ﷺ کی موجودگی میں کیا ہے۔ ابن ابی عمرو نے کہا اے اللہ بخش دے بلاشبہ متعہ میں یہ رخصت تھی جس طرح انسان مردار اور خون اور سور کے گوشت کھانے کی طرف مجبور ہوجاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے بعد میں دین کو محکم کردیا۔ (74) ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ اللہ کی قسم ! متعہ صرف تین دن تھا رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے اس میں اجازت فرمائی تھی نہ پہلے اس کی اجازت تھی اور نہ بعد میں اجازت تھی۔ (75) ابن ابی شیبہ نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے دو متعوں سے منع فرمایا عورتوں کے ساتھ نکاح متعہ سے اور حج متعہ سے۔ (76) ابن ابی شیبہ نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عمر ؓ سے متعہ کے بارے میں پوچھا گیا انہوں نے فرمایا حرام ہے ان سے کہا گیا ابن عباس ؓ اس کی خفت کا فتوی دیتے ہیں تو انہوں نے فرمایا پھر عمر ؓ کے زمانہ میں کیوں فتوی نہیں دیا۔ (77) البیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کسی آدمی کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی عورت سے نکاح کرے مگر اسلام کا نکاح تو اس کی مہر کے ساتھ کہ مرد اس کا وارث بنے اور وہ اس کی وارث بنے کسی وقت مقرر پر اس سے نکاح نہ کرے وہ عورت اس کی بیوی ہوگی یہ اگر ان میں سے ایک مرگیا تو نکاح معتہ کی صورت میں ہے وہ ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے۔ (78) ابن المنذر و طبرانی والبیہقی نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس سے کہا آپ نے کیا کہا۔ سو قافلے آپ کے فتوی کو لئے پھرتے ہیں اور اس میں شعراء نے شعر کہے ہیں پوچھا اور شعراء نے کیا کہا میں نے کہا انہوں نے یوں کہا۔ اقول للشیخ لما طال مجلسہ یا صاح ھل لک فی فتیا ابن عباس ھل لک فی رخصہ الاطراف انسۃ تکون مثواک حتی مصدر الناس ترجمہ 1: میں کہتا ہوں شیخ کو جب اس کی مجلس دراز ہوگئی اے صاحب کیا تو تجھے ابن عباس کے فتوی میں دلچسپی ہے۔ ترجمہ 2: کیا تجھے تیری نظر میں انس کرنے والی عورت ہے جو لوگوں کے واپس آنے تک تیرا ٹھکانہ بنی رہے۔ ابن عباس نے فرمایا ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ اللہ کی قسم میں نے یہ فتویٰ نہیں دیا اور نہ میں اس کا ارادہ کیا ہے اور میں نے اجازت نہیں دی تھی مگر مجبور آدمی کے لئے اور میں نے اس میں حلال نہیں کیا مگر جو حلال کیا اللہ تعالیٰ نے مردار سے خون سے اور سور کے گوشت میں سے (کہ وہ مجبوری کی حالت میں کھا سکتے ہیں) ۔ (79) عبد الرزاق وابن المنذر نے عطاء کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے عمر پر رحم فرمایا متعہ نہیں ہے مگر رحمت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے امت محمد ﷺ پر رحم فرمایا اور اگر اس سے منع نہ کیا جاتا تو نہ محتاج ہوتا زنا کی کی طرف مگر بدبخت پھر فرمایا اور یہ سورة نساء میں ہے لفظ آیت ” فما استمتعتم بہ منہن “ یعنی اتنی مدت کے لئے اور یہ معاوضہ ہوگا جبکہ ان کے درمیان کوئی وراثت نہیں ہوگی اگر مدت مقرر کے بعد بھی آپس میں راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے اور اگر (اس مدت کے بعد) آپس میں جدا ہوجائیں تو یہ بھی ٹھیک ہے اور ان کے درمیان کوئی نکاح نہیں اور انہوں نے یہ خبر بھی دی کہ انہوں نے ابن عباس کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ اس (متعہ) کو اب بھی حلال خیال کرتے ہیں۔ (80) ابن المنذر نے عمار (رح) سے روایت کیا جو شرید کے غلام تھا کہ میں نے ابن عباس سے متعہ کے بارے میں پوچھا کیا یہ بدکاری ہے یا نکاح ؟ تو انہوں نے کہا یہ بدکاری ہے نہ یہ نکاح ہے میں نے کہا تو یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ متعہ ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ میں نے پوچھا کیا عورت پر عدت ہوگی ؟ فرمایا ہاں اس کی عدت حیض ہوگی میں نے پوچھا کیا دونوں وارث ہوں گے ؟ فرمایا نہیں۔ (81) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاتوہن اجورہن فریضۃ “ سے مراد ہے کہ جس پر تم آپس میں راضی ہوجاؤ تھوڑا ہو یا زیادہ ہو۔ (82) ابن جریر نے حضرمی (رح) سے روایت کیا کہ ممکن ہے لوگ مہر کو مقرر کرتے ہوں پھر اگر ان میں سے کوئی تنگ دستی کو پا لیتا ہو آپس میں جتنے مال پر راضی ہوجاؤ تو تم پر کوئی گناہ نہیں) ۔ (83) ابن جریر ابن المنذر وابن ابی حاتم اور نحاس نے اپنی ناسخ میں علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا جناح علیکم فیما ترضیتم بہ من بعد الفریضۃ “ میں تراضی کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مکمل مہر دے پھر اس عورت کو اختیار دے (جو وہ چاہے کرے) ۔ (84) ابو داؤد نے اپنی ناسخ میں ابن شہاب (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت نکاح کے بارے میں نازل ہوئی جب مہر مقرر کردیا پھر تم دونوں پر کوئی گناہ نہیں جس پر تم دونوں راضی ہوجاؤ مقرر کرنے کے بعد (یہ بھی) پورا کرنا ہے اس کے مہر کو تھوڑا ہو یا زیادہ۔ (85) ابو داؤد نے اپنی ناسخ میں وابن ابی حاتم نے ربیعہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اگر مہر مقر کرنے وہ اپنے خاوند کو مکمل مہر دے دے یا وہ عورت اس کی طرف کچھ کم کر دے اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو فرمایا۔ (86) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اگر عورت تیرے لئے اس مہر میں سے کچھ کم کر دے تو یہ جائز ہے۔ (87) سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا اگر چاہے تو اس کو (یعنی بیوی کو) راضی کرلے بعد اس کے کہ اس نے پہلے معاوضہ مقرر کیا تھا جس کے ساتھ اس نے اس عورت سے نفع اٹھایا تھا اور کہا کہ میں تم سے فلاں فلاں چیز کے بدلے میں نفع اٹھاتا ہوں وہ اس کے رحم کا استبراء کرے (واللہ اعلم ) ۔
Top