Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 25
وَ لَبِثُوْا فِیْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَ ازْدَادُوْا تِسْعًا
وَلَبِثُوْا : اور وہ رہے فِيْ : میں كَهْفِهِمْ : اپنا غار ثَلٰثَ مِائَةٍ : تین سو سِنِيْنَ : سال وَ : اور ازْدَادُوْا : اور ان کے اوپر تِسْعًا : نو
اور وہ لوگ اپنی غار میں رہے تین سو برس، اور نو برس مزید برآں،
47۔ غار میں بقاء کی مدت کے بارے میں ارشاد :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ لوگ اس غار میں تین سو برس رہے اور نو مزید برآں یعنی شمسی حساب سے یہ مدت پورے تین سو سال بنتی تھی، اور قمری حساب سے تین سو نو سال، سو یہ فرق شمسی اور قمری حساب کے فرق پر مبنی ہے، کیونکہ عربوں کے یہاں قمری حساب کا رواج تھا، جب کہ یہود کے یہاں شمسی حساب کا، جو کہ اصل میں آنحضرت ﷺ سے اس سوال کے محرک تھے، اور قمری حساب سے ہر سو سال شمسی سال کے مقابلے میں تین سال زیادہ بنتا ہے اور اس طرح اس فرق کا اظہار وبیان آنحضرت ﷺ کا ایک معجزہ قرار پاتا ہے، کہ آپ ﷺ نے صدیوں پہلے کہ اس واقعہ کو اس باریکی سے بیان فرما دیا، حالانکہ آپ نے نہ کبھی کسی سے لکھنا پڑھنا سیکھا تھا، اور نہ کبھی کسی کتاب کا مطالعہ فرمایا تھا، بلکہ آپ ﷺ کی صفت ہی نبی امی تھی اور ہے، کہ آپ ﷺ نے زندگی بھر کبھی کسی سے کچھ سیکھا پڑھا نہیں تھا، مگر اس کے باوجود آپ ﷺ نے دنیا کو علوم و معارف کے ان خزانوں سے نوازا جن کو کوئی نظیر و مثال ممکن نہیں، نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد قیامت تک، تو اس طرح اصحاب کہف کے بارے میں آپ ﷺ کا یہ بیان بھی ایک مستقل معجزہ قرار پاتا ہے، جیسا کہ تفسیر المراغی میں لکھا ہے، جب کہ علامہ شام علامہ جمال الدین القاسمی وغیرہ حضرات کا کہنا ہے کہ یہ فرق شمسی اور قمری حساب کا نہیں، بلکہ یہ مطلق بیان ہے ان کی مدت لبث ورقاد کا، اور یہ اسلوب بیان فواصل اور رؤس آیات کی بناء پر اختیار فرمایا گیا ہے۔ (تفسیر القاسمی) بہرکیف ان دونوں صورتوں میں یہ تفسیر اس آیت کریمہ کی تفسیر کے ایک ہی احتمال کا بیان ہے کہ، تین سو نو سال کی یہ مدت حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے بیان فرمائی گئی ہے، یہی ابن جریر وغیرہ کا اختیار اور جمہورکا قول ہے، جب کہ دوسرا قول اس ضمن میں قتادہ وغیرہ حضرات کا ہے کہ یہ بیان دراصل حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے نہیں بلکہ یہ منجلہ اقوال اہل کتاب کے ہے، اسی قول کو ہمارے دور کے بعض حضرات نے اپنی تفسیر میں پیش کیا ہے لیکن اس کو پیش انہوں نے اس طرح کیا ہے کہ گویا کہ یہ انہی کا قول ہے، ان سے پہلے کسی نے بھی ایسا نہیں کیا، تاکہ اس سے ان کی انفرادیت کا تاثر ملے، حالانکہ یہ قول سلف سے بھی منقول ہے، بہرکیف اس میں سلف کے یہ اقوال پائے جاتے ہیں ، (ابن جریر، ابن کثیر، الصفوہ، وغیرہ) والعلم عند اللہ تعالیٰ ۔
Top