Tafseer-e-Majidi - Yunus : 102
فَهَلْ یَنْتَظِرُوْنَ اِلَّا مِثْلَ اَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ قُلْ فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ
فَهَلْ : تو کیا يَنْتَظِرُوْنَ : وہ انتظار کرتے ہیں اِلَّا : مگر مِثْلَ : جیسے اَيَّامِ : دن (واقعات) الَّذِيْنَ : وہ لوگ خَلَوْا : جو گزر چکے مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے قُلْ : آپ کہ دیں فَانْتَظِرُوْٓا : پس تم انتظار کرو اِنِّىْ : بیشک میں مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مِّنَ : سے الْمُنْتَظِرِيْنَ : انتظار کرنے والے
سو وہ تو بس ان لوگوں کے لئے حوادث کا جو ان کے قبل گزر چکے ہیں انتظار کررہے ہیں،154۔ آپ کہہ دیجیے کہ اچھا تم انتظار کئے جاؤ میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں،155۔
154۔ یعنی ان موجودہ منکروں اور معاندوں کے وجود سے تو بس یہ ظاہر ہورہا ہے کہ یہ لوگ سابق ہلاک شدہ قوموں کے وقت کا انتظار کررہے ہیں ! (آیت) ” ھل ینتظرون “۔ یعنی دلالت حال سے تو ایسا ہی ظاہر ہورہا ہے۔ (آیت) ” ایام “۔ محاورۂ عرب میں ایام کا اطلاق اہم ترین شدید ترین واقعات و حوادث پر ہوتا ہے۔ الایام ھنا بمعنی الوقائع والحرب تسمی العذاب ایاما والنعم ایاما کل ما سعی لک من الخیر اوالشر فھو ایام (قرطبی) ای وقائع اللہ تعالیٰ فیھم (کشاف) ومنھا استعمال الایام فی الوقائع کقولھم ایام العرب وھو مجاز مشھور من التعبیر بالزمان عما وقع فیہ (روح) (آیت) ” الذین خلوا من قبلھم “۔ یعنی وہ پر قوت و شوکت ونافرمان و سرکش قومیں جو ان سے قبل عذاب سے ہلاک وبرباد ہوچکی ہیں، ان میں سے بہتوں کا ذکر خود قرآن مجید میں موجود ہے، قوم عاد، قوم ثمود، قوم فرعون وغیرہا۔ المراد المشرکون من الامم الماضیۃ (روح) 155۔ (عنقریب یہ واضح ہوجائے گا کہ جھوٹا کون ہے اور سچا کون ہے) ۔
Top