Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 24
وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ١ۚ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ١ؕ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَّ : اور الْمُحْصَنٰتُ : خاوند والی عورتیں مِنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا : جو۔ جس مَلَكَتْ : مالک ہوجائیں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے داہنے ہاتھ كِتٰبَ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاُحِلَّ : اور حلال کی گئیں لَكُمْ : تمہارے لیے مَّا وَرَآءَ : سوا ذٰلِكُمْ : ان کے اَنْ : کہ تَبْتَغُوْا : تم چاہو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے مُّحْصِنِيْنَ : قید (نکاح) میں لانے کو غَيْرَ : نہ مُسٰفِحِيْنَ : ہوس رانی کو فَمَا : پس جو اسْتَمْتَعْتُمْ : تم نفع (لذت) حاصل کرو بِهٖ : اس سے مِنْھُنَّ : ان میں سے فَاٰتُوْھُنَّ : تو ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً : ان کے مہر مقرر کیے ہوئے وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْمَا : اس میں جو تَرٰضَيْتُمْ : تم باہم رضا مند ہوجاؤ بِهٖ : اس سے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد الْفَرِيْضَةِ : مقرر کیا ہوا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو دوسروں کے نکاح میں ہوں مگر ہاں وہ جو تمہاری ملک میں آجائیں یعنی دارالحرب سے قید ہوکر آنے والی یہ تحریم کے احکام تم پر اللہ کی جانب سے فرض ہوئے ہیں1 اور ان محرمات مذکورہ کے علاوہ اور باقی عورتوں کو تمہارے لئے اس طور پر حلال کردیا گیا ہے کہ تم اپنے اموال یعنی مہر کے بدلے ان کو حاصل کرو بشرطیکہ تمہارا مقصد ان کو حبالہ نکاح میں لانا ہو محض شہوت رانی نہ ہو پھر نکاح کے بعد تم نے ان سے جس طرح بھی فائدہ اٹھایا ہو اس کے بدلے ان کو ان کے مقررہ مہر ادا کردو اور مہر مقرر کرنے کے بعد تم آپس میں کسی کمی بیشی پر رضامند ہوجائو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بیشک اللہ تعالیٰ بڑا صاحب علم و حکمت ہے2
1 اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری پشت سے اور تمہاری نسل سے ہوں یعنی متبنی منہ بولے اور لے پالک نہ ہوں۔ کیونکہ لے پالک اور متنبی کو حرمت میں کوئی دخل نہیں اور لے پالک کی بیوی حرام نہیں اور تم پر بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں رکھو خواہ وہ دونوں رضاعی بہنیں ہوں یا نسبتی ہوں مگر ہاں جو اس حکم سے پہلے ہوچکا وہ ہوچکا اور گزشتہ دور میں جو کرچکے وہ کرچکے اس پر مواخذہ نہیں۔ یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور بڑی مہربانی کرنے والا ہے اور عورتوں میں سے وہ عورتیں بھی تم پر حرام کی گئی ہیں جو دوسروں کی منکوحہ اور شوہر والیاں ہوں۔ مگر ہاں ! ان میں سے وہ عورتیں مستثنیٰ ہیں جو تمہاری مملوک ہوجائیں اور تمہارے داہنے ہاتھ ان کے مالک ہوجائیں یعنی وہ شوہر والی عورتیں جو دارالحرب سے قید ہوکر آجائیں اور ان کے شوہر دارالحرب میں رہ جائیں یہ عورتیں اگر حاملہ ہوں تو وضع حمل کے بعد اور اگر حاملہ نہ ہوں تو ایک حیض آجانے کے بعد حلال ہیں۔ ان مذکورہ بالا عورتوں کی تحریم کو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے اور تم پر ان احکام کو فرض کردیا ہے (تیسیر) بیٹوں کی بیویوں سے مراد بیٹوں، پوتوں، پر دتوں، نواسوں، کنواسوں وغیرہ سب کی بیویاں ہیں اور ان کی حرمت بھی صرف نکاح کرنے سے ہوجاتی ہے۔ اگر نکاح کے بعد وطی بھی ہوجائے تو بدرجۂ اولیٰ اس سے نکاح کرنا حرام ہوگا بلکہ بیٹا اگر کسی عورت سے زنا کرے تو بھی باپ اس سے نکاح نہیں کرسکتا جیسا کہ ہم اوپر باپ کی منکوحہ کے معاملہ میں عرض کرچکے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ بیٹا یا پوتا پروتا اور نواسہ کو انسا نسل سے ہو منہ بولا اور لے پالک نہ ہو۔ اور بہنوں کو جمع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بیک وقت دو بہنوں کو نکاح میں نہیں رکھ سکتے اور یہی حکم دو لونڈیوں کا بھی ہے کہ دولونڈیوں کو بھی جمع نہیں کرسکتے اگر وہ دونوں بہنیں ہودں اگرچہ ملک میں جمع ہوسکتی ہیں لیکن وطی میں جمع نہیں کرسکتے۔ شوہر والی عورتوں کے حرام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کسی عورت کا خاوند طلاق نہ دے یا وہ مرنہ جائے اور وہ عورت طلاق یا موت کی عدت پوری نہ کرے اس عورت سے نکاح کرنا حرام ہے البتہ وہ شوہر والی اس حکم سے مستثنیٰ ہے جو دارالحرب سے دارالاسلام میں قید کرکے لایء جائے اور وہ تمہاری مملوک کردی جائے تو تم اس کو ایک حیض کے بعد یا بچہ جن لینے کے بعد استعمال کرسکتے ہو۔ آخر میں فرمایا کہ یہ احکام تم پر اللہ تعالیٰ نے فرض کردیئے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں سات ناتے حرام فرمائے ایک ماں اس میں داخل ہے نانی اور دادی یعنی جو عورت کہ اس شخص کی جڑ ہے دوسری بیٹی اس میں داخل ہے نواسی اور پوتی یعنی جو اسی کی شاخ ہے۔ تیسری بہن چوتھی بھتیجی پانچویں بھانجی یعنی جو اس کے ماں باپ میں ملتی ہے چھٹی پھوپھی ساتویں خالہ جو ماں باپ سے ملتی ہے بشرطیکہ بےواسطہ ملتی ہو اور جو واسطہ سے ملے وہ حلال ہے جیسے پھوپھی کی بیٹی۔ (فائدہ) اوردودھ کے دو ناتے فرمائے ماں اور بہن اشارت ہے کہ ساتویں ناتے اس میں حرام ہیں۔ فائدہ اور سسرال کے چار ناتے فرمائے۔ عورت کو مرد کی جڑ اور شاخ اور مرد کو عورت کی جڑ اور شاخ مگر شاخ جب حرام ہے کہ نکاح کے بعد صحبت بھی ہوئی ہو اور جڑ فقط نکاح سے حرام ہے دودھ سے بھی یہ چار ناتے حرام ہوئے لیکن دودھ پینا وہی معتبر ہے کہ اسی عمر میں پئے بڑی عمر میں پینا معتبر نہیں۔ (فائدہ) اس جگہ ناتا سگا اور سوتیلا اور اخیانی سب معتبر ہے اور دودھ میں سوتیلا ناتا معتبر ہے۔ (فائدہ) بعداس کے منع فرمایا جمع کرنا دو بہنوں کا اس اشارت سے معلوم ہوا ساتوں ناتوں کا جمع کرنا حرام ہے اور سسرال کے ناتوں میں جمع کرنا حرام نہیں۔ (فائدہ) آخر کو حرام فرمائی نکاح بندھی عورت یعنی ایک کے نکاح میں ہے تو پھر ہر کسی کو اس کا نکاح حرام ہے۔ مگر یہ کہ اپنی ملک ہوجاوے اس کی صورت یہ کہ کافر مرد اور عورت میں نکاح تھا وہ عورت قید میں جس کو پہنچی اس کو حلال ہے۔ (فائدہ) اور دودھ کا ناتا یا سسرال کا مردکو اپنی لونڈی سے ہے تو اس کی صحبت حرام ہے اور ملک میں رہا کرے۔ (فائدہ) اور جو فرمایا کہ عورتیں تمہارے بیٹوں کی جو تمہاری پشت سے ہیں یعنی لے پالک کو بیٹا نہ جانو کسی حکم میں وہ بیٹا نہیں۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے بہت تفصیل کے ساتھ احکام کو واضح کردیا ہے اگرچہ زبان پرانی ہونے کی وجہ سے اس کے سمجھنے میں طبیعت الجھتی ہے لیکن مسائل تقریباً سب آگئے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے نسب کی حرمت کو اتے سے تعبیر فرمایا ہے قرآن کریم نے ان آیات میں تین قسم کی محرکات کا ذکر فرمایا ہے۔ محرمات نسبیہ دوسرے محرمات، رضاعیہ، تیسرے محرمات باالمصاہرات۔ حضرت شاہ صاحب (رح) کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ جو عورتیں نسب کے واسطے سے حرام ہیں ان میں سے ایک تو ماں ہے اور ماں میں تمام اصول داخل ہیں۔ نانی نانی کی ماں اور دادی دادی کے اوپر تک۔ دوسری بیٹی ہے۔ بیٹی میں تمام فروع داخل ہیں۔ نواسی، کو انسی، پوتی، پروتی نیچے تک۔ تیسری عورت بہن ہے۔ چوتھی بھتیجی ہے پانچویں بھانجی ہے یہ وہ رشتے ہیں جو باپ سے ملتے ہیں مثلاً بہن خواہ کسی قسم کی ہو۔ بھتیج یعنی بھائی کی بیٹی وہ بھائی خواہ کسی قسم کا ہو۔ بھانجی یعنی بہن کی بیٹی وہ بہن خواہ کسی قسم کی یعنی سگی یا سوتیلی۔ ان محرمات میں سے چھٹی پھوپھی۔ ساتویں خالہ۔ یعنی باپ کی بہن خواہ وہ کسی قسم کی ہو۔ اسی طرح خالہ یعنی ماں کی بہن خواہ کسی قسم کی ماں کی سگی بہن ہو یا سوتیلی۔ آخر میں شاہ صاحب (رح) نے فرمایا جو ماں باپ سے بلاواسطہ ملتی ہوں یعنی پھوپھی اور خالہ جو باپ ماں کی بہنیں ہیں وہ حرام ہیں ان کی اولاد حرام نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ خالہ زاد بہن اور پھوپھی زاد بہن سے نکاح حرام نہیں ہے۔ پھرشاہ صاحب (رح) نے محرمات رضاعیہ کا ذکر کیا ہے اور اس میں یہ بتایا کہ جس طرح نسب سے حرمت آتی ہے اسی طرح دودھ کی شرکت سے بھی آتی ہے۔ لہٰذا جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں وہ دودھ کی وجہ سے بھی حرام ہیں۔ یعنی رضاعی بیٹی، رضاعی پھوپھی، رضاعی خالہ اور رضاعی بھتیجی اور رضاعی بھانجی بھی حرام ہے۔ پھر اس کے بعد شاہ صاحب (رح) نے حرمت مصاہرت کا ذکر فرمایا اس میں یہ بتایا کہ عورت کو مرد کے اصول اور فرع حرام ہیں اور مرد کو عورت کے اصول و فرع حرام ہیں۔ پھر ان دونوں میں شاہ صاحب (رح) نے یہ فرق بیان کیا کہ اصول تو صرف نکاح کرتے ہی حرام ہوجاتے ہیں جیسے ایک مرد سے نکاح کرتے ہی اس امر کا باپ داد عورت پر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتا ہے اور ایک عورت سے نکاح کرتے ہی اس کی ماں نانی دادی وغیرہ اس مرد کو ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہیں۔ البتہ فروع میں اس وقت حرمت آتی ہے جب نکاح کے بعد صحبت بھی ہوجائے اور اگر کوئی مرد صحبت سے پہلے طلاق دیدے تو عورت کی فرع مرد کیلئے حرام نہیں۔ جیسے ربیبہ یعنی عورت کی گیلٹر بیٹی یہ دخول سے پہلے عورت کی فرع سے نکاح کا جائز ہونا صرف مرد کے لئے ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ مرد کی منکوحہ بھی اگر قبل از دخول مطلقہ ہوجائے تو مرد کے لڑکے کو اس سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔ یعنی گیلٹر بیٹی مرد کے لئے حلال ہوسکتی ہے۔ مگر باپ کی منکوحہ سے نکاح جائز نہیں ہوسکتا تھا جیسا کہ اوپر گزرچکا۔ پھر شاہ صاحب (رح) نے دودھ کے تعلقات کا بھی یہی حکم فرمایا اور دودھ کی مدت کے اندر دودھ پینے کا ذکر فرمایا۔ پھر شاہ صاحب (رح) نے ان تعلقات کی تصریح فرمائی۔ جن میں دو عورتوں کو بہ یک وقت جمع نہیں کرسکتے۔ دو بہنوں کا ذکر تو قرآن کریم میں موجود ہی ہے۔ شاہ صاحب (رح) کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ پھوپھی، بھتیجی، خالہ، بھانجی کو بھی جمع نہیں کرسکتے اور اس موقعہ پر فقہا کا قاعدہ مشہور ہے کہ ایسی دو عورتیں جن میں سے اگر ایک کو مرد فرض کیا جائے تو دونوں کا نکاح آپس میں ناجائز ہو تو ان دو عورتوں کو جمع نہیں کرسکتے۔ البتہ ! جب ایک مرجائے یا اس کو طلاق دیدی جائے اور طلاق کی عدت پوری ہوجائے تو دوسری سے نکاح ہوسکتا ہے۔ مثلاً دو بہنیں اگر ان میں ایک کو مردفرض کرلیں تو بھائی بہن ہوں گے اور بھائی بہن کا نکاح حرام ہے لہٰذا دو بہنوں کو نکاح میں جمع نہیں کیا جاسکتا۔ باقی مسائل سب صاف ہیں اور ہم تسہیل میں بہت توضیح سے بیان کرچکے ہیں اب آگے عورتوں کے متعلق بعض اور مسائل مذکور ہیں۔ (تسہیل) 2 اور ان محرمات مذکورہ کے سوا باقی اور عورتیں اس طور پر تمہارے لئے حلال کردی گئی ہیں کہ تم اپنے اموال کے عوض ان کو تلاش کرو اور اپنے اموال کے ذریعہ ان کو حاصل کرو اور یہ حاصل کرنا اس طرح ہو کہ تم ان کو بیوی بنائو اور ان کو خبالہ نکاح میں رکھو تمہارا مقصد محض مستی نکالنا نہ ہو پھر نکاح کے بعد تم نے شرعی قوانین کے مطابق اس سے جس طرح بھی نفع اٹھایا ہو اور ان سے فائدہ حاصل کیا ہو لہٰذا ! اس کے عوض ان کے مقررہ مہران کو دیدو اور مقرر شدہ مہر کے بعد تم میاں بیوی آپس میں کسی کمی بیشی پر باہم رضا مند ہوجائو یعنی بیوی کچھ گھٹا دے یا سب معاف کردے یا میاں مقررہ مہر سے کچھ زیادہ کردے تو ایسا کرنے میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔ یقین جانو ! کہ اللہ تعالیٰ کمال علم اور کمال حکمت کا مالک ہے۔ تمہارے احوال سے بخوبی واقف ہے اور اس کے تمام احکام کسی نہ کسی حکمت اور مصلحت پر مبنی ہیں۔ (تیسیر) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جو عورتیں حرام فرمادیں ان کے سوا سب حلال ہیں چار شرط سے اول یہ کہ طلب کرو یعنی زبان سے ایجاب و قبول درمیان آوے۔ دوسرے یہ کہ مال دینا قبول کرو یعنی مہر۔ تیسرے یہ کہ قید میں لانے کی طرح ہو مستی نکالنے کی نہ ہو یعنی ہمیشہ کو وہ عورت اس مرد کی ہوجاوے اس کے چھوڑے بغیرنہ چھوٹے یعنی مدت کا ذکر نہ آوے کہ مہینہ تک یا برس تک اس لئے متعہ حرام ٹھہرا۔ چوتھی شرط سورة مائدہ میں فرمائی اور یہاں بھی لونڈیوں کے نکاح میں آگے فرمائی ہے کہ چھپی یاری نہ ہو۔ یعنی لوگ شاہد ہوں کم سے کم دو مرد یا ایک مرد دو عورتیں۔ پر فرمایا جو عورت کام میں آئی اس کا مہر پورا دینا پڑا یعنی صحبت ہوئی یا خلوت ہوئی اب کسی طرح مہر نہیں چھوٹتا اور جب تک کام میں نہیں آئی تو اگر مرد چھوڑے تو آدھا مہر دے اور اگر عورت ایسا کام کرے کہ نکاح ٹوٹ جاوے تو سب مہر اتر گیا۔ پھر فرمایا کہ بعد مہر مقرر کرنے کے جو دونوں اپنی خوشی سے بڑھا دیں یا گھٹا دیں وہ بھی معتبر ہے (موضح القرآن) ماوراء ذلکم کا مطلب یہ ہے کہ جو عورتیں دلالتہً یا اشارتہً اپنے محرم کی وجہ سے مذکور ہوئیں وہ اور اسی طرح وہ عورتیں جن کی حرمت سنت اور آثار صحابہ ؓ سے ثابت ہوجائے ان کے علاوہ باقی اور سب عورتیں تمہارے لئے شرائط مذکورہ کے ساتھ حلال ہیں وہ شرائط یہ ہیں۔ (1) کہ ان عورتوں کو اپنے مالوں کے ذریعہ حاصل کرو۔ ابتغا کے معنی تلاش اور مطلب کے ہیں۔ یہاں مراد یہ ہے کہ مہر مقرر کرو اور باقاعدہ طرفین سے ایجاب و قبول ہو اگر نکاح کے وقت مہر کا نام نہ لیا جائے تب بھی نکاح ہوجائے گا اور مہر مثل لازم ہوگا۔ جیسا کہ سورة بقرہ میں گزرچکا۔ بہرحال ! ایجاب و قبول ہو اور مہر مقرر ہو۔ مہر کا تقرر حقیقتاً ہو یعنی نکاح کے وقت مہر کا نام لیا جائے یا حکماً کہ مہر مثل لازم ہوجائے۔ (2) ان عورتوں کو بیوی بناکر رکھنا ہو اور عورت کو حبالہ نکاح میں لانا ہو یعنی شرعی طریق سے نکاح کیا جائے نکاح کے وقت گواہ بھی موجود ہوں اور نکاح موقت نہ ہو کہ تین دن تک کے لئے نکاح کرویا ایک مہینے کے لئے کرویا ایک سال کے لئے کرو۔ (3) محض مستی نکالنا مقصود نہ ہو جیسا کہ زنا میں یا متعہ میں ہوتا ہے اگرچہ مال وہاں بھی خرچ کرنا ہوتا ہے۔ بہرحال ! ان شرائط سے زنا اور متعہ خارج ہوگیا کیونکہ وہ شرعی نکاح نہیں ہے۔ متعہ کی حقیقت اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ ابتداء میں مشروع تھا پھر نبی کریم ﷺ نے اس کی حرمت کا اعلان فرمادیا اور قیامت تک کے لئے اس کو حرام کردیا۔ جیسا کہ مسلم نے ربیع بن سبرہ ابن معبد جہنی سے روایت کیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خیبر سے پہلے متعہ مشروع تھا پھر خیبر میں حرام ہوا پھر یوم ارطاس میں تین دن کے لئے اجازت دی گئی اور پھر ہمیشہ کے لئے حرام کردیا گیا۔ جیسا کہ بعض روایات سے ثابت ہے۔ بہرحال فتح مکہ کے بعد اس کی حرمت ہوئی اور حضور ﷺ کے اعلان فرمانے کے بعد پھر حلال نہیں ہوا اور علمائے حق اور اہل سنت کا یہی مسلک ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے خیبر میں اس کے حرام ہونے کی تصریح موجود ہے اس کے بعد کہاجاتا ہے کہ تین دن کے لئے ارطاس میں اجازت ہوئی تھی پھر ہمیشہ کے لئے حرام کردیا گیا۔ فما استمتعتم کا مطلب یہ ہے کہ شرعی طریقہ سے جو نفع ان عورتوں سے حاصل کرو تو ان کو ان کا مقرر مہر ادا کردو۔ یعنی ہم بستری یا خلوت صحیحہ کو وہ خلوت بھی ہم بستری کے حکم میں ہے اگر ان دو صورتوں میں سے کوئی صورت پیش آجائے تو ان کا پورا مہر تمہارے ذمہ واجب ہے وہ ان کو دے دو ۔ چونکہ مہر نفع کے مقابلہ میں ہوتا ہے اس لئے اس کو اجور فرمادیا اور اگر ان سے انتفاع کی نوبت نہ آئی ہو اور انتفاع سے پہلے طلاق کی نوبت آجائے تو پھر نصف مہر دینا ہوگا۔ جیسا کہ سورة بقرہ میں بیان ہوچکا ہے۔ آیت کے آخری حصے میں مہر کی کمی بیشی کرنے کی باہمی رضامندی سے اجازت دی گئی ہے۔ اگر میاں بیوی باہم رضامند ہوں تو عورت کچھ کم کردے یا سب معاف کردے اس کو حق ہے اسی طرح خاوند اگر خوش ہوکر مہر میں اضافہ کردے تو اس کو بھی اجازت ہے۔ قانون کے آخر میں علم و حکمت سے اشارہ اس طرف فرمایا کہ ہمارا کوئی قانون حکمت سے خالی نہیں۔ نیز عمل کرنے والوں کی حالت سے ہم بخوبی واقف ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ان تبتغوا باموالکم سے یہ امر ظاہر ہے کہ مہر کے لئے مال کا ہونا ضروری ہے۔ نیز یہ کہ ان تبتغوا باموالکم میں باندیاں بھی داخل ہیں اگر آزاد عورتوں سے نکاح کرو تو ان کو مہر کے ذریعہ حاصل کرو اور اگر لونڈیاں خریدنی چاہو تو ان کی قیمت ادا کرکے خریدو۔ اب آگے اسی نکاح کے سلسلے میں بعض اور مسائل مذکور ہیں۔ مثلاً یہ کہ ایک مسلمان جس طرح آزاد عورت سے جو مسلمان ہو نکاح کرسکتا ہے اسی طرح ایک لونڈی سے بھی اس کے آقا کی اجازت سے نکاح کرسکتا ہے۔ لیکن آزاد عورت سے اگر نکاح کرنے کی استطاعت ہو تو لونڈی سے نکاح کرنا پسندیدہ نہیں ہے کیونکہ اول تو لونڈی کے پیٹ سے جو اولاد ہوگی وہ غلام ہوگی۔ پھر لونڈی دوسرے کی مملوک ہوگی خدمت وہ لے گا اور ہم بستری کا حق خاوندکو ہوگا۔ ایسی حالت میں ممکن ہے کہ کسی وقت دونوں کے حقوق میں ٹکرائو ہوجائے یا وہ کہیں لے کر چلا جائے یا وہ کسی وقت اس لونڈی کو دوسرے آدمی کے ہاتھ فروخت کردے۔ پھر یہ کہ لونڈی کو گھر داری کا اتنا سلیقہ بھی نہیں ہوتا جو آزاد عورت کو ہوتا ہے پھر آزاد عورت اور لونڈی کے پردے میں بھی فرق ہے غرض ان تمام صورتوں کے پیش نظر ان سے نکاح کرنے میں بعض قیود عائد کردی ہیں۔ اگرچہ وہ قیود حنفیہ کے نزدیک احترازی نہیں ہیں اور وہ قیود حقیقی شرط نہیں ہیں بلکہ وہ اولویت کے درجہ میں ہیں اگر کوئی ان قیود کے خلاف کرے گا تو نکاح ہوجائے گا اگرچہ مع الکراہت ہوگا لیکن شوافع کے نزدیک ان کے مشہور قاعدے کی بنا پر کہ مفہوم مخالف کا معتبر ہوتا ہے نکاح نہیں ہوگا۔ بہرحال آگے ان قیود کا ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top