Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 40
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ١ۚ وَ اِنْ تَكُ حَسَنَةً یُّضٰعِفْهَا وَ یُؤْتِ مِنْ لَّدُنْهُ اَجْرًا عَظِیْمًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَظْلِمُ : ظلم نہیں کرتا مِثْقَالَ : برابر ذَرَّةٍ : ذرہ وَاِنْ : اور اگر تَكُ : ہو حَسَنَةً : کوئی نیکی يُّضٰعِفْھَا : اس کو کئی گنا کرتا ہے وَيُؤْتِ : اور دیتا ہے مِنْ لَّدُنْهُ : اپنے پاس سے اَجْرًا : ثواب عَظِيْمًا : بڑا
خدا کسی کی ذرا بھی حق تلفی نہیں کرتا اور اگر نیکی (کی) ہوگی تو اس کو دوچند کردے گا اور اپنے ہاں سے اجرعظیم بخشے گا
ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ یہ امر یقینی ہے کہ اللہ ذرہ برابر ظلم نہیں کرے گا۔ مثقال ثقل سے ماخوذ ہے۔ ذرہ سرخ چھوٹی چیونٹی۔ یا روشن دان میں دھوپ کے رخ پر جو ذرے سے اڑتے دکھائی دیتے ہیں اور جن کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ مراد یہ ہے کہ اللہ بالکل ظلم (حق تلفی) نہیں کرے گا۔ یعنی اللہ نے کافروں کے لئے جو عذاب مہین تیار کر رکھا ہے وہ ظلم نہیں ہے۔ سراسر انصاف ہے بلکہ اگر ان کو عذاب نہ دے گا تو یہ ظلم ہوگا کیونکہ انہوں نے اللہ کی توحید اور عبادت سے منہ موڑا ‘ والدین اوراقارب و اجانب کے حقوق کی ادائیگی کو چھوڑا تو اگر ان کو عذاب نہ ہو تو گویا یہ ظلم (اور نازیبا معاملہ) ہوگا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کفار چونکہ عذاب کے مستحق ہیں اور ان کو عذاب نہ دیا جائے تو گویا ان کی حق تلفی ہوجائے گی ظلم کا معنی ہے غیر جگہ میں کسی چیز کو رکھ دینا اور بےجا ناجائز کام کرنا مگر اللہ کے لئے کوئی کام ناجائز اور بےجا نہیں ہے وہ خالق کل ہے مالک الملک ہے اگر بغیر جرم کے سارے جہان کو عذاب دے تب بھی ظلم نہ ہوگا پس اس کی شان میں کسی فعل پر ظلم کا اطلاق ہی نہیں ہوسکتا اس لئے آیت کی مراد یہ نہیں ہے کہ اس کا کوئی عمل بھی ظلم ہوسکتا ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ اللہ کوئی ایسا کام بھی نہیں کرے گا کہ دوسرے اگر وہی کام کریں تو اس کو ظلم کہا جائے خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کسی کی طاعت کے ثواب میں کمی نہیں کرے گا اور نہ کسی کے گناہ میں بیشی کرے گا۔ بغوی نے حضرت انس ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مؤمن کی کسی نیکی (کے اجر) کو کم نہیں کیا جائے گا دنیا میں اس کے عوض رزق (زیادہ) ملے گا اور آخرت میں بھی اس کی اچھی جزا ملے گی اور کافر کی نیکی کا بدلہ اس کو بصورت رزق دنیا میں ہی ملے گا آخرت میں پہنچے گا تو اس کی کوئی نیکی باقی ہی نہ رہے گی کہ ثواب پا سکے۔ رواہ احمد و مسلم۔ حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مؤمن دوزخ سے نجات پا کر مامون ہوجائیں گے تو اپنے ان بھائیوں کے متعلق جو دوزخ میں داخل کردیئے گئے ہوں اپنے رب سے اتنا سخت جھگڑیں گے کہ اتنا سخت جھگڑا تم میں سے کوئی اپنے حق کے متعلق بھی کسی سے نہیں کرتا۔ عرض کریں گے پروردگار وہ ہمارے بھائی ہیں ہمارے ساتھ نمازیں پڑھتے تھے روزے رکھتے تھے حج کرتے تھے اللہ فرمائے گا جاؤ اور جس کو پہچانتے ہو دوزخ میں سے نکال لو مؤمن جا کر چہروں سے پہچان لیں گے کیونکہ چہروں کو آگ نے نہ کھایا ہوگا۔ کسی کے نصف پنڈلیوں تک آگ نے جلایا ہوگا اور کسی کے ٹخنوں تک۔ یہ ان کو نکال لیں گے اور عرض کریں گے کہ پروردگار تو نے جن کو نکالنے کا حکم دیا تھا ‘ ہم نے ان کو نکال لیا ‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا (پھر جاؤ) اور جس کے دل میں دینار کے برابر ایمان ہو اس کو بھی نکال لو (مؤمن حکم کی تعمیل کریں گے) پھر (حکم ہوگا) جس کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان ہو (اس کو بھی نکال لو مؤمن حکم کی تعمیل کریں گے آخر) یہاں تک (حکم ہوگا کہ) جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو (اس کو بھی نکال لو۔ راوی نے کہا اگر کوئی اس بات کو سچ نہ مانتا ہو تو اس آیت کو پڑھے اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَّاِنْ تَکُ حَسَنَۃِ یُّضَاعِفْہَا وَیُؤْتِ مِّنْ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِیْمًامؤمن عرض کریں گے پروردگار تو نے جن کو نکال لینے کا حکم دیا تھا ان کو ہم نے نکال لیا اب دوزخ میں کوئی بھی ایسا نہیں رہا جس کے (دل کے) اندر کوئی بھی خیر ہو۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ملائکہ سفارش کرچکے انبیاء سفارش کرچکے ‘ مؤمن سفارش کرچکے اور ارحم الراحمین باقی رہا۔ حضور ﷺ نے فرمایا پھر اللہ دوزخ کے اندر سے ایک مٹھی بھر یا دو مٹھی بھر ایسے لوگوں کو نکالے گا جنہوں نے اللہ کے لئے کبھی کوئی نیکی نہ کی ہوگی اور جل کر کوئلہ ہوگئے ہوں ان کو لا کر آب حیات ان پر ڈالا جائے گا جس کی وجہ سے وہ ایسے اگیں گے جیسے سیلاب کے کیچڑ میں دانہ اگتا ہے اور موتی کی طرح ان کے بدن جھلکنے لگیں گے ان کی گردنوں پر مہر لگی ہوگی کہ یہ اللہ کے آزاد کردہ ہیں (یعنی ان کی کوئی نیکی ہی نہیں تھی) حکم ہوگا جنت میں داخل ہوجاؤ تمہاری جو تمنا ہو اور جس چیز پر تمہاری نظر پڑے وہ تمہاری ہے وہ عرض کریں گے پروردگار تو نے ہم کو ایسا کچھ عطا فرمایا جو کسی کو جہاں میں نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ‘ میرے پاس تمہارے لئے اس سے بھی بڑھ کر (نعمت) ہے وہ عرض کریں گے پروردگار وہ کیا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری خوشنودی آئندہ کبھی میں تم سے غصے نہ ہوں گا۔ رواہ البغوی بسندہ بخاری و مسلم نے بھی اسی طرح کی حدیث نقل کی ہے لیکن اس میں حضرت ابو سعید ؓ : کا یہ قول نہیں ہے کہ اگر کوئی اس بات کو سچ نہ مانتا ہو تو اس آیت کو پڑھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ لوگوں کے سامنے علی الاعلان لائے گا اس کے اعمال ناموں کے ننانوے دفتر کھولے جائیں گے ہر دفتر اتنا لمبا ہوگا جتنی دور نظر پہنچتی ہے اور اللہ فرمائے گا کیا تجھے اس میں سے کسی چیز کا انکار ہے کیا میرے نگراں کاتبوں نے تیری کوئی حق تلفی کی ہے بندہ عرض کرے گا نہیں میرے مالک (کوئی حق تلفی نہیں کی نہ مجھے اس کا انکار ہے) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا (گناہ کرنے کا) تیرے پاس کوئی عذر یا تیری کوئی نیکی اور ہے (جو لکھنے سے رہ گئی ہو) بندہ لاجواب اور متحیر ہو کر عرض کرے گا نہیں پروردگار۔ اللہ فرمائے گا کیوں نہیں۔ ہمارے پاس تیری ایک نیکی ہے تجھ پر آج ظلم نہ ہوگا اس کے بعد ایک چھوٹا سا پرچہ نکالا جائے گا جس میں : اشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وان محمد عبدہ ورسولہلکھا ہوگا اللہ فرمائے گا وزن کے وقت تو موجود رہنا ‘ بندہ عرض کرے گا میرے مالک ! یہ چھوٹا سا پرچہ ان لمبے دفتروں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیری حق تلفی نہیں ہوگی۔ اس کے بعد تمام دفتروں کو ایک پلڑے میں اور پرچہ کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا تو دفتروں والاپلڑا اوپر کو اٹھ جائے گا اور پرچہ والا پلڑا بھاری نکلے گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ کے نام کے مقابلہ میں کوئی چیز وزنی نہیں ہوگی۔ رواہ ابن ماجہ وابن حبان والحاکم۔ حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی کا کسی پر حق رہنے نہ دے گا بلکہ ضرور وصول کرے گا اور کسی کا ذرہ برابر حق ایسا باقی نہیں چھوڑے گا کہ اس کا اجر نہ دے اور چند گنا نہ دے جیسے آگے فرمایا ہے۔ وان تک حسنۃ یعضعفہا . اگر ذرہ برابر تول نیکی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کو کئی گنا کر دے گا یعنی کتنے ہی گنا بڑھا دے گا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے قسم کھا کر بیان کیا کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ کوئی شک نہیں کہ اللہ ایک نیکی کو بڑھا کر ہزاروں ہزار نیکیاں کر دے گا۔ رواہ ابن جریر وابن ابی شیبہ۔ ویوت من لدنہ اجرا عظیما . اور اپنے پاس سے یعنی اپنی مہربانی سے اس ایک نیکی والے کو مقررہ موعودہ ثواب سے الگ اجر عظیم عنایت فرمائے گا۔ بغوی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اجراً عظیما فرمایا تو اب اس کی مقدار کا اندازہ کون کرسکتا ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا قیامت کا دن ہوگا تو اللہ اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا اور ایک منادی ندا دے گا۔ خبردار ہوجاؤ جس کسی کا کوئی حق ہو وہ اپنا حق لینے آجائے یہ سن کر آدمی خوش ہوگا کہ باپ یا اولاد یا بھائی پر اس کا جو حق ہوگا وہ اس کو ملے گا خواہ حق کتنا ہی تھوڑا ہوا رشتہ داروں سے حق وصول کرنے کا ثبوت اس آیت میں موجود ہے فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّورِ فَلاَاَنْسَابَ بَیْنَہُمْ الخ۔ اور (ہر) شخص کو طلب کیا جائے گا اور ایک منادی تمام اگلوں پچھلوں کے سامنے ندا دے گا یہ فلاں شخص ہے جس کا اس پر حق ہو وہ اپنا حق لینے آجائے پھر اس شخص سے کہا جائے گا ان کے حقوق ادا کر وہ شخص کہے گا میرے رب دنیا جاتی رہی اب کہاں سے دوں اللہ فرشتوں سے فرمائے گا اس کے اعمال دیکھو ان میں سے ان لوگوں کے حقوق دے دو ۔ اب اگر ذرہ برابر نیکی رہ جائے گی تو فرشتے عرض کریں گے اے ہمارے مالک اس کی ذرہ برابر نیکی باقی رہی ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے بندہ کے لئے اس کو چند گنا کرو اور اس کو میری رحمت کے طفیل جنت میں داخل کر دو “۔ اس کا ثبوت اس آیت میں موجود ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَاِنْ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْہَا اور اگر بندہ بدبخت ہوگا اور فرشتے کہیں گے کہ اے ہمارے معبود اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں اور حقدار ابھی باقی ہیں تو اللہ فرمائے گا ان کی کچھ بدیاں لے کر اس کے گناہوں میں بڑھا دو پھر اس کے لئے دوزخ کا پروانہ کاٹ دو (یا اس کو خوب مارتے ہوئے دوزخ کو لے جاؤ) رواہ البغوی وابن المبارک و ابونعیم وابن ابی حاتم۔
Top