Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 23
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ١٘ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ١٘ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ١ۙ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ
حُرِّمَتْ : حرام کی گئیں عَلَيْكُمْ : تم پر اُمَّھٰتُكُمْ : تمہاری مائیں وَبَنٰتُكُمْ : اور تمہاری بیٹیاں وَاَخَوٰتُكُمْ : اور تمہاری بہنیں وَعَمّٰتُكُمْ : اور تمہاری پھوپھیاں وَخٰلٰتُكُمْ : اور تمہاری خالائیں وَبَنٰتُ الْاَخِ : اور بھتیجیاں وَبَنٰتُ : بیٹیاں الْاُخْتِ : بہن وَاُمَّھٰتُكُمُ : اور تمہاری مائیں الّٰتِيْٓ : وہ جنہوں نے اَرْضَعْنَكُمْ : تمہیں دودھ پلایا وَاَخَوٰتُكُمْ : اور تمہاری بہنیں مِّنَ : سے الرَّضَاعَةِ : دودھ شریک وَ : اور اُمَّھٰتُ نِسَآئِكُمْ : تمہاری عورتوں کی مائیں وَرَبَآئِبُكُمُ : اور تمہاری بیٹیاں الّٰتِيْ : جو کہ فِيْ حُجُوْرِكُمْ : تمہاری پرورش میں مِّنْ : سے نِّسَآئِكُمُ : تمہاری بیبیاں الّٰتِيْ : جن سے دَخَلْتُمْ : تم نے صحبت کی بِهِنَّ : ان سے فَاِنْ : پس اگر لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ : تم نے نہیں کی صحبت بِهِنَّ : ان سے فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر وَحَلَآئِلُ : اور بیویاں اَبْنَآئِكُمُ : تمہارے بیٹے الَّذِيْنَ : جو مِنْ : سے اَصْلَابِكُمْ : تمہاری پشت وَاَنْ : اور یہ کہ تَجْمَعُوْا : تم جمع کرو بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ : دو بہنوں کو اِلَّا مَا : مگر جو قَدْ سَلَفَ : پہلے گزر چکا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
” تم پر حرام کردی گئیں ہیں تمہاری مائیں ‘ بیٹیاں ‘ بہنیں ‘ پھوپھیاں ‘ خالائیں ‘ بھتجیاں ‘ بھنجیاں ‘ اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایاہو ‘ اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں ‘ اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پڑورش پائی ہو ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن وشو ہوچکا ہو ورنہ اگر تعلق زن وشو نہ ہوا تو تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔ اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے صلب سے ہوں اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو ‘ مگر جو پہلے ہوگیا سو ہوگیا ۔ اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
(آیت) ” حرمت علیکم امھتکم وبنتکم واخوتکم وعمتکم وخلتکم وبنت الاخ وبنت الاخت وامھتکم التی ارضعنکم واخوتکم من الرضاعة وامھت نسآئکم وربآئبکم التی فی حجورکم من نسآئکم التی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم وحلآئل ابنائکم الذین من اصلابکم وان تجمعوا بین الاختین الا ما قد سلف ، ان اللہ کان غفورا رحیما (32) والمحصنت من النسآء الا ملکت ایمانکم “۔ محرمات ‘ یعنی وہ عورتیں جن سے نکاح حرام ہے وہ تمام اقوام اومم میں معروف ہیں ۔ چاہے پسماندہ واقوام ہوں یا ترقی یافتہ اقوام ہوں ۔ تحریم کے اسباب اور تحریم کے درجات مختلف اقوام کے ہاں مختلف رہے ہیں ۔ قدیم پسماندہ اقوام کے اندر یہ دائرہ بہت ہی وسیع رہا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے اندر یہ سکڑتا رہا ہے ۔ اسلام میں آیت زیر بحث اور اس سے پہلی آیت میں محرمات کی تحدید کی گئی ہے ۔ بعض محرمات ابدی ہیں ۔ اور بعض وقتی ہیں ۔ بعض بہ سبب نسب ہیں ‘ بعض بوجہ رضاعت ہیں اور بعض بوجہ مصاہرت ہیں ۔ ان محرمات اور اسباب کے علاوہ اسلام نے تمام دوسری پابندیوں کو ختم کردیا ‘ جو دوسرے معاشروں کے اندر مروج تھیں ‘ مثلا وہ پابندیاں جو نسلی وجوہات کی بنا پر رائج تھیں ۔ قومی حد بندیوں کی وجہ سے رائج تھیں یا رنگ کی وجہ سے رائج تھیں یا وہ پابندیاں جو طبقاتی درجات کی وجہ سے رائج تھیں حالانکہ ان میں زوجین ایک نسل ‘ ایک وطن اور ایک علاقے کے باشندے ہوا کرتے تھے ۔ (1) (تفصیلات کے لئے دیکھئے ڈاکٹر عبدالواحد وافی کی کتاب ” خاندان اور معاشرہ “ ص 62 تا 65) قرابت داری کی وجہ سے اسلام میں چار قسم کی عورتیں حرام ہیں ۔ (1) کسی شخص کے اصول جس قدر اوپر چلتے جائیں ‘ مثلا ماں دادیاں ‘ نانی اور یہ سب ” امہات “ کے لفظ میں شامل ہیں ۔ (آیت) ” حرمت علیکم امھتکم ” تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں ۔ “ (2) دوسری قسم کسی شخص کے فروع ہیں جس قدر نیچے چلے جائیں ۔ مثلا بیٹیوں اور بیٹیوں کی اولاد سے نکاح حرام ہے اور یہ (آیت) ” وبنتکم “ میں داخل ہیں ۔ (3) ماں اور باپ کے فروع جس قدر نیچے چلتے جائیں ۔ بہن ‘ بھانجی ‘ بھتیجی اور ان کی اولاد یہ (آیت) ” اخواتکم بنات الاخ اور (آیت) ” بنات الاخت “ میں داخل ہیں ۔ (4) نانا دادا کی پھوپھیاں اور خالائیں بھی حرام ہوں گی وغیرہ یہ سب (آیت) ” عمتکم وخلتکم “۔ میں داخل ہیں۔ لیکن اجداد کی وہ اولاد جو براہ راست نہ ہو درمیان واسطہ آجائے تو وہ جائز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چچا زاد بہن ‘ خالہ زاد ‘ پھوپی زاد کے ساتھ نکاح جائز ہے اور ان کی اولاد کے ساتھ بھی ۔ مصاہرت کی بنا پر پانچ قسم کی عورتیں حرام ہیں۔ (1) بیوی کے اصول ‘ جہاں تک اوپر کی طرف چلتے جائیں ۔ چناچہ بیوی کی ماں ‘ بیوی کی دادی ‘ بیوی کی نانی ‘ جہاں تک اوپر چلے جائیں حرام ہیں ۔ اور یہ حرمت نکاح کرتے ہیں قائم ہوجاتی ہے ۔ چاہے دخول ہوا ہو یا نہیں ۔ اور یہ (آیت) ” وامھات نسآئکم “ میں داخل ہیں۔ (2) بیوی کی فروعات جس قدر بھی نیچے جائیں ۔ مثلا بیوی کی لڑکی حرام ہے ‘ اس کی اولاد حرام ہے ‘ مرد ہو یا عورت ۔ لیکن یہ حرمت اس وقت قائم ہوتی ہے جب بیوی کے ساتھ مباشرت ہوگئی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ (آیت) ” وربآئبکم التی فی حجورکم من نسآئکم التی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم “۔ ”‘ اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پڑورش پائی ہو ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن وشو ہوچکا ہو ورنہ اگر تعلق زن وشو نہ ہوا تو تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔ (3) باپ دادا اور نانا کی بیویاں ‘ جس قدر اوپر چلے جائیں ۔ چناچہ باپ کی بیوی ‘ دادا ‘ اور نانا کی بیوی سے نکاح حرام ہے ۔ (آیت) ” ولا تنکحوا ما نکح ابآء کم من النسآء الا ما قدسلف “ ” اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہیں ان سے نکاح نہ کرو ۔ مگر جو پہلے ہوچکا ۔ “ یعنی جاہلیت میں جو ہوچکا سو ہوچکا ‘ اس لئے کہ جاہلیت میں یہ جائز تھا ۔ (4) بیٹوں کی بیویاں اور پوتوں کی بیویاں جس قدر نیچے کو چلتے جائیں ۔ اس لئے ایک شخص کے لئے اپنے صلبی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے ۔ اسی طرح صلبی پوتے کی بیوی کے ساتھ نکاح حرام ہے ۔ اسی طرح لڑکی کے لڑکے کی بیوی کے ساتھ نکاح بھی حرام ہوگا ۔ جس قدر نیچے چلتے جائیں ۔ (آیت) ” وحلآئل ابنائکم الذین من اصلابکم “ ” اور ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے صلب سے ہوں “۔ اصلابکم کی شرط اس لئے عائد کی گئی ہے کہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کی بیوی بھی حرام سمجھی جاتی تھی ‘ اس لئے اس کو صلبی بیٹے پوتے کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ۔ اور حکم دیا گیا کہ منہ بولے بیٹوں کو ان کے والدین کی طرف نسبت دو ۔ ( سورة احزاب) (5) بیوی کی بہن بھی حرام ہے لیکن یہ تحریم وقتی ہے ۔ اگر بیوی زندہ ہو اور اس کے نکاح میں ہو ۔ حرام یہ ہے کہ بیک وقت دو بہنوں کو نکاح میں رکھا جائے ۔ (آیت) ” وان تجمعوا بین الاختین الا ما قد سلف ” اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو مگر جو پہلے ہوگیا سو ہوگیا ۔ “ اس پر مواخذہ نہ ہوگا ‘ اس لئے کہ نظام جاہلیت کے اندر وہ جائز تھا ۔ اسی طرح رضاعت کے ذریعہ بھی وہ تمام عورتیں حرام ہوجاتی ہیں جو نسب اور مصاہرت کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہیں اور یہ فہرست تو محرمات پر مشتمل ہے ۔ (1) دودھ پلانے والی ماں اور اس کی دادی نانی جس قدر بھی اوپر چلتے جائیں ۔ (آیت) ” وامھاتکم التی ارضعنکم “۔ ” اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو ۔ “ (2) رضاعی بیٹی اور اس کی بیٹیاں جس قدر بھی نیچے چلتے جائیں ۔ رضاعی بیٹی وہ ہوتی ہے جسے کسی کی بیوی نے دودھ پلایا ہو اور وہ بیوی اس کے نکاح میں ہو ۔ (3) رضاعی بہن اور اس کی بیٹیاں جس قدر نیچے بھی ہوں ۔ (آیت) ” واخواتکم من الرضاعة “۔ ’ اور تمہاری دودھ شریک بہنیں ۔ “۔ (4) رضاعی چچی اور رضاعی خالہ ۔ رضاعی خالہ دودھ پلانے والی کی بہن ہوتی ہے اور رضاعی چچی دودھ پلانے والی کے خاوند کی بہن ہوتی ہے ۔ (5) بیوی کی رضاعی ماں ۔ یہ وہ عورت ہے جس نے بیوی کو بچپن میں دودھ پلایا ۔ اس طرح اس ماں کی اصول یعنی دادی نانی جس قدر بھی اوپر کو جائیں اور یہ تحریم محض نکاح سے قائم ہوجاتی ہے ‘ جس طرح نسب میں ہوتی ہے ۔ (6) بیوی کی رضاعی بیٹی ‘ یعنی وہ لڑکی جس کی بیوی نے اس شخص کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے دودھ پلایا ہو ۔ اسی طرح اس کی تمام پوتیاں جس قدر بھی نیچے چلیں ۔ البتہ یہ تحریم تب جاری ہوگی جب بیوی کی ساتھ مجامعت ہوگئی ہو ۔ (7) یعنی رضاعی باپ اور دادا کی بیوی حرام ہے ۔ رضاعی باپ وہ ہے جس کی بیوی نے دودھ پلایا ہو ‘ اس لئے صرف وہ عورت ہی حرام نہ ہوگی جس نے دودھ پلایا وہ رضاعی ماں ہوگئی بلکہ اس کے رضاعی باپ کی منکوحہ یعنی رضاعی ماں کی سوکن بھی حرام ہوگی ۔ (8) رضاعی بیٹے کی بیوی ‘ جس قدر نیچے چلے جائیں۔ (9) اسی طرح بیوی اور بیوی کی رضاعی بہن بھی حرام ہوگئی ‘ بیوی کی رضاعی چچی اور خالہ بھی حرام ہوگئی یا ہر ہو عورت جو اس کے لئے رضاعت کی وجہ سے حرام ہوئیں ۔ ان محرمات میں سے قسم اول اور قسم ثالث کے بارے میں تو صراحت اس آیت میں آگئی ہے ۔ باقی فہرست حضور اکرم ﷺ کی اس حدیث میں روشنی میں مرتب کی گئی ہے جس میں ہے ۔ ” رضاعت وہی محرمات ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہیں ۔ “ ” یحرم من الرضاعة ما یحرم من النسب (مسلم بخاری) یہ تو ہیں وہ حرام عورتیں جو شریعت نے حرام کی ہیں ۔ آیت میں اس حرمت کے لئے کوئی علت اور حکمت نہیں دی گئی ۔ نہ عام اور نہ کوئی خاص حکمت وعلت جن لوگوں نے مختلف وجوہات واسباب کا ذکر کیا ہے وہ ان کی جانب سے اجتہاد اور غوروفکر پر مبنی رائے ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان تمام محرمات کے لئے ایک ہی علت اور سبب ہو ‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض محرمات کے لئے انکے مخصوص اسباب ہوں ‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کئی اقسام کا باہم مشترکہ سبب بھی ہو ۔ مثلا قریبی رشتہ داروں کے اندر شادیوں کی وجہ سے بعض اوقات بچے کمزور ہوتے ہیں اور مرور زمانہ کے ساتھ ایک ضعیف نسل وجود میں آتی ہے یعنی موروثی کمزوریاں نسلا بعد نسل جمع ہوتی رہتی ہیں ۔ اس کے مقابلے میں اگر دور اقوام اور نسلوں میں شادیاں کی جائیں تو ان کے نتیجے میں ایک صحت مند نسل وجود میں آتی ہے اور دونوں کی صلاحیتیں ایک جگہ جمع ہوجاتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بعض محرمات کے ساتھ نہایت ہی محبت ‘ رواداری ‘ احترام اور وقار کے تعلقات مطلوب ہوتے ہیں۔ اس لئے ان روابط کو میاں بیوی کے نازک تعلق سے دور رکھنا ضروری تھا تاکہ طلاق اور جدائی کی صورت میں تلخی پیدا نہ ہو ‘ اور وہ جذبات مجروح نہ ہوں جنہیں شریعت دائما رکھنا چاہتی ہے ۔ مثلا مائیں ، بیٹیاں ، بہنیں ، خالائیں ، پھوپھیاں ، بھانجیاں ، بھتیجیاں ، اور ان کے بالمقابل وہی رشتے رضاعت کی وجہ سے ۔ یہ سب اسی زمرے میں آتی ہیں ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے بعض محرمات مثلا بیوی کی بیٹی ‘ بہنوں کا اجتماع ‘ باپ کی منکوحہ ‘ ان میں اگرچہ رشتے داری کے جذبات اور تعلقات میں کشیدگی کا احتمال نہیں ہے لیکن تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں ۔ مثلا ماں کو یہ خدشہ ہوگا کہ اس کی بیٹی بھی سوکن بن سکتی ہے ۔ بہن اور اس کی بیٹی ایک جگہ اگر سوکن بن جائیں ۔ اسی طرح باپ کے اندر یہ شعور جاگ سکتا ہے کہ اس کے بعد اسکا بیٹا اس کا شریک ہو سکتا ہے یہی بات بہو کے بارے میں ہو سکتی ہے ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ قریبی رشتہ داروں کے باہم خاندانی تعلقات تو پہلے سے موجود ہوتے ہیں ۔ شریعت کا مقصد یہ ہے کہ دور دراز خاندانوں میں رشتے ناطے ہوں اور یوں خاندانی تعلقات کا دائرہ مزید وسیع ہوجائے اور رشتہ داروں کے اندر صرف اس حد پر جا کر اجازت دی گئی ہے جہاں خاندانی رشتہ کمزور ہوجاتا ہے ۔ (Remote) غرض جو علت بھی ہو ‘ بہرحال ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی قانون بنایا ہے ‘ وہ ہر گز خالی از حکمت نہ ہوگا ۔ اس میں انسانوں کی مصلحت اور بھلائی ہوگی ، رہی ہماری دانست کی بات تو کبھی ہمیں اس کا علم ہوگا اور کبھی نہ ہوگا ۔ ہماری دانش وعلم کا اثر اللہ کی شریعت پر نہیں پڑتا ۔ نہ شریعت کے نفاذ اور اس کی اطاعت پر کوئی فرق پڑتا ہے ۔ ہمیں تسلیم ورضا کے ساتھ شریعت کی اطاعت کرنا ہے ۔ اس لئے کہ ایمان صرف دل ہی میں نہیں ہوتا ۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اللہ کی شریعت کی حکمرانی قائم کی جائے اور ہم مکمل طور پر سرتسلیم خم کردیں اور ہمارے دلوں میں شریعت کے احکام کے بارے میں کوئی خلجان نہ ہو ۔ اب آخری بات اور آیات کی تشریح باقی رہ گئی ‘ وہ یہ ہے کہ یہ محرمات دو کو چھوڑ کر سب کی سب جاہلیت کے رواج میں بھی محرمات تھیں ۔ جاہلیت میں ایک منکوحہ اب کے ساتھ نکاح کرلیا جاتا تھا ‘ دوسرے یہ کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز سمجھا جاتا تھا ۔ اگرچہ جاہلی معاشرہ میں انہیں مکروہ سمجھتا تھا ۔ لیکن اسلام نے انہیں اس لئے نہیں حرام قرار دیا کہ دور جاہلیت میں ایسا ہوا کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس حرمت کو اپنے حق حاکمیت کے حوالے سے پیش فرمایا (آیت) ” حرمت علیکم “ ’ تم پر میری جانب سے حرام کی گئی ہیں ۔ “ یہ معاملہ محض الفاظ کا نہیں ہے ‘ یہ صرف شکل و صورت کا ہے بلکہ یہ پورے دین کا معاملہ ہے ۔ اس کے عقدہ کو حل کرلینے سے پوری دین کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے ۔ اور وہ اصول ہمارے ہاتھ آجاتا ہے جس پر یہ دین قائم ہے ۔ یعنی حاکمیت صرف اللہ وحدہ کا خاصہ ہے ۔ اس دین کا فیصلہ یہ ہے کہ حرام اور حلال کی حدود کے تعین کا اختیار صرف اللہ کو ہے ۔ اس لئے کہ حاکمیت الہیہ کی یہ ایک نہایت ہی بنیادی خصوصیت ہے ۔ اس لئے حلال و حرام کے تین کے لئے ضروری ہے کہ اس پر اللہ کی جانب سے کوئی سلطان و ثبوت ہو ۔ یہ وہی ذات ہے جو لوگوں کے لئے بعض چیزوں کو حرام کردیتی ہے اور بعض کو حلال کردیتی ہے اور اس ذات کے سوا کسی اور کو یہ اختیار اس نے نہیں دیا ہے ۔ نہ یہ حق کوئی اپنے لئے مخصوص کرسکتا ہے ۔ اس لئے کہ اگر حاکمیت کے اس حق کا کوئی اپنے لئے مدعی ہوگا تو وہ گویا الوہیت کا دعوی کرے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جاہلی نظام اپنے لئے حلال و حرام خود مقر کرتا ہے ۔ اور اسلامی نظریہ حیات کے مطابق اس کے مقرر کردہ یہ حلال و حرام ابتداء ہی سے باطل (Void) اور کالعدم ہیں ۔ اس لئے جب اسلام آتا ہے تو وہ جاہلیت کے تمام ضابطوں کو کالعدم کردیتا ہے جس میں حلال بھی شامل ہیں اور حرام بھی ۔ اور ان میں سے کسی چیز کو قائم نہیں رکھتا ۔ اس لئے کہ یہ حلال و حرام اگر درست بھی ہوں ‘ لیکن ان لوگوں نے مقرر کئے تھے جنہیں اس کا اس اختیار (Jurasdiction) نہ تھا ۔ ان میں سے کوئی بھی نہ الہ ہے ۔ اس منسوخی کے بعد اسلام از خود حلال و حرام کا تعین کرتا ہے ۔ اگر جاہلیت میں کوئی چیز حلال قرار دی گئی تھی تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ وہی حلال ہے جسے اسلام حلال کر دے اور وہی حرام ہے جسے اسلام حرام کر دے ۔ از جانب اللہ ۔ اسلام کا یہ نظریہ حلال و حرام اس کائنات کی تمام اشیاء اور ان انسان کے تمام افعال وسرگرمیوں پر حاوی ہے ۔ اس کے دائرہ سے کوئی چیز باہر نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو حلال و حرام کے تعین کا اختیار ہی نہیں ہے ۔ نکاح و طلاق میں ‘ کھانے وپینے میں ‘ لباس و صورت میں ‘ عمل و حرکت میں ‘ تعلقات ومعاملات میں ‘ رسم و رواج میں اور قانون وجوابط میں ‘ غرض تمام معاملات میں مصدر قانون ذات باری ہے ۔ اللہ کے علاوہ جس مصدر اور جس ادارے سے بھی حلال و حرام کا تعین ہوگا وہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے باطل (Void) ہے نہ اس کا اجراء ہوسکتا ہے نہ اس کی تصحیح (Validation) ہوسکتی ہے ۔ کیا اسلامی شریعت نے جاہلیت کے بعض احکام کو جاری رکھا ہے ؟ نہیں یہ سوچ درست نہیں ہے ۔ شریعت نے ہر چیز اپنی طرف سے از سر نو جاری کی ہے ۔ اور اس کا اجراء اللہ کی طرف سے ہوا ہے ۔ یہ سوچ درست نہیں ہے کہ بعض احکام جاہلیت کا تسلسل ہیں بلکہ اس نے از سر نو اپنے احکام جاری کئے تمام رسوم و رواج جاری کئے اور اللہ تعالیٰ کے اختیار حاکمیت کے تحت جاری کئے ۔ قرآن کریم نے اس نظریہ کی بار بار تاکید کی ہے اور اس معاملے میں وہ اہل جاہلیت کے ساتھ بار بار بحث کرتا ہے ۔ وہ بار بار چیلنج کرتا ہے کہ تمہیں کیا اختیار ہے کہ تم حلال و حرام کرتے پھرتے ہو ، کون ہے حرام کرنے والا ؟ (آیت) ” قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزق “۔ ” پوچھو کون ہے جس نے اللہ کے سامان زینت کو حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ خوراک کو ۔ (آیت) ” قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم “۔ ” کہہ دو آو میں پڑھ کر سناوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے ۔ “ (آیت) ” قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتة او دما مسفوحا او لحم خنزیر “۔ ” کہہ دو ‘ جو کچھ میری طرف وحی کیا گیا ہے میں تو اس میں کوئی چیز نہیں پاتا ‘ جو کسی کھانے والے پر حرام کی گئی ہو ‘ جو اس چیز کو کھاتا ہے ‘ سوائے اس کے کہ وہ چیز بہا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو ۔ “ اس بحث و تکرار کے ذریعہ قرآن کریم اہل جاہلیت کو اس اصول کی طرف لوٹا رہا تھا کہ حلال و حرام کے حدود کے تعین کا اعتبار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ اور کسی انسان کو یہ اختیارات حاصل نہیں ہیں ۔ نہ کسی فرد کو ‘ نہ کسی طبقے کو نہ کسی قوم کو اور نہ تمام دنیا کی آبادی کو ۔ یہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار حاکمیت کے تحت ہی استعمال ہوسکتا ‘ اس کی شریعت کے مطابق استعمال ہو سکتا ہے ۔ شریعت تو نام ہی اجازت وممانعت کا ہے ۔ یہی تو دین اسلام ہے ‘ اس لئے جو حرام و حلال مقرر کرتا ہے گویا وہ دین کا مالک ہے ۔ اگر یہ حلال و حرام کرنے والا اللہ ہے تو پھر لوگ جو اس کو مانتے ہیں ‘ ہم کہیں گے کہ وہ اللہ کے دین پر ہیں ‘ تو پھر وہ دین اسلام میں داخل ہوں گے ۔ اگر حلال و حرام کی حدیں کسی معاشرے میں کوئی اور مقرر کررہا ہے تو ہم کہیں گے یہ لوگ اس شخص کے دین پر ہیں ۔ تو وہ پھر اس کے دین میں داکل ہوں گے ۔ دین اسلام میں داخل نہ ہوں گے ۔ یہ مسئلہ اپنے اس فریم ورک میں اللہ کی حاکمیت اور الوہیت کا مسئلہ ہے ۔ یہ دین اور اس کے مفہوم کا مسئلہ ہے ۔ یہ ایمان اور ھدود ایمان کا مسئلہ ہے ۔ میں پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس نقطہ نظر سے اپنی پوزیشن متعین کریں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں ، ان کا دین سے تعلق کیا ہے ؟ ان کا اسلام سے کیا تعلق رہا ہے ؟ کیا اس کے باوجود یہ دعوی کرتے ہیں چلے جائیں گے کہ وہ مسلمان ہیں
Top