Dure-Mansoor - Al-Ankaboot : 13
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَةَ وَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَؕ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوْا : دیا گیا نَصِيْبًا : ایک حصہ مِّنَ : سے الْكِتٰبِ : کتاب يَشْتَرُوْنَ : مول لیتے ہیں الضَّلٰلَةَ : گمراہی وَيُرِيْدُوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ تَضِلُّوا : بھٹک جاؤ السَّبِيْلَ : راستہ
کیا تو نے ان لوگوں کو دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا وہ گمراہی کو خریدتے ہیں اور یہ ارادہ کرتے ہیں کہ تم راہ سے بھٹک جاؤ
(1) ابن اسحاق وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رفاعہ بن زید بن تابوت یہود کے بڑے لوگوں میں سے تھا جب وہ رسول اللہ ﷺ سے بات کرتا تو اپنی زبان کو مروڑ کر کہتا اے محمد ! ہمارے بات توجہ سے سنئے تاکہ ہم آپ کو بات سمجھائیں پھر وہ اسلام میں طعن کرتا اور عیب جوئی کرتا تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب یشترون الضللۃ “ سے لے کر ” فلا یؤمنون الا قلیلا “ تک۔ (2) ابن جریر وابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ (یہ آیت) ” الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب “ سے لے کر ” یحرفون الکلم عن مواضعہ “ تک زید بن تابوت یہودی کے بارے میں نازل ہوئی (واللہ اعلم ) ۔ (3) ابن ابی حاتم نے وھیب بن ورد (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابن آدم ! مجھ کو یاد کر جب تو غصہ میں ہو میں تجھ کو یاد کروں گا جب میں غصہ میں ہوں گا اور تجھ کو ہلاک نہیں کروں گا ان لوگوں کے ساتھ جن کو ہلاک کرتا ہوں اور جب تو ظلم کیا جائے تو صبر کر اور میری مدد کے ساتھ راضی ہوجاؤ بلاشبہ میری مدد تیرے لئے بہتر ہے تیری اپنی مدد سے جو تیری ذات کے لئے ہو۔ (4) ابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” یحرفون الکلم عن مواضعہ “ یعنی وہ تحریف کرتے ہیں اللہ کی حدود میں جو تورات میں ہے۔ (5) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” یحرفون الکلم عن مواضعہ “ یعنی یہودی تورات کو تبدیل کردیتے تھے لفظ آیت ” ویقولون سمعنا وعصینا “ یعنی انہوں نے کہا ہم نے سن لیا جو آپ کہتے ہیں اور ہم آپ کی اطاعت نہیں کریں گے لفظ آیت ” واسمع غیر مسمع “ یعنی غیر مقبول ہے جو تو کہتا ہے ” لیا بالسنتہم “ یعنی اس کے خلاف ان الفاظ کو اپنی زبان سے مروڑ کر کہتے تھے اور وہ یوں کہتے ” واسمع وانظرنا “ یعنی سنئے اور ہماری رعایت کیجئے آپ ہم کو بات سمجھائیں ہم پر جلدی نہ کیجئے۔ (6) ابن ابی حاتم نے ابن زبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یحرفون الکلم عن مواضعہ “ سے مراد ہے کہ جس معنی میں اللہ تعالیٰ نے اسے نازل فرمایا ہے وہ اس معنی میں اسے نہیں رکھتے۔ (7) ابن جریر وابن ابی حاتم والطبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واسمع غیر مسمع “ یعنی وہ کہتے تھے سنیے نہ سنا جائے اور راعنا یعنی وہ لوگ نبی ﷺ سے کہتے تھے ” راعنا سمعک “ ہمارے سماعت کی رعایت کیجئے (تاکہ) ہم آپ کو سن لیں اور ” راعنا “ سے مراد ہے جیسے آپ کا کہنا ” واطعنا “ ہم کو (کوئی چیز) عطا کیجئے۔ اور اللہ تعالیٰ کا قول ” لیا بالسنتہم “ سے مراد جھوٹ بولنا ہے۔ (8) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ان میں سے بعض لوگ کہتے تھے لفظ آیت ” واسمع غیر مسمع “ یعنی ہماری سنو نہ سنائے جاؤ جیسے تیرے کہنا اسمع غیر مستمع ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول ” لیا بالسنتہم “ یعنی ایسی کلام کے ساتھ (بات کرتے تھے) کہ اس سے مذاق کا شبہ ہوتا تھا ” وطعنا فی الدین “ یعنی محمد ﷺ کے دین میں طعن کرتے ہوئے۔ (9) عبد الرزاق وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے ان کا اپنی زبانوں سے حرکت دینا ہے۔
Top