Tafseer-e-Madani - Al-Kahf : 46
اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا
اَلْمَالُ : مال وَالْبَنُوْنَ : اور بیٹے زِيْنَةُ : زینت الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَالْبٰقِيٰتُ : اور باقی رہنے والی الصّٰلِحٰتُ : نیکیاں خَيْرٌ : بہتر عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے نزدیک ثَوَابًا : ثواب میں وَّخَيْرٌ : اور بہتر اَمَلًا : آرزو میں
مال و اولاد تو دراصل زیب وزینت ہیں اس (چند روزہ) دنیاوی زندگی کی، (اور بس) اور (سدا) باقی رہنے والی نیکیاں ہی ہیں جو تمہارے رب کے یہاں ثواب کے لحاظ سے بھی سب سے اچھی ہیں، اور امیدیں وابستہ کرنے کے اعتبار سے بھی سب سے عمدہ،3
81۔ مال واولاد محض دنیاوی زیب وزینت کا سامان :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” مال واولاد تو اصل میں اسی دنیاوی زندگی کی زیب وزینت کا سامان ہیں اور بس “۔ جبکہ ان سے مقصود دنیا ہی کا مفاد ہو۔ جیسا کہ ابنائے دنیاکا حال پہلے بھی رہا اور آج بھی ہے۔ ورنہ اگر ان چیزوں کی آخرت کی کمائی کا ذریعہ بنایا جائے تو پھر یہ سب کچھ دنیا نہیں دین بن جاتا ہے اور ان کے ذریعے آخرت کی وہ نیکیاں کمائی جاسکتی ہیں جو ان کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ سو مال ودولت اور اولاد وغیرہ کی یہ نعمتیں دو دھاری تلوار کی طرح ہیں کہ اگر خیر کے ذریعے مل گئیں اور خیر کی راہ پر لگ گئیں تو خیردر خیر ورنہ نرا عذاب۔۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو بڑے خسارے میں ہیں وہ لوگ جو مال اور اولاد کے اس سامان زیب وزینت میں پھنس کر اور الجھ کر وہ جائیں اور ان کے عشق میں دیوانے ہو کر اپنے انجام اور آخرت کو بھول جائیں۔ کیونکہ یہ سب کچھ تو محض دنیاوی زندگی کی چند روزفرصت کا سامان ہیں اور بس۔ اصل چیز تو آخرت اور وہاں کیلئے سعی و کوشش ہے۔ اسی کو اپنا اصل مقصد اور نصب العین بنانا چاہئے۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وھوالھادی الیٰ سو السبیل۔ 82۔ باقیات صالحات کا مفہوم اور اس سے مراد ؟:۔ سوباقیات صالحات سے مراد ہیں باقی رہنے والی نیکیاں۔ یعنی وہ نیک اعمال جو انسان کو آخرت میں کام دیں گے۔ جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات وغیرہ اعمال خیر۔ طبرانی وغیرہ میں حضرت ابوالدرداء ؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ” سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم “ باقیات صالحات ہیں۔ یہ گناہوں کو ایسے گراتے ہیں جیسا کہ درخت اپنے پتے گراتا ہے اور یہ جنت کے خزانوں میں سے ہیں۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ سے مروی دوسری روایت میں ان کلمات کریمہ کو دوزخ کی آتش سوزاں سے بچانے والی ڈھال ” جنتہ “ قرار دیا ہے۔ اخرجہ النسائی (رح) والبیھقی (رح) والطبرانی (رح) عن ابی ہریرہ ؓ اور اسی لئے آپ ﷺ نے انکے استکثار یعنی زیادہ پڑھنے کا حکم دیا۔ سو ان کلمات کریمہ کو بطور تمثیل باقیات صالحات کی تفسیر میں ذکر فرمایا گیا ہے ان کی عظمت شان کی بناء پر۔ ورنہ باقیات صالحات کے کلمات کریمہ اپنے عموم کے اعتبار سے سب ہی اعمال صالحۃ کو شامل ہیں۔ (ابن جریر، محاسن التاویل، ابن کثیر، فتح القدیر، المراغی، المعارف، روح وغیرہ) فسبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ اللہ واللہ اکبر ولا حول قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ سودنیائے فانی کے حطام زائل اور متاع فانی کو جوڑنے اور جمع کرنے کی بجائے ان باقیات صالحات کو جوڑنے اور جمع کرنے کی فکر و کوشش کرنی چاہئے جو آخرت کی اس حقیقی زندگی اور ابدی جہاں میں کام آسکیں۔ وباللہ التوفیق۔ لمایحب ویرید وعلی مایحب ویرید بکل حال من الاحوال :۔
Top