Dure-Mansoor - An-Nisaa : 43
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا١ؕ وَ اِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْكُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَ اَیْدِیْكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَقْرَبُوا : نہ نزدیک جاؤ الصَّلٰوةَ : نماز وَاَنْتُمْ : جبکہ تم سُكٰرٰى : نشہ حَتّٰى : یہاں تک کہ تَعْلَمُوْا : سمجھنے لگو مَا : جو تَقُوْلُوْنَ : تم کہتے ہو وَلَا : اور نہ جُنُبًا : غسل کی حالت میں اِلَّا : سوائے عَابِرِيْ سَبِيْلٍ : حالتِ سفر حَتّٰى : یہاں تک کہ تَغْتَسِلُوْا : تم غسل کرلو وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو مَّرْضٰٓى : مریض اَوْ : یا عَلٰي : پر۔ میں سَفَرٍ : سفر اَوْ جَآءَ : یا آئے اَحَدٌ : کوئی مِّنْكُمْ : تم میں مِّنَ : سے الْغَآئِطِ : جائے حاجت اَوْ : یا لٰمَسْتُمُ : تم پاس گئے النِّسَآءَ : عورتیں فَلَمْ تَجِدُوْا : پھر تم نے نہ پایا مَآءً : پانی فَتَيَمَّمُوْا : تو تیمم کرو صَعِيْدًا : مٹی طَيِّبًا : پاک فَامْسَحُوْا : مسح کرلو بِوُجُوْهِكُمْ : اپنے منہ وَاَيْدِيْكُمْ : اور اپنے ہاتھ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَفُوًّا : معاف کرنیوالا غَفُوْرًا : بخشنے والا
اے ایمان والو ! اس حال میں کہ تم نشہ میں ہو نماز کے پاس نہ جاؤ یہاں تک کہ تم جان لو کہ کیا کہہ رہے ہو، اور نہ اس حالت میں نماز کے پاس جاؤ جبکہ تم پر غسل فرض ہو، مگر یہ کہ راستہ گذرنے والے ہو یہاں تک کہ تم غسل کرلو۔ اگر تم مریض ہو یا تم میں سے کوئی شخص قضائے حاجت کی جگہ سے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو پھر پانی نہ پاؤ تو ارادہ کرو پاک مٹی کا، سو مسح کرلو اپنے چہروں کا اور ہاتھوں کا بیشک اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا مغفرت فرمانے والا ہے
نماز کے لئے طہارت ضروری ہے (1) عبد بن حمید وابو داؤد والترمذی نے (اس کو حسن کہا) والنسائی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والنحاس اور حاکم نے (اس کو صحیح کہا) اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ ہمارے لئے عبد الرحمن بن عوف ؓ نے کھانا تیار کیا ہم کو دعوت دی اور شراب بھی پلائی ہم کو نشہ ہوگیا نماز کا وقت ہوگیا تو مجھے آگے کھڑا کردیا میں نے لفظ آیت ” قل یا ایھا الذین لا اعبدو ما تعبدون ونحن نعبد ما تعبدون “ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ” یایھا الذین امنو لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری حتی تعلموا ما تقولون “۔ (2) ابن جریر وابن المنذر نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ وہ اور عبد الرحمن اور ایک اور آدمی تھا جنہوں نے شراب پی اور عبد الرحمن نے ان کو نماز پڑھائی اور لفظ آیت ” قل یایھا الکفرون “ پڑھا اس میں خلط ملط کردیا (تو یہ آیت) نازل ہوئی ” لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “۔ (3) ابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت کہ یہ آیت ابو بکر، عمر، علی، عبد الرحمن بن عوف سعد کے بارے میں نازل ہوئی حضرت علی ؓ نے ان کے لئے کھانا اور شراب تیار کی تو ان لوگوں نے کھایا اور شراب بھی لی۔ پھر حضرت علی نے ان کو نماز پڑھائی اور اس میں لفظ آیت ” قل یایھا الکفرون “ پڑھی یہاں تک کہ اس کو ختم فرمایا اور (یوں کہا) ” لیس لی دین ولیس لکم دین “ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “۔ (4) عبد بن حمید و ابوداؤد والنسائی والنحاس والبیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “ اس کو ” انما الخمر والمیسر “ کی آیت نے منسوخ کردیا۔ (5) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ شراب کے حرام ہونے سے پہلے یہ حکم تھا۔ (6) عبد بن حمید وابن جریر نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا گیا کہ وہ نشہ کی حالت میں نماز پڑھیں پھر اس کو تحریم الخمر (والی آیت) نے منسوخ کردیا۔ (7) عبد بن حمید وابن ابی حاتم والنحاس نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “ (کے حکم کو) اس آیت ” یایھا الذین امنوا اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوہکم وایدیکم “ نے منسوخ کردیا۔ (8) ابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “ (کے حکم کو) اس آیت ” اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلو وجوھکم وایدیکم “ نے منسوخ کردیا۔ (9) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر رحمۃ اللہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “ سے مراد ہے نماز کے قریب نہ جاؤ جب تم نشہ کی حالت میں ہو ” حتی تعلموا ما تقولون “ یعنی جو کچھ تم اپنی نماز میں پڑھتے ہو (اس کو جان لو کہ تم کیا پڑھ رہے ہو) ۔ (10) الفریابی وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے شراب مراد نہیں ہے بلکہ اس سے نیند کی بےہوشی مراد ہے۔ (11) عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وانتم سکری “ سے اونگھ مراد ہے۔ (12) بخاری نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو اونگھ آنے لگے اور نماز پڑھ رہا ہو تو اس کو چاہئے کہ نماز چھوڑ دے اور نیند کرلے یہاں تک کہ وہ جان لے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ (13) الفریابی وابن ابی شیبہ نے مصنف میں وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے اپنی سنن میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا جنبا الا عابری سبیل “ یہ آیت مسافر کے بارے میں نازل ہوئی جس کو جنابت پہنچ گئی تو وہ تیمم کرلے اور نماز پڑھ لے اور دوسرے لفظ میں فرمایا نماز کے قریب نہ جائے مگر یہ کہ وہ مسافر ہو اور اس کو جنابت پہنچ گئی ہو پانی نہ پائے تو تیمم کرلے اور نماز پڑھ لے یہاں تک کہ پانی کو پالے۔ پانی پر قدرت نہ ہو تو تیمم کرنا ضروری ہے (14) عبد بن حمید وابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا جنبا الا عابری سبیل “ سے مراد ہے کہ نماز کے قریب نہ جاؤ اس حال میں کہ تم جنبی ہو جب تم پانی کو پالو اور جب پانی کو نہ پاؤ تو تمہارے لئے حلال ہے کہ تم مٹی سے تیمم کرلو۔ (15) عبد الرزاق وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید ابن جریر وابن المنذر والطبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا جنبا الا عابری سبیل “ سے مراد ہے کہ وہ مسافر ہے جس کو پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھ لے۔ (16) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جنبی اور حائضہ مسجد میں سے نہ گزرے یہ آیت ” ولا جنبا الا عابری سبیل “ مسافر کے لئے ہے وہ تیمم کر کے نماز پڑھ لے۔ (17) عبد الرزاق نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا جنبا الا عابری سبیل “ سے مراد وہ مسافرین ہیں جن کو پانی نہ ملے۔ (18) الحسن بن سفیان نے (اپنی سند میں) والقاضی اسماعیل نے الاحکام میں والطحاوی نے مشکل الآثار میں والباوردی نے الصحابہ میں والدار قطنی والطبرانی وابو نعیم نے المعرفہ میں وابن مردویہ و بیہقی نے اپنی سنن میں والضیاء المقدسی نے المختارہ میں اسلع بن شریک ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی ﷺ کی اونٹنی تیار کرتا تھا مجھے ایک ٹھنڈی رات میں جنابت پہنچ گئی (یعنی ناپاک ہوگیا) رسول اللہ ﷺ نے روانہ ہونے کا ارادہ فرمایا میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ میں جنبی حالت میں سواری کو تیار کروں اور میں اس بات سے بھی ڈرا کہ اگر میں نے ٹھنڈے پانی سے غسل کیا تو میں مرجاؤں گا یا بیمار ہوجاؤں گا تو میں نے انصار میں سے ایک آدمی کو کہا تو اس نے آپ کی اونٹنی کو تیار کیا پھر میں نے پتھروں کو گرم کیا اور اس کے ذریعہ پانی کو گرم کیا تو پانی گرم ہوگیا۔ اور اس پانی سے میں نے غسل کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی۔ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری حتی تعلموا ما تقولون ولا جنبا الا عابری سبیل “ تک۔ (19) ابن سعید وعبد بن حمید وابن جریر والطبرانی نے اپنی سنن میں (وجہ آخر سے) اسلع ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت کرتا تھا اور آپ کی سواری کو تیار کیا کرتا تھا ایک رات آپ نے مجھ سے فرمایا اے اسلع ! کھڑے ہوجاؤ اور میرے لئے سواری کو تیار کرو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے جنابت پہنچ گئی آپ کچھ دیر خاموش رہے یہاں تک کہ جبرئیل (علیہ السلام) تیمم والی آیت لے آئے آپ ﷺ نے فرمایا کھڑا ہوجا اے اسلع اور تیمم کرلے پھر مجھ کو دکھایا اسلع نے کہ کس طرح اس کو رسول اللہ ﷺ نے تیمم کرنا سیکھایا تھا فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو زمین پر مارا اور اپنے چہرے کو مسح کیا پھر ہاتھ زمین پر مارے اور ان میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ پکڑا پھر ان دونوں کو پھونکا اور اپنے بازؤں کے اندرونی اور بیرونی حصوں پر مسح کیا۔ (20) ابن ابی حاتم نے عطاء الخراسانی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا تقربوا الصلوۃ “ سے مراد ہے کہ مسجدوں کے قریب نہ جاؤ۔ (21) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم و بیہقی نے اپنی سنن میں عطاء بن یسار کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا جنبا الا عابری سبیل “ کے بارے میں روایت کیا کہ کچھ انصار کے دروازے مسجد میں (کھلتے تھے) ان کو جنابت پہنچ جاتی اور پانی ان کے پاس نہ ہوتا وہ پانی لانے کا ارادہ کرتے تھے مگر گزرنے کا راستہ نہیں پاتے تھے سوائے مسجد میں سے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (23) ابن جریر (رح) نے ابن مسعود ؓ سے لفظ آیت ” ولا جنبا الا عابری سبیل “ کے بارے میں روایت کیا اس سے مراد مسجد میں سے گزرنا ہے کہ وہ مسجد سے گزر سکتا ہے۔ (24) ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کسی حائضہ عورت اور جنبی کے لئے مسجد میں سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں جب تک اس میں نہ بیٹھیں۔ (25) ابن ابی شیبہ نے ابو عبیدہ ؓ سے روایت کیا کہ جنبی آدمی مسجد میں سے گزرے گا لیکن اس میں نہیں بیٹھے گا پھر (یہ آیت) پڑھی ” ولا جنبا الا عابری سبیل “۔ (26) ابن ابی شیبہ نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا جنبا الا عابری سبیل “ سے مراد ہے کہ جنبی آدمی مسجد میں سے گزر سکتا ہے۔ (27) عبد الرزاق والبیہقی نے اپنی سنن میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جنبی آدمی کو یہ رخصت دی گئی ہے کہ وہ مسجد میں سے گزر جائے اور فرمایا لفظ آیت ” ولا جنبا الا عابری سبیل “۔ (28) بیہقی نے انس ؓ سے لفظ آیت ” ولا جنبا الا عابری سبیل “ کے بارے میں روایت کیا کہ گزر جائے اور نہ بیٹھے۔ (29) سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وابن جریر والبیہقی نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ ہم میں سے کوئی مسجد میں گزر جاتا ہے اس حال میں کہ وہ جنبی ہوتا تھا۔ (30) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کہ لفظ آیت ” وان کنتم مرضی “ (یہ آیت) انصار میں سے ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی وہ بیمار تھا اور کھڑا نہیں ہوسکتا تھا وہ وضو نہیں کرتا لیکن ہم میں سے کوئی اس کا خادم نہیں تھا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور یہ بات آپ کو بتائی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (31) ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” وان کنتم مرضی “ یہاں مریض سے مراد چیچک کا مریض ہے یا وہ آدمی جس کا زخم یا پھوڑا ہو کہ وہ جنبی ہوجائے اور غسل کرنے سے موت کا ڈر ہو تو تیمم کرلے۔ بیمار کے لئے تیمم جائز ہے (32) الحاکم اور بیہقی نے المعرفہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان کنتم مرضی “ سے مراد ہے کہ اگر ایک آدمی اللہ کے راستے میں زخمی ہوجائے یا پھوڑا نکل آئے یا چیچک کا مرض ہو اور وہ جنبی ہوجائے غسل کرنے سے موت کا ڈر ہو تو تیمم کرلے۔ (33) عبد الرزاق نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان کنتم مرضی “ (کا حکم) مریض کے لئے ہے اگر اس کو جنابت پہنچ جائے۔ اور غسل سے موت کا خوف ہو تو اس کو تیمم کی اجازت ہے جیسے مسافر جب اس کو پانی نہ ملے (تو تیمم کرلے) ۔ (34) عبد الرزاق نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ مریض چیچک کے مرض میں مبتلا ہو اور اس طرح کے دوسرے مریض کے لئے رخصت ہے کہ وہ وضو نہ کرے (تیمم کرلیں) اور (یہ آیت) ” وان کنتم مرضی او علی سفر “ تلاوت فرمائی پھر فرمایا یہ قرآن حکیم کا مخفی معنی ہے۔ (35) ابن جریر نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کو زخم آئے پھر وہ پھیل گئے پھر ان کو جنابت لاحق ہوئی تو انہوں نے نبی ﷺ کو اس بات کی شکایت کی تو (یہ آیت ) ” وان کنتم مرضی۔۔ الخ “ نازل ہوئی۔ (36) ابن جریر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان کنتم مرضی “ (اس آیت میں) اس مریض کو تیمم کی رخصت دی گئی ہے جس کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو یا زخمی ہوگیا ہو جب اسے جنابت پہنچ جائے تو وہ زخم کو نہ کھولے مگر جس کے بارے میں کوئی خوف ہو۔ (37) ابن ابی شیبہ نے سعید بن جبیر اور مجاہد رحمۃ اللہ علیہما دونوں سے روایت کیا کہ وہ مریض جس کو جنابت پہنچ گئی ہو اور اس کو اپنی جان پر خوف ہو وہ اس مسافر کی طرح ہے جس کو پانی نہ ملے تو وہ تیمم کرلے۔ (38) ابن جریر (رح) نے ابن زید (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ایسا مریض کہ جس کو کوئی آدمی پانی لانے والا نہ ملے اور وہ خود اس پر قادر نہ ہو اور اس کا کوئی خادم یا دمدد گار بھی نہ ہو تو وہ تیمم کرلے اور نماز پڑھ لے۔ (39) ابن جریر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اوجاء احد منکم من الغائط “ میں الغائط سے مراد وادی ہے۔ (40) عبد الرزاق و سعید بن منصور ومسدد وابن ابی شیبہ نے اپنی مسند میں وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم والطبرانی والحاکم و بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اولمستم النساء “ سے مراد چھونا ہے سوائے جماع کے اور اسی سے بوسہ بھی لینا ہے اور اس میں وضو ہے۔ (41) طبرانی نے ابن مسعود ؓ سے اس آیت ” اولمستم النساء “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ اس میں ملامسہ سے مراد ہے ہاتھ سے ٹٹولنا۔ (42) ابن ابی شیبہ وابن جریر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ عورت کے بوسہ سے وضو کرتے تھے اور فرماتے تھے یہ چھوتا ہے۔ (43) الشافعی نے الام میں، عبد الرزاق وابن المنذر والبیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ مرد کو اپنی بیوی کا بوسہ لینا اور اس کو ہاتھ لگانا یہ چھونے میں سے ہے کوئی آدمی اپنی بیوی کا بوسہ لے یا ہاتھ لگائے تو اس پر وضو ہے۔ (44) الحاکم والبیہقی نے عمر ؓ سے روایت کیا کہ بوسہ لینا چھونے میں سے ہے اس لئے اس سے وضو کرے۔ (45) ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ ” لمس “ سے جماع مراد ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سے کنایہ فرمایا۔ (46) سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” او لمستم النساء “ سے جماع مراد ہے۔ (47) عبد الرزاق و سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ہم ابن عباس ؓ کے حجرہ میں تھے اور ہمارے ساتھ عطا بن ابی رباح اور عجمیوں کی ایک جماعت اور عبید بن عمیر اور ایک جماعت عرب میں سے تھی ہم نے آپ میں لماس یعنی (چھونے کا) تذکرہ کیا میں نے اور عطا کو عجمیوں نے کہا کہ لمس بالید یعنی ہاتھ کے ساتھ چھونا مراد ہے (اس سے جماع مراد نہیں) لیکن عبید اللہ بن عمر اور عرب کے لوگوں نے کہا اس سے جماع مراد ہے۔ میں ابن عباس ؓ کے پاس گیا اور ان کو یہ بات بتائی انہوں نے فرمایا موالی (یعنی عجمی مغلوب ہوگئے اور عربوں نے صحیح کہا) پھر فرمایا المس مس اور مباشرہ کی معنی جماع ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کنایہ سے بیان کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ (48) الطستی (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے نافع بن ازرق (رح) نے پوچھا کہ آپ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” او لمستم النساء “ کے بارے میں بتائیے پھر فرمایا ” او جا معتتم النساء “ یعنی یا تو عورتوں سے جماع کرو اور ہذل کہتا ہے لمس بالید (یعنی ہاتھ سے چھونا) مراد ہے انہوں نے پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے لبید بن ربیعہ کا قول نہیں سنا جیسے وہ کہتا ہے۔ یلمس الاخلاس فی منزلہ بیدیہ کالیہودی المصل ترجمہ : وہ اپنے ہاتھوں کے ساتھ گھر میں کملی سے جماع کرتا ہے جیسے یہودی نماز پڑھنے والا۔ ورادعۃ صفراء بالطیب عندنا للمس الندامی من ید الدزر مفتق ترجمہ : وہ ہمارے وہاں اپنے زیورات کو خوشبو لگاتی ہے تاکہ مجلس شراب میں شریک لوگوں کو اپنی قیمض کے ہاتھ سے چھوئے جس پر خوشبو لگی ہے۔ (49) سعید بن منصور نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے لفظ آیت ” اولمستم النساء “ یعنی جماع سے کم عمل۔ (50) سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وابن جریر نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عبیدہ سے لفظ آیت ” اولمستم النساء “ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا اور اپنی انگلیوں کو ملایا گویا کہ وہ کسی چیز کو لے رہے ہیں اور اس کو پکڑ رہے ہیں۔ محمد (رح) نے فرمایا کہ مجھے ابن عمر کی طرف سے یہ خبر دی جب وہ اپنی شرم گاہ کو چھوتے تھے تو وضو فرماتے تھے تو میں نے گمان کیا کہ ابن عمر اور عبیدہ کا قول ایک ہی چیز ہے۔ (51) ابن ابی شیبہ نے ابو عثمان (رح) سے روایت کیا کہ لمس بالید یعنی ہاتھ سے چھونا مراد ہے۔ (52) ابن ابی شیبہ نے ابو عبیدہ (رح) سے روایت کیا کہ ملامسہ سے مراد ہے جماع سے کم فعل۔ (53) ابن ابی شیبہ نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ الملامسہ سے مراد ہے جماع سے کم کوئی فعل۔ (54) ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ الملامسہ سے مراد ہے جماع۔ (55) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے سفیان ؓ سے لفظ آیت ” فتیمموا صعیدا طیبا “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد کہ وہ پاک مٹی کا ارادہ کریں۔ (56) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” صعیدا “ سے مراد وہ مٹی ہے جس میں درخت اور سبزہ نہ ہو۔ (57) ابن جریر نے عمرو بن قیس الملالی (رح) سے روایت کیا کہ صعید سے مٹی مراد ہے۔ (58) ابن ابی حاتم نے سعید بن بشیر (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ طیب سے مراد وہ مٹی ہے جس پر بارشیں آئیں اور اس کو پاک کردیں۔ (59) ابن ابی حاتم نے سفیان بن عینیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” صعیدا طیبا “ سے مراد ہے کہ وہ تمہارے لئے حلال ہے۔ (60) سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم اور بیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سب سے عمدہ زمین کھیتی باڑی والی زمین ہے۔ (61) سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے حماد (رح) سے روایت کیا کہ ہر چیز کہ جس پر تو اپنا ہاتھ رکھ دے وہ صعید ہے یہاں تک کہ تیرے بدن پر جو غبار ہے تو اس سے تیمم کرلے۔ (62) الشیرازی نے الکتاب میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کون سی زمین سب سے زیادہ پاکیزہ ہے ؟ آپ نے فرمایا کھیتی والی زمین۔ (63) ابن ابی شیبہ نے مصنف میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ جب تیمم کی آیت نازل ہوئی میں نہیں جانتا تھا کہ کیسے کروں میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو نہ پایا میں آپ کو ڈھونڈنے کے لئے چل پڑا آپ میرے سامنے آگئے جب آپ نے مجھے دیکھا تو مجھے پہچان لیا جس ارادہ سے میں آپ کے پاس آیا تھا آپ نے قضائے حاجت کی پھر دونوں ہاتھ زمین پر مارے اور ان دونوں کو اپنے چہرہ مبارک اور ہتھیلیوں پر پھیرلیا۔ (64) ابن عدی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ جب تیمم کی آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا اور ان دونوں کے ساتھ اپنے چہرے پر مسح کیا پھر دوسری دفعہ ہاتھوں کو زمین پر مارا اور اپنے ہتھیلیوں پر مسح کرلیا۔ (65) ابن ابی شیبہ و بخاری ومسلم وابو داؤد والترمذی و نسائی ابن ماجہ نے عمار بن یاسر ؓ سے روایت کیا کہ میں سفر میں تھا اور جنبی ہوگیا پھر زمین پر لوٹ پوٹ ہوا اور نماز پڑھ لی پھر میں نے اس چیز کا نبی ﷺ سے کہا تو آپ نے فرمایا تجھ کو اتنا ہی کرنا کافی تھا پھر آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا اور ان کے ساتھ اپنے چہرہ اور اپنی ہتھیلیوں پر مسح کیا۔ (66) الطبرانی والحاکم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا تیمم میں دو ضربیں ہوتی ہیں ایک ضرب چہرہ کے لئے اور ایک ضرب ہاتھوں سے لے کر کہنیوں تک۔ تیمم کا مسنون طریقہ (67) الحاکم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تیمم کیا تو ہم نے اپنے ہاتھوں کو پاک مٹی پر مارا پھر ہم نے اپنے ہاتھوں کو جھاڑا اور ان کے ساتھ اپنے چہروں کا مسح کیا پھر ہم نے دوسری ضرب لگائی اور ہم نے اپنے ہاتھوں کو جھاڑا اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سے ہتھیلیوں تک جہاں بال ہوتے ہیں ان کے ظاہر اور باطن پر مسح کیا۔ (68) ابن جریر نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ عمار نے تیمم کیا اور انہوں نے اپنے چہرے اور اپنے ہاتھوں پر مسح کیا اور بازؤں پر مسح نہیں کیا۔ (69) مکحول (رح) سے روایت کیا کہ تیمم یہ ہے کہ ایک ضرب چہرہ کے لئے اور ہتھیلیوں کے لئے کلائی تک کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وضو میں فرمایا لفظ آیت ” وایدیکم الی المرافق “ (المائدہ آیت 6) اور تیمم میں فرمایا ” ایدیکم “ اور اس میں استثناء نہیں کیا جیسا کہ وضو میں کہنیوں تک استثناء کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیہما “ (المائدہ آیت 38) اس لئے چور کا ہاتھ کلائی کے جوڑ سے کاٹا جاتا ہے۔ (70) ابن جریر نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ تیمم بغلون تک ہے۔ (71) ابن جریر والبیہقی نے اپنی سنن میں عمار بن یاسر ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے حضرت عائشہ ؓ کا ہار گم ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ رکے رہے یہاں تک کہ صبح روشن ہوگئی۔ ابو بکر، عائشہ ؓ پر غصہ ہوئے تو اس پر مٹی کے ساتھ مسح کرنے کی رخصت نازل ہوئی ابوبکر ان کے پاس آئے اور فرمایا اے عائشہ تو بڑی بابرکت ہے تیری وجہ سے رخصت کا حکم نازل ہوا پس ہم نے اپنے ہاتھوں پر مٹی ایک ضرب لگائی اپنے چہروں کے لئے اور دوسری ضرب لگائی ہمارے ہاتھوں کے لئے کندھوں اور بغلوں تک۔ شافعی نے فرمایا یہ حکم منسوخ ہے کیونکہ پہلا تیمم وہ تھا جب تیمم کی آیت نازل ہوئی تھی اس کے بعد جو تیمم ہوا اس کے خلاف ہوا وہ پہلے کے لئے ناسخ ہے۔ (72) ابن ابی شیبہ واحمد وحاکم والبیہقی نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ غنیمت کے جانور جمع ہوگئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابوذر ان کو جنگل میں لے جاؤ میں ان کو اندر لے گیا اور مجھے جنابت پہنچ گئی میں پانچ اور چھ دن رہا پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور آپ نے فرمایا پاکیزہ مٹی مسلمان کا وضو ہے اگرچہ دس سال گزر جائیں جب پانی پالے تو اپنی جلد کو دھو ڈالے (یعنی غسل کرلے) ۔ (73) ابن ابی شیبہ ومسلم نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمارے لئے مٹی کو پاک بنا دیا گیا جب ہم پانی کو نہ پائیں۔ (74) ابن ابی شیبہ ومسلم نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمارے لئے مٹی کو پاک بنا دیا گیا جب ہم پانی کو نہ پائیں۔ (75) ابن ابی شیبہ نے ابو عثمان نہدی (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا اس زمین کے ساتھ مسح کرتے رہو کیونکہ یہ زمین تمہارے ساتھ نیکی کرنے والی ہے۔ (76) الطبرانی والبیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سنت میں سے یہ ہے کہ آدمی تیمم سے صرف ایک نماز پڑھے۔ پھر دوسری کے لئے (دوسرا) تیمم کرے۔ (77) ابن ابی شیبہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ ہر نماز کے لئے تیمم کیا جائے گا۔ (78) ابن ابی شیبہ نے عمرو بن عاص ؓ سے نقل فرمایا ہر نماز کے لئے تیمم کیا جائے گا۔
Top