Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Yaseen : 38
وَ الشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا١ؕ ذٰلِكَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِؕ
وَالشَّمْسُ
: اور سورج
تَجْرِيْ
: چلتا رہتا ہے
لِمُسْتَقَرٍّ
: ٹھکانے (مقررہ راستہ
لَّهَا ۭ
: اپنے
ذٰلِكَ
: یہ
تَقْدِيْرُ
: نظام
الْعَزِيْزِ
: غالب
الْعَلِيْمِ
: جاننے والا (دانا)
اور سورج چلا جاتا ہے اپنے ٹھہرے ہوئے رستہ پر یہ سادھا ہے اس زبردست باخبر نے
(آیت) والشمس تجری لمستقرلہا ذلک تقدیر العزیز العلیم، آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آفتاب چلتا رہتا ہے، اپنے مستقر کی طرف مستقر جائے قرار کو بھی کہا جاتا ہے، اور وقت قرار کو بھی یعنی مستقر زمانی بھی ہوسکتا ہے مکانی بھی۔ اور لفظ مستقر منتہائے سیر و سفر کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اگرچہ اس کے ساتھ ہی بلا کسی وقفہ اور سکون کے دوسرا دورہ سفر شروع ہوجائے۔ (ذکرہ ابن کثیر)
بعض حضرات مفسرین نے تو اس جگہ مستقر سے مستقر زمانی مراد لیا ہے، یعنی وہ وقت جبکہ آفتاب اپنی حرکت مقررہ پوری کر کے ختم کر دے گا، اور وہ وقت قیامت کا دن ہے۔ اس تفسیر پر معنی آیت کے یہ ہیں کہ آفتاب اپنے مدار پر ایسے محکم اور مضبوط نظام کے ساتھ حرکت کر رہا ہے جس میں کبھی ایک منٹ ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا۔ ہزارہا سال اس روش پر گزر چکے ہیں، مگر یہ سب دائمی نہیں، اس کا ایک خاص مستقر ہے، جہاں پہنچ کر یہ نظام شمسی اور حرکت بند اور ختم ہوجائے گی، اور وہ قیامت کا دن ہے۔ یہ تفسیر حضرت قتادہ سے منقول ہے۔ (ابن کثیر) اور قرآن کریم کی سورة زمر کی ایک آیت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، کہ مستقر سے مراد مستقر زمانی یعنی روز قیامت ہے۔ آیت سورة زمر کی یہ ہے(آیت) خلق السموٰت والارض بالحق یکور الیل علیٰ النہار ویکور النہار علیٰ الیل وسخرالشمس والقمر کل یجری لاجل مسمی، اس آیت میں بھی تقریباً وہی بیان ہے جو سورة یٰسین کی آیت مذکورہ کا ہے کہ اول لیل ونہار کے انقلاب کو عوامی نظر کے مطابق ایک تمثیل سے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کو دن پر ڈھانپ دیتا ہے، اور دن کو رات پر، گویا رات اور دن کو دو غلافوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ رات کا غلاف دن پر چڑھا دیا جاتا ہے تو رات ہوجاتی ہے اور دن کا غلاف رات پر چڑھا دیا جاتا ہے تو دن ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ شمس و قمر دونوں اللہ تعالیٰ کے مسخر اور تابع فرمان ہیں، ان میں سے ہر ایک ایک خاص میعاد کے لئے چل رہا ہے۔ یہاں اجل مسمی کے الفاظ ہیں جس کے معنی میعاد معین کے ہیں، اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ شمس و قمر دونوں کی حرکت دائمی نہیں، ایک میعاد معین یعنی روز قیامت پر پہنچ کر ختم اور منقطع ہوجائے گی۔ سورة یٰسین کی آیت مذکورہ میں بھی ظاہر یہی ہے کہ لفظ مستقر سے یہی میعاد معین یعنی مستقر زمانی مراد ہے۔ اس تفسیر میں نہ آیت کے مفہوم و مراد میں کوئی اشکال ہے، نہ قواعد ہیئت و ریاضی کا کوئی اعتراض۔
اور بعض حضرات مفسرین نے اس سے مراد مستقر مکانی لیا، جس کی بنا ایک حدیث پر ہے جو صحیحین بخاری و مسلم وغیرہ میں متعدد صحابہ سے متعدد اسانید کے ساتھ منقول ہے۔
حضرت ابوذر غفاری کی روایت ہے کہ وہ ایک روز آنحضرت محمد ﷺ کے ساتھ غروب آفتاب کے وقت مسجد میں حاضر تھے۔ آپ نے ان کو خطاب کر کے سوال کیا کہ ابو ذر ! تم جانتے ہو کہ آفتاب کہاں غروب ہوتا ہے ؟ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ آفتاب چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ عرش کے نیچے پہنچ کر سجدہ کرتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اس آیت میں مستقر سے یہی مراد ہےوالشمس تجری لمستقر لہا۔
حضرت ابوذر ہی کی ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے والشمس تجری لمستقرلہا کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایامستقرھا تحت العرش، بخاری نے اس روایت کو متعدد مقامات پر نقل کیا ہے اور ابن ماجہ کے علاوہ تمام کتب ستہ میں یہ روایت موجود ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن عمر سے بھی اسی مضمون کی حدیث منقول ہے، اس میں کچھ زیادتی ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ روزانہ آفتاب تحت العرش پہنچ کر سجدہ کرتا ہے اور نئے دورے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ اجازت پا کر نیا دورہ شروع کرتا ہے، یہاں تک کہ ایک دن ایسا آئے گا جب اس کو نیا دورہ کرنے کی اجازت نہیں ملے گی، بلکہ یہ حکم ہوگا کہ جس طرف سے آیا ہے اسی طرف لوٹ جا۔ یعنی مغرب کی طرف سے زمین کے نیچے جا پھر مغرب ہی کی طرف سے لوٹ کر مغرب سے طلوع ہوجا۔ جس روز ایسا ہوگا تو یہ قیامت کے بالکل قریب ہونے کی علامت ہوگی، اور اس وقت توبہ کرنے اور ایمان لانے کا دروازہ بند کردیا جائے گا، اس وقت کسی مبتلا گناہ کی گناہ سے اور مبتلائے شرک و کفر کی کفر سے توبہ قبول نہ ہوگی۔ (ابن کثیر بحوالہ عبدالرزاق)
سجود الشمس یعنی آفتاب کے زیر عرش سجدہ کرنے کی تحقیق
ان روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مستقر سے مراد مکانی مستقر ہے یعنی وہ جگہ جہاں آفتاب کی حرکت کا ایک دورہ پورا ہوجائے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ جگہ تحت العرش ہے۔ اس صورت میں مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ ہر روز آفتاب ایک خاص مستقر کی طرف چلتا ہے، پھر وہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کر کے اگلے دورے کی اجازت مانگتا ہے، اجازت ملنے پر دوسرا دورہ شروع کرتا ہے۔
لیکن واقعات ومشاہدات اور ہیئت و فلکیات کے بیان کردہ اصول کی بنا پر اس میں متعدد قوی اشکالات ہیں۔
اول یہ کہ عرش رحمن کی جو کیفیت قرآن و سنت سے سمجھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام زمینوں اور آسمانوں کے اوپر محیط ہے۔ یہ زمین اور سب آسمان مع سیارات و نجم کے سب کے سب عرش کے اندر محصور ہیں، اور عرش رحمن ان تمام کائنات سماویہ کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے، اس لحاظ سے آفتاب تو ہمیشہ ہر حال اور ہر وقت ہی زیر عرش ہے، پھر غروب کے بعد زیر عرش جانے کا کیا مطلب ہوگا ؟
دوسرے یہ کہ مشاہدہ عام ہے کہ آفتاب جب کسی ایک جگہ سے غروب ہوتا ہے تو دوسری جگہ طلوع ہوتا ہے، اس لئے طلوع و غروب اس کا ہر وقت ہر حال میں جاری ہے، پھر بعد الغروب تحت العرش جانے اور سجدہ کرنے کے کیا معنی ہیں ؟
تیسرے یہ کہ اس حدیث کے ظاہر سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب اپنے مستقر پر پہنچ کر وقفہ کرتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کر کے اگلے دورے کی اجازت لیتا ہے، حالانکہ آفتاب کی حرکت میں کسی وقت بھی انقطاع نہ ہونا کھلا ہوا مشاہدہ ہے۔ اور پھر چونکہ طلوع و غروب آفتاب کا مختلف مقامات کے اعتبار سے ہر وقت ہی ہوتا رہتا ہے، تو یہ وقفہ اور سکون بھی ہر وقت ہونا چاہئے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ آفتاب کو کسی وقت بھی حرکت نہ ہو ؟
یہ اشکالات صرف فنون ریاضی اور فلکیات کے ہی نہیں، مشاہدات اور واقعات کے ہیں جن سے صرف نظر نہیں ہو سکتا، اور فنی اعتبار سے فلک الافلاک کے تابع آفتاب کی یومیہ حرکت اور آفتاب کا چوتھے آسمان میں مرکوز ہونا جو بطلیموسی نظریہ ہے، جس کے خلاف اس سے پہلے بھی فیثا عورث نے اس نظریہ کی مخالفت کی تھی، اور آجکل کی نئی تحقیقات نے بطلیموسی نظریہ کی غلطی اور فیثا غورث کے نظریہ کی صحت کو قریب بہ یقین کردیا ہے، اور حالیہ خلائی سفروں اور چاند تک انسان کی رسائی کے واقعات نے اتنی بات تو یقینی کر ہی دی ہے کہ تمام سیارات آسمان سے نیچے کی فضا میں ہیں، آسمانوں کے اندر مرکوز نہیں۔ قرآن کریم کی آیت جو عنقریب آ رہی ہے (آیت) وکل فی فلک یسبحون، اس سے بھی اس نظریہ کی تصدیق ہوتی ہے، اس نظریہ میں یہ بھی ہے کہ یہ روزانہ کا طلوع و غروب آفتاب کی حرکت سے نہیں بلکہ زمین کی حرکت سے ہے۔ اس فنی نظریہ کے اعتبار سے حدیث مذکور میں ایک اور اشکال بڑھ جاتا ہے۔
اس کا جواب سمجھنے سے پہلے یہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ جہاں تک آیت مذکورہ کی تصریح ہے اس پر مذکورہ شبہات واشکالات میں سے قرآن پر کوئی بھی اشکال نہیں ہوتا۔ اس کا مفہوم تو صرف اتنا ہے کہ آفتاب کو حق تعالیٰ نے ایک ایسی منظم اور مستحکم حرکت پر لگایا ہوا ہے کہ وہ اپنے مستقر کی طرف برابر ایک حالت پر چلتا رہتا ہے۔ اگر اس مستقر سے مراد تفسیر قتادہ کے مطابق مستقر زمانی لیا جائے، یعنی روز قیامت، تو معنی اس کے یہ ہیں کہ آفتاب کی یہ حرکت قیامت تک دائمی ایک حال پر چلتی رہے گی پھر اس روز ختم ہوجائے گی۔ اور اگر مستقر مکانی مراد لیں تو بھی اس کا مستقر مدار شمسی کے اس نقطہ کو کہا جاسکتا ہے جہاں سے اول تخلیق کے وقت آفتاب نے حرکت شروع کی اسی نقطہ پر پہنچ کر اس کا شبانہ روز کا ایک دورہ مکمل ہوتا ہے۔ کیونکہ یہی نقطہ اس کا انتہا سفر ہے، اس پر پہنچ کر نئے دورہ کی ابتدا ہوتی ہے۔ رہا یہ کہ اس عظیم الشان دائرہ کا وہ نقطہ کہاں اور کونسا ہے جہاں سے آفتاب کی حرکت ابتداء آفرینش میں شروع ہوئی، قرآن کریم اس قسم کی فضول بحثوں میں انسان کو نہیں الجھاتا جس کا تعلق اس کے کسی دینی یا دنیوی فائدے سے نہ ہو۔ یہ اسی قسم کی بحث ہے، اس لئے اس کو چھوڑ کر قرآن کریم نے اصل مقصد کی طرف توجہ دلائی۔ اور وہ مقصد حق تعالیٰ کی قدرت و حکمت کاملہ کے خاص مظاہر کا بیان ہے، کہ اس جہان میں سب سے بڑا اور سب سے روشن ترین کرہ آفتاب کا ہے، وہ بھی نہ خود بخود بن گیا ہے اور نہ خودبخود اس کی کوئی حرکت پیدا ہوتی ہے نہ باقی رہ سکتی ہے، اور وہ اپنی اس شبانہ روز کی حرکت میں ہر وقت حق تعالیٰ کی اجازت و مشیت کے تابع چلتا ہے۔
جتنے اشکالات اوپر لکھے گئے ہیں آیات مذکورہ کے بیان پر ان میں سے کوئی بھی شبہ اور اشکال نہیں، البتہ احادیث مذکورہ جن میں یہ آیا ہے کہ وہ غروب کے بعد زیر عرش پہنچ کر سجدہ کرتا ہے اور اگلے دورے کی اجازت مانگتا ہے یہ سب اشکالات اس سے متعلق ہیں۔ اور اس آیت کے ذیل میں یہ بحث اس لئے چھڑی کہ حدیث کے بعض الفاظ میں اس آیت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ اس کے جوابات محدثین و مفسرین حضرات نے مختلف دیئے ہیں، ظاہر الفاظ کے اعتبار سے جو یہ سمجھا جاتا ہے کہ آفتاب کا یہ سجدہ دن رات میں صرف ایک مرتبہ بعد الغروب ہوتا ہے، جن حضرات نے حدیث کو اسی ظاہری مفہوم پر محمول کیا ہے انہوں نے غروب کے متعلق تین احتمال بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ معظم معمورہ کا غروب مراد ہو، یعنی اس مقام کا جہاں کے غروب پر اکثر دنیا کی آبادی میں غروب ہوجاتا ہے، یا خط استواء کا غروب، یا افق مدینہ کا غروب۔ اس طرح یہ اشکال نہیں رہتا کہ آفتاب کا غروب وطلوع تو ہر وقت ہر آن ہوتا رہتا ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں ایک خاص افق کے غروب پر کلام کیا گیا ہے، لیکن صاف و بےغبار جواب وہ معلوم ہوتا ہے جو حضرت استاذ علامہ شبیر احمد عثمانی رحمة اللہ علیہ نے اپنے مقالے ”سجود الشمس“ میں اختیار فرمایا ہے، اور متعدد ائمہ تفسیر کے کلام سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
اس کے سمجھنے سے پہلے پیغمبرانہ تعلیمات و تعبیرات کے متعلق یہ اصولی بات سمجھ لینی ضروری ہے کہ آسمانی کتابیں اور اس کے لانے والے انبیاء (علیہم السلام) خلق خدا کو آسمان و زمین کی مخلوقات میں غور و فکر اور تدبر کی طرف مسلسل دعوت دیتے ہیں، اور ان سے اللہ تعالیٰ کے وجود، توحید، علم وقدرت پر استدلال کرتے ہیں، مگر ان چیزوں میں تدبیر اسی حد تک مطلوب شرعی ہے جس حد تک اس کا تعلق انسان کی دنیوی اور معاشرتی ضرورت سے یا دینی اور اخروی ضرورت سے ہو۔ اس سے زائد نری فلسفیانہ تدقیق اور حقائق اشیاء کے کھوج لگانے کی فکر میں عام خلق اللہ کو نہیں ڈالا جاتا۔ کیونکہ اول تو حقائق اشیاء کا مکمل حقیقی علم خود حکماء و فلاسفہ کو بھی باوجود عمریں صرف کرنے کے نہیں ہوسکا، بیچارے عوام تو کس شمار میں ہیں، پھر اگر وہ حاصل بھی ہوجائے اور اس سے نہ ان کی کوئی دینی ضرورت پوری ہو اور نہ کوئی صحیح مقصد دنیوی اس سے حاصل ہو تو اس لایعنی اور فضول بحث میں دخل دینا اضاعت عمر اور اضاعت مال کے سوا کیا ہے۔
قرآن اور انبیاء کا استدلال آسمان و زمین کی مخلوقات اور ان کے تغیرات و انقلابات سے صرف اس حد تک ہوتا ہے جو ہر انسان کو مشاہدہ اور ادنیٰ غور و فکر سے حاصل ہو سکے۔ فلسفہ اور ریاضی کی فنی تدقیقات جو صرف حکماء و علماء ہی کرسکتے ہیں نہ ان پر استدلال کا مدار رکھا جاتا ہے نہ ان میں غور وخوض کی ترغیب دی جاتی ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ پر ایمان اور اس کے پیغام پر عمل ہر انسان کا فرض ہے۔ عالم ہو یا جاہل، مرد ہو یا عورت، شہری ہو یا دیہاتی، کسی پہاڑ اور جزیرہ میں رہتا ہو یا کسی متمدن شہر میں، اس لئے پیغمبرانہ تعلیمات عوام کی نظر اور ان کی عقل وفہم کے مطابق ہوتی ہیں جن میں کسی فنی مہارت کی ضرورت نہ ہو۔
نماز کے اوقات کی پہچان، سمت قبلہ کا متعین کرنا، مہینوں اور سالوں اور تاریخوں کا ادراک، ان سب چیزوں کا علم ریاضی کے حسابات کے ذریعہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، مگر شریعت اسلام نے ان میں سے کسی چیز کا مدار ریاضی کی فنی تحقیقات پر رکھنے کے بجائے عام مشاہدات پر رکھا ہے۔ مہینے اور سال اور ان کی تاریخیں قمری حساب سے رکھیں اور چاند کے ہونے نہ ہونے کا مدار صرف رویت ہلال اور مشاہد پر رکھا۔ روزے اور حج کے ایام اسی بنیاد سے متعین کئے گئے۔ چاند کے گھٹنے، بڑھنے، چھپنے اور پھر طلوع ہونے کا راز بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا، تو اس کا جواب قرآن نے یہ دیا کہ قل ھی مواقیت للناس والحج، یعنی آپ کہہ دیں کہ چاند کے یہ سب تغیرات اس مقصد کے لئے ہیں کہ تم ان سے مہینے کا شروع اور ختم اور اس کی تاریخیں معلوم کر کے حج وغیرہ کے دن متعین کرسکو۔ اس جواب نے ان کو اس پر تنبیہ فرما دی کہ تمہارا سوال لایعنی اور فضول ہے، اس کی حقیقت معلوم کرنے پر تمہارا کوئی کام دین یا دنیا کا اٹکا ہوا نہیں، اس لئے سوال اس چیز کا کرو جس کا تعلق تمہاری دینی و دنیوی ضرورت سے ہو۔
اس تمہید کے بعد اصل معاملہ پر غور کیجئے، کہ آیات مذکورہ میں حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے چند مظاہر کا ذکر کر کے انسان کو اللہ کی توحید اور علم وقدرت کاملہ پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے اس میں سب سے پہلے زمین کا ذکر کیا، جو ہر وقت ہمارے سامنے ہے (آیت) وایة لہم الارض، پھر اس پر پانی برسا کر درخت اور نباتات اگانے کا ذکر کیا، جو ہر انسان دیکھتا اور جانتا ہے، احییناھا الایة۔ اس کے بعد آسمان اور فضائے آسمانی سے متعلق چیزوں کا ذکر شروع کر کے پہلے سے لیل و نہار کے روزانہ انقلاب کا ذکر فرمایا (آیت) و ایة لہم الیل الآیة، اس کے بعد سورج اور چاند جو سیارات و انجم میں سب سے بڑے ستارے ہیں ان کا ذکر فرمایا۔ ان میں پہلے آفتاب کے متعلق فرمایا والشمس تجری لمستقر لھا ذلک تقدیر العزیز العلیم، اس میں غور کیجئے کہ مقصد اس کا یہ بتلانا ہے کہ آفتاب خود بخود اپنے ارادے اور اپنی قدرت سے نہیں چل رہا بلکہ یہ ایک عزیز وعلیم یعنی قدرت والے اور جاننے والے کے مقرر کردہ نظام کے تابع چل رہا ہے۔ آنحضرت محمد ﷺ نے غروب آفتاب کے قریب حضرت ابوذرغفاری کو ایک سوال و جواب کے ذریعہ اسی حقیقت پر متنبہ ہونے کی ہدایت فرمائی، جس میں بتلایا کہ آفتاب غروب ہونے کے بعد عرش کے نیچے اللہ کو سجدہ کرتا ہے اور پھر اگلا دورہ شروع کرنے کی اجازت مانگتا ہے، جب اجازت مل جاتی ہے تو حسب دستور آگے چلتا ہے، اور صبح کو جانب مشرق سے طلوع ہوجاتا ہے۔ اس کا حاصل اس سے زائد نہیں کہ آفتاب کے طلوع و غروب کے وقت عالم دنیا میں ایک نیا انقلاب آتا ہے، جس کا مدار آفتاب پر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس انقلابی وقت کو انسانی تنبیہ کے لئے موزوں سمجھ کر یہ تلقین فرمائی کہ آفتاب کو خود مختار اپنی قدرت سے چلنے والا نہ سمجھو، یہ صرف اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیت کے تابع چل رہا ہے۔ اس کا ہر طلوع و غروب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوتا ہے، یہ اس کی اجازت کے تابع ہے، اس کے تابع فرمان حرکت کرنے ہی کو اس کا سجدہ قرار دیا گیا۔ کیونکہ سجدہ ہر چیز کا اس کے مناسب حال پر ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن نے خود تصریح فرما دی ہے کل قد علم صلوٰتہ و تسبیحہ، یعنی ساری مخلوق اللہ کی عبادت اور تسبیح میں مشغول ہے، مگر ہر ایک کی عبادت و تسبیح کا طریقہ الگ الگ ہے، اور ہر مخلوق کو اس کی عبادت و تسبیح کا طریقہ سکھلا دیا جاتا ہے۔ جیسے انسان کو اس کی نماز و تسبیح کا طریقہ بتلا دیا گیا ہے، اس لئے آفتاب کے سجدہ کے یہ معنی سمجھنا کہ وہ انسان کے سجدہ کی طرح زمین پر ماتھا ٹیکنے ہی سے ہوگا صحیح نہیں۔
اور جبکہ قرآن و سنت کی تصریحات کے مطابق عرش خداوندی تمام آسمانوں، سیاروں، زمینوں پر محیط ہے، تو یہ ظاہر ہے کہ آفتاب ہر وقت ہر جگہ زیر عرش ہی ہے۔ اور جبکہ تجربہ شاہد ہے کہ آفتاب جس وقت ایک جگہ غروب ہو رہا ہوتا ہے تو دوسری جگہ طلوع بھی ہو رہا ہوتا ہے، اس لئے اس کا ہر لمحہ طلوع و غروب سے خالی نہیں، تو آفتاب کا زیر عرش رہنا بھی دائمی ہر حال میں ہے، اور غروب و طلوع ہونا بھی ہر حال میں ہے۔ اس لئے حاصل مضمون حدیث کا یہ ہوا کہ آفتاب اپنے پورے دورے میں زیر عرش اللہ کے سامنے سجدہ ریز رہتا ہے، یعنی اس کی اجازت اور فرمان کے تابع حرکت کرتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح قریب قیامت تک چلتا رہے گا، یہاں تک کہ قیامت کی بالکل قریبی علامت ظاہر کرنے کا وقت آجائے گا، تو آفتاب کو اپنے مدار پر اگلا دورہ شروع کرنے کی بجائے پیچھے لوٹ جانے کا حکم ہوجائے گا، اور وہ پھر مغرب کی طرف سے طلوع ہوجائے گا۔ اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا، کسی کا ایمان و توبہ اس وقت مقبول نہیں ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ غروب آفتاب کی تخصیص اور اس کے بعد زیر عرش جانے اور وہاں سجدہ کرنے اور اگلے دورے کی اجازت مانگنے کے جو واقعات اس روایت میں بتلائے گئے ہیں وہ پیغمبرانہ موثر تعلیم کے مناسب بالکل عوامی نظر کے اعتبار سے ایک تمثیل ہے۔ نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ انسان کی طرح زمین پر سجدہ کرے، اور نہ سجدہ کرے کے وقت آفتاب کی حرکت میں کچھ وقفہ ہونا لازم آتا ہے۔ اور نہ یہ مراد ہے کہ وہ دن رات میں صرف ایک ہی سجدہ کسی خاص جگہ جا کر کرتا ہے، اور نہ یہ کہ وہ صرف غروب کے بعد تحت العرش ہوجاتا ہے۔ مگر اس انقلابی وقت میں جبکہ سب عوام یہ دیکھ رہے ہیں کہ آفتاب ہم سے غائب ہو رہا ہے اس وقت بطور تمثیل ان کو اس حقیقت سے آگاہ کردیا گیا کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ درحقیقت آفتاب کے زیر عرش تابع فرمان چلنے رہنے سے ہو رہا ہے، آفتاب خود کوئی قدرت و طاقت نہیں رکھتا، تو جس طرح اس وقت اہل مدینہ اپنی جگہ یہ محسوس کر رہے تھے کہ اب آفتاب سجدہ کر کے اگلے دورے کی اجازت لے گا اس طرح جہاں جہاں وہ غروب ہوتا جائے گا سب کے لئے ہی سبق حاصل کرنے کی تلقین ہوگئی اور حقیقت معاملہ یہ نکلی کہ آفتاب اپنے مدار پر حرکت کے درمیان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ بھی کرتا ہے اور آگے چلنے کی اجازت بھی مانگتا رہتا ہے، اور اس سجدہ اور اجازت کے لئے اس کو کسی سکون اور وقفہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس تقریر پر حدیث مذکورہ میں نہ مشاہدات کی رو سے کوئی شبہ ہوتا ہے نہ قواعد ہیئت و ریاضی کے اعتبار سے اور نظام شمسی اور حرکت سیارات میں بطلیموسی تحقیق صحیح ہو یا فیثا غورث والی تحقیق جو آج کل نئی تحقیقات سے موید ہوگئی ہے، دونوں صورتوں میں حدیث مذکورہ پر کوئی شبہ اور اشکال باقی نہیں رہتا۔
رہا یہ سوال کہ حدیث مذکور میں جو آفتاب کا سجدہ کرنا اور اگلے دورے کی اجازت طلب کرنا مذکور ہے، یہ کام تو حیات اور علم و عقل کا ہے، آفتاب و ماہتاب بےجان بےشعور مخلوقات ہیں، ان سے یہ افعال کیسے صادر ہوئے ؟ تو اس کا جواب قرآن کی آیت وان من شئی الا یسبع بحمدہ کے تحت میں آ چکا ہے کہ ہم جن چیزوں کو بےجان اور بےعقل و بےشعور سمجھتے ہیں، وہ بھی درحقیقت روح اور جان اور عقل و شعور کا ایک خاص حصہ رکھتے ہیں، البتہ ان کی حیات اور عقل و شور انسان و حیوان کے مقابلہ میں کم اور اتنی کم ہے کہ عام احساسات اس کا ادراک نہیں کرسکتے، مگر اس کی نفی پر بھی کوئی شرعی یا عقلی دلیل موجود نہیں اور قرآن کریم نے آیت مذکورہ میں ان کا ذی حیات اور ذی عقل و شعور ہونا ثابت کردیا ہے، اور نئی تحقیقات نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
فائدہ
قرآن و حدیث کی مذکورہ تصریحات سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوئی کہ شمس و قمر دونوں متحرک ہیں۔ ایک میعاد کے لئے چل رہے ہیں اس سے نئے نظریہ کی نفی ہوتی ہے جو آفتاب کی حرکت کو تسلیم نہیں کرتا اور جدید ترین تحقیقات نے خود بھی اس کو غلط ثابت کردیا ہے۔
Top