Maarif-ul-Quran - An-Noor : 12
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
لَوْلَآ : کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا ظَنَّ : گمان کیا الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتُ : اور مومن عورتوں بِاَنْفُسِهِمْ : (اپنوں کے) بارہ میں خَيْرًا : نیک وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ھٰذَآ : یہ اِفْكٌ : بہتان مُّبِيْنٌ : صریح
کیوں نہ جب تم نے اس کو سنا تھا خیال کیا ہوتا ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں نے اپنے لوگوں پر بھلا خیال اور کہا ہوتا یہ صریح طوفان ہے
لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤ ْمِنُوْنَ وَالْمُؤ ْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَيْرً آ وَّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ، یعنی ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے اس تہمت کی خبر سنی تھی تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اپنے بارے میں یعنی اپنے مسلمان بھائی بہن کے بارے میں نیک گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ کھلا جھوٹ ہے۔ اس آیت میں کئی چیزیں قابل غور ہیں اول یہ کہ بِاَنْفُسِهِمْ کے لفظ سے قرآن کریم نے یہ اشارہ کیا کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو بدنام و رسوا کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ ہی کو رسوا کرتا ہے کیونکہ اسلام کے رشتہ نے سب کو ایک بنادیا ہے۔ قرآن کریم نے ایسے تمام مواقع میں یہ اشارہ استعمال فرمایا ہے جیسا ایک جگہ فرمایا وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ یعنی عیب نہ لگاؤ اپنے آپ کو۔ مراد اس سے یہ ہے کہ کسی بھائی مسلمان مرد یا عورت کو۔ دوسری جگہ فرمایا وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ، اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ مراد وہی ہے کہ کسی بھائی مسلمان کو قتل نہ کرو۔ تیسری جگہ فرمایا وَلَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ ، یعنی نہ نکالو اپنے آپ کو اپنے گھروں سے۔ یہاں بھی کسی مسلمان بھائی کو اس کے گھر سے نکالنا مراد ہے۔ چوتھی جگہ فرمایا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ ، یعنی اپنے آپ کو سلام کرو۔ مراد وہی بھائی مسلمان کو سلام کرنا ہے۔ یہ سب آیات قرآن یہ ضمنی ہدایت دیتی ہیں کہ ایک مسلمان جو دوسرے کسی بھی مسلمان پر عیب لگاتا یا اس کو ایذا و نقصان پہنچاتا ہے حقیقت کے اعتبار سے خود اپنے کو عیب دار کرتا ہے اور خود نقصان و تکلیف اٹھاتا ہے کیونکہ اس کا انجام پوری قوم کی رسوائی اور بدنامی ہوتی ہے بقول سعدی
چو از قومے یکے بےدانشی کرد
نہ کہ را منزلت ماند نہ مہ را
قرآن کی اسی تعلیم کا اثر تھا کہ جب مسلمان ابھرے تو پوری قوم کے ساتھ ابھرے، ان کا ہر فرد ابھرا۔ اور اسی کے چھوڑنے کا نتیجہ آج آنکھوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ سب گرے اور ہر فرد گرا۔ دوسری بات اس آیت میں یہ قابل نظر ہے کہ مقام کا تقاضا یہ تھا کہ لَوْلَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَتُم بِاَنفُسِکُم خَیراً بصیغہ خطاب کہا جاتا جیسا کہ شروع میں سَمِعْتُمُوْهُ بصیغہ خطاب آیا ہے مگر قرآن کریم نے اس مختصر جملے کو چھوڑ کر اس جگہ طرز بدلا کہ صیغہ خطاب یعنی ظَنَنتُم کے بجائے ظَنَّ الْمُؤ ْمِنُوْنَ فرمایا۔ اس میں ہلکا سا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ فعل جن لوگوں سے سرزد ہوا وہ اس فعل کی حد تک مومنون کہلانے کے مستحق نہیں کیونکہ ایمان کا تقاضا یہ تھا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے حسن ظن قائم رکھتا۔
تیسری بات یہ قابل نظر ہے کہ اس آیت کے آخری جملے وّقَالُوْا ھٰذَآ اِفْكٌ مُّبِيْنٌ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تقاضا ایمان کا یہ تھا کہ مسلمان اس خبر کو سنتے ہی کہہ دیتے کہ یہ کھلا جھوٹ ہے اس سے ثابت ہوا کہ کسی مسلمان کے بارے میں جب تک کسی گناہ یا عیب کا علم کسی دلیل شرعی سے نہ ہوجائے اس وقت تک اس کے ساتھ نیک گمان رکھنا اور بلا کسی دلیل کے عیب و گناہ کی بات اس کی طرف منسوب کرنے کو جھوٹ قرار دینا عین تقاضائے ایمان ہے۔
مسئلہ
اس سے ثابت ہوا کہ ہر مسلمان مرد و عورت کے ساتھ اچھا گمان رکھنا واجب ہے جب تک کسی دلیل شرعی سے اس کے خلاف ثابت نہ ہوجائے اور جو شخص بلا دلیل شرعی کے اس پر الزام لگاتا ہے اس کی بات کو رد کرنا اور جھوٹا قرار دینا بھی واجب ہے کیونکہ وہ محض ایک غیبت اور مسلمان کو بلا وجہ رسوا کرنا ہے۔ (مظہری)
Top