Mafhoom-ul-Quran - Yaseen : 76
فَلَا یَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ١ۘ اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ
فَلَا يَحْزُنْكَ : پس آپ کو مغموم نہ کرے قَوْلُهُمْ ۘ : ان کی بات اِنَّا نَعْلَمُ : بیشک ہم جانتے ہیں مَا يُسِرُّوْنَ : جو وہ چھپاتے ہیں وَمَا : اور جو يُعْلِنُوْنَ : وہ ظاہر کرتے ہیں
تو ان کی باتیں تمہیں غمناک نہ کردیں یہ جو کچھ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہـیں ہمیں سب معلوم ہے۔
لوگوں کے دوبارہ پیدا کیے جانے کے قرآنی دلائل تشریح : اللہ جل شانہ اپنے پیارے نبی کو تسلی دیتا ہے کہ آپ ان کی باتوں سے یعنی کفار کی حجت بازی سے پریشان نہ ہوں۔ میرے علم میں یہ بات بخوبی ہے کہ اصل میں یہ آپ کی حقیقی خوبیوں کو جانتے ہیـں مانتے ہیں مگر صرف ضد بازی میں آپ کے سامنے اور لوگوں کے سامنے یہ آپ کو جھٹلاتے ہیں۔ یہ انسان ہے کیا چیز ! اگر یہ اپنی پیدائش پر غور کرے تو اسے اپنے سارے سوالوں کے جواب دلیلوں کے ساتھ مل جائیں۔ انہوں نے اگر مردہ کو زندہ ہوتے نہیں دیکھا تو کیا ہوا ؟ ہر وقت یہ ہر طرف انسان، چرند پرند، پھول پھل اور ہر قسم کی نباتات کو پیدا ہوتے پھولتے پھلتے نہیں دیکھتا ؟ کیا یہ ثبوت کافی نہیں کہ میں جو اس قدر قدرتیں رکھتا ہوں کہ ویسے ہی کسی چیز کی موجودگی کے ہونے پر صرف ” کن “ ہو جاکہوں اور وہ ” ہوجائے “ اس کے علاوہ یہ ہر طرف پھیلی ہوئی دنیا اور اس میں موجود تمام چیزیں میری طاقت کی گواہی نہیں دیتیں ؟ پھر یہاں خاص طور سے ایسے درخت کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب آگ پیدا کرنے کا طریقہ انسان کو معلوم نہ تھا تو سر سبز ٹہنیوں کے آپس میں رگڑنے سے آگ پیدا کردی تاکہ انسان کے لیے آگ کا بندوبست بھی کردیا جائے کیونکہ انسانی ضروریات میں یہ بھی اہم چیز ہے تو جو اللہ اتنا کچھ اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ جس کا ذکر پچھلی آیات میں کیا جا چکا ہے کرسکتا ہے تو اس کے لیے یہ کیسے مشکل کام ہے کہ وہ تمہارے جسم کے بکھرے ہوئے ذرات کو جمع کر کے دوبارہ ایک جیتا جاگتا انسان نہ بنا سکے ؟ تم نے اگر ابھی اس کو نہیں دیکھا تو اللہ تمہیں یہ ضرور دکھا دے گا اور اب تو ترقی یافتہ سائنس دان بھی اس کو مان گئے ہیں کہ یہ سائنسی نکتہ نگاہ سے بالکل ممکن ہے اس کی تفصیلات پچھلے اسباق میں گزر چکی ہیں۔ اب اس بات کو ماننا کوئی مشکل مسئلہ نہیں رہا۔ اور جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ اللہ موجود ہے تو اس کی کہی ہوئی ہر بات کو اسی طرح ماننا پڑتا ہے جس طرح اس کے وجود کو بغیر دیکھے ہم مانتے ہیں۔ پھر کوئی بات بلکہ بہت سی باتیں بہت سی چیزیں اور بہت سی حقیقتیں ایسی ہیں جو علم غیب سے تعلق رکھتی ہیں جن کو ہم قرآن پاک کے دریچہ سے دیکھتے ہیں اور عقل و تجربہ پر اس کو پرکھ کر اس پر یقین کرلیتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے اگر ہمیں یہ پتہ ہو کہ ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں جو مرضی ہے کریں، جیسے مرضی ہے رہیں، ظلم کریں، گناہ کریں، جھوٹ بولیں، قتل کریں، غیبت کریں یا کسی کا حق مار لیں وغیرہ وغیرہ اور سوچ لیں کہ بس دنیا میں سزا سے بچ گئے تو بچ گئے مرگئے تو کون پوچھنے والا ہے۔ تو دنیا کا ہر فرد اسی طرح گناہ و فریب میں ڈوب کر زندگی گزار دے گا۔ سوائے چند ایک خاص لوگوں کے اکثریت یہی کرے گی۔ کیونکہ شیطان ہمیشہ گناہ کو مزین کر کے دکھاتا ہے۔ لیکن جب یہ معلوم ہے کہ ہر عمل ہمارے سامنے اس وقت آجائے گا جب ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور پھر انہی اعمال کے نتیجہ میں ہمیشہ کے لیے جنت یا دوزخ ملے گی تو ہماری سوچ اور ہمارے اعمال میں بڑی احتیاط پیدا ہوجائے گی۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عقیدہ آخرت انسان کے لیے نیکی کی طرف چلنے اور برائی سے بچنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے کیونکہ۔ قرآن پاک میں بار بار ذکر ہے کہ وہاں کسی کے ساتھ نانصافی ہرگز نہیں ہو گیـ۔ وہ اللہ غالب وخبیر، علیم و حکیم کی عدالت ہوگی دنیا کی عدالت نہیں ہوگی۔ وہاں تو ایک ذرہ کے برابر نیکی اور ایک ذرہ کے برابر بدی چھپ نہ سکے گی۔ کون ہے جو یہ سب کچھ جان کر بھی شیطان سے دوستی کرے گا عقیدہ آخرت ہمیں ایسی روشنی اور ایسی محبت عطا کردیتا ہے عبادت، محبت، قربانی، انتظام، شفقت، بڑوں کی عزت، علم، شرم و حیا، ہمدردی، حب رسول، حب وطن اور خوف الٰہی کا بہترین درس دیتی ہے۔ کتنا خوبصورت عقیدہ ہے یہ کہ اس سے فرد ہو، قوم، یا پوری دنیا ہو سکون ہی سکون ملتا ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ یہی تو باتیں ہیں جو مسلمانوں کو دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اتر کر حرا سے سُوئے قوم آیا اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا مس خام کو جس نے کندن بنایا کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا رہا ڈرنہ بیڑے کو موج بلا کا اِدھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا (مولانا الطاف حسین حالی )
Top