Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 23
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ١٘ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ١٘ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ١ۙ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ
حُرِّمَتْ
: حرام کی گئیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اُمَّھٰتُكُمْ
: تمہاری مائیں
وَبَنٰتُكُمْ
: اور تمہاری بیٹیاں
وَاَخَوٰتُكُمْ
: اور تمہاری بہنیں
وَعَمّٰتُكُمْ
: اور تمہاری پھوپھیاں
وَخٰلٰتُكُمْ
: اور تمہاری خالائیں
وَبَنٰتُ الْاَخِ
: اور بھتیجیاں
وَبَنٰتُ
: بیٹیاں
الْاُخْتِ
: بہن
وَاُمَّھٰتُكُمُ
: اور تمہاری مائیں
الّٰتِيْٓ
: وہ جنہوں نے
اَرْضَعْنَكُمْ
: تمہیں دودھ پلایا
وَاَخَوٰتُكُمْ
: اور تمہاری بہنیں
مِّنَ
: سے
الرَّضَاعَةِ
: دودھ شریک
وَ
: اور
اُمَّھٰتُ نِسَآئِكُمْ
: تمہاری عورتوں کی مائیں
وَرَبَآئِبُكُمُ
: اور تمہاری بیٹیاں
الّٰتِيْ
: جو کہ
فِيْ حُجُوْرِكُمْ
: تمہاری پرورش میں
مِّنْ
: سے
نِّسَآئِكُمُ
: تمہاری بیبیاں
الّٰتِيْ
: جن سے
دَخَلْتُمْ
: تم نے صحبت کی
بِهِنَّ
: ان سے
فَاِنْ
: پس اگر
لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ
: تم نے نہیں کی صحبت
بِهِنَّ
: ان سے
فَلَا جُنَاحَ
: تو نہیں گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَحَلَآئِلُ
: اور بیویاں
اَبْنَآئِكُمُ
: تمہارے بیٹے
الَّذِيْنَ
: جو
مِنْ
: سے
اَصْلَابِكُمْ
: تمہاری پشت
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَجْمَعُوْا
: تم جمع کرو
بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ
: دو بہنوں کو
اِلَّا مَا
: مگر جو
قَدْ سَلَفَ
: پہلے گزر چکا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
رَّحِيْمًا
: مہربان
” تم پر حرام کردی گئیں ہیں تمہاری مائیں ‘ بیٹیاں ‘ بہنیں ‘ پھوپھیاں ‘ خالائیں ‘ بھتجیاں ‘ بھنجیاں ‘ اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایاہو ‘ اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں ‘ اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پڑورش پائی ہو ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن وشو ہوچکا ہو ورنہ اگر تعلق زن وشو نہ ہوا تو تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔ اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے صلب سے ہوں اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو ‘ مگر جو پہلے ہوگیا سو ہوگیا ۔ اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔
(آیت) ” حرمت علیکم امھتکم وبنتکم واخوتکم وعمتکم وخلتکم وبنت الاخ وبنت الاخت وامھتکم التی ارضعنکم واخوتکم من الرضاعة وامھت نسآئکم وربآئبکم التی فی حجورکم من نسآئکم التی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم وحلآئل ابنائکم الذین من اصلابکم وان تجمعوا بین الاختین الا ما قد سلف ، ان اللہ کان غفورا رحیما (32) والمحصنت من النسآء الا ملکت ایمانکم “۔ محرمات ‘ یعنی وہ عورتیں جن سے نکاح حرام ہے وہ تمام اقوام اومم میں معروف ہیں ۔ چاہے پسماندہ واقوام ہوں یا ترقی یافتہ اقوام ہوں ۔ تحریم کے اسباب اور تحریم کے درجات مختلف اقوام کے ہاں مختلف رہے ہیں ۔ قدیم پسماندہ اقوام کے اندر یہ دائرہ بہت ہی وسیع رہا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے اندر یہ سکڑتا رہا ہے ۔ اسلام میں آیت زیر بحث اور اس سے پہلی آیت میں محرمات کی تحدید کی گئی ہے ۔ بعض محرمات ابدی ہیں ۔ اور بعض وقتی ہیں ۔ بعض بہ سبب نسب ہیں ‘ بعض بوجہ رضاعت ہیں اور بعض بوجہ مصاہرت ہیں ۔ ان محرمات اور اسباب کے علاوہ اسلام نے تمام دوسری پابندیوں کو ختم کردیا ‘ جو دوسرے معاشروں کے اندر مروج تھیں ‘ مثلا وہ پابندیاں جو نسلی وجوہات کی بنا پر رائج تھیں ۔ قومی حد بندیوں کی وجہ سے رائج تھیں یا رنگ کی وجہ سے رائج تھیں یا وہ پابندیاں جو طبقاتی درجات کی وجہ سے رائج تھیں حالانکہ ان میں زوجین ایک نسل ‘ ایک وطن اور ایک علاقے کے باشندے ہوا کرتے تھے ۔ (1) (تفصیلات کے لئے دیکھئے ڈاکٹر عبدالواحد وافی کی کتاب ” خاندان اور معاشرہ “ ص 62 تا 65) قرابت داری کی وجہ سے اسلام میں چار قسم کی عورتیں حرام ہیں ۔ (1) کسی شخص کے اصول جس قدر اوپر چلتے جائیں ‘ مثلا ماں دادیاں ‘ نانی اور یہ سب ” امہات “ کے لفظ میں شامل ہیں ۔ (آیت) ” حرمت علیکم امھتکم ” تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں ۔ “ (2) دوسری قسم کسی شخص کے فروع ہیں جس قدر نیچے چلے جائیں ۔ مثلا بیٹیوں اور بیٹیوں کی اولاد سے نکاح حرام ہے اور یہ (آیت) ” وبنتکم “ میں داخل ہیں ۔ (3) ماں اور باپ کے فروع جس قدر نیچے چلتے جائیں ۔ بہن ‘ بھانجی ‘ بھتیجی اور ان کی اولاد یہ (آیت) ” اخواتکم بنات الاخ اور (آیت) ” بنات الاخت “ میں داخل ہیں ۔ (4) نانا دادا کی پھوپھیاں اور خالائیں بھی حرام ہوں گی وغیرہ یہ سب (آیت) ” عمتکم وخلتکم “۔ میں داخل ہیں۔ لیکن اجداد کی وہ اولاد جو براہ راست نہ ہو درمیان واسطہ آجائے تو وہ جائز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چچا زاد بہن ‘ خالہ زاد ‘ پھوپی زاد کے ساتھ نکاح جائز ہے اور ان کی اولاد کے ساتھ بھی ۔ مصاہرت کی بنا پر پانچ قسم کی عورتیں حرام ہیں۔ (1) بیوی کے اصول ‘ جہاں تک اوپر کی طرف چلتے جائیں ۔ چناچہ بیوی کی ماں ‘ بیوی کی دادی ‘ بیوی کی نانی ‘ جہاں تک اوپر چلے جائیں حرام ہیں ۔ اور یہ حرمت نکاح کرتے ہیں قائم ہوجاتی ہے ۔ چاہے دخول ہوا ہو یا نہیں ۔ اور یہ (آیت) ” وامھات نسآئکم “ میں داخل ہیں۔ (2) بیوی کی فروعات جس قدر بھی نیچے جائیں ۔ مثلا بیوی کی لڑکی حرام ہے ‘ اس کی اولاد حرام ہے ‘ مرد ہو یا عورت ۔ لیکن یہ حرمت اس وقت قائم ہوتی ہے جب بیوی کے ساتھ مباشرت ہوگئی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ (آیت) ” وربآئبکم التی فی حجورکم من نسآئکم التی دخلتم بھن فان لم تکونوا دخلتم بھن فلا جناح علیکم “۔ ”‘ اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پڑورش پائی ہو ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن وشو ہوچکا ہو ورنہ اگر تعلق زن وشو نہ ہوا تو تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ۔ (3) باپ دادا اور نانا کی بیویاں ‘ جس قدر اوپر چلے جائیں ۔ چناچہ باپ کی بیوی ‘ دادا ‘ اور نانا کی بیوی سے نکاح حرام ہے ۔ (آیت) ” ولا تنکحوا ما نکح ابآء کم من النسآء الا ما قدسلف “ ” اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہیں ان سے نکاح نہ کرو ۔ مگر جو پہلے ہوچکا ۔ “ یعنی جاہلیت میں جو ہوچکا سو ہوچکا ‘ اس لئے کہ جاہلیت میں یہ جائز تھا ۔ (4) بیٹوں کی بیویاں اور پوتوں کی بیویاں جس قدر نیچے کو چلتے جائیں ۔ اس لئے ایک شخص کے لئے اپنے صلبی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے ۔ اسی طرح صلبی پوتے کی بیوی کے ساتھ نکاح حرام ہے ۔ اسی طرح لڑکی کے لڑکے کی بیوی کے ساتھ نکاح بھی حرام ہوگا ۔ جس قدر نیچے چلتے جائیں ۔ (آیت) ” وحلآئل ابنائکم الذین من اصلابکم “ ” اور ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہارے صلب سے ہوں “۔ اصلابکم کی شرط اس لئے عائد کی گئی ہے کہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کی بیوی بھی حرام سمجھی جاتی تھی ‘ اس لئے اس کو صلبی بیٹے پوتے کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ۔ اور حکم دیا گیا کہ منہ بولے بیٹوں کو ان کے والدین کی طرف نسبت دو ۔ ( سورة احزاب) (5) بیوی کی بہن بھی حرام ہے لیکن یہ تحریم وقتی ہے ۔ اگر بیوی زندہ ہو اور اس کے نکاح میں ہو ۔ حرام یہ ہے کہ بیک وقت دو بہنوں کو نکاح میں رکھا جائے ۔ (آیت) ” وان تجمعوا بین الاختین الا ما قد سلف ” اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو مگر جو پہلے ہوگیا سو ہوگیا ۔ “ اس پر مواخذہ نہ ہوگا ‘ اس لئے کہ نظام جاہلیت کے اندر وہ جائز تھا ۔ اسی طرح رضاعت کے ذریعہ بھی وہ تمام عورتیں حرام ہوجاتی ہیں جو نسب اور مصاہرت کی وجہ سے حرام ہوجاتی ہیں اور یہ فہرست تو محرمات پر مشتمل ہے ۔ (1) دودھ پلانے والی ماں اور اس کی دادی نانی جس قدر بھی اوپر چلتے جائیں ۔ (آیت) ” وامھاتکم التی ارضعنکم “۔ ” اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو ۔ “ (2) رضاعی بیٹی اور اس کی بیٹیاں جس قدر بھی نیچے چلتے جائیں ۔ رضاعی بیٹی وہ ہوتی ہے جسے کسی کی بیوی نے دودھ پلایا ہو اور وہ بیوی اس کے نکاح میں ہو ۔ (3) رضاعی بہن اور اس کی بیٹیاں جس قدر نیچے بھی ہوں ۔ (آیت) ” واخواتکم من الرضاعة “۔ ’ اور تمہاری دودھ شریک بہنیں ۔ “۔ (4) رضاعی چچی اور رضاعی خالہ ۔ رضاعی خالہ دودھ پلانے والی کی بہن ہوتی ہے اور رضاعی چچی دودھ پلانے والی کے خاوند کی بہن ہوتی ہے ۔ (5) بیوی کی رضاعی ماں ۔ یہ وہ عورت ہے جس نے بیوی کو بچپن میں دودھ پلایا ۔ اس طرح اس ماں کی اصول یعنی دادی نانی جس قدر بھی اوپر کو جائیں اور یہ تحریم محض نکاح سے قائم ہوجاتی ہے ‘ جس طرح نسب میں ہوتی ہے ۔ (6) بیوی کی رضاعی بیٹی ‘ یعنی وہ لڑکی جس کی بیوی نے اس شخص کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے دودھ پلایا ہو ۔ اسی طرح اس کی تمام پوتیاں جس قدر بھی نیچے چلیں ۔ البتہ یہ تحریم تب جاری ہوگی جب بیوی کی ساتھ مجامعت ہوگئی ہو ۔ (7) یعنی رضاعی باپ اور دادا کی بیوی حرام ہے ۔ رضاعی باپ وہ ہے جس کی بیوی نے دودھ پلایا ہو ‘ اس لئے صرف وہ عورت ہی حرام نہ ہوگی جس نے دودھ پلایا وہ رضاعی ماں ہوگئی بلکہ اس کے رضاعی باپ کی منکوحہ یعنی رضاعی ماں کی سوکن بھی حرام ہوگی ۔ (8) رضاعی بیٹے کی بیوی ‘ جس قدر نیچے چلے جائیں۔ (9) اسی طرح بیوی اور بیوی کی رضاعی بہن بھی حرام ہوگئی ‘ بیوی کی رضاعی چچی اور خالہ بھی حرام ہوگئی یا ہر ہو عورت جو اس کے لئے رضاعت کی وجہ سے حرام ہوئیں ۔ ان محرمات میں سے قسم اول اور قسم ثالث کے بارے میں تو صراحت اس آیت میں آگئی ہے ۔ باقی فہرست حضور اکرم ﷺ کی اس حدیث میں روشنی میں مرتب کی گئی ہے جس میں ہے ۔ ” رضاعت وہی محرمات ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہیں ۔ “ ” یحرم من الرضاعة ما یحرم من النسب (مسلم بخاری) یہ تو ہیں وہ حرام عورتیں جو شریعت نے حرام کی ہیں ۔ آیت میں اس حرمت کے لئے کوئی علت اور حکمت نہیں دی گئی ۔ نہ عام اور نہ کوئی خاص حکمت وعلت جن لوگوں نے مختلف وجوہات واسباب کا ذکر کیا ہے وہ ان کی جانب سے اجتہاد اور غوروفکر پر مبنی رائے ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان تمام محرمات کے لئے ایک ہی علت اور سبب ہو ‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض محرمات کے لئے انکے مخصوص اسباب ہوں ‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کئی اقسام کا باہم مشترکہ سبب بھی ہو ۔ مثلا قریبی رشتہ داروں کے اندر شادیوں کی وجہ سے بعض اوقات بچے کمزور ہوتے ہیں اور مرور زمانہ کے ساتھ ایک ضعیف نسل وجود میں آتی ہے یعنی موروثی کمزوریاں نسلا بعد نسل جمع ہوتی رہتی ہیں ۔ اس کے مقابلے میں اگر دور اقوام اور نسلوں میں شادیاں کی جائیں تو ان کے نتیجے میں ایک صحت مند نسل وجود میں آتی ہے اور دونوں کی صلاحیتیں ایک جگہ جمع ہوجاتی ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بعض محرمات کے ساتھ نہایت ہی محبت ‘ رواداری ‘ احترام اور وقار کے تعلقات مطلوب ہوتے ہیں۔ اس لئے ان روابط کو میاں بیوی کے نازک تعلق سے دور رکھنا ضروری تھا تاکہ طلاق اور جدائی کی صورت میں تلخی پیدا نہ ہو ‘ اور وہ جذبات مجروح نہ ہوں جنہیں شریعت دائما رکھنا چاہتی ہے ۔ مثلا مائیں ، بیٹیاں ، بہنیں ، خالائیں ، پھوپھیاں ، بھانجیاں ، بھتیجیاں ، اور ان کے بالمقابل وہی رشتے رضاعت کی وجہ سے ۔ یہ سب اسی زمرے میں آتی ہیں ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے بعض محرمات مثلا بیوی کی بیٹی ‘ بہنوں کا اجتماع ‘ باپ کی منکوحہ ‘ ان میں اگرچہ رشتے داری کے جذبات اور تعلقات میں کشیدگی کا احتمال نہیں ہے لیکن تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں ۔ مثلا ماں کو یہ خدشہ ہوگا کہ اس کی بیٹی بھی سوکن بن سکتی ہے ۔ بہن اور اس کی بیٹی ایک جگہ اگر سوکن بن جائیں ۔ اسی طرح باپ کے اندر یہ شعور جاگ سکتا ہے کہ اس کے بعد اسکا بیٹا اس کا شریک ہو سکتا ہے یہی بات بہو کے بارے میں ہو سکتی ہے ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ قریبی رشتہ داروں کے باہم خاندانی تعلقات تو پہلے سے موجود ہوتے ہیں ۔ شریعت کا مقصد یہ ہے کہ دور دراز خاندانوں میں رشتے ناطے ہوں اور یوں خاندانی تعلقات کا دائرہ مزید وسیع ہوجائے اور رشتہ داروں کے اندر صرف اس حد پر جا کر اجازت دی گئی ہے جہاں خاندانی رشتہ کمزور ہوجاتا ہے ۔ (Remote) غرض جو علت بھی ہو ‘ بہرحال ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی قانون بنایا ہے ‘ وہ ہر گز خالی از حکمت نہ ہوگا ۔ اس میں انسانوں کی مصلحت اور بھلائی ہوگی ، رہی ہماری دانست کی بات تو کبھی ہمیں اس کا علم ہوگا اور کبھی نہ ہوگا ۔ ہماری دانش وعلم کا اثر اللہ کی شریعت پر نہیں پڑتا ۔ نہ شریعت کے نفاذ اور اس کی اطاعت پر کوئی فرق پڑتا ہے ۔ ہمیں تسلیم ورضا کے ساتھ شریعت کی اطاعت کرنا ہے ۔ اس لئے کہ ایمان صرف دل ہی میں نہیں ہوتا ۔ اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اللہ کی شریعت کی حکمرانی قائم کی جائے اور ہم مکمل طور پر سرتسلیم خم کردیں اور ہمارے دلوں میں شریعت کے احکام کے بارے میں کوئی خلجان نہ ہو ۔ اب آخری بات اور آیات کی تشریح باقی رہ گئی ‘ وہ یہ ہے کہ یہ محرمات دو کو چھوڑ کر سب کی سب جاہلیت کے رواج میں بھی محرمات تھیں ۔ جاہلیت میں ایک منکوحہ اب کے ساتھ نکاح کرلیا جاتا تھا ‘ دوسرے یہ کہ دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز سمجھا جاتا تھا ۔ اگرچہ جاہلی معاشرہ میں انہیں مکروہ سمجھتا تھا ۔ لیکن اسلام نے انہیں اس لئے نہیں حرام قرار دیا کہ دور جاہلیت میں ایسا ہوا کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس حرمت کو اپنے حق حاکمیت کے حوالے سے پیش فرمایا (آیت) ” حرمت علیکم “ ’ تم پر میری جانب سے حرام کی گئی ہیں ۔ “ یہ معاملہ محض الفاظ کا نہیں ہے ‘ یہ صرف شکل و صورت کا ہے بلکہ یہ پورے دین کا معاملہ ہے ۔ اس کے عقدہ کو حل کرلینے سے پوری دین کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے ۔ اور وہ اصول ہمارے ہاتھ آجاتا ہے جس پر یہ دین قائم ہے ۔ یعنی حاکمیت صرف اللہ وحدہ کا خاصہ ہے ۔ اس دین کا فیصلہ یہ ہے کہ حرام اور حلال کی حدود کے تعین کا اختیار صرف اللہ کو ہے ۔ اس لئے کہ حاکمیت الہیہ کی یہ ایک نہایت ہی بنیادی خصوصیت ہے ۔ اس لئے حلال و حرام کے تین کے لئے ضروری ہے کہ اس پر اللہ کی جانب سے کوئی سلطان و ثبوت ہو ۔ یہ وہی ذات ہے جو لوگوں کے لئے بعض چیزوں کو حرام کردیتی ہے اور بعض کو حلال کردیتی ہے اور اس ذات کے سوا کسی اور کو یہ اختیار اس نے نہیں دیا ہے ۔ نہ یہ حق کوئی اپنے لئے مخصوص کرسکتا ہے ۔ اس لئے کہ اگر حاکمیت کے اس حق کا کوئی اپنے لئے مدعی ہوگا تو وہ گویا الوہیت کا دعوی کرے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جاہلی نظام اپنے لئے حلال و حرام خود مقر کرتا ہے ۔ اور اسلامی نظریہ حیات کے مطابق اس کے مقرر کردہ یہ حلال و حرام ابتداء ہی سے باطل (Void) اور کالعدم ہیں ۔ اس لئے جب اسلام آتا ہے تو وہ جاہلیت کے تمام ضابطوں کو کالعدم کردیتا ہے جس میں حلال بھی شامل ہیں اور حرام بھی ۔ اور ان میں سے کسی چیز کو قائم نہیں رکھتا ۔ اس لئے کہ یہ حلال و حرام اگر درست بھی ہوں ‘ لیکن ان لوگوں نے مقرر کئے تھے جنہیں اس کا اس اختیار (Jurasdiction) نہ تھا ۔ ان میں سے کوئی بھی نہ الہ ہے ۔ اس منسوخی کے بعد اسلام از خود حلال و حرام کا تعین کرتا ہے ۔ اگر جاہلیت میں کوئی چیز حلال قرار دی گئی تھی تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ وہی حلال ہے جسے اسلام حلال کر دے اور وہی حرام ہے جسے اسلام حرام کر دے ۔ از جانب اللہ ۔ اسلام کا یہ نظریہ حلال و حرام اس کائنات کی تمام اشیاء اور ان انسان کے تمام افعال وسرگرمیوں پر حاوی ہے ۔ اس کے دائرہ سے کوئی چیز باہر نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو حلال و حرام کے تعین کا اختیار ہی نہیں ہے ۔ نکاح و طلاق میں ‘ کھانے وپینے میں ‘ لباس و صورت میں ‘ عمل و حرکت میں ‘ تعلقات ومعاملات میں ‘ رسم و رواج میں اور قانون وجوابط میں ‘ غرض تمام معاملات میں مصدر قانون ذات باری ہے ۔ اللہ کے علاوہ جس مصدر اور جس ادارے سے بھی حلال و حرام کا تعین ہوگا وہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے باطل (Void) ہے نہ اس کا اجراء ہوسکتا ہے نہ اس کی تصحیح (Validation) ہوسکتی ہے ۔ کیا اسلامی شریعت نے جاہلیت کے بعض احکام کو جاری رکھا ہے ؟ نہیں یہ سوچ درست نہیں ہے ۔ شریعت نے ہر چیز اپنی طرف سے از سر نو جاری کی ہے ۔ اور اس کا اجراء اللہ کی طرف سے ہوا ہے ۔ یہ سوچ درست نہیں ہے کہ بعض احکام جاہلیت کا تسلسل ہیں بلکہ اس نے از سر نو اپنے احکام جاری کئے تمام رسوم و رواج جاری کئے اور اللہ تعالیٰ کے اختیار حاکمیت کے تحت جاری کئے ۔ قرآن کریم نے اس نظریہ کی بار بار تاکید کی ہے اور اس معاملے میں وہ اہل جاہلیت کے ساتھ بار بار بحث کرتا ہے ۔ وہ بار بار چیلنج کرتا ہے کہ تمہیں کیا اختیار ہے کہ تم حلال و حرام کرتے پھرتے ہو ، کون ہے حرام کرنے والا ؟ (آیت) ” قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزق “۔ ” پوچھو کون ہے جس نے اللہ کے سامان زینت کو حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ خوراک کو ۔ (آیت) ” قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم “۔ ” کہہ دو آو میں پڑھ کر سناوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کیا ہے ۔ “ (آیت) ” قل لا اجد فیما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتة او دما مسفوحا او لحم خنزیر “۔ ” کہہ دو ‘ جو کچھ میری طرف وحی کیا گیا ہے میں تو اس میں کوئی چیز نہیں پاتا ‘ جو کسی کھانے والے پر حرام کی گئی ہو ‘ جو اس چیز کو کھاتا ہے ‘ سوائے اس کے کہ وہ چیز بہا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو ۔ “ اس بحث و تکرار کے ذریعہ قرآن کریم اہل جاہلیت کو اس اصول کی طرف لوٹا رہا تھا کہ حلال و حرام کے حدود کے تعین کا اعتبار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ اور کسی انسان کو یہ اختیارات حاصل نہیں ہیں ۔ نہ کسی فرد کو ‘ نہ کسی طبقے کو نہ کسی قوم کو اور نہ تمام دنیا کی آبادی کو ۔ یہ اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار حاکمیت کے تحت ہی استعمال ہوسکتا ‘ اس کی شریعت کے مطابق استعمال ہو سکتا ہے ۔ شریعت تو نام ہی اجازت وممانعت کا ہے ۔ یہی تو دین اسلام ہے ‘ اس لئے جو حرام و حلال مقرر کرتا ہے گویا وہ دین کا مالک ہے ۔ اگر یہ حلال و حرام کرنے والا اللہ ہے تو پھر لوگ جو اس کو مانتے ہیں ‘ ہم کہیں گے کہ وہ اللہ کے دین پر ہیں ‘ تو پھر وہ دین اسلام میں داخل ہوں گے ۔ اگر حلال و حرام کی حدیں کسی معاشرے میں کوئی اور مقرر کررہا ہے تو ہم کہیں گے یہ لوگ اس شخص کے دین پر ہیں ۔ تو وہ پھر اس کے دین میں داکل ہوں گے ۔ دین اسلام میں داخل نہ ہوں گے ۔ یہ مسئلہ اپنے اس فریم ورک میں اللہ کی حاکمیت اور الوہیت کا مسئلہ ہے ۔ یہ دین اور اس کے مفہوم کا مسئلہ ہے ۔ یہ ایمان اور ھدود ایمان کا مسئلہ ہے ۔ میں پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس نقطہ نظر سے اپنی پوزیشن متعین کریں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں ، ان کا دین سے تعلق کیا ہے ؟ ان کا اسلام سے کیا تعلق رہا ہے ؟ کیا اس کے باوجود یہ دعوی کرتے ہیں چلے جائیں گے کہ وہ مسلمان ہیں
Top