Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 25
یَوْمَئِذٍ یُّوَفِّیْهِمُ اللّٰهُ دِیْنَهُمُ الْحَقَّ وَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ
يَوْمَئِذٍ : اس دن يُّوَفِّيْهِمُ : پورا دے گا انہیں اللّٰهُ : اللہ دِيْنَهُمُ : ان کا بدلہ الْحَقَّ : سچ (ٹھیک ٹھیک) وَيَعْلَمُوْنَ : اور وہ جان لیں گے اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ هُوَ : وہی الْحَقُّ : برحق الْمُبِيْنُ : ظاہر کرنے والا
اس دن خدا ان کو (ان کے اعمال کا) پورا پورا (اور) ٹھیک بدلہ دے گا اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ خدا برحق (اور حق کو) ظاہر کرنے والا ہے
یومئذ یوفیہم اللہ دینہم الحق اس روز اللہ ان کو (ان کے عمل کا) پورا پورا عوض دے گا ‘ یعنی ٹھیک ٹھیک واجبی بدلہ۔ دین بدلہ ‘ عوض ‘ حق واجب ‘ لازم۔ بعض کے نزدیک دین سے مراد ہے حساب اور الحق سے مراد ہے انصاف والا۔ ویعلمون ان اللہ ہو الحق المبین۔ اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی ٹھیک فیصلہ کرنے والا اور (بات کی حقیقت کو) کھول دینے والا ہے۔ اَلْحَقُّ الْمُبِیْنُ موجودہ حقیقی اصلی ہے۔ تمام چیزوں کو (خواہ وہ جواہر ہو یا عرض) پیدا کرنے والا ہے۔ تمام حقائقِ کائنات کو تھامے رکھنے والا ہے۔ گویا اسی کا وجود اصلی ہے اور ساری کائنات اسی کے وجود کا عکس ہیں۔ اس کی الوہیت کھلی ہوئی ہے الوہیت میں کوئی اس کا شریک نہیں اور ثواب عذاب دینے پر اس کے سوا اور کوئی قادر نہیں۔ یا الحق سے مراد ہے ذوالحق اور المبین سے مراد ہے بین۔ یعنی اس کا انصاف ظاہر ہے۔ یا المبین (ظاہر کرنے والا) کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جو اس نے وعدہ کیا ہے قیامت کے دن اس کو ظاہر کرنے والا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایا عبداللہ بن ابی (دین کی صداقت) میں شک کرتا تھا ‘ قیامت کے دن اس کو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ ہی حق مبین ہے۔ میں کہتا ہوں شاید حضرت ابن عباس ؓ کے قول کا یہ مطلب ہے کہ عام لوگ خصوصاً کافر خیال کرتے ہیں کہ خدا کی ہستی موہوم ہے (واقعی خدا کا وجود نہیں) یہاں تک کہ وہ حوادث کائنات کو زمانہ کی طرف منسوب کرتے ہیں یا ستاروں کی چال سے ان کو وابستہ سمجھتے ہیں اور انسانوں کے ہاتھ میں نفع نقصان کا حقیقی اختیار جانتے ہیں اسی لئے جتنا بادشاہوں سے ڈرتے ہیں خدا سے نہیں ڈرتے ‘ قیامت کے دن ان کے سامنے آجائے گا کہ جو کچھ وہ خیال کرتے تھے غلط تھا اور اللہ ہی حق مبین ہے۔
Top