Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 27
وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْكُمْ١۫ وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّهَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا
وَاللّٰهُ : اور اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ہے اَنْ : کہ يَّتُوْبَ : توجہ کرے عَلَيْكُمْ : تم پر وَيُرِيْدُ : اور چاہتے ہیں الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ : جو لوگ پیروی کرتے ہیں الشَّهَوٰتِ : خواہشات اَنْ : کہ تَمِيْلُوْا : پھر جاؤ مَيْلًا : پھرجانا عَظِيْمًا : بہت زیادہ
اور اللہ تعالیٰ تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے اور وہ لوگ جو اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم سیدھی راہ سے ہٹ کر بہت بڑی کج روی میں جاپڑو2
2 اللہ تعالیٰ کو منظور ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اپنے احکام تمہارے لئے صاف صاف بیان فرمادے اور ان لوگوں کے احوال اور طریقے کو بتادے جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں اور ان سابقہ لوگوں کے یعنی انبیاء صالحین کے طریقوں پر تم کو چلائے اور وہ تم پر مہربانی اور رحمت کے ساتھ توجہ فرمائے اور اللہ تعالیٰ کمالِ علم اور کمال حکمت کا مالک ہے اور اللہ کو ان احکام اور پہلے لوگوں کے طریقے بتانے سے یہ منظور ہے کہ وہ تم پر رحمت و مہربانی کے ساتھ توجہ فرمائے اور وہ لگو جو خواہشات نفسانی کے پیرو ہیں اور اپنے مزوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں اور ان شہوت پرستوں کو یہ منظور ہے کہ تم سیدھی راہ سے ہٹ کر بہت بڑی کجی اور کج روی میں جاپڑو اور راہ راست سے مڑ کر بہت دورہوجائو۔ (تیسیر) تبیین کے معنی کسی چیز کو صاف اور واضح طور پر بیان کرنے کے ہیں۔ چونکہ اوپر بعض احکام بیان فرمائے تھے اس لئے فرمایا ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے روبرو ان احکام کی بعض حکمتیں تم سے صاف صاف بیان کردیں۔ سنن کے معنی ہیں طریقے۔ مطلب یہ ہے کہ تم سے پہلے جو انبیاء اور صلحاء گزرے ہیں ان کے ان طریقوں پر تم کو چلائیں جو تمہاری شریعت میں منسوخ شدہ نہ ہوں۔ کیونکہ سوائے چند باتوں کے اور باقی امور سب انبیاء کی شرائع میں ملتے جلتے ہی ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سنن سے مراد پہلے لوگوں کے واقعات و حالات ہوں جیسا کہ بعض حضرات نے اختیار کیا ہے تو اب ہدایت کا ترجمہ چلانا نہیں بلکہ دکھانا اور بتانا ہوگا۔ اور مطلب یہ ہوگا کہ احکام کی تبیین عمل کرنے کے لئے اور پہلوں کے واقعات عبرت کی غرض سے بیان کئے ہیں۔ بہرحال دونوں باتوں سے مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر توجہ فرمائے احکام بیان کئے اور پہلوں کے حالات بتائے یا پہلوں کے طریقہ پر چلائے۔ غرض ! اس سب سے مہربانی کے ساتھ تمہارے ال پر توجہ فرمانا اور تم پر عنایت کرنا ہے کیونکہ جو باتیں بھی ہم بیان فرماتے ہیں ان میں تمہارا نفع ہی نفع ہے۔ بعض حضرات نے یتوب علیکم سے مراد توبہ لی ہے اور یوں ترجمہ کیا ہے کہ وہ تم کو توبہ کی توفیق دے اور تم کو معصیت سے فرماں برداری کی جانب لوٹا دے۔ (واللہ اعلم) آخر میں علم و حکمت کا ذکر فرمایا تاکہ یہ بات ظاہر ہوجائے کہ بندوں کی ضرورت سے وہ بخوبی واقف ہے۔ اور چونکہ حکیم ہے اس لئے بندوں کی مصلحت کی رعایت رکھتا ہے پھر تاکید کے طور پر مکرر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو تو تمہارے حال پر مہربانی کے ساتھ توجہ کرنا منظور ہے اور ان احکام کے بیان کرنے اور پہلے لوگوں کا راستہ دکھانے کی وجہ یہی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اوپر کی آیت میں یتوب علیکم سے مراد گناہوں کی مغفرت ہو اور دوسری آیت میں یتوب علیکم سے مراد کمال مہربانی اور نیک امور کی توفیق ہو۔ اس تقریر پر تکرار لازم نہ آئے گی۔ بہرحال ! اللہ تعالیٰ کا مقصد تو اپنے بندوں پر مہربانی فرمانا ہے اور جو لوگ شہوات کے پیرو ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ تم راہ حق سے باطل کی جانب مائل ہوجائو اور ایسی کج راہی میں جاپڑو جس کے بعد راہ حق کی جانب واپسی کی کوئی توقع نہ رہے۔ یتبعون الشھوات سے مراد فاسق فاجر لوگ ہیں اور ہوسکتا ہے زانی ہوں یا نصاریٰ ہوں اور ہوسکتا ہے کہ مجوس ہوں کیونکہ وہ سگی بہن اور بھانجی بھتیجی سے نکاح کرلیتے تھے اس لئے ان کی جانب سے ان محرمات پر کوئی اعتراض کیا گیا ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ یہود ہوں کیونکہ ان کے ہاں بھی علاتی بہن سے نکاح درست تھا اور وہ بھی علاتی بھتیجی اور بھانجی سے نکاح کرنے کو جائز سمجھتے تھے۔ جیسا کہ بعض نے کہا ہے چونکہ شان نزول میں مختلف روایات ثابت ہیں اس لئے تفسیر میں بھی اقوال مختلف ہوگئے ہیں۔ میل عظیم جس کے معنی ہم نے بڑی کجی اور کجراہی کیا ہے۔ اس کے بھی دو معنی ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ حرام کو حلال سمجھ کر مرتکب ہو۔ دوسرا یہ کہ گناہ کو گناہ سمجھے مگر دلیری کے ساتھ اس کا مرتکب ہو۔ پہلی صورت کا تعلق کفار کے ساتھ ہے۔ اور دوسری صورت کا تعلق فساق کے ساتھ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کافر یہ چاہتے ہوں کہ تم حرام کو حلال کہنے لگو اور فاسق یہ چاہتے ہوں کہ تم خوب جی کھول کر گناہ کرو۔ شہوات سے وہ خواہشات مراد ہیں جو غیر شرعی ہیں اورا نہی کا اتباع مذموم ہے اور جو باتیں شرعاً مباح اور جائز ہیں ان کی خواہش مذموم نہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی بری صحبت جو آدمی کا دل دوڑائے برے کام پر اور شرع پر مقید نہ رہنے دے۔ (موضح القرآن) شاہ صاحب (رح) نے کیا خوب خلاصہ بیان فرمایا ہے۔ بری صحبت کو اس کج روی میں بڑا دخل ہے خواہ وہ کسی کو ہو۔ ہر برا آدمی یہی چاہتا ہے کہ دوسرے کو اپنے رنگ میں رنگ لے آگے اللہ تعالیٰ احکام میں آسانی اور تخفیف کا اظہار فرماتا ہے تاکہ احکام کی مصلحت کے ساتھ یہ بات بھی ظاہر ہوجائے کہ احکام میں رعایت اور آسانی بھی منظور ہے تاکہ ان کو بجالانے میں کوئی دشواری نہ ہو چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top