Tafseer-e-Majidi - Yunus : 101
قُلِ انْظُرُوْا مَا ذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَا تُغْنِی الْاٰیٰتُ وَ النُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا یُؤْمِنُوْنَ
قُلِ : آپ کہ دیں انْظُرُوْا : دیکھو مَاذَا : کیا ہے فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : زمین وَمَا تُغْنِي : اور نہیں فائدہ دیتیں الْاٰيٰتُ : نشانیاں وَالنُّذُرُ : اور ڈرانے والے عَنْ : سے قَوْمٍ : لوگ لَّا يُؤْمِنُوْنَ : وہ نہیں مانتے
آپ کہہ دیجیے کہ تم دیکھو تو کیا کیا چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں،152۔ اور کوئی بھی نشانیاں اور ڈراوے ان لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچاتے جو ایمان نہیں لاتے،153۔
152۔ (حق تعالیٰ کی توحید اور قدرت اور صنعت پر دلالت کرنے والی) (آیت) ” انظروا “۔ یعنی چشم بصیرت سے دیکھو، سوچو اور غور کرو، دوسرے مذہبوں کے برعکس جہاں ایمان اور عقل کو ایک دوسرے کے منافی سمجھا گیا ہے، قرآن تو خود دعوت تکوینیات میں غور وفکر کرتے رہنے کی دیتا رہتا ہے۔ اے تفکروا (بیضاوی) امر بالنظر والا ستدلال فی الدلائل حتی لایتوھم ان الحق ھو الجبر المحض (کبیر) (آیت) ” انظروا ما ذا فی السموت والارض “۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ یہاں سے معلوم ہوا کہ خلق پر حق کے لیے نظر کرنا نظر الی الحق کا منافی نہیں۔ 153۔ یعنی ایمان لانا چاہتے نہیں، مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ دلائل حق پر سرے سے غور ہی نہیں کرتے ان کے حق میں سارے ہی ترغیبی وترہیبی دلائل و شواہد لاحاصل ہیں۔ (آیت) ” النذر “۔ نذر جمع نذیر کی ہے اور نذیر یہاں معہ مصدر انذار کے مرادف ہے۔ النذر الرسل المنذرون اوالا نذارات (کبیر) والنذر جمع نذیر بمعنی منذر اوبمعنی انذارای الانذارات (روح) جمع کا صیغہ اس لیے لایا گیا کہ انواع و اقسام کے ارادے اس میں شامل ہوجائیں۔ جمع لارادۃ الانواع (روح) (آیت) ” من قبلھم۔ خلوا “۔ کے لفظ میں قبلیت کا مفہوم تو خود ہی شامل ہے۔ پھر جو (آیت) ” من قبلھم “۔ کا اضافہ آیا ہے اس سے مقصود ایک تو تاکید ہے دوسرے یہ اشارہ بھی کہ یہ موجودہ منکرین بھی عنقریب اس طرح گزر جائیں گے جیسے ان کے قبل کے لوگ گذر چکے ہیں۔ متعلق بخلوا جئی بہ للتاکید والایماء بانھم سیخلون کما خلوا (روح)
Top