Tafseer-e-Madani - At-Talaaq : 10
اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا١ۙ فَاتَّقُوا اللّٰهَ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ١ۛۖۚ۬ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا١ۛ۫ؕ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكُمْ ذِكْرًاۙ
اَعَدَّ اللّٰهُ : تیار کیا اللہ نے لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابًا شَدِيْدًا : شدید عذاب فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ سے يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ جو ایمان لائے ہو قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ : تحقیق نازل کیا اللہ نے اِلَيْكُمْ ذِكْرًا : تمہاری طرف ایک ذکر کو
(اور دنیا کے اسی عذاب پر بس نہیں بلکہ) اللہ نے تیار کر رکھا ہے ان کے لئے (آخرت میں) ایک بڑا ہی سخت (اور ہولناک) عذاب پس بچو تم لوگ اللہ (کی نافرمانی اور اس کی ناراضگی) سے اے عقل سلیم رکھنے والو جو ایمان لاچکے ہو بلاشبہ اللہ نے اتار دی تمہاری طرف ایک عظیم الشان نصیحت
[ 33] انکار حق کا نتیجہ، ہولناک خسارہ والعیاذ باللہ۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا پس تم لوگ ہمیشہ ڈرتے اور بچتے رہا کرو اللہ کی ناراضگی سے ہمیشہ اور ہر موقع پر اور ہر حال میں۔ یعنی جب تم لوگوں نے ان گزشتہ قوموں کے انجام کے بارے میں سن اور جان لیا تو تم اس رویہ ورش سے بچو جس کی بناء پر وہ اس ہولناک خسارے سے دوچار ہوئے پس تم لوگ اللہ کی گفت وپکڑ اور اس کی ناراضگی سے بچنے کی فکر و کوشش میں رہو ورنہ تمہارا انجام بھی وہی ہوگا جو ان کا ہوچکا ہے کہ اللہ کا قانون سب کے لیے یکساں اور بےلاگ ہے پس کافر و مشرک اپنے کفر و شرک سے باز آجائیں اور فاسق وفاجر فسق و فجور سے باز آجائیں اور سچے اہل ایمان راہ صدق وصواب پر پکے اور پختہ رہیں وبا اللہ التوفیق، فاتقو اللہ کی فاء تفریع کے لیے ہے یعنی جب کفر وانکار، بغاوت و سرکشی اور اعراض و روگردانی کا یہ نتیجہ وانجام تمہارے سامنے آگیا اور جو ماضی کی کافر ومنکر قومیں بھگت چکیں تو تاریخ کے اس درس عظیم کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ بغاوت و سرکشی کی اس راہ سے بچو اور ہمیشہ بچنے کی فکر کرو جس سے ماضی کی یہ بدبخت قومیں ہمکنار دوچار ہوچکی ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے آمین ثم آمین۔ [ 34] عقل سلیم کے تقاضے کی تذکیر ویاد دہانی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ پس ڈرو تم لوگ اللہ سے اے عقل سلیم رکھنے والو جو ایمان لائے ہو کہ عقل ودانش کا تقاضا یہی ہے مگر جن کی عقلیں میلی اور مسخ ہوگئیں اور ان کو کفر و شرک، زیغ وضلال، اور بغاوت و انحراف اور معصیت و سرکشی کے زنگ سے معطل وماؤف ہوگئیں ان کو یہ حقیقت سمجھ نہیں آتی کہ ان کی علقیں مریض اور زنگ آلود ہوگئیں، والعیاذ با اللہ۔ اسی لیے یہاں پر اولوالعقول نہیں الوالالباب فرمایا گیا ہے اور ان دونوں میں بڑا فرق ہے کہ عقل تو عام ہے ہر قسم کی عقل شامل ہے جب کہ لب اس عقل خالص کو کہا جاتا ہے جو کہ ہر طرح کے میل کچیل اور اس کے شوائب سے پاک وصاف ہو ہم نے اپنے ترجمے میں اسی فرق کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے والحمدللہ رب العالمین اور ایسی عقل خالص نقی وصافی اور ایمان باہم لازم وملزوم ہیں اس لیے اس کی تعریف و توصیف میں ارشاد فرمایا گیا الذین آمنو۔ یعنی جو کہ ایمان لائے جس سے صاف ظاہر اور واضح ہوجاتا ہے کہ عقل سلیم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کو اور اس کے حقوق کو پہچانے اور ان کے ادا کرنے کی فکر وسعی کرے اور اس سعادت عظمی سے بہر مندی و سرفرازی کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک کے اتارے ہوئے دین متین کی تعلیمات مقدسہ اور اس کے بھیجے ہوئے رسول امین کی اتباع و پیروی کی جائے کہ اس کے بغیر نہ اپنے خالق و ومالک کی صحیح معرفت نصیب ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کے حقوق اطاعت و بندگی کی ادائیگی ممکن ہوسکتی ہے پس جو عقلیں اس راہ حق و ہدایت سے محروم وبے بہرہ ہیں وہ عقول سلیمہ نہیں بلکہ عقول مریضہ ہیں جو ماؤف ہو کر اپنا مقام و مرتبہ کھو بیٹھی ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ [ 35] ذکر عظیم اور رسول عظیم کی نعمت عظمی کی تذکیری ویاد دہانی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ نے اتار دی تمہاری طرف اے لوگو ایک عظیم الشان نصیحت۔ اتنی عظیم الشان کہ اس کی عظمت شان کا کوئی کنارہ نہیں جو ہر لحاظ سے کامل ومکمل نصیحت ہے اور جس میں کسی غلطی کا کوئی خدشہ و امکان نہیں اور جو دارین کی سعادتوں اور فوزوفلاح سے بہرہ ور کرنے والی بےمثال نصیحت ہے یعنی کتاب حکیم، قرآن مجید۔ نیز ارشاد فرمایا گیا کہ اس نے بھیج دیا کہ ایک عظیم الشان رسول، سو رسولا کا عامل یا تو محذوف ہے یعنی وارسل رسولا، اور اس صورت میں یہ عبارت، علفتھا تبنا وماء باردا کے قبیل سے ہوگی روح قرطبی، ابن کثیر جامع البیان، صفوت البیان، وغیرہ) یارسولا، بدل ہے ذکرا۔ سے یعنی بدل اشتمال کہ اس ذکر کو پیش کرنے والے اور سنانے والے وہ رسول عظیم ہی ہیں اور ظاہر ومتبادر یہی ہے یا ذکرا یہاں پر مذکر کے معنی میں ہے اور رسولا اس سے بدل کل ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ انما انت مذکر۔ معنی بہر حال یہی ہے کہ ذکر سے مراد قرآن حکیم ہے اور رسول سے مراد محمد رسول اللہ ہیں کہ آپ اس ذکر حکیم کے حامل مبلغ اور معلم ہیں صلوات اللہ وسلامہ علیہ اور کلبی کہتے ہیں کہ یہاں رسول سے مراد جبرائیل امین ہیں مگر جمہور کے نزدیک یہاں رسول سے مراد نبی کریم ہی ہیں وھوالتبادر بہر کیف اس ارشاد سے اس ذکر عظیم کے انزال اور رسول عظیم کی بعثت و تشریف آوری کی نعمت عظمی اور اس کے تقاضوں کی تذکیر ویاد دہانی فرما دی گئی پس ہدایت کے اس عظیم الشان انتظام کے بعد بھی جن لوگوں نے گمراہی کو اپنایا وہ اپنی ہلاکت و تباہی کے ذمہ دار خود ہیں والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے آمین، ثم آمین، یارب العالمین، ویا ارحم الراحمین، یامن بیدہ ملکوت کل شی وھو یجیر ولا یجار علیہ۔
Top