Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 32
وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ١ؕ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْا١ؕ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ١ؕ وَ سْئَلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا
وَلَا : اور نہ تَتَمَنَّوْا : آرزو کرو مَا فَضَّلَ : جو بڑائی دی اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے بَعْضَكُمْ : تم میں سے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض لِلرِّجَالِ : مردوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو اكْتَسَبُوْا : انہوں نے کمایا (اعمال) وَلِلنِّسَآءِ : اور عورتوں کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّمَّا : اس سے جو اكْتَسَبْنَ : انہوں نے کمایا (ان کے عمل) وَسْئَلُوا : اور سوال کرو (مانگو) اللّٰهَ : اللہ مِنْ فَضْلِهٖ : اس کے فضل سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز عَلِيْمًا : جاننے والا
اور تم ایسے امر کی تمنا نہ کیا کرو جس میں اللہ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر بڑائی دی ہے،106 ۔ مردوں کے لیے ان کے اعمال کا حصہ (ثابت) ہے اور عورتوں کے لئے انکے اعمال کا حصہ (ثابت) ہے،107 ۔ اور اللہ سے اس کے فضل کی طلب کرو،108 ۔ بیشک اللہ ہر چیز سے خوب واقف ہے،109 ۔
106 ۔ (طبعی ووہبی طور پر بلادخل کسی عمل وکسب کے مثلا مردوں کو جو فضیلت عورتوں پر حاصل ہے) کوئی دولت مند ہے، کوئی حسین و جمیل ہے، کوئی خوش آواز ہے، کسی کے قوائے جسمانی بہت مضبوط ہیں۔ اس قسم کے وہبی و طبعی فضائل کو قرب حق میں مطلق دخل نہیں۔ آیت میں تعلیم ہے کہ ان کی بنا پر ایک دوسرے پر رشک کرنا، ایک دوسرے کی جگہ پر ہونے کی حسرت و تمنا کرنا درست نہیں۔ قرب حق میں دخل صرف عمل واکتساب کو ہے۔ شان نزول کی روایتوں میں آیا ہے کہ کچھ عورتوں نے اپنے احساس کمتری کی بنا پر مردوں پر رشک کا اظہار کیا تھا۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور بتایا گیا کہ نجات ومغفرت اور قرب حق کا مدار تو اپنے اعمال ارادی واختیاری پر ہے۔ اور اس لحاظ سے مرد و عورت کی حیثیت بالکل یکساں ہے۔ عورتوں کے لئے بھی قانون حسن عمل وہی ہے جو مردوں کے لیے ہے اور اس لیے انہیں مردوں پر رشک کا کوئی محل نہیں۔ یہ فرق تو محض تکوینی مصلحتوں سے رکھ دیے گئے ہیں۔ لان ذلک التفضیل قسمۃ من اللہ تعالیٰ صادرۃ عن حکمۃ وتدبیر وعلم باحوال العباد (مدارک) 107 ۔ (یہ نہ ہوگا کہ مرد کا اجر اس کے مرد ہونے کی بنا پر کچھ بڑھ جائے اور عورت کا اجر اس کے عورت ہونے کی بنا پر کچھ گھٹ جائے) مرد بہ حیثیت مرد ہرگز اللہ کے ہاں مقرب تر اور نجات کا مستحق تر نہیں اور عورت اپنی جنس کی بنا پر ہرگز کسی اجر وقرب سے محروم نہ رہے گی، جیسا کہ بعض دوسرے مذہبوں نے قرار دے رکھا ہے۔ اس میں عورت کے لیے تعلیم ہے کہ وہ اپنا احساس کمتری دور کرے اور سمجھ لے کہ ایک مکلف مخلوق کی حیثیت سے وہ اور مرد دونوں بالکل ایک سطح پر ہیں اور حصول نجات وقرب حق میں وہ مرد سے ذرا بھی فروتر نہیں۔ ہندؤوں نے اپنی منوسمرتی کے اوراق میں اور کیتھولک کلیسانے صدیوں تک اپنی کونسلوں میں جو فیصلہ عورت کی پستی اور پست فطرتی کے کئے ہیں۔ آیت ان سب کی تردید کررہی ہے۔ (آیت) ” ممااکتسبوا۔ ممااکتسبن “۔ اکتساب سے مراد دونوں جگہ اعمال خیر کا کسب ہے۔108 ۔ (توفیق اعمال میں) رشک و تمنا والی اور دعاؤں سے طلب کرنے والی اصل چیز وہبی اور طبعی نعمتیں نہیں بلکہ توفیق حسن عمل ہے۔ 109 ۔ (چنانچہ اپنے اس عمل کامل کے مطابق اس نے ہر مخلوق کو صلاحیت و استعداد بخشی اور وہی ہر ایک کے فرد عمل پر پوری طرح مطلع بھی ہے)
Top