Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 28
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْ١ۚ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا
وَاصْبِرْ : اور روکے رکھو نَفْسَكَ : اپنا نفس (اپنا آپ) مَعَ : ساتھ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ : وہ لوگ جو پکارتے ہیں رَبَّهُمْ : اپنا رب بِالْغَدٰوةِ : صبح وَالْعَشِيِّ : اور شام يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہتے ہیں وَجْهَهٗ : اس کا چہرہ (رضا) وَلَا تَعْدُ : نہ دوڑیں، نہ پھریں عَيْنٰكَ : تمہاری آنکھیں عَنْهُمْ : ان سے تُرِيْدُ : تم طلبگار ہوجاؤ زِيْنَةَ : آرائش الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَلَا تُطِعْ : اور کہا نہ مانو مَنْ : جو۔ جس اَغْفَلْنَا : ہم نے غافل کردیا قَلْبَهٗ : اس کا دل عَنْ : سے ذِكْرِنَا : اپنا ذکر وَاتَّبَعَ : اور پیچھے پڑگیا هَوٰىهُ : اپنی خواہش وَكَانَ : اور ہے اَمْرُهٗ : اس کا کام فُرُطًا : حد سے بڑھا ہوا
اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلبگار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو ؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو ، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریق کا افراط وتفریط پر مبنی ہے۔
درس نمبر 131 ایک نظر میں یہ سبق سب کا سب اسلامی نظریہ حیات کی قدروں کے تعین کے موضوع کے ساتھ منسلک ہے۔ اسلامی نظریہ حیات کی رو سے اعلیٰ قدریں صرف مال و دولت ، منصب و مرتبہ اور اقتدار و اختیارات ہی نہیں ہیں ، نیز اسلامی نظریہ حیات کی رو سے اعلیٰ قدریں صرف زندگی کا سازوسامان یا عیش و عشرت ہی نہیں ہیں۔ یہ تو سب کھوٹی اور زائل ہونے والی چیزیں ہیں۔ ان چیزوں سے جو حلال و طیب ہیں۔ اسلام ان کے خلاف نہیں ہے ، لیکن اسلام ان چیزوں کو انسانی زندگی کا مقصد اعلیٰ بھی قرار نہیں دیتا۔ اگر کوئی ان چیزوں سے زندگی میں فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تو وہ بیشک اٹھائے ، لیکن وہ اس ذات باری کا بھی شکریہ ادا کرے جس نے انسان کے لیے یہ نعمتیں پیدا کی ہیں اور یہ شکر عمل صالح کے ذریعہ ادا کرے۔ کیونکہ اعمال صالحہ اللہ کے ہاں باقی رہنے والے ہیں اور ان کے نتائج انسانوں کے لئے عقبیٰ میں اچھے ہیں۔ اس سبق کا آغاز حضرت نبی ﷺ کو اس ہدایت سے ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ان لوگوں کے ساتھ جم جائیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور جن لوگوں نے اللہ کو بھلا دیا ، ان کو بھلا دیں۔ اس کے بعد فریقین کو ایک مثال سے واضح کیا جاتا ہے کہ ایک شخص اپنے مال ، عزت اور سازوسامان پر اتراتا ہے اور دوسرا ایمان خالص پر فخر کرتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کہ اللہ کے ہاں جو اجر ہے وہ سب سے بہتر ہے۔ اس کے بعد حیات دنیا کی فنا اور زوال کو ایک تمثیل سے واضح کیا جاتا ہے جس طرح دنیا میں شادابی پیدا ہوتا ہے اور پھر یہ چیزیں بھس بن جاتی ہے اور ان کو ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور آخر میں یہ ثابت شدہ حقیقت بیان کی جاتی ہے۔ المال و البنون…املا (36:18) ” یہ مال اور یہ اولاد محض دنیاوی زندگی کی ایک ہنگامی آرائش ہے۔ اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انہی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں “۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ آیات اشراف قریش کے بارے میں نازل ہوئیں جن کا مطالبہ یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی مجلس سے غربائ، اہل ایمان مثلاً بلال ، عمار ، جناب اور ابن مسعود ؓ کو نکال دیں۔ حضور اکرم ﷺ کی خواہش تھی کہ اکابر قریش اگر ایمان لے آئیں تو اسلام کو ترقی نصیب ہوجائے۔ نیز آپ ﷺ یہ بھی خواہش رکھتے تھے کہ ان کے لئے عام مسلمانوں سے علیحدہ ایک مجلس کا انتظام کریں ، کیونکہ ان غرباء کے بدن پر ایسے جبے تھے جن سے پسینے کی بو آتی تھی اور گہرائے قریش کو یہ بات اذیت دیتی تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ ان کے ایمان کے معاملے میں دلچسپی رکھتے تھے ، اس لئے آپ نے دل میں اہل قریش کے اس مطالبے پر غور شروع کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ و اصبر نفسک مع الذین یدعون ربھم بالغدوۃ و العشی (27:18) ” اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلبگار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں “۔ یہ آیت نازل کرکے اللہ تعالیٰ نے ایک حقیقی قدر قائم کردی اور حق و باطل کی جدائی کے لئے ایک ایسا ترازو قائم کردیا جس میں کوئی غلطی نہیں ہو سکتی اور اس کے بعد پھر یہ اصول آتا ہے۔ فمن شاء فلیومن و من شذہ فیکفر (29:18) ” جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے “۔ اسلام کسی کی چاپلوسی نہیں کرتا اور نہ ہی وہ جاہلیت کے پیمانوں سے لوگوں کو ناپتا ہے ، نہ اسلام کسی بھی جاہلیت کے پیمانوں کو قبول کرتا ہے جو اسلام کے پیمانوں سے علیحدہ ہیں۔ و اصبر نفسک ” اپنے دل کو مطمئن کر دو “۔ نہ پریشان ہو اور نہ جلدی کرو۔ مع الذین یدعون ربھم بالغدوۃ و العشی یریدون وجھہ (28:18) ” ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے رب کی رضا کے طلبگار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں “۔ ان کا مطلوب اللہ ہوتا ہے وہ صبح و شام اللہ کی ہی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ اللہ سے منہ نہیں پھیرتے۔ صرف اس کی رضا مندی کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ اور یہ لوگ جس چیز کی تلاش میں ہیں وہ اس سے بہت زیادہ قیمتی ہے۔ جس کی تلاش میں یہ طالبان دینا ہوتے ہیں۔ ولاتعد عینک عنھم ترید زینۃ الحیوۃ الدنیا (28:18) ” اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو ، کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو “۔ یعنی آپ کی نظروں میں دنیا کی زیب وزینت کی اہمیت زیادہ نہ ہوجائے ، جس کا اہتمام ، یہ اہل دنیا بہت کرتے ہیں ، کیونکہ یہ تو دنیا کی زندگی کی زیب و زبیت ہے اور جو لوگ صبح و شام اللہ کی رضا مندی کی تلاش میں ہیں ان کی نظریں جس افق پر ہیں وہ بہت بلند ہے۔ ولا تطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا و اتبع ھوہ و کان امرہ فرطاً (28:18) ” کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو ، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا طریق کار افراط وتفریط پر مبنی ہے “۔ یعنی ان کا جو مطالبہ ہے کہ امرائے قریش اور ان کے درمیان امتیازی سلوک کرو ، اس معاملے میں ان کی پیروی نہ کرو ، اگر یہ لوگ اللہ کا ذکر کرتے تو ان کے کبرو غرور میں کچھ کمی آجاتی اور ان کے سر ذرا جھک جاتے۔ اس غلو میں وہ کمی کردیتے اور غرور کی جن بلند چوٹیوں پر وہ بیٹھے ہیں ان سے ذرا نیچے اتر آئے اور اللہ کی بزرگی اور بلندی کا شعور انہیں حاصل ہوتا۔ جس کے نتیجے میں ان کے نزدیک تمام انسان مساوی ہوجاتے ۔ یہ لوگ اسلامی اخوت کے رابطے کو سمجھ جاتے ، جس کے اندر تمام انسان بھائی بھائی ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں یعنی جاہلی خواہشات کی ۔ یہ بیوقوف ہیں ، ان کی خواہشات احمقانہ ہیں ، انہوں نے اللہ کو بھلا دیا ہے ، لہٰذا اس کا صلہ ان کو یہ ملنا چاہیے کہ ان کو بھی بھلا دیا جائے۔ اسلام کا یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے اللہ کے سامنے تمام انسانوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا۔ اللہ کے ہاں کسی کو مال ، نسب ، مرتبہ کے زاویہ سے کوئی فضیلت نہیں ہے ، کیونکہ یہ قدریں تو زائل ہونے والی کھوٹی قدریں ہیں۔ اللہ کے نزدیک درجات کی بلندی و پستی صرف اس لحاط سے ہے کہ اللہ کے ہاں مرتبہ کس کا بلند ہے اور اللہ کے ہاں درجات کی بلندی کی پیمائش اس طرح ہوتی ہے کہ کون اللہ کی طرف زیادہ متوجہ ہے ، کون کس قدر اللہ کی طرف خالص ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ ہوائے نفس ہے ، حماقت ہے اور باطل اور زوال پذیر ہے۔ ولاتطع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا (28:18) ” کسی ایسے شخص کی اطاعات نہ کرو ، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے “۔ اس کا دل غافل ہوا کہ وہ اپنی ذآت ، اپنے مال اور اپنی اولاد کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوگیا ، اس کی توجہات کا مرکز دنیا کا سازوسامان ، دنیا کی لذات اور خواہشات نفس بن گئے۔ اس کے دل میں اللہ کے لئے کوئی جگہ نہ رہی۔ یاد رہے کہ جو دل بھی ان مشاغل میں مشغول ہوجائیں اور ان کو اپنا مقصود اور مطلوب بنا لیں ، وہ ذکر الٰہی سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اللہ ان کی غفلت میں اور اضافہ کرتا ہے اور جس حال میں وہ ہوتے ہیں اس میں ان کو مہلت دیتا ہے۔ ان لوگوں کی زندگی ایسے ہی گزر جاتی ہے اور ایسے لوگوں کے لئے اللہ نے جو انجام تیار کیا ہوتا ہے ، اس تک وہ پہنچ جاتے ہیں۔ یہ لوگ خود اپنے اوپر بھی ظلم کرتے ہیں اور دوسروں کے اوپر بھی ظلم کرتے ہیں۔
Top