Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 53
وَ رَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَ لَمْ یَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا۠   ۧ
وَرَاَ : اور دیکھیں گے الْمُجْرِمُوْنَ : مجرم (جمع) النَّارَ : آگ فَظَنُّوْٓا : تو وہ سمجھ جائیں گے اَنَّهُمْ : کہ وہ مُّوَاقِعُوْهَا : گرنے والے ہیں اس میں وَلَمْ يَجِدُوْا : اور وہ نہ پائیں گے عَنْهَا : اس سے مَصْرِفًا : کوئی راہ
اور گنہگار لوگ دوزخ کو دیکھیں گے تو یقین کرلیں گے کہ وہ اس میں پڑنے والے ہیں۔ اور اس سے بچنے کا کوئی رستہ نہ پائیں گے
وراء المجرمون النار فظنوا انہم مواقعوہا ولم یجدو عنہا مصرفا اور اس وقت مجرم دوزخ کو دیکھیں گے پھر یقین کریں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں اور اس سے کوئی بچنے کی راہ نہیں پائیں گے۔ اَلْمُجْرِمُوْنَ سے مراد ہیں مشرک۔ فَظَنُّوْا یعنی وہ یقین کرلیں گے۔ مُوَاقِعُوْہَا یعنی اس کے اندر گرنے والے ہیں۔ امام احمد نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت واظَنُّوْا اَنَّہُمْ مُّوَاقِعُوْہَا کی تشریح میں فرمایا کافر کو پچاس ہزار برس کے بقدر (یعنی قیامت کے سارے دن) کھڑا رکھا جائے گا ‘ جیسے کہ دنیا میں اس نے کچھ کیا ہی نہ تھا اور وہ جہنم کو دیکھتا رہے گا اور چالیس برس کی مسافت سے بھی یہی خیال کرے گا کہ میں دوزخ میں گرایا جا رہا ہوں۔ مَصْرِفًایا مصدر ہے لوٹنا ‘ واپس ہونا یا اسم ظرف ہے یعنی کوئی ایسا مقام جس کی طرف وہ لوٹ سکیں (اور دوزخ سے بچ جائیں)
Top