Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 26
اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَ الْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ١ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَ الطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ١ۚ اُولٰٓئِكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ١ؕ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ۠   ۧ
اَلْخَبِيْثٰتُ : ناپاک (گندی) عورتیں لِلْخَبِيْثِيْنَ : گندے مردوں کے لیے وَالْخَبِيْثُوْنَ : اور گندے مرد لِلْخَبِيْثٰتِ : گندی عورتوں کے لیے وَالطَّيِّبٰتُ : اور پاک عورتیں لِلطَّيِّبِيْنَ : پاک مردوں کے لیے وَالطَّيِّبُوْنَ : اور پاک مرد (جمع) لِلطَّيِّبٰتِ : پاک عورتوں کے لیے اُولٰٓئِكَ : یہ لوگ مُبَرَّءُوْنَ : مبرا ہیں مِمَّا : اس سے جو يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں لَهُمْ : ان کے لیے مَّغْفِرَةٌ : مغفرت وَّرِزْقٌ : اور روزی كَرِيْمٌ : عزت کی
ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کے لئے۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے۔ اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے۔ یہ (پاک لوگ) ان (بدگویوں) کی باتوں سے بری ہیں (اور) ان کے لئے بخشش اور نیک روزی ہے
الخبثت للخبثین والخبیثون للخبیثت ‘ والطیبت للطیبین والطیبون للطیبت اور (یہ قاعدہ عام ہے کہ) گندی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق اور ستھری عورتیں ستھرے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور ستھرے مرد ستھری عورتوں کے لائق۔ اکثر اہل تفسیر کے نزدیک الخبیثات سے مراد ہی گندی باتیں ‘ مذمت ‘ تحقیر اور توہین کرنے والے ناپاک الفاظ ایسے الفاظ و کلمات گندے لوگوں کے لئے ہی زیبا ہیں ‘ ناپاک لوگوں کو ہی ایسی بری باتوں کا استحقاق ہے اور خبیث لوگ ہی مذمت و تحقیر کے اہل ہیں اور پاک کلمات یعنی تعریف ‘ ثنا اور دعا کے مستحق پاک لوگ ہیں اور پاک کلمات انہیں کے لئے زیبا ہیں۔ پس حضرت عائشہ ؓ : ثنا اور تعریف کی مستحق ہیں دعا اور تعریف ہی ان کے لئے زیبا ہے ان پر تہمت تراشی اور بہتان بندی قطعاً ناجائز اور غیر مناسب ہے۔ اولئک مبرء ون مما یقولون یہ لوگ (یعنی حضرت عائشہ ؓ : اور ان جیسے لوگ) ان (بیہودہ) باتوں سے پاک ہیں جو یہ (بہتان بندی کرنے والے) کہتے ہیں۔ زجاج نے کہا آیت مذکورۂ بالا کی تفسیر حسب ذیل کی ہے ‘ گندے کلمات جیسے کلمۂ کفر ‘ جھوٹ ‘ صحابہ اور اہل بیت کو برا کہنا ‘ پاک دامن عورتوں پر زنا کا بہتان رکھنا اور اسی جیسی دوسری باتیں ناپاک آدمیوں جیسے عبداللہ بن ابی وغیرہ کے لئے ہی جچتی ہیں وہی ایسی باتیں کہہ سکتے ہیں۔ پاک لوگ ایسا کلام زبان سے نہیں نکال سکتے۔ گندے لوگوں کو انہیں گندی باتوں کے لئے پیدا کیا گیا ہے ان کے خمیر میں یہی باتیں رکھی گئی ہیں ‘ اور پاک کلمات جیسے اللہ کا ذکر ‘ رسول اللہ ﷺ پر درود وسلام ‘ مؤمن مردوں اور عورتوں کے لئے دعاء مغفرت اور تلاوت قرآن وغیرہ کی توفیق پاک لوگوں کو ہی ملتی ہے۔ پاک لوگوں کی تخلیق ہی پاک کلمات کیلئے کی گئی ہے ان کے خمیر میں یہ پاک باتیں رکھ دی گئی ہیں یہی پاک لوگ اس جرم کے ارتکاب سے پاک ہیں جو تہمت تراش ان کے متعلق کہتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں تہمت تراشی کرنے والوں کی مذمت ہے اور جن کی اللہ نے الزامات سے پاک ہونے کی صراحت کی ہے ان کی مدح ہے۔ ابن زید نے کہا خبیثات سے گندی عورتیں اور خبیثین سے گندے مرد مراد ہیں یعنی اکثر گندی عورتیں گندے مردوں کے لئے اور گندے مرد گندی عورتوں کے لئے اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے ہوتے ہیں اور عائشہ ؓ پاک ہیں اسی لئے اللہ نے ان کو اپنے رسول ﷺ : کی زوجیت کے لئے منتخب فرمایا ‘ عائشہ ؓ اور ان جیسے لوگ ان افتراء پردازوں کی الزام تراشی سے پاک ہیں۔ اگر عائشہ ؓ پاک نہ ہوتیں تو پاک رسول کی بیوی بننے کی اہل نہ ہوتیں۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کو ناپسند ہے کہ میں سوائے جنتی (عورت) کے کسی اور سے نکاح کروں۔ رواہ ابن عساکر۔ لہم مغفرۃ و رزق کریم۔ ان کے (یعنی عائشہ ؓ اور ان جیسے لوگوں کے) لئے (گناہوں کی) مغفرت ہے اور عزت والا رزق یعنی جنت ہے۔ بغوی نے لکھا ہے کہ روایت میں آیا ہے حضرت عائشہ ؓ چند باتوں پر ناز کرتی تھیں جو آپ ہی کو عطا کی گئی تھیں کسی اور عورت کو نہیں دی گئیں۔ (1) حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ کے پاس حضرت عائشہ ؓ کی تصویر ایک ریشمی کپڑے میں (لپیٹ کر) لائے اور کہا یہ آپ کی بیوی ہیں۔ میں کہتا ہوں ترمذی نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے اس کو بیان کیا ہے۔ روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) حضرت عائشہ ؓ کی تصویر اپنے ہاتھ میں لائے تھے۔ (2) حضرت عائشہ ؓ کے سوا اور کسی ناکت خدا (دوشیزہ) سے رسول اللہ ﷺ نے شادی نہیں کی۔ (3) رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت حضور والا کا سر حضرت عائشہ ؓ کی گود میں تھا۔ (4) حضرت عائشہ ؓ کے حجرے میں رسول اللہ ﷺ کا جسد مبارک دفن کیا گیا۔ (5) جب رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ ایک چادر میں ہوتے تو (کبھی اسی حالت میں) وحی آجاتی (اور کسی بیوی کو یہ شرف حاصل نہ تھا) ۔ (6) حضرت عائشہ ؓ کی پاک دامنی کی صراحت آسمان سے نازل ہوئی۔ (7) آپ رسول اللہ کے (اول) خلیفہ کی صاحبزادی ہیں۔ (8) آپ صدیقہ طاہرہ تھیں۔ (9) آپ سے مغفرت اور رزق کریم عطا فرمانے کا وعدہ کیا گیا۔ مسروق اگر حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے کوئی حدیث بیان کرتے تو یہ الفاظ کہتے ‘ مجھ سے بیان کیا صدیق کی صاحبزادی صدیقہ نے جو رسول اللہ ﷺ : کی چہیتی بیوی تھیں اور جن کی پاک دامنی آسمان سے نازل کی گئی تھی۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ اگر پورے قرآن میں تلاش کیا جائے تو کسی کے لئے کوئی وعید اتنی سخت نہیں نازل ہوئی۔ جتنی حضرت عائشہ ؓ پر تہمت تراشنے والوں کے حق میں نازل ہوئی۔ صحیحین میں آیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا ‘ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘ تجھے (یعنی تیری صورت کو) تین رات (برابر) خواب میں میری نظر کے سامنے لایا گیا ‘ فرشتہ ایک ریشمی کپڑے میں تجھے لاتا تھا اور مجھ سے کہتا تھا یہ آپ کی بیوی ہے ‘ میں نے تیرے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو وہ تیری ہی صورت تھی ‘ میں نے کہا اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اس کو پورا کر دے گا۔ صحیحین میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے یہ بھی آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ جبرئیل ( علیہ السلام) ہیں تم کو سلام کر رہے ہیں۔ میں نے جواب دیا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا رسول اللہ : ﷺ کو وہ کچھ نظر آتا تھا جو میں نہیں دیکھتی تھی۔ یہ بھی حضرت عائشہ ؓ : کا بیان ہے کہ لوگ قصداً عائشہ ؓ : کی باری کے دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اپنے ہدیے بھیجتے تھے (باری کی اس تعیین سے) ان کو رسول اللہ ﷺ : کی خوشنودی حاصل کرنا مقصود ہوتی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ : کی بیویوں کے دو گروہ (جدا جدا) ہوگئے تھے۔ ایک گروہ عائشہ ‘ حفصہ ‘ صفیہ اور سودہ کا تھا اور دوسرا گروہ ام سلمہ اور باقی بیویوں کا تھا۔ ایک روز ام سلمہ کی ساتھ والی بیویوں نے ام سلمہ سے کہا آپ رسول اللہ ﷺ سے عرض کریں کہ آپ لوگوں سے فرما دیں کہ اگر کسی شخص کو رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں کوئی ہدیہ بھیجنا ہو تو رسول اللہ ﷺ جس بیوی کے گھر ہوں وہیں بھیج دیں (عائشہ ؓ کی باری ہی کی تخصیص نہ رکھیں) چناچہ ام سلمہ نے (بیویوں کا قول) رسول اللہ ﷺ سے عرض کردیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا تم مجھے عائشہ ؓ کے معاملے میں مت ستاؤ۔ سوائے عائشہ ؓ کے اور کسی عورت کی چادر میں (اگر میں موجود ہوتا ہوں تو) میرے پاس وحی نہیں آتی۔ ام سلمہ نے کہا میں اللہ کے رسول کو ایذا دینے سے اللہ سے توبہ کرتی ہوں۔ اس کے بعد بیویوں نے ( رسول اللہ ﷺ : کی صاحبزادی) فاطمہ ؓ : کو اسی غرض سے حضور ﷺ کے پاس بھیجا اور (سیدہ) فاطمہ ؓ نے اس بات کے سلسلے میں گزارش کی ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیٹا ! کیا تجھے وہ بات ناپسند ہے جو مجھے پسند ہے۔ سیدہ نے کہا کیوں نہیں (پسند ہے) ۔ فرمایا تو تو بھی اس سے محبت کر۔ متفق علیہ۔ صحیحین میں حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت سے آیا ہے کہ (حضور ﷺ نے فرمایا) عائشہ ؓ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید (ایک خاص قسم کا کھانا) کی فضیلت اور کھانوں پر۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے فرمایا صحابہ کو جب کسی حدیث (کے سمجھنے) میں کوئی دشواری ہوتی اور ہم جا کر حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کرتے تو اس کا علم ہم کو ان کے پاس ملتا۔ رواہ الترمذی۔ حضرت موسیٰ بن طلحہ کا بیان ہے میں نے عائشہ ؓ سے زیادہ سلیس بیان کرنے والا کسی کو نہیں پایا۔ رواہ الترمذی۔ بیضاوی نے لکھا ہے ‘ اللہ نے چار شخصوں کو چار کے ذریعہ سے پاکی (یعنی تہمت سے براءت) عنایت کردی۔ 1) یوسف ( علیہ السلام) کو زلیخا کے ایک گھر والے (بچہ) کی شہادت کی وجہ سے۔ 2) موسیٰ : ( علیہ السلام) کو یہودیوں کی تہمت سے اس پتھر کے ذریعہ جو آپ کے کپڑے لے بھاگا تھا۔ 3) مریم ( علیہ السلام) کو انہی کے بچے (عیسیٰ ( علیہ السلام) کی شہادت کی وجہ سے۔ 4) عائشہ ؓ کو ان مذکورہ آیات کے ذریعے سے اور مختلف پُر زور طریقوں سے ‘ حضرت عائشہ ؓ : کی پاکدامنی کا اظہار اتنی موکد عبارتوں میں محض منصب رسول کی عظمت کو بیان کرنے اور آپ کے مرتبے کو بالا اور اعلیٰ بنانے کے لئے کیا گیا ہے۔ میں کہتا ہوں اس سے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ : کی نظر میں حضرت عائشہ ؓ : کی عظمت و شان کا اظہار بھی مقصود ہے۔ فریابی اور ابن جریر نے حضرت عدی بن ثابت کی روایت سے بیان کیا کہ ایک انصاری عورت نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں اپنے گھر کے اندر (بعض وقت) یسی حالت میں ہوتی ہوں کہ میں نہیں چاہتی کہ اس حالت میں کوئی مجھے دیکھے ‘ لیکن گھر کے آدمیوں میں سے کوئی (نہ کوئی) آدمی (بےروک ٹوک) اندر آجاتا ہے اور اس حالت میں مجھے دیکھ لیتا ہے ‘ میں کیا کروں۔ اس سوال پر آیت ذیل کا نزول ہوا۔
Top