Tafseer-e-Madani - Yaseen : 43
وَ اِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِیْخَ لَهُمْ وَ لَا هُمْ یُنْقَذُوْنَۙ
وَاِنْ : اور اگر نَّشَاْ : ہم چاہیں نُغْرِقْهُمْ : ہم غرق کردیں انہیں فَلَا صَرِيْخَ : تو نہ فریاد رس لَهُمْ : ان کے لیے وَلَا هُمْ : اور نہ وہ يُنْقَذُوْنَ : چھڑائے جائیں
اور اگر ہم چاہیں تو ان کو اس طرح غرق کر کے رکھ دیں کہ نہ تو ان کا کوئی فریاد رس ہو اور نہ ہی ان کو کسی طرح بچایا جاسکے
45 حفظ وامان کی نعمت میں سامان غور و فکر : سو اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ انکو حفظ وامان کی نعمت بھی قدرت کی رحمت و عنایت ہی سے میسر ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اگر ہم چاہیں تو انکو غرق کردیں "۔ یعنی پانی میں سفر کے دوران یا کسی بھی اور صورت میں اور کسی بھی دوسرے موقع پر۔ کہ نہ تو ایسا کرنا ہماری قدرت سے خارج ہے اور کچھ بعید ہے اور نہ ہی یہ لوگ کبھی بھی اور کسی بھی طور پر ہماری گرفت اور پکڑ سے باہر ہوسکتے ہیں۔ سو یہ ہماری رحمت و عنایت اور ہمارے فضل و کرم کا نتیجہ ہے کہ یہ لوگ اس طرح امن وامان اور سکون و اطمینان کے ساتھ چل پھر رہے ہیں ورنہ ہم انکو کہیں بھی اور کسی بھی طرح پکڑ سکتے ہیں۔ اور جب ہم انکو پکڑیں گے تو نہ کوئی فریاد کرسکے گا اور نہ ہی انکا کوئی فریاد رس ہوسکے گا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ " صریخ " کے معنیٰ فریاد کرنے کے بھی آتے ہیں اور فریاد رسی کے بھی اور فریاد رسی کرنے والے کے بھی۔ اس مقام پر یہ لفظ ان سب ہی معانی کے اعتبار سے موزوں ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اگر ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں " اور اس طور پر کہ اس وقت نہ یہ کوئی فریاد کرسکیں اور نہ کوئی ان کی فریاد رسی کرسکے اور نہ یہ اس ورطہ حیرت سے کسی طرح نجات پاسکیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 46 اللہ کے عذاب سے ڈرنے اور بچنے کی ہدایت : کہ اللہ کا عذاب کہیں سے بھی اور کسی بھی طرح آسکتا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ڈرو تم اس عذاب سے جو تمہارے سامنے ہے۔ یعنی گزشتہ قوموں والا عذاب کہ کہیں وہ تم پر بھی نہ آجائے ۔ أیْ مِنَ الْوَقَائِعِ الَّتِیْ مَضَتْ ۔ (جامع البیان : ج 2 ص 197) ۔ سو تم ڈرو اس عذاب سے جو ان پہلی قوموں پر آچکا ہے کہ جس جرم کفر و انکار اور بغاوت و سرکشی کا ارتکاب انہوں نے کیا، اسی کا ارتکاب تم بھی کر رہے ہو۔ اور اللہ کا قانون یکساں و بےلاگ اور سب کیلئے ایک ہے۔ سو اس کا عذاب تم پر کبھی بھی، کہیں بھی اور کسی بھی شکل میں آسکتا ہے۔ اور بالفعل جگہ جگہ، طرح طرح سے اور مختلف شکلوں میں آتا رہتا ہے۔ کہیں زلزلے کی صورت میں، کہیں سیلاب کی شکل میں اور کہیں سمندری طوفان کی شکل میں وغیرہ وغیرہ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ جس کے مختلف نمونے تم لوگ دن رات اور جگہ جگہ اپنے سامنے دیکھتے ہو مگر تم سبق نہیں لیتے۔ اور سمجھتے ہو کہ یہ دوسروں پر آیا ہے اور بس۔ حالانکہ تم پر بھی اسی طرح کا کوئی عذاب کہیں سے بھی آسکتا ہے۔ جیسا کہ سورة سبا کی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرمایا گیا کہ " کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ؟ " یعنی یہ لوگ آسمان و زمین کی اس کائنات میں غور نہیں کرتے جو ان کو آگے اور پیچھے ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ان کو زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے برسا دیں۔ یعنی ان پر عذاب کہیں سے بھی اور کسی بھی شکل میں آسکتا ہے۔ اس لیے اس سے ڈرنے بچنے کی فکر کرنی چاہیے ۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل نوع من انواع العذاب فی الدنیا والآخرۃ ۔ اللہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔
Top