Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 33
وَ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ١ؕ وَ الَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُكُمْ فَاٰتُوْهُمْ نَصِیْبَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدًا۠   ۧ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے جَعَلْنَا : ہم نے مقرر کیے مَوَالِيَ : وارث مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑ مریں الْوَالِدٰنِ : والدین وَالْاَقْرَبُوْنَ : اور قرابت دار وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو کہ عَقَدَتْ : بندھ چکا اَيْمَانُكُمْ : تمہار عہد فَاٰتُوْھُمْ : تو ان کو دے دو نَصِيْبَھُمْ : ان کا حصہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : اوپر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز شَهِيْدًا : گواہ (مطلع)
اور جو مال والدین اور قرابت دار چھوڑ جائیں اس کے لیے ہم نے وارث ٹھہرا دیئے ہیں،110 ۔ اور جن لوگوں سے عہد بندھے ہوئے ہیں انہیں ان کا حصہ دے دو ،1 1 1 ۔ بیشک اللہ ہر چیز پر مطلع ہے۔
110 ۔ (قانون میراث کے ذریعہ سے) وارثوں کی تفصیل اسی سورت میں چند رکوع قبل گزر چکی۔ تقسیم ترکہ کی کچھ عارضی صورتیں آغاز اسلام ہی میں بتادی گئی تھیں وہ مکمل قانون میراث کے نازل ہونے کے بعد اب قدرۃ منسوخ ہوگئیں (آیت) ” لکل “۔ میں مضاف الیہ محذوف ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے لکل احد۔ 1 1 1 ۔ یعنی کل ترکہ کا 6 1 حصہ۔ (آیت) ” الذین عقدت ایمانکم “۔ اصطلاح میں یہ لوگ مولی الموالاۃ کہلاتے ہیں۔ عرب قدیم میں دستور تھا کہ دو شخص باہم قول وقرار کرکے ایک دوسرے کے اس طرح دوست و مددگار ہوجاتے ہیں کہ اگر ایک پر دیت لازم آئے تو دوسرا اسے ادا کرے اور ایک کی وفات پر دوسرا اد کی میراث پائے۔ اسی عہد کو عقد موالاۃ کہتے ہیں۔ شریعت نے شروع شروع اس دستور کو تھوڑی سی ترمیم کے بعد قائم رکھا۔ اور انصار ومہاجرین میں مواخات قائم کرکے باہم میراث جاری کرادی۔ پھر اس عہد والے کا حصہ 6 1 متعین کیا۔ پھر جب سورت احزاب کی یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” والوالارحام بعضھم اولی ببعض “۔ تو سب وارثوں کے حصے متعین ہوگئے اور اب اس کے لیے گنجائش نہ رہی۔
Top