Tafseer-e-Mazhari - Yaseen : 25
اِنِّیْۤ اٰمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُوْنِؕ
اِنِّىْٓ : یشک میں اٰمَنْتُ : میں ایمان لایا بِرَبِّكُمْ : تمہارے پروردگار فَاسْمَعُوْنِ : پس تم میری سنو
میں تمہارے پروردگار پر ایمان لایا ہوں سو میری بات سن رکھو
انی امنت بربکم فاسمعون بلاشبہ میں تمہارے رب پر (یعنی جو حقیقی رب ہے ‘ اس پر) ایمان لا چکا ‘ سو تم میری یہ بات سن لو۔ بِرَبِّکُمْ یعنی جس رب نے تم کو پیدا کیا ہے۔ خطاب قوم کو ہے یا بادشاہ کو۔ فَاسْمَعُوْنَ یعنی میرے ایمان کی اطلاع سن لو۔ اس تفسیر پر یہ قول جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے ‘ نصیحت کا تتمہ قرار دپائے گا ‘ کیونکہ قوم والوں سے جب اس نے کہا تھا : اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِیْنَ تو گویا قوم نے اس سے دریافت کیا کہ تو ان پر ایمان لے آیا ؟ اس کے جواب میں اس نے کہا : اِنَّیْٓ اٰمَنْتُ بِرَبِّکُمْ فَاسْمِعُوْنَ میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا ‘ میرے ایمان کے اقرار کو تم بھی سن لو ‘ اگر یہ بہتر نہ ہوتا تو میں خود اس کو اختیار کیوں کرتا۔ بجائے بربی کہنے کے بربکم کہنے میں ایمان کی ایک بلیغ دعوت ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : جب اس شخص نے یہ بات کہی تو قوم والوں نے اس پر یکدم حملہ کر کے قتل کردیا۔ حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ قدموں سے ایسا روند دیا کہ اس کی آنتیں نیچے سے نکل گئیں۔ سدی نے کہا : لوگ اس کو پتھروں سے مار رہے تھے اور وہ کہہ رہا تھا : اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت کر۔ آخر اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور مار ڈالا۔ حسن نے کہا : اس کے گلے کو پھاڑ کر شہر کی فصیل سے لٹکا دیا۔ اس کی قبر انطاکیہ میں موجود ہے۔ ا اللہ نے اس کو جنت میں داخل فرما دیا۔ وہ زندہ ہے ‘ اللہ کی طرف سے اس کو روزی ملتی ہے ‘ یعنی وہ شہید ہوگیا اور شہیدوں کی زندگی اس کو عطا کردی۔ 1 ؂ بعض علماء نے کہا : بِرَبِّکُمْ میں خطاب رسولوں کو ہے ‘ کیونکہ جب اس کو یقین ہوگیا کہ مجھے قتل کردیا جائے گا تو اس نے اپنے مؤمن ہونے کا گواہ پیغمبروں کو بنا لیا (گویا) پورا کلام اس طرح تھا : پھر اس نے رسولوں سے کہا : میں تمہارے رب پر ایمان لایا۔
Top