Tafseer-e-Madani - At-Tahrim : 2
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ اَیْمَانِكُمْ١ۚ وَ اللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ
قَدْ فَرَضَ اللّٰهُ : تحقیق فرض کیا اللہ نے لَكُمْ : تمہارے لیے تَحِلَّةَ : کھولنا اَيْمَانِكُمْ : تمہاری قسموں کا وَاللّٰهُ مَوْلٰىكُمْ : اور اللہ تعالیٰ مولا ہے تمہارا وَهُوَ الْعَلِيْمُ : اور وہ علم والا ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
بیشک اللہ نے مقرر فرما دیا (اپنے کرم سے) تمہارے لئے تمہاری قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ اور اللہ ہی کارساز ہے تم سب کا اور وہی ہے سب کچھ جانتا نہایت حکمت والاف 1
[ 2] ناجائز قسموں کے بارے میں شریعت کا حکم۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ بیشک اللہ نے مقرر فرما دیا تمہاری قسموں کی پابندی سے نکلنے کا طریقہ، یعنی کفارہ ادا کرکے اس کی پابندی سے نکل جاؤ جس کا ذکر سورة مائدہ میں آچکا ہے اور اگر کوئی شخص اپنی قسم کے ذریعے کسی جائز چیز کو اپنے اوپر حرام کر بیٹھے تو اللہ نے اس کے لیے ضروری ٹھہرا دیا کہ وہ اس قسم کو توڑ ڈالے، یہاں پر یہ بھی واضح رہے کہ اوپر کی آیت کریمہ میں خطاب پیغمبر سے تھا اور یہاں تمام مسلمانوں سے ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم کو اس لغزش پر ٹوکنے سے مقصود جیسا کہ حضرات اہل علم نے تصریح فرمائی ہے یہی تھا کہ اس کہ وجہ سے امت کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوجائے اور یہ حقیقت واضح ہوجائئے کہ اللہ کے حقوق اور اس کی مقرر فرمودہ حدود کے بارے میں کسی سے بھی کوئی رعایت جائز نہیں اور یہ کہ تحلیل وتحریم کے جملہ اختیارات اللہ کے قبضہ قدرت واختیار میں ہیں اسی لیے یہاں پر تمام مسلمانوں سے خطاب کرکے فرمایا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے اپور کسی چیز کو حرام کرلینے کی قسم کھا بیٹھے تو اللہ نے اس کے لیے فرض کردیا ہے کہ وہ اپنی اس قسم کو توڑ کر اس حرام کردہ چیز کو حلال ٹھہرائے اور چونکہ تم لوگ کا مولی و کارساز ہے اس لیے یہ حق اسی کا ہے وہ تم کو بتلائے کہ تمہارے لیے کیا حلال ہے اور کیا حرام ؟ اس کے سوا اور کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ از خود کسی چیز کو حلال یا حرام کرے۔ سو تحلیل وتحریم صرف اللہ کا حق ہے جو کہ خالق ومالک ہے ہر چیز کا اس کے سو اور کسی کے لیے تحلیل وتحریم کا حق تسلیم کرنا اللہ کے حق میں مداخلت ہوگا جہ حرام اور شرک ہے اور اللہ چونکہ علیم اور حکیم ہے اس لیے اس کا ہر حکم کمال علم حکمت ہی پر مبنی ہے ہے پس نہ اس کے کسی حکم وارشاد میں کسی کے لیے کسی طرح کی مداخلت کی کوئی گنجائش ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کے کسی حکم وارشاد کا کوئی متبادل ممکن ہوسکتا ہے اس لیے اس کے ہر حکم وارشاد کی تعمیل و پیروی صدق دل سے اور بلا چون وچرا کرنی چاہیے۔ وبا اللہ التوفیق۔
Top