Maarif-ul-Quran - Yaseen : 39
وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ
وَالْقَمَرَ : اور چاند قَدَّرْنٰهُ : ہم نے مقرر کیں اس کو مَنَازِلَ : منزلیں حَتّٰى : یہاں تک کہ عَادَ : ہوجاتا ہے كَالْعُرْجُوْنِ : کھجور کی شاخ کی طرح الْقَدِيْمِ : پرانی
اور چاند کو ہم نے بانٹ دی ہیں منزلیں یہاں تک کہ پھر آ رہا جیسے ٹہنی پرانی
(آیت) والقمر قدرناہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم، عرجون، کھجور کے درخت کی خشک شاخ کو کہا جاتا ہے جو مڑ کر کمان جیسی ہوجاتی ہے۔
منازل قمر
منازل، منزل کی جمع ہے، جائے نزول کو منزل کہا جاتا ہے۔ حق تعالیٰ نے چاند اور سورج دونوں کی رفتار کے لئے خاص حدود مقرر فرمائی ہیں جن میں سے ہر ایک کو منزل کہا جاتا ہے۔ چاند چونکہ اپنا دورہ ایک مہینہ میں پورا کرلیتا ہے اس لئے اس کی منزلیں تیس یا انتیس ہوتی ہیں، مگر چونکہ ہر مہینہ میں چاند کم از کم ایک دن غائب رہتا ہے، اس لئے عموماً اس کی منزلیں اٹھائیس کہی جاتی ہیں۔ اہل ہیئت ویرضاء نے ان منزلوں کے خاص خاص نام ان ستاروں کی مناسبت سے رکھ دیئے ہیں جو ان منازل کی محاذات میں پائے جاتے ہیں۔ جاہلیت عرب میں بھی انہی ناموں سے منزلوں کی تعیین کی جاتی تھی۔ قرآن کریم ان اصطلاحی ناموں سے بالاتر ہے، اس کی مراد صرف وہ فاصلے ہیں جن کو چاند خاص خاص دنوں میں طے کرتا ہے۔
سورة یونس میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے، جو معارف القرآن جلد چہارم کے صفحہ 505 و 506 میں بیان ہوئی ہے، اس کو دیکھ لیا جائے۔ سورة یونس کی آیت میں شمس وقمر دونوں کی منزلوں کا ذکر ہے۔ جعل الشمس ضیاء و القمر نوراً وقدرہ منزل الآیة، فرق اتنا ہے کہ چاند کی منزلیں مشاہدہ سے پہچانی جاتی ہیں اور آفتاب کی منزلیں ریاضی کے حسابات سے۔ (آیت) حتی عاد کالعرجون القدیم میں چاند کی کیفیت آخر مہینہ کی بتلائی ہے جب وہ مکمل بدر ہونے کے بعد گھٹتا گھٹتا ایک قوس کی صورت اختیار کرلیتا ہے، عربوں کے ماحول کے مناسب اس کی مثال کھجور کی خشک شاخ سے دی گئی ہے، جو ہلالی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
Top