Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 199
ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
ثُمَّ : پھر اَفِيْضُوْا : تم لوٹو مِنْ حَيْثُ : سے۔ جہاں اَفَاضَ : لوٹیں النَّاسُ : لوگ وَاسْتَغْفِرُوا : اور مغفرت چاہو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
پھر جہاں سے سب لوگ پلٹتے ہیں ، وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو ، یقینا ً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ۔
حج مسلمانوں کا ایک عظیم سالانہ اجتماع ہے ۔ اس میں وہ باہم ملتے ہیں ، اسلام کے اس آسرے کے سوا کوئی آسرا نہیں ہوتا ، اسلامی نشانات کے سوا سب نشانات مٹ جاتے ہیں ۔ بدن پر غیر سلے دوکپڑے ، باقی ہر چیز سے عاری ۔ ضروری ستر کے علاوہ سرپاؤں ننگے ، فرد اور فرد کے درمیان کوئی جدائی نہیں ۔ قبیلے اور قبیلے کے درمیان کوئی اختیار نہیں ، قوم اور قوم کے درمیان کوئی جدائی نہیں ، اسلامی نظریہ حیات ہی سب کا عقیدہ ہے ، اسلامی نسب میں سب کا نسب ہے ۔ اسلامی رنگ ہی سب کا رنگ ہے ۔ قریش دور جاہلیت میں اپنے آپ کو ” حمس “ بہادر وغیور کرہتے تھے ۔ انہوں نے اپنے لئے ایسے امتیازات اختیار کئے ہوئے تھے جو انہیں تمام عربوں سے الگ کردیتے تھے ، ان امتیازات میں سے ایک یہ تھا کہ وہ عام عربوں کی طرح عرفات پر ” وقوف عرفہ “ پر ” وقوف “ نہ کیا کرتے تھے ۔ نہ وہ قیام (عرفات) سے لوٹتے تھے جہاں سے تمام لوگ واپس ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ احکام حج میں خصوصی طور پر ان کے لئے حکم نازل ہوا ، اور امتیاز ختم کرکے انہیں اس مساوات کے دائرے کے اندر لے آیا گیا ، جو اسلام پیدا کرنا چاہتا تھا ، چناچہ تمام مصنوعی امتیازات کو ختم کرکے ذی امتیاز قبیلہ قریش کو امت مسلمہ کے اندر ضم کردیا گیا ۔ حکم دیا گیا ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ” اور پھر جہاں سے سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے پلٹو ، اور اللہ سے معافی چاہو ، یقیناً وہ معاف کرنے والا ہے۔ “ امام بخاری نے ہشام ، اس کے باپ کے واسطہ سے حضرت عائشہ کی یہ حدیث روایت کی ہے۔ فرماتی ہیں !” قریش اور ان کے دین کے پیروکارنہ صرف وہاں رک جاتے تھے ۔ وہ اپنے آپ کو ” حمس “ کہتے تھے جبکہ تمام عرب اقوام عرفات میں ” وقوف “ کرتیں ۔ جب اسلام ظہور پذیر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ آپ عرفات پر جائیں اور وہاں وقوف فرمائیں اور پھر وہاں سے پلٹیں ۔ یہ ہے مراد اس آیت سے حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ ” جہاں سے لوگ پلٹیں ۔ “ جہاں اور لوگ ٹھہریں وہاں تم بھی ٹھہرو ، جہاں سے اور لوگ پلٹیں وہیں سے تم بھی پلٹو ، اسلام کی نظر میں انساب اور طبقات کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ تمام لوگ ایک ہی امت کے فرد ہیں ۔ بالکل برابر ، ہوں جس طرح کنگھی کے دندانے ۔ کسی کو کسی پر برتری نہیں ۔ سوائے تقویٰ اور خدا خوفی کے ۔ اسلام نے تو حکم دیا ہے کہ وہ عام طور پر رنگارنگ لباس پہنتے ہیں اسے اتار پھینکیں ۔ اللہ کے گھر میں بھائیوں کی طرح سادہ شکل اور عام حیثیت میں آئیں ۔ بھائی بھائی سے برابری کے ساتھ ملے ۔ جب رنگا رنگ کپڑے تک اتروالئے گئے تو قوم ونسب پر فخر کے کیا معنی ؟ چھوڑ دو ، چھوڑ دو جاہلیت کے تمام تعصبات کو ۔ یہ تو ناپاک ہیں ۔ اسلامی رنگ میں رنگ جاؤ۔ اللہ سے مغفرت کے طلب گار بنو۔ جو دوران حج تمہارے دلوں میں کھٹکے ۔ جن کا تم سے ارتکاب ہوگیا ۔ جو غصے میں تمہاری زبان پر آگئیں ۔ اگرچہ معمولی ہوں کیونکہ ان سے تمہیں روکا گیا تھا ، حکم تھا کسہ شہوانی فعل کو سوچو بھی مت۔ کسی بدفعلی ارتکاب نہ ہو اور کسی سے غصے کی بات نہ کرو۔ یوں اسلام ، دوران حج مسلمانوں کے سلوک اور طرز عمل کو درست کردیتا ہے ۔ ایک امت اور ایک ملت کی تصور پر ، جس میں کوئی طبقاتی امتیاز نہ ہو ۔ جس میں کسی قوم اور قوم کے درمیان کوئی فرق نہ ہو ، جس میں لسانی بنیادوں پر لوگوں کے درمیان امتیازات نہ ہوں ۔ جس میں وطن کی بنیاد پر قوم ، قوم سے جدا نہ ہوجاتی ہو ۔ غرض مسلمانوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ ہر چیز سے استغفار پڑھیں جو انہیں اس بلند اور پاکیزہ تصور زندگی سے دور پھینک دیتی ہو۔
Top