Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 21
وَ كَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَیْهِمْ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ لَا رَیْبَ فِیْهَا١ۗۚ اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَهُمْ اَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْهِمْ بُنْیَانًا١ؕ رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰۤى اَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْهِمْ مَّسْجِدًا
وَكَذٰلِكَ
: اور اسی طرح
اَعْثَرْنَا
: ہم نے خبردار کردیا
عَلَيْهِمْ
: ان پر
لِيَعْلَمُوْٓا
:تا کہ وہ جان لیں
اَنَّ
: کہ
وَعْدَ اللّٰهِ
: اللہ کا وعدہ
حَقٌّ
: سچا
وَّاَنَّ
: اور یہ کہ
السَّاعَةَ
: قیامت
لَا رَيْبَ
: کوئی شک نہیں
فِيْهَا
: اس میں
اِذْ
: جب
يَتَنَازَعُوْنَ
: وہ جھگڑتے تھے
بَيْنَهُمْ
: آپس میں
اَمْرَهُمْ
: ان کا معاملہ
فَقَالُوا
: تو انہوں نے کہا
ابْنُوْا
: بناؤ
عَلَيْهِمْ
: ان پر
بُنْيَانًا
: ایک عمارت
رَبُّهُمْ
: ان کا رب
اَعْلَمُ بِهِمْ
: خوب جانتا ہے انہیں
قَالَ
: کہا
الَّذِيْنَ غَلَبُوْا
: وہ لوگ جو غالب تھے
عَلٰٓي
: پر
اَمْرِهِمْ
: اپنے کام
لَنَتَّخِذَنَّ
: ہم ضرور بنائیں گے
عَلَيْهِمْ
: ان پر
مَّسْجِدًا
: ایک مسجد
اور اسی طرح خبر ظاہر کردی ہم نے ان کی تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ ٹھیک ہے اور قیامت کے آنے میں دھوکہ نہیں، جب جھگڑ رہے تھے آپس میں اپنی بات پر پھر کہنے لگے بناؤ ان پر ایک عمارت، ان کا رب خوب جانتا ہے ان کا حال، بولے وہ لوگ جن کا کام غالب تھا ہم بنائیں گے ان کی جگہ پر عبادت خانہ۔
خلاصہ تفسیر
اور (ہم نے جس طرح اپنی قدرت سے ان کو سلایا اور جگایا) اسی طرح ہم نے (اپنی قدرت و حکمت سے اس زمانے کے) لوگوں کو ان (کے حال) پر مطلع کردیا تاکہ (منجملہ اور فوائد کے ایک فائدہ یہ بھی ہو کہ) وہ لوگ (اس واقعہ سے استدلال کر کے) اس بات کا یقین (یا زیادہ یقین) کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے، اور وہ یہ کہ قیامت میں کوئی شک نہیں (یہ لوگ اگر پہلے سے قیامت میں زندہ ہونے پر ایمان رکھتے تھے تو زیادہ یقین اس واقعہ سے ہوگیا، اور اگر قیامت کے منکر تھے تو اب یقین حاصل ہوگیا یہ واقعہ تو اصحاب کہف کی زندگی میں پیش آیا، پھر ان صاحبوں نے وہیں غار میں وفات پائی، تو ان کے متعلق اہل عصر میں اختلاف ہوا جس کو آگے بیان فرمایا ہے کہ) وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اس زمانے کے لوگ ان کے معاملے میں باہم جھگڑ رہے تھے، (اور وہ معاملہ اس غار کا منہ بند کرنا تھا، تاکہ ان کی لاشیں محفوظ رہیں، یا ان کی یادگار قائم کرنا مقصود تھا) سو ان لوگوں نے کہا کہ ان کے (غار کے) پاس کوئی عمارت بنوا دو (پھر اختلاف ہوا کہ وہ عمارت کیا ہو، اس میں رائیں مختلف ہوئیں، تو اختلاف کے وقت) ان کا رب ان (کے احوال مختلفہ) کو خوب جانتا تھا (بالآخر) جو لوگ اپنے کام پر غالب تھے (یعنی اہل حکومت جو اس وقت دین حق پر قائم تھے) انہوں نے کہا کہ ہم تو ان کے پاس ایک مسجد بنادیں گے (تاکہ مسجد اس بات کی بھی علامت رہے کہ یہ لوگ خود عابد تھے معبود نہ تھے اور دوسری عمارتوں میں یہ احتمال تھا کہ آگے آنے والے انہی کو معبود بنالیں)
معارف و مسائل
وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ اس آیت میں اصحاب کہف کے راز کا اہل شہر پر منکشف ہوجانا اور اس کی حکمت عقیدہ آخرت و قیامت کہ سب مردے دوبارہ زندہ ہوں گے اس پر ایمان و یقین حاصل ہونا بیان فرمایا ہے، تفسیر قرطبی میں اس کا مختصر قصہ اس طرح مذکور ہے کہ۔
اصحاب کہف کا حال اہل شہر پر کھل جانا
اصحاب کہف کے نکلنے کے وقت جو ظالم اور مشرک بادشاہ دقیانوس اس شہر پر مسلط تھا وہ مر گیا، اور اس پر صدیاں گذر گئیں، یہاں تک اس مملکت پر قبضہ اہل حق کا ہوگیا جو توحید پر یقین رکھتے تھے ان کا بادشاہ ایک نیک صالح آدمی تھا (جس کا نام تفسیر مظہری میں تاریخی روایات سے بیدوسیس لکھا ہے) اس کے زمانے میں اتفاقا قیامت اور اس میں سب مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے مسئلے میں کچھ اختلافات پھیل گئے، ایک فرقہ اس کا منکر ہوگیا کہ یہ بدن گلنے سڑنے، پھر ریزہ ریزہ ہو کر ساری دنیا میں پھیل جانے کے بعد پھر زندہ ہوجائیں گے، بادشاہ وقت بیدوسیس کو اس کی فکر ہوئی کہ کس طرح ان کے شکوک و شبہات دور کئے جائیں، جب کوئی تدبیر نہ بنی تو اس نے ٹاٹ کے کپڑے پہنے اور راکھ کے ڈھیر پر بیٹھ کر اللہ سے دعا کی اور الحاح وزاری شروع کی، کہ یا اللہ آپ ہی کوئی ایسی صورت پیدا فرما دیں کہ ان لوگوں کا عقیدہ صحیح ہوجائے اور یہ راہ پر آجائیں، اس طرف یہ بادشاہ گریہ وزاری اور دعا میں مصروف تھا، دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا کی قبولیت کا یہ سامان کردیا کہ اصحاب کہف بیدار ہوئے اور انہوں نے اپنے ایک آدمی کو (جس کا نام تملیخا بتلایا جاتا ہے ان کے بازار میں بھیج دیا وہ کھانا خریدنے کے لئے دکان پر پہنچا اور تین سو برس پہلے بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا سکہ کھانے کی قیمت میں پیش کیا تو دکاندار حیران رہ گیا، کہ یہ سکہ کہاں سے آیا، کس زمانے کا ہے، بازار کے دوسرے دکان داروں کو دکھلایا، سب نے یہ کہا کہ اس شخص کو کہیں پرانا خزانہ ہاتھ آگیا ہے اس میں سے یہ سکہ نکال کر لایا ہے، اس نے انکار کیا کہ نہ مجھے کوئی خزانہ ملا، نہ کہیں سے لایا یہ میرا اپنا روپیہ ہے۔
بازار والوں نے اس کو گرفتار کر کے بادشاہ کے سامنے پیش کردیا، یہ بادشاہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے، ایک نیک صالح اللہ والا تھا، اور اس نے سلطنت کے پرانے خزانے کے آثار قدیمہ میں کہیں وہ تختی بھی دیکھی تھی جس میں اصحاب کہف کے نام اور ان کے فرار ہوجانے کا واقعہ بھی لکھا ہوا تھا، بعض کے نزدیک خود ظالم بادشاہ دقیانوس نے یہ تختی لکھوائی تھی، کہ یہ اشتہاری مجرم ہیں، ان کے نام اور پتے محفوظ رہیں، جب کہیں ملیں گرفتار کر لئے جائیں، اور بعض روایات میں ہے کہ شاہی دفتر میں بعض ایسے مومن بھی تھے جو دل سے بت پرستی کو برا سمجھتے اور اصحاب کہف کو حق پر سمجھتے تھے، مگر ظاہر کرنے کی ہمت نہیں تھی، انہوں نے یہ تختی بطور یادگار کے لکھ لی تھی، اس تختی کا نام رقیم ہے جس کی وجہ سے اصحاب کہف کو اصحاب رقیم بھی کہا گیا۔
الغرض اس بادشاہ کو اس واقعہ کا کچھ علم تھا، اور اس وقت وہ اس دعا میں مشغول تھا کہ کسی طرح لوگوں کو اس بات کا یقین آجائے کہ مردہ اجسام کو دوبارہ زندہ کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے سامنے کچھ بعید نہیں۔
اس لئے تملیخا سے اس کے حالات کی تحقیق کی تو اس کو اطمینان ہوگیا کہ یہ انہی لوگوں میں سے ہے اور اس نے کہا کہ میں تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتا تھا کہ مجھے ان لوگوں سے ملا دے جو دقیانوس کے زمانے میں اپنا ایمان بچا کر بھاگے تھے ؟ بادشاہ اس پر مسرور ہوا اور کہا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی، اس میں لوگوں کے لئے شاید کوئی ایسی حجت ہو جس سے ان کو حشر اجساد کا یقین آجائے، یہ کہہ کر اس شخص سے کہا کہ مجھے اس غار پر لے چلو جہاں سے تم آئے ہو۔
بادشاہ بہت سے اہل شہر کے مجمع کے ساتھ غار پہنچا، جب غار قریب آیا تو تملیخا نے کہا کہ آپ ذرا ٹھہریں میں جا کر اپنے ساتھیوں کو حقیقت معاملہ سے باخبر کر دوں کہ اب بادشاہ مسلمان موحد ہے اور قوم بھی مسلمان ہے، وہ ملنے کے لئے آئے ہیں، ایسا نہ ہو کہ اطلاع سے پہلے آپ پہونچیں، تو وہ سمجھیں کہ ہمارا دشمن بادشاہ چڑھ آیا ہے، اس کے مطابق تملیخا نے پہلے جا کر ساتھیوں کو تمام حالات سنائے تو وہ لوگ اس سے بہت خوش ہوئے، بادشاہ کا استقبال تعظیم کے ساتھ کیا، پھر وہ اپنے غار کی طرف لوٹ گئے، اور اکثر روایات میں یہ ہے کہ جس وقت تملیخا نے ساتھیوں کو یہ سارا قصہ سنایا، اسی وقت سب کی وفات ہوگئی، بادشاہ سے ملاقات نہیں ہوسکی، بحر محیط میں ابو حیان نے اس جگہ یہ روایت نقل کی ہے کہ ملاقات کے بعد اہل غار نے بادشاہ اور اہل شہر سے کہا کہ اب ہم آپ سے رخصت چاہتے ہیں اور غار کے اندر چلے گئے، اسی وقت اللہ تعالیٰ نے ان سب کو وفات دیدی، واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔
بہر حال اب اہل شہر کے سامنے یہ واقعہ عجیبہ قدرت آلہیہ کا واشگاف ہو کر آ گیا تو سب کو یقین
ہوگیا کہ جس ذات کی قدرت میں یہ داخل ہے کہ تین سو برس تک زندہ انسانوں کو بغیر کسی غذا اور
سامان زندگی کے زندہ رکھے اور اس طویل عرصہ تک ان کو نیند میں رکھنے کے بعد پھر صحیح سالم،
قوی، تندرست اٹھاوے اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ مرنے کے بعد بھی پھر ان اجسام کو زندہ
کر دے، اس واقعہ سے ان کے انکار کا سبب دور ہوگیا کہ حشر اجساد کو مستبعد اور خارج از قدرت سمجھتے تھے، اب معلوم ہوا کہ مالک الملکوت کی قدرت کو انسانی قدرت پر قیاس کرنا خود جہالت ہے۔
اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا (آیت) لِيَعْلَمُوْٓا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيْهَا یعنی ہم نے اصحاب کہف کو زمانہ دراز تک سلانے کے بعد جگا کر بٹھا دیا تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ اللہ کا وعدہ یعنی قیامت میں سب مردوں کے اجسام کو زندہ کرنے کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔
اصحاب کہف کی وفات کے بعد لوگوں میں اختلاف رائے۔
اصحاب کہف کی بزرگی اور تقدس کے تو سب ہی قائل ہوچکے تھے، ان کی وفات کے بعد سب کا خیال ہوا کہ غار کے پاس کوئی عمارت بطور یادگار کے بنائی جائے، عمارت کے بارے میں اختلاف رائے ہوا، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل شہر میں اب بھی کچھ بت پرست لوگ موجود تھے وہ بھی اصحاب کہف کی زیارت کو آتے تھے ان لوگوں نے عمارت بنانے میں یہ رائے دی کہ کوئی رفاہ عام کی عمارت بنادی جائے مگر ارباب حکومت اور بادشاہ مسلمان تھے، اور انہی کا غلبہ تھا، ان کی رائے یہ ہوئی کہ یہاں مسجد بنادی جائے جو یادگار بھی رہے اور آئندہ بت پرستی سے بچانے کا سبب بھی بنے یہاں اختلاف رائے کا ذکر کرتے ہوئے درمیان میں قرآن کا یہ جملہ ہے رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ ، یعنی ان کا رب ان کے حالات کو پوری طرح جانتا ہے۔
تفسیر بحر محیط میں اس جملے کے معنی میں دو احتمال ذکر کئے ہیں ایک یہ کہ یہ قول انہی حاضرین اہل شہر کا ہو، کیونکہ ان کی وفات کے بعد جب ان کی یادگار بنانے کی رائے ہوئی جو جیسا عموما یادگاری تعمیرات میں ان لوگوں کے نام اور خاص حالات کا کتبہ لگایا جاتا ہے جن کی یادگار میں تعمیر کی گئی ہے تو ان کے نسب اور حالات کے بارے میں مختلف گفتگو ہونے لگیں، جب کسی حقیقت پر نہ پہنچنے تو خود انہوں نے ہی آخر میں عاجز ہو کر کہہ دیا رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ اور یہ کہہ کر اصل کام یعنی یادگار بنانے کی طرف متوجہ ہوگئے، جو لوگ غالب تھے ان کی رائے مسجد بنانے کی ہوگئ۔
دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہ کلام حق تعالیٰ کی طرف سے ہے، جس میں اس زمانے کے باہم جھگڑا اور اختلاف کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جب تمہیں حقیقت کا علم نہیں، اور اس کے علم کے ذرائع بھی تمہارے پاس نہیں تو کیوں اس بحث میں وقت ضائع کرتے ہو، اور ممکن ہے کے زمانہ رسول اللہ ﷺ میں یہود وغیرہ جو اس واقعہ میں اسی طرح کی بےاصل باتیں اور بحثیں کیا کرتے تھے، ان کو تنبیہ مقصود ہو، واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مسئلہاس واقعہ سے اتنا معلوم ہوا کہ اولیاء صلحاء کی قبور کے پاس نماز کے لئے مسجد بنادینا کوئی گناہ نہیں، اور جس حدیث میں قبور انبیاء کو مسجد بنانے والوں پر لعنت کے الفاظ آئے ہیں، اس سے مراد خود قبور کو سجدہ گاہ بنادینا ہے، جو باتفاق شرک و حرام ہے (مظہری)
Top