Tafseer-e-Mazhari - An-Noor : 33
وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ خَیْرًا١ۖۗ وَّ اٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ مَنْ یُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلْيَسْتَعْفِفِ : اور چاہیے کہ بچے رہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَجِدُوْنَ : نہیں پاتے نِكَاحًا : نکاح حَتّٰى : یہانتک کہ يُغْنِيَهُمُ : انہیں گنی کردے اللّٰهُ : اللہ مِنْ فَضْلِهٖ : اپنے فضل سے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَبْتَغُوْنَ : چاہتے ہوں الْكِتٰبَ : مکاتبت مِمَّا : ان میں سے جو مَلَكَتْ : مالک ہوں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے دائیں ہاتھ (غلام) فَكَاتِبُوْهُمْ : تو تم ان سے مکاتبت ( آزادی کی تحریر) کرلو اِنْ عَلِمْتُمْ : اگر تم جانو (پاؤ) فِيْهِمْ : ان میں خَيْرًا : بہتری وَّاٰتُوْهُمْ : اور تم ان کو دو مِّنْ : سے مَّالِ اللّٰهِ : اللہ کا مال الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ : جو اس نے تمہیں دیا وَلَا تُكْرِهُوْا : اور تم نہ مجبور کرو فَتَيٰتِكُمْ : اپنی کنیزیں عَلَي الْبِغَآءِ : بدکاری پر اِنْ اَرَدْنَ : اگر وہ چاہیں تَحَصُّنًا : پاکدامن رہنا لِّتَبْتَغُوْا : تاکہ تم حاصل کرلو عَرَضَ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَمَنْ : اور جو يُّكْرِھْهُّنَّ : انہیوں مجبور کرے گا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : بعد اِكْرَاهِهِنَّ : ان کے مجبوری غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور جن کو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاک دامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ خدا ان کو اپنے فضل سے غنی کردے۔ اور جو غلام تم سے مکاتبت چاہیں اگر تم ان میں (صلاحیت اور) نیکی پاؤ تو ان سے مکاتبت کرلو۔ اور خدا نے جو مال تم کو بخشا ہے اس میں سے ان کو بھی دو۔ اور اپنی لونڈیوں کو اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں تو (بےشرمی سے) دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرنا۔ اور جو ان کو مجبور کرے گا تو ان (بیچاریوں) کے مجبور کئے جانے کے بعد خدا بخشنے والا مہربان ہے
ولیستعفف الذین لا یجدون نکاحا حتی یغنیہم اللہ من فضلہ اور جن لوگوں کو نکاح میسر نہ ہو وہ پاک دامن رہیں ‘ یہاں تک اللہ ان کو اپنے فضل سے صاحب مقدرت کر دے۔ نکاح سے مراد ہے نکاح کا سامان اور وہ چیزیں جن کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ‘ مثلاً مہر معجل (اگر اس کی ضرورت ہو) اور خرچ۔ بیوی کا نان نفقہ۔ ناداری کی وجہ سے اس کو ڈر ہو کہ بیوی کا خرچ کہاں سے دوں گا ‘ میری وجہ سے غریب کی حق تلفی ہوگی ‘ ایسے شخص پر لازم ہے کہ عفت قائم رکھنے کی کوشش کرے۔ کم کھائے زیادہ روزے رکھے۔ روزے رکھنے سے جوش شہوانی ٹوٹ جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس میں استطاعت (یعنی نکاح کرنے کی استطاعت) نہ ہو اس پر روزے رکھنے لازم ہیں ‘ روزہ اس کے لئے شہوت شکن ہوجائے گا۔ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖیعنی اللہ اس کے لئے رزق میں کشائش پیدا کر دے۔ فضل سے مراد ہے رزق اور غنی بنا دینے سے مراد ہے رزق کو کشادہ کرنا۔ ابن السکن نے معرفت الصحابہ میں عبداللہ بن صبیح کے باپ کا بیان نقل کیا ہے عبداللہ کے باپ نے کہا میں حضرت حویطب بن عبدالعزیٰ کا غلام تھا ‘ میں نے حویطب سے درخواست کی کہ مجھے مکاتب بنا دیجئے ‘ انہوں نے انکار کیا اس پر آیت ذیل نازل ہوئی۔ والذین یبتغون الکتب مما ملکت ایمانکم فکاتبوہم تمہارے جو مملوک (باندیاں ہوں یا غلام) مکاتب بنائے جانے کی درخواست کریں تو تم ان کو مکاتب بنا دو ۔ بغوی نے لکھا ہے یہ آیت نازل ہوئی تو حویطب نے اپنے غلام کو سو دینار ادا کرنے کی شرط پر مکاتب بنا دیا اور بیس دینار (تجارت وغیرہ کے لئے) اس کو خود دے دیئے ‘ چناچہ غلام نے (کمائی کر کے) سو دینار ادا کردیئے (اور آزاد ہوگیا) یہ غلام جنگ حنین میں شہید ہوگیا۔ آیت مذکور میں جمہور علماء کے نزدیک امر استحبابی ہے (وجوبی نہیں مکاتب بنانا واجب نہیں) صاحب ہدایہ نے یہی لکھا ہے اور اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ صاحب ہدایہ کی مراد یہ ہے کہ ہمارے بعض اکابر جو آیت میں کاتبوہم کو امر اباحت کہتے ہیں یہ غلط ہے یعنی آیت کا یہ مطلب نہیں کہ باندی غلام کو مکاتب بنانا تمہارے لئے جائز ہے بلکہ مراد ہے مکاتب بنانے کا مستحب ہونا ‘ کیونکہ اگر امر کو اباحت کے لئے قرار دیا جائے گا تو غلام کے اندر صلاحیت ہو یا نہ ہو بہرحال اس کو مکاتب بنانا جائز ہے ‘ پھر صلاحیت کی شرط بےفائدہ ہے۔ دلیل استحباب کا رد اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ برقول اباحت شرط صرف عادی ہوگی۔ (احترازی نہ ہوگی) قاعدہ یہی ہے کہ آقا اپنے غلام کو اسی وقت مکاتب بناتا ہے جب اس میں مکاتب ہونے کی صلاحیت پاتا ہے۔ اسی کو آیت میں بطور شرط بیان کردیا گیا ہے۔ ورنہ یہ واقعہ کا اظہار ہے۔ بعض متقدمین کے نزدیک کاتبوا وجوب کے لئے ہے (اگر مکاتب ہونے کی غلام درخواست کرے اور اس کے اندر اس کی صلاحیت محسوس کی جائے تو مکاتب بنانا واجب ہے) عطاء اور عمرو بن دینار کا یہی قول ہے ‘ ایک روایت میں امام احمد کا بھی یہی قول آیا ہے۔ لیکن اس وجوب کی شرط یہ ہے کہ اتنے معاوضہ پر غلام مکاتب ہونے کی درخواست کرے جو واقعی بازار میں اس کی قیمت ہوسکتی ہو ‘ یا اس سے زیادہ ادائیگی کا وعدہ کرے۔ بغوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ ابن سیرین نے اپنے آقا حضرت انس بن مالک سے درخواست کی کہ مجھے مکاتب بنادیجئے۔ حضرت انس نے کچھ توقف کیا۔ ابن سیرین نے حضرت عمر ؓ سے جا کر شکایت کی۔ حضرت عمر درہ لے کر حضرت انس پر چڑھ دوڑے۔ اور مکاتب بنانے کا حکم دیا۔ حضرت انس ؓ نے ابن سیرین کو مکاتب بنا دیا۔ مکاتبت ‘ عقد معاوضہ ہے اور عقد معاوضہ میں طرفین سے ایجاب و قبول ہونا ضروری ہے (ایک طرف کا ایجاب کافی نہیں ہے) کتابت کا معنی ہے ایجاب اور مکاتبت طرفین سے کتابت میں شرکت کو چاہتا ہے پس آقا کی طرف سے ایجاب اور غلام کی طرف سے قبول لازم ہے۔ مکاتبت ‘ آزادی ‘ بشرط ادائے مال نہیں ہے (جس کی درستی کے لئے غلام کی طرف سے قبول لازم نہیں) لہٰذا جو نابالغ غلام خریدو فروخت کا شعور رکھتا ہو وہ عقد کتابت کو قبول بھی کرسکتا ہے۔ ہاں اگر اتنا بچہ ہو کہ اس کو خریدو فروخت کا بھی شعور نہ ہو یا دیوانہ ہو تو اس کے قبول کرنے سے عقد کتابت منعقد نہیں ہوتا۔ اگر آقا نے غلام سے کہا ‘ میں نے تجھے اتنے مال کی شرط پر مکاتب بنایا اور غلام نے کہا میں نے قبول کیا تو امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک معاہدہ مکمل ہوگیا ‘ آقا کو یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر تو اتنا مال ادا کر دے تو آزاد ہے۔ امام مالک اور احمد کا بھی یہی مسلک ہے۔ امام شافعی (رح) نے کہا ‘ صرف الفاظ مذکورہ کے کہنے سے عقد مکاتبت مکمل نہیں ہوسکتا بلکہ یہ بھی کہنا ہوگا کہ میں نے قسط وار اتنے مال کی ادائیگی کی شرط پر تجھے مکاتب کیا۔ اگر تو اتنا مال ادا کر دے تو آزاد ہے۔ اگر (اتنا مال ادا کر دے تو آزاد ہے کا لفظ) زبان سے نہ کہا مگر نیت یہی تھی تب بھی کافی ہوجائے گا۔ کذا فی المنہاج۔ مسئلہ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک اگر معاوضہ ‘ کتابت فوری ادا کرنے کی شرط لگا دی تب بھی صحیح ہے۔ امام شافعی (رح) اور امام احمد (رح) کے نزدیک کم سے کم ادائیگی دو قسطوں میں ہونا ضروری ہے اور قسط وار ادائیگی کی شرط لازم ہے۔ فی الفور ادائیگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ غلام کو فوراً مال کہاں سے مل سکتا ہے۔ امام اعظم نے کہا ‘ عقد کتابت عقد معاوضہ ہے جیسے عقد بیع ‘ بدل کتابت۔ ثمن (قیمت) کے مشابہ ہے۔ قیمت کا اقرار زبانی خرید کی صحت کے لئے کافی ہے۔ ادائیگی قیمت پر قدرت مشتری صحت عقد کے لئے لازم نہیں۔ مفلس بھی ہزاروں روپے کا مال خرید سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عقد کتابت کے وقت غلام کو کوئی شخص زکوٰۃ کی یا کسی اور قسم کی امدادی رقم دے دے اور غلام فوراً ادا کر دے۔ اگر غلام معاوضۂ کتابت ادا کرنے سے قاصر رہے تو آقا دوبارہ اس کو حسب سابق بحیثیت غلام واپس لے سکتا ہے۔ مسئلہ عقد مکاتبت ہو چکنے کے بعد غلام پر آقا کا قبضہ نہیں رہتا ‘ اب وہ ہر طرح کی خریدو فروخت ‘ محنت مزدوری اور سفر کرنے کا مجاز ہوگا۔ البتہ آقا کی ملک سے باجماع علماء اس وقت تک خارج نہ ہوگا جب تک پائی پائی معاوضہ ادا نہ کر دے گا۔ مسئلہ عقد کتابت آقا کے لئے عقد لازم ہے آقا باختیار خود غلام کی رضامندی فسخ نہیں کرسکتا عقد کتابت کے بعد غلام کو آزادی کا استحقاق ہوجاتا ہے اور جس طرح آزاد کرنے کے بعد آزادی کو آقا فسخ نہیں کرسکتا اسی طرح غلام کے استحقاق آزادی کو بھی سلب نہیں کرسکتا۔ البتہ غلام پر اس عقد کا لزوم نہیں ہوتا ‘ وہ اگر کمائی نہ کرے اور معاوضۂ کتابت ادا نہ کرسکے تو اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کی رضامندی سے عقد کتابت کو فسخ کردیا جائے گا ‘ امام ابوحنیفہ (رح) :‘ امام شافعی (رح) اور امام احمد کا یہی قول ہے ‘ ہاں اگر اس کے پاس اتنا مال موجود ہو کہ وہ مقررہ معاوضہ ادا کرسکتا ہو تو امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک عقد مکاتبت فسخ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کو ادائے معاوضہ پر مجبور کیا جائے گا۔ امام مالک کے نزدیک نادار غلام کو کمائی کرنے پر مجبور کیا جائے گا ‘ کتابت کو فسخ نہیں کیا جائے گا۔ غلام کو حق نہیں کہ وہ ناداری کی وجہ سے کتابت کو فسخ کرسکے۔ مسئلہ مکاتب چونکہ آقا کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتا اس لئے عقد کتابت کے بعد آقا کو اختیار ہے کہ غلام کو بلا معاوضہ آزاد کر دے ‘ غلام کا اس میں فائدہ ہے اس لئے بلاشبہ ‘ بلامعاوضہ آزادی پر وہ راضی ہی ہوگا۔ مسئلہ مکاتب کو آقا فروخت کرسکتا ہے ‘ دوسرا آقا پہلے آقا کے قائم مقام ہوجائے گا اور عقد مکاتبت حسب سابق قائم رہے گا فسخ نہیں ہوگا ‘ غلام کتابت کا معاوضہ دوسرے آقا کو ادا کرے گا یہ امام احمد کا قول ہے اور شافعی کا بھی یہی اوّل قول تھا ‘ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک مکاتب کو بغیر اس کی رضامندی کے فروخت نہیں کیا جاسکتا اگر مکاتب اپنی فروختگی پر راضی ہوجائے گا تو بیع صحیح ہوگی اور کتابت فسخ ہوجائے گی۔ امام شافعی (رح) کا قول جدید یہی ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کی دلیل مکاتب اپنی آزادی کا مستحق بن جاتا ہے اور استحقاق کو آقا نہیں چھین سکتا۔ اگر کوئی شخص مکاتب کو خریدکر مالک بن جائے گا تو مکاتب کا استحقاق آزادی سلب ہوجائے گا۔ جوابخریدنے کے بعد ملکیت ضرور مشتری کی ہوگی جس طرح پہلے آقا کی تھی مکاتب کا عقد کتابت فسخ نہ ہوگا۔ مکاتب کو استحقاق باقی رہے گا۔ امام احمد کے قول کی دلیل حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ بریرہ آئی اور اس نے کہا مجھے اپنے مکاتب ہونے کا معاوضہ دینا ہے ‘ آپ اس معاوضہ کی ادائیگی میں میری مدد کیجئے اس وقت بریرہ نے بدل کتابت کا کوئی حصہ ادا نہیں کیا تھا ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم اس کو خرید کر آزاد کر دو ۔ حق ولاء آزاد کرنے والے کا ہوتا ہے۔ رواہ احمد۔ اصل حدیث صحیحین میں اس طرح ہے کہ بریرہ نے آکر حضرت عائشہ ؓ سے کہا میں نے 9 اوقیہ (سونے) معاوضہ پر عقد کتابت کیا ہے۔ سالانہ ایک اوقیہ دینا ہوگا آپ میری امداد کیجئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا اگر تیرے مالک پسند کریں تو میں یکمشت ان کی پوری رقم گن دوں گی لیکن حق ولا میرا ہوگا۔ بریرہ نے جا کر اپنے مالکوں سے یہی بات کہی انہوں نے انکار کردیا۔ بریرہ نے واپس آکر حضرت عائشہ ؓ سے کہا ‘ انہوں نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا ‘ وہ حق ولاء اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ‘ یہ گفتگو رسول اللہ ﷺ نے بھی سن لی اور دریافت فرمایا ‘ کیا بات ہے ؟ حضرت عائشہ ؓ نے واقعہ عرض کردیا فرمایا تم بریرہ کو لے کر آزاد کر دو اور حق ولاء کی شرط انہیں لوگوں کے لئے کرلو۔ حق ولاء آزاد کرنے والے کا ہی ہوتا ہے (یعنی شرط کرلینے کے بعد حق ولاء تم ہی کو پہنچے گا بیچنے والوں کو نہیں) نسائی نے بھی یہ قصہ بروایت بریرہ بیان کیا ہے۔ اس حدیث میں امام احمد کے قول کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ کیونکہ ائمہ میں اختلاف ہے تو اس صورت میں بھی ہے جب مکاتب کو اس کی رضامندی کے بغیر فروخت کیا جائے اور مکاتب رضامند ہو تو امام اعظم بھی جواز بیع کے قائل ہیں امام سے جو ظاہر روایت آئی ہے وہ صورت رضا میں جواز کی ہی ہے اور بریرہ کے قصہ سے ظاہر ہے وہ اپنی بیع پر راضی تھیں۔ اسی لئے امام بخاری نے اس حدیث کا عنوان قائم کیا ہے باب بیع المکاتب اذا رضی۔ مسئلہ پورا زر معاوضہ ادا کرنے کے بعد ہی مکاتب آزاد ہوتا ہے حضرت عمرو بن شعیب کے دادا کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‘ مکاتب غلام ہے جب تک اس کے زر کتابت کا ایک درہم بھی باقی ہے۔ رواہ ابو داؤد والحاکم والنسائی من طرق۔ نسائی اور ابن ماجہ نے دوسری سند سے بوساطت عطاء حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی روایت سے یہ حدیث بیان کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں جو غلام سو اوقیہ معاوضہ کی شرط پر مکاتب بنایا گیا ہو ‘ جب تک ایک اوقیہ بھی ادائیگی سے باقی رہے گا وہ غلام رہے گا۔ نسائی نے اس حدیث کو منکر کہا ہے۔ ابن حزم نے کہا یہ عطا خراسانی ہے جس نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے کوئی حدیث نہیں سنی۔ ترمذی اور ابو داؤد اور ابن ماجہ نے حضرت عمرو بن شعیب کے دادا کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے غلام کو سو اوقیہ پر مکاتب بنایا اور غلام نے 90 ادا کردیئے ‘ صرف دس اوقیہ یا (فرمایا) دس دینار باقی رہ گئے پھر وہ ادائیگی سے عاجز ہوگیا تو وہ غلام (ہی) رہے گا۔ امام مالک (رح) نے مؤطا میں بوساطت نافع حضرت ابن عمر ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ مکاتب پر جب تک ایک درہم بھی باقی رہے گا وہ غلام رہے گا۔ ابن قانع نے دوسرے طریق سے حضرت ابن عمر ؓ : کی روایت سے اس کو مرفوعاً بھی بیان کیا ہے ‘ لیکن ابن قانع نے اس کے مرفوع ہونے کو مجروح کیا ہے۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے ‘ اس مسئلہ میں باہم اختلاف تھا۔ کفایہ میں ہے کہ حضرت زید بن ثابت کا قول ہمارے مسلک کے موافق ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا جتنی رقم مکاتب نے ادا کردی ہو اتنی ہی اس کو آزادی مل جائے گی۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا ‘ اگر مکاتب اپنی (بازادی) قیمت کے بقدر ادا کرچکا ہو تو آزاد ہوجائے گا ‘ اس سے زیادہ اگر آقا کی طرف سے مقرر کردہ کچھ معاوضہ باقی رہ جائے گا تو دوسرے قرضوں خواہوں کی طرح آقا بھی ایک قرض خواہ کی حیثیت میں ہوجائے گا (مکاتب بہرحال آزاد ہوجائے گا مقروض رہے گا) ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ‘ عقد کتابت ہوتے ہی مکاتب آزاد ہوجاتا ہے (اس کی آزادی ادائے معاوضہ پر موقوف نہیں رہتی) ہاں آقا کا قرضدار ہوجاتا ہے۔ جیسا دوسروں کا قرضدار ویسا ہی آقا کا قرضدار۔ ہم نے حضرت زید بن ثابت کے قول کو اختیار کیا کیونکہ اس کی بنا مرفوع حدیث پر ہے۔ ترمذی ‘ ابو داؤد اور ابن ماجہ نے حضرت ام سلمہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی کے مکاتب کے پاس اگر بقدر ادائے معاوضہ رقم ہو تو اس کو پھر اس مکاتب سے پردہ کرنا چاہئے۔ مسئلہ مکاتب اگر ایک قسط مقررہ وقت پر ادا نہ کرسکے تو حاکم اس کے معاملے پر غور کرے اگر مکاتب کا کسی پر قرض ہو جس کے وصول ہونے کی (قریبی) امید ہو یا مال ملنے کا کوئی اور راستہ ہو تو تین روز کی اس کو مہلت دے دے اس سے زیادہ مہلت نہ دے اور اگر مال آنے کی اس کے پاس کوئی سبیل نہ ہو اور آقا فسخ کتابت کرانا چاہتا ہو تو امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک فسخ کتابت کی ڈگری دے دے۔ امام ابو یوسف (رح) نے فرمایا جب تک دو قسطیں غلام پر نہ چڑھ جائیں حاکم غلام کو ادا سے عاجز نہ قرار دے اور فسخ کتابت کی ڈگری آقا کو نہ دے ‘ آقا کو خود یہ اختیار نہیں کہ غلام کو عاجز عن الاواء قرار دے لے۔ حاکم کی ڈگری اور غلام کی رضامندی ضروری ہے۔ مسئلہ اگر مکاتب کو کہیں سے زکوٰۃ کا مال مل گیا اور اس نے بدل کتابت میں آقا کو دے دیا لیکن اس سے پوری رقم ادا نہ ہوسکی اور حاکم نے غلام کے عاجز عن الادا ہونے کا فیصلہ کردیا تو وصول شدہ زکوٰۃ کا مال آقا کے لئے حلال ہے۔ خواہ آقا مالدار ہو یا ہاشمی ہو (جس کے لئے زکوٰۃ کا مال حلال نہیں ہوتا) کیونکہ اس صورت میں ملکیت کی حیثیت مختلف ہوجائے گی ‘ غلام کے لئے تو وہ مال زکوٰ ۃ ہی ہوگا اور آقا کو معاوضۂ کتابت میں ملا ہوگا۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے ‘ ام المؤمنین نے فرمایا رسول اللہ ﷺ : گھر میں تشریف لائے ‘ ہانڈی چڑھی ہوئی تھی اس میں گوشت جوش کے ساتھ پک رہا تھا آپ ﷺ : کی خدمت میں روٹی اور گھر کا معمولی سالن پیش کیا گیا ‘ فرمایا کیا ہانڈی میں گوشت نہیں ہے ؟ حاضرین نے عرض کیا گوشت ضرور ہے لیکن وہ صدقہ کا گوشت ہے جو بریرہ کو دیا گیا تھا اور آپ ﷺ صدقہ کی چیز نہیں کھاتے ہیں فرمایا وہ بریرہ کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے تو ہدیہ ہے (ملک بدل گئی اور حیثیت ملک میں بھی تغیر آگیا) متفق علیہ۔ ہاں اگر (مکاتب) غلام نے وہ مال جو اس کو زکوٰۃ کا ملا ہے کسی مالدار یا ہاشمی کو کھانے کی صرف اجازت دے دی تو چونکہ ملک نہیں بدلی اور غلام ہی کی ملکیت باقی ہے اس لئے غنی اور ہاشمی کے لئے اس کا کھانا جائز نہیں۔ جیسے کسی شخص نے بعقد فاسد کوئی چیز خریدی اور کسی دوسرے شخص کو اجازت دے دی کہ تم اس کو کھا سکتے ہو تو اس کہنے سے وہ چیز اس دوسرے شخص کے لئے حلال نہیں ہوجائے گی۔ البتہ اگر (ہبہ کر دے یا دوسرے شخص کے ہاتھ فروخت کر دے یعنی) اپنی ملکیت سے خارج کر دے تو دوسرے شخص کے لئے وہ چیز جائز ہوجائے گی۔ مسئلہ مقررہ معاوضہ ادا کرنے سے پہلے اگر مکاتب مرجائے تو امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک غلامی کی حالت میں مرے گا عقد کتابت ختم ہوجائے گا۔ خواہ اس نے کچھ مال چھوڑا ہو یا نہ چھوڑا ہو جیسے مبیع مشتری کے قبضہ میں پہنچنے سے پہلے بائع کے قبضہ میں ہی اگر تلف ہوجائے تو عقد بیع فسخ ہوجاتا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے یہی قول حضرت عمر ‘ حضرت عبداللہ بن عمر ‘ حضرت زید بن ثابت ‘ عمر بن عبدالعزیز اور قتادہ کا ہے۔ امام ابوحنیفہ ‘ امام مالک ‘ سفیان ثوری ‘ عطا ‘ طاؤس ‘ حسن بصری اور نخعی کا قول ہے کہ اگر مکاتب کا اتنا ترکہ ہو جو معاوضۂ کتابت ادا کرنے کے قابل ہو تو وہ مال بطور معاوضہ آقا کو دے دیا جائے گا اور غلام کو آزادی کی حالت میں وفات یافتہ قرار دیا جائے گا اور اگر ادائے معاوضہ سے زائد مال باقی ہوگا تو اسکے آزاد وارثوں کو حسب میراث شرعی دے دیا جائے گا۔ ان علمتم فیہم خیرا اگر تم کو ان غلاموں یا باندیوں کے اندر کوئی خیر (بھلائی) محسوس ہو۔ حضرت ابن عمر ‘ امام مالک اور سفیان ثوری کے نزدیک خیر سے مراد ہے کمائی کی قوت ‘ حسن ‘ ضحاک اور مجاہد نے کہا مال مراد ہے۔ وصیت کے سلسلے میں اللہ نے فرمایا ہے (اِنْ تَرَکَ خَیْرًا) اگر اس نے مال چھوڑا ہو۔ روایت میں آیا ہے کہ حضرت سلمان کے کسی غلام نے آپ سے مکاتب بنا دینے کی درخواست کی حضرت سلمان نے فرمایا کیا تیرے پاس مال ہے ؟ غلام نے کہا نہیں ‘ حضرت سلمان نے اس کو مکاتب نہیں بنایا اور فرمایا تو مجھے لوگوں کا میل کچیل (صدقہ ‘ خیرات کا مال) کھلائے گا۔ مجاہد وغیرہ کی تشریح غلط ہے ‘ غلام کے پاس اپنا مال ہونے کا کوئی معنی ہی نہیں۔ غلام جب تک غلام ہے وہ اور اس کے پاس جو کچھ ہے سب آقا کا ہے اور ادائیگی معاوضہ مالک مال ہونے کے بعد واجب ہوتی ہے۔ زجاج نے کہا اگر خیر سے مال مراد ہوتا تو فیہم نہ ہوتا لہم ہوتا (فی ظرفیت کے لئے اور لام تملیک کے لئے آتا ہے۔ آدمی مال کا ظرف نہیں ہوتا مالک ہوتا ہے۔ مترجم) ۔ ابراہیم بن زید اور عبید نے خیراً کا ترجمہ کیا صدق اور امانت اور حسب نقل بیہقی حضرت ابن عباس نے ترجمہ کیا سچائی اور وفائے عہد۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا خیر کا سب سے اچھا معنی ہے کمائی اور امانت۔ صاحب ہدایہ نے لکھا ہے خیر سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ضرر نہیں پہنچائے گا اور اگر غلام کافر ہو ‘ مسلمانوں کو اس سے ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو وہ کافروں کا مددگار ہو رہا ہو تو ایسے غلام کو مکاتب بنانا مکروہ ہے لیکن اگر کردیا تو کتابت ناجائز نہیں ہے۔ ایک روایت میں عبیدہ کا قول آیا ہے کہ اس آیت میں خیر سے مراد ہے اقامت صلوٰۃ۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ خیر سے مراد ہے عاقل ‘ بالغ ہونا۔ بچہ اور دیوانہ اہل کتابت نہیں۔ میں کہتا ہوں ‘ اللہ نے پہلے فرمایا (وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتَابَ ) اس کے بعد مکاتب بنانے کا حکم دیا۔ طلب مکاتبت بغیر عقل کے معتبر نہیں۔ معلوم ہوا کہ مکاتب اسی غلام کو بنانے کا حکم ہے جو طلب کتابت کا اہل ہو یعنی دیوانہ نہ ہو۔ اب اگر خیر سے مراد بھی عقل ہو تو یہ شرط بےفائدہ ہوگی۔ رہا مکاتب کا بالغ ہونا تو یہ شرط ناقابل تسلیم ہے اگر ہوشیار سمجھ دار لڑکا ہو تو وہ (خریدو فروخت کی طرح) عقد کتابت کا اہل ہے۔ مکاتب بنائے جانے کی درخواست کرسکتا ہے۔ مسئلہ جو غلام نکما ہو کمائی نہ کرتا ہو اس کو بھی مکاتب بنانا ‘ امام اعظم ‘ امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک بلا کراہت درست ہے۔ امام احمد کا دوسرا قول ایک روایت میں آیا ہے کہ چونکہ آیت مذکورہ میں خیر سے مراد ہے کمائی کی قدرت ہے اس لئے جو غلام کمائی کے قابل نہ ہو اس کو مکاتب بنانا مکروہ ہے۔ میرے نزدیک یہ استدلال غلط ہے ‘ اگر فرض کرلیا جائے کہ خیر سے مراد کمائی کی قدرت ہے پھر بھی شرط کے مفقود ہونے کی صورت میں کتابت کیسے مکروہ ہوجائے گی (زائد سے زائد یہ مکاتب بنانا واجب یا مستحب نہیں رہے گا) کیونکہ بغیر کمائی کے غلام کو زکوٰۃ ‘ صدقات کا مال بھی مل سکتا ہے۔ مسئلہ جو باندی ہنرمند اور کمائی کے قابل نہ ہو اس کو مکاتب بنانا باتفاق ائمہ مکروہ ہے کیونکہ بےہنری کے باعث باندی کے لئے زر کتابت حاصل کرنا بغیر زنا کے عام طور پر ممکن نہیں ‘ پس بہت ممکن ہے کہ وہ آزاد ہونے کے لئے زنا کی مرتکب ہوجائے۔ واتو ہم من مال اللہ الذی اتکم اور اللہ کے اس مال میں سے جو اللہ نے تم کو عطا فرمایا کچھ مال ان کو (بطور امداد) دیا کرو۔ یہ خطاب عام لوگوں کو ہے سب کو غلاموں کی آزادی میں مدد کرنے کی ترغیب دی ہے خواہ زکوٰۃ کے مال سے ہو یا عام خیرات اور غیر واجب صدقات سے۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک فرض زکوٰۃ کا وہ حصہ مراد ہے جو آیت فِی الرِّقَابِمیں اللہ نے ان کے لئے مقرر کردیا ہے۔ حسن بصری اور زید بن اسلم کا یہی قول ہے لیکن اس آیت میں لفظ عام ہے زکوٰۃ کے ساتھ حکم کو مخصوص قرار دینا تقاضاء امر کے خلاف ہے۔ کیونکہ غلاموں کی آزادی کے لئے زکوٰۃ کا ایک حصہ دینا تو فرض ہے اور اس جگہ امر استحباب کے لئے ہے وجوب کے لئے نہیں ہے ‘ بلکہ مکاتب بنانے کا حکم ہی وجوبی نہیں استحبابی ہے۔ بعض اہل علم نے کہا خطاب آقاؤں کو ہے آقاؤں کے لئے مستحب اور بقول بعض واجب ہے کہ بدل کتابت کا کچھ حصہ مکاتب کو خود چھوڑ دیں۔ حضرت عثمان : ؓ ‘ حضرت علی : ؓ ‘ حضرت زبیر ؓ اور تابعین و صحابہ کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ امام شافعی (رح) نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ کتنا حصہ چھوڑے ‘ یہ بحث اختلافی ہے ‘ حضرت علی ؓ نے فرمایا جو معاوضہ مقرر ہو اس کا ایک چوتھائی معاف کر دے۔ عبدالرزاق ‘ سعید بن منصور ‘ عبد بن حمید ‘ ابن جریر ‘ ابن منذر ‘ ابن مردویہ اور بیہقی نے ابن عبدالرحمن سلمیٰ کی روایت سے اسی طرح بیان کیا ہے۔ بعض نے حضرت علی ؓ : کی روایت سے اس کو مرفوع (فرمان رسول ﷺ بھی قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ : کا قول مروی ہے کہ ایک تہائی چھوڑ دے۔ بعض نے کہا کوئی مقدار مقرر نہیں۔ جتنا چاہے معاف کر دے۔ امام شافعی (رح) : کا یہی قول ہے۔ نافع کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اپنے ایک غلام کو 35 ہزار درہم معاوضہ مقرر کر کے مکاتب بنایا اور (جب 30 ہزار ادا ہوچکے تو) آخر میں 5 ہزار معاف کردیئے۔ سعید بن جبیر نے کہا کہ حضرت ابن عمر ؓ جب کسی غلام کو مکاتب بناتے تو آخر میں جو کچھ معاف کرنا ہوتا معاف کردیتے تھے شروع میں (پہلی دوسری یا اس سے کم و بیش رقم) معاف نہیں کرتے تھے آپ کو یہ اندیشہ رہتا تھا کہ اگر یہ غلام بدل کتابت ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے پھر غلامی میں حسب سابق آگیا تو معاوضۂ کتابت کا جو حصہ وہ معاف کرچکے ہوں گے وہ پھر ان کی ملک میں آجائے گا (کیونکہ غلام تو پورا کا پورا غلامی میں واپس آجائے گا اور غلام کا جو معاوضہ قرار پایا تھا مثلاً پانچ ہزار اور اس میں سے ایک ہزار معاف کردیا گیا تھا گویا 5؍1 حصہ غلام کی ملکیت سے خارج کردیا تھا پھر جب غلام واپس ملکیت کی طرف آگیا تو 5؍1 حصہ جو معاف کردیا تھا وہ بھی واپس آگیا) آخری ادائیگی کے وقت آپ کو حسب منشاء معاف کردینا زیادہ مرغوب ہے۔ میں کہتا ہوں معاف کردینے کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ غلام کو کچھ دیا گیا بلکہ معافی کا مطلب ہے اصل معاوضہ میں سے کچھ حصہ ساقط کردینا ‘ گرا دینا ‘ اسقاط میں تملیک نہیں ہوتی تملیک کچھ دینے میں ہوتی ہے اسی لئے امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا کہ آقا پر واجب نہیں ہے کہ طے شدہ معاوضہ کا کوئی حصہ معاف کر دے کیونکہ بیع کی طرح عقد کتابت بھی عقد معاوضہ ہے اور کسی عقد معاوضہ میں معاوضہ کا کوئی حصہ معاف کردینا واجب نہیں ‘ عقد معاوضہ میں تو معاوضہ کا وجوب ہوتا ہے اسقاط معاوضہ کا وجوب کیسے ہوسکتا ہے۔ عقد کتابت سے غلام پر مقررہ معاوضہ کا ادا کرنا واجب ہوجاتا ہے اب اگر اسی عقد معاوضہ میں آقا پر کچھ معاوضہ کا معاف کرنا بھی واجب قرار دیا جائے گا تو عقد کتابت وجوب معاوضہ کا بھی سبب قرار پائے گا اور اسقاط معاوضہ کے وجوب کا بھی۔ ایسی معافی سے فائدہ ہی کیا ہوا آسان بات تو یہ تھی کہ جب غلام کے عوض ایک ہزار روپیہ لینا ہی تھا تو تیرہ سو پہ عقد کتابت کرتا تین سو بطور وجوب ساقط کردیتا ایک ہزار وصول کرلیتا۔ ولا تکرہوا فتیتکم علی البغآء اور اپنی باندیوں کو زناء پر مجبور نہ کرو 1 ؂۔ مسلم نے حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول اپنی باندی سے زنا کی کمائی کراتا تھا۔ یہ بھی مسلم کی روایت ہے کہ عبداللہ بن ابی کی دو باندیاں تھیں ایک کا نام مسیکہ اور دوسری کا نام امیمہ تھا عبداللہ دونوں سے زنا کی کمائی کرانا چاہتا تھا ‘ دونوں باندیوں نے خدمت گرامی میں اس کی شکایت کی اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ حاکم نے بطریق ابو الزبیر حضرت جابر ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ مسیکہ کسی نصاریٰ کی باندی تھی اس نے شکایت کی تھی کہ میرا آقا مجھے زنا کی کمائی کرنے پر مجبور کرتا ہے اس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ بزار اور طبرانی نے صحیح سند سے حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن ابی کی ایک جاریہ (باندی) تھی جو دور جاہلیت میں زنا کرتی تھی پھر جب اسلام میں زنا کی حرمت کردی گئی تو اس باندی نے قسم کھالی کہ آئندہ میں زنا نہیں کروں گی۔ اس کے متعلق آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ بزار نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت انس کی طرف بھی اس بیان کی نسبت کی ہے۔ اس روایت میں اس باندی کا نام معاذہ بتایا گیا ہے۔ سعید بن منصور نے حضرت عکرمہ ؓ : کا بیان نقل کیا ہے کہ عبداللہ بن ابی کی دو باندیاں تھیں مسیکہ اور معاذہ۔ عبداللہ دونوں سے زنا کی کمائی کراتا تھا آخر (دور اسلامی میں) ایک نے کہا اگر یہ فعل اچھا تھا تو میں اس کو بہت کرچکی اور اگر اچھا نہ تھا تو اب اس کو ترک کردینا ہی مناسب ہے اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی۔ بغوی نے لکھا ہے یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ ایک باندی عبداللہ کے پاس (زنا کی کمائی میں) ایک چادر لے کر آئی اور دسری ایک دینار لائی۔ عبداللہ نے دونوں سے کہا جاؤ ابھی کچھ اور کمائی کر کے لاؤ باندیوں نے کہا خدا کی قسم اب تو ہم ایسا نہیں کریں گے ‘ اسلام آچکا ہے۔ اللہ نے زنا کو حرام کردیا ہے (جب عبداللہ نے مجبور کیا تو) دونوں نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر اپنا دکھ بیان کیا اور یہ آیت اتری۔ ثعلبی نے حسب بیان مقاتل کہا کہ عبداللہ کے پاس (اس کام کے لئے) چھ باندیاں تھیں۔ اور ان کے بارے میں آیت ولا تُکْرِہُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآء نازل ہوئی۔ ان اردن تحصنا جب وہ پاک دامن رہنا چاہیں۔ بیضاوی نے لکھا ‘ اس جملہ میں ان (شرطیہ) اکراہ کی قید نہیں ہے (یعنی قید احترازی نہیں ہے) کیونکہ مرضی کے خلاف ہونے کی صورت میں ہی جبر اور اکراہ کا تحقق ہوتا ہے (اکراہ نام ہی مرضی کے خلاف کرانے کا ہے) نہ یہ عدم اکراہ کی قید ہے کیونکہ (برقول شافعیہ مفہوم مخالف یہ ہوگا کہ اگر وہ پاک دامن رہنا نہ چاہیں تو اکراہ جائز ہے اور یہ مطلب غلط ہے کیونکہ) نہی کا عدم منہی عنہ کے عدم کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے یعنی پاکدامنی کا ارادہ نہ ہو تو اکراہ بھی نہیں ہوتا بلکہ بخوشی زنا کا تحقق ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں اس جگہ ان (شرطیہ شکیہ) اذا ظرفیہ کے معنی میں ہے شرطیہ نہیں ہے سبب نزول کے یہی مطابق ہے (باندیوں نے پاکدامن رہنے کا ارادہ کیا تھا) واقعہ کو بصورت شک اس لئے ظاہر کیا کہ (اگرچہ اس موقع پر باندیوں نے پاکدامن رہنے کا ارادہ کیا تھا لیکن) باندیوں کی طرف سے پاکدامنی کی خواہش شاذ و نادر ہی ہوتی ہے اس پر آقاؤں کو زجر اور تشنیع بھی ہے کہ وہ باندیاں جو ضعیف العقل ہوتی ہیں اور نفسانی خواہشات کا ان پر غلبہ بھی ہوتا ہے۔ جب انہوں نے پاک دامن رہنے کا ارادہ کرلیا تو تم کیسے غیرت مند مرد ہو کہ ان کو زنا پر مجبور کرتے ہو ایسا نہ کرو تم مرد ہو غیرتمند ہو تم کو یہ دیوثی نہ کرنی چاہئے۔ حسین اور فضیل نے کہا کلام میں کچھ تقدیم و تاخیر ہے مطلب یہ ہے کہ اگر بیوائیں پاکدامن رہنا چاہیں تو ان کا نکاح کرا دو اور اپنی باندیوں کو زنا پر مجبور نہ کرو۔ لتبتغوا عرض الحیوۃ الدنیا کچھ دنیوی سامان کی طلب میں (باندیوں کو زنا پر مجبور نہ کرو) یعنی تم ان کی کمائی چاہتے ہو اور ان کی اولاد کو فروخت کر کے مال حاصل کرنے کے خواہشمند ہو (اس لئے تم ان کو زنا کرنے پر مجبور کرتے ہو ایسا نہ کرو) ۔ ومن یکرہہن فان اللہ من بعد اکراہہن غفور رحیم۔ اور جو ان کو (زنا پر) مجبور کرے گا تو گناہ مجبور کرنے والے پر ہوگا اللہ ان کو معاف کردینے والا بڑا مہربان ہے (جبریہ زنا کے بعد اللہ ان کو معاف فرمادے گا) حسن جب یہ آیت پڑھتے تو (آخر میں) کہتے تھے لَہُنُّ وَاللّٰہ لَہُنَّیعنی بخدا اللہ ان باندیوں کو معاف کر دے گا۔ اس مطلب پر مَنْ یُّکْرِہہْنَُّبتدا ہوگا اور خبر محذوف ہوگی بعد والے جملہ میں چونکہ رابط کوئی ضمیر نہیں ہے اس لئے بعد والا جملہ خبر نہیں ہوسکتا ‘ مطلب اس طرح ہوگا کہ جو جبر کرے گا اس پر باندیوں کے زنا کرنے کا عذاب ہوگا باندیوں کو تو اس جبر کے بعد اللہ معاف کر دے گا۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جبر کرنے والوں کو اللہ معاف کر دے گا ‘ بشرطیکہ وہ آئندہ کیلئے توبہ کرلیں لیکن یہ مطلب رفتار کلام اور غرض کلام کے خلاف ہوگا۔ کیونکہ کلام کا نشانہ تو جبر کرنے والوں کو عذاب کی وعید سنانا ہے امیدوار مغفرت بنانا مقصود نہیں ہے پھر عبداللہ بن ابی کے حق میں آیت کا نزول ہوا ہے اور وہ منافق تھا اور منافقوں کے متعلق صراحت کردی گئی ہے اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ لَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ ۔ (آپ ان کے لئے معافی کے طلبگار ہوں یا نہ ہوں دونوں باتیں برابر ہیں اللہ ہرگز ان کو معاف نہیں کرے گا) ایسے موقع پر تلقین توبہ کرنا اور امیدوار رحمت بنانا مناسب نہیں۔ ایک شبہجس باندی کو زنا پر مجبور کیا گیا تو جب وہ گنہگار ہی نہیں ہے پھر مغفرت کی کیا ضرورت۔ جواباکراہ کے بعد ذمہ داری اور عقل کا فقدان نہیں ہوجاتا ‘ اس لئے اہلیت فعل ساقط نہیں ہوتی اور مکرہ (جس پر جبر کیا گیا ہو) مخاطب ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس شخص کو کسی کے قتل کرنے پر یا جس مرد کو زنا کرنے پر مجبور کیا گیا ہو اس کے لئے قتل کردینا یا زنا کرنا حرام ہے امام زفر کے نزدیک تو ایسا قتل موجب قصاص ہے ‘ امام ابوحنیفہ موجب قصاص نہیں مانتے (یہ اختلاف اپنی جگہ پر ہے) ہاں اللہ نے بعض صورتوں میں مجبور کردہ شخص سے گناہ اٹھا لیا ہے اور بعض مواقع پر امر حرام کی اجازت بھی دے دی ہے جیسے کسی جابر کے جبر کرنے سے کلمۂ کفر زبان سے کہہ دینا۔ بشرطیکہ دل میں ایمان قائم ہو یا نماز ‘ روزہ توڑ دینا ‘ احرام حج کھول دینا یا کسی کا مال تباہ کردینا وغیرہ۔ یہ سب صورتیں اس وقت رخصت کے تحت آئیں گی جب اکراہ کامل ہو۔ (ان صورتوں میں گناہ گار نہ قرار دینا تو رحمت و مغفرت کی نشانی ہے دیکھو اللہ نے فرمایا ہے (فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) جو شخص مضطر (مجبور) بشرطیکہ دل سے طلبگار نہ ہو اور حد سے تجاوز بھی نہ کرے تو اس پر گناہ عائد نہ ہوگا ‘ اللہ معاف کرنے والا ہے باوجود نفی گناہ کے اللہ نے مضطر کے فعل کو معاف کردینے کی صراحت فرمائی ہے معلوم ہوا کہ گناہ گار نہ قرار دینا تو رحمت و مغفرت کی نشانی اور نتیجہ ہے یہ بھی جواب دیاجا سکتا ہے کہ گناہ اس وقت قرار نہ دیا جائے گا جب جبر کرنے والا اضطرار کی حد تک مجبور کر کے وہ گناہ کرائے یعنی مجبور کو یہ اندیشہ ہوجائے اگر میں جابر کے قول پر عمل نہیں کروں گا تو مارا جاؤں گا یا میرا کوئی عضو کاٹ دیا جائے گا۔ اگر اس حد تک اندیشہ نہ ہو تو گناہ قائم رہتا ہے اور چونکہ عبداللہ نے باندیوں کو اس حد تک مجبور نہیں کیا تھا کہ اگر وہ زنا نہ کریں گی تو ان کو قتل کردیا جائے گا یا جسم کا کوئی عضو کاٹ دیا جائے گا یا توڑ پھوڑ دیا جائے گا اس لئے گناہ قائم رہا وہ عورتیں زنا کرنے کے بعد بےگناہ نہیں ہوئیں۔
Top