Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 25
وَ لَبِثُوْا فِیْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَ ازْدَادُوْا تِسْعًا
وَلَبِثُوْا : اور وہ رہے فِيْ : میں كَهْفِهِمْ : اپنا غار ثَلٰثَ مِائَةٍ : تین سو سِنِيْنَ : سال وَ : اور ازْدَادُوْا : اور ان کے اوپر تِسْعًا : نو
اور مدت گزر چکی ان پر اپنی کھوہ میں30 تین سو برس اور ان کے اوپر نو
30:۔ یہ امر متفرع ذکر کرنے کے بعد اصل واقعہ کی طرف عود ہے جو چیز پہلے ” فضربنا علی اذانہم فی الکہف سنین عددا “ میں بالاجمال ذکر کی تھی یہاں اس کی تفصیل کردی۔ یعنی اصحاب کہف نیند کی حالت میں غار میں تین سو نو برس ٹھہرے۔ قال مجاھد ھو بیان لمجمل قولہ تعالیٰ فضربنا علی اذانھم فی الکہف سنین عددا (بحر ج 6 ص 116) ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ” لبثوا الخ “ بھی ” یقولون “ کے تحت داخل ہے اور اس سے بھی بعض لوگوں کا قول نقل کرنا مقصود ہے۔ مگر یہ خیال سراسر غلط ہے قرآن کا اسلوب نظم اس کی تائید نہیں کرتا کیونکہ دونوں مضمونوں کے درمیان دو تین مختلف مضامین کا فاصلہ حائل ہے۔ ” قل اللہ اعلم بما لبثوا الخ “ ازالہ شبہہ کے بعد واقعہ اصحاب کہف پر چھ امور متفرع کیے گئے۔ یہ پہلا امر متفرع ہے۔ آپ فرما دیجئے کہ اصحاب کہف کے ٹھہرنے کی صحیح مدت صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ اس لیے صحیح مدت وہی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ یعنی تین سو نو سال ای ھو اعلم من الذین اختلفوا فیہم بمدۃ لبثھم والحق ما اخبرک بہ (مدارک ج 3 ص 9) ۔ اصحاب کہف کا قصہ یہاں ختم ہوا۔ اس کا آخری جملہ قصے کا ثمرہ ہے۔ یعنی اصحاب کہف غار میں کتنا عرصہ سوئے۔ اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ خود اصحاب کہف کو بھی اس مدت کا علم نہیں۔ تو جو لوگ خود اپنے حال سے بیخبر ہیں وہ دوسروں کے کارساز اور حاجت روا کس طرح بن سکتے ہیں۔
Top