بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Madani - At-Tahrim : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ١ۚ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِمَ تُحَرِّمُ : کیوں آپ حرام قرار دیتے ہیں مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ : جو حلال کیا اللہ نے لَكَ : آپ کے لیے تَبْتَغِيْ : آپ چاہتے ہیں مَرْضَاتَ : رضامندی اَزْوَاجِكَ : اپنی بیویوں کی وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان ہے
اے نبی آپ کیوں حرام کرتے ہیں (اپنے اوپر) ایسی چیز کو جس کو اللہ نے حلال فرمایا ہے آپ کے لئے اپنی بیویوں کی رضا (و خوشنودی) چاہتے ہوئے اور اللہ بہرحال بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے
[ 1] پیغمبر (علیہ السلام) کے ایک احتساب کا ذکر وبیان۔ سو پیغمبر کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا کہ اے پیغمبر آپ کیوں حرام قرار دیتے ہیں ایسی چیز کو جس کو اللہ نے آپ کے لیے حلال فرمایا ہے ؟ یعنی آپ کو ایسے نہیں کرنا چاہیے کہ یہ طریقہ نہ درست ہے نہ آپ کی شان ارفع واعلی کے لائق کہ تحلیل وتحریم اصل میں اللہ کا حق اور اسی کے شایان شان ہے کہ خالق ومالک بھی وہی ہے اور متصرف و مختار بھی وہی سبحانہ وتعالی بخاری ومسلم وغیرہ کی روایت میں وارد ہے کہ نبی ﷺ عصر کی نماز کے بعد تمام ازواج مطہرات کے یہاں تشریف لے جاتے، تو اس دوران حضرت زینب کے یہاں کچھ زیادہ قیام فرماتے اور وہ آپ کو شہد پیش کرتیں جو کہ آپ کو پسند اور مرغوب تھا تو حضرت حفصہ و عائشہ ؓ کو نبی کے ساتھ اپنے شدت تعلق اور انتہائی محبت کی بناء پر یہ امر شاق گزرا تو انہوں نے آپس میں طے کرلیا کہ آج حضور ہم میں سے جس کے پاس بھی پہلے پہنچیں وہ ان کے کہیں کہ آپ سے مغافیر کی بو آرہی ہے جو کہ عرقط نامی ایک درخت کو گوندسی ہوتی تھی جسے پکا کر کھایا جاتا تھا اس کی ایک خاص قسم کی بو سی ہوتی تھی جو کہ آپ کی نازک اور پاکیزہ طبع اقدس کو ناگوار تھی چناچہ اس کے بعد آپ پہلے حضرت حفصہ کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے حسب قرار آپ کی جناب اقدس میں عرض کیا کہ آپ کے منہ سے مغافیر کے عرق کی بو آرہی ہے آپ نے فرمای کہ میں نے تو اور کچھ نہیں کھایا البتہ زینب کے یہاں سے شہد نوش کیا ہے شاید اس مکھی نے مغافیر کا عرق چوسا ہو پس آپ نے آئندہ شہد استعمال نہ کرنے کی قسم کھالی کہ میں آئندہ کبھی زینب کے یہاں شہد نہیں پیوؤں گا اور ساتھ ہی آپ نے حضرت حفصہ سے یہ بھی فرما دیا کہ اس کی خبر کسی اور کو نہ کرنا مگر انہوں نے اس کی خبر عائشہ کو کردی تب بذریعہ وحی آپ کو اس قصے کی خبر کردی گئ اور یہ آیات کریمہ نازل ہوگئیں یہ خلاصہ ہے ان روایات کا جو اس بارہ وارد ہوئی ہیں (روح، ابن کثیر، خازن، جامع البیان، القرطبی، المراغی، محاسن التاویل، اور صفوہ وغیرہ) اور اس ضمن میں اور بھی کئی اقوال موجود ہیں جن کا زکر ہم انشاء اللہ اپنی مفصل تفسیر میں کریں گے، وبا اللہ التوفیق اس سے یہ امر بھی واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتے ہیں اور نہ مختار کل نہ ہی تحلیل وتحریم کے مالک ورنہ آپ کو آپ کے اس عمل پر اس طرح تنبیہ نہ فرمائی جاتی اور نہ ہی اس سارے قصے کی نوبت آتی اور نہ اس طرح احتساب ہوتا سو علم غیب کلی اور اختیار کلی اللہ ہی کا خاصہ ہے اس میں اس کا نہ کوئی شریک ہے نہ ہوسکتا ہے، وہ اپنی ہر صفت اور شان میں یکتا اور وحدہ لا شریک ہے۔ سبحانہ وتعالی۔
Top