Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 198
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ١۪ وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْ١ۚ وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ
لَيْسَ : نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : اگر تم تَبْتَغُوْا : تلاش کرو فَضْلًا : فضل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب فَاِذَآ : پھر جب اَفَضْتُمْ : تم لوٹو مِّنْ : سے عَرَفٰتٍ : عرفات فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ عِنْدَ : نزدیک الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ : مشعر حرام وَاذْكُرُوْهُ : اور اسے یاد کرو كَمَا : جیسے ھَدٰىكُمْ : اسنے تمہیں ہدایت دی وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم تھے مِّنْ قَبْلِهٖ : اس سے پہلے لَمِنَ : ضرور۔ سے الضَّآلِّيْنَ : ناواقف
تم پر کوئی گناہ نہیں ہے اس بات میں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو ، جب تم عرفات سے واپس پیٹو۔ پس یاد کرو اللہ تعالیٰ کو شعر حرام کے پاس اور اللہ کو یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی ہے اور اس سے پہلے تم گمراہوں میں تھے
ربط آیات آیت کے پہلے حصے میں سفر حج کے دوران تجارت کی اجازت دی گئی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ ایسا کرتے تھے۔ مگر مسلمانوں کو تردد پیدا ہوا کہ کہیں یہ چیز حج جیسے مقدس فریضہ کے منافی نہ ہوا اور حج کے ثواب میں کمی کا باعث نہ بن جائے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت فرما دی کہ سفر حج کے دوران اگر تجارت کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ نیت خالص حج کی ہو اور ضمناً لین دین بھی ہوجائے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرنا ہے اور جائز ہے۔ وقوف عرفہ آیت کے اس حصہ میں وقوف عرفہ اور وہاں سے واپسی کے متعلق احکام بیان کئے گئے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے ۔ فاذا افضتم من عرفت پس جب تم عرفات سے …د واپس پلٹو فاذکرو اللہ عند لمشعر الحرام پس یاد کرو اللہ تعالیٰ کو مشعر الحرام کے پاس میدان عرفات میں وقوف کرنا حج کا سب سے بڑا رکن ہے۔حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے الحج عرفۃ حج دراصل نام ہی وقوف عرفہ کا ہے۔ لہٰذا جو شخص لو ذی الحج کو بعد انہ زوال سے لے کر دس تاریخ کی صبح صادق طلوع ہونے تک آیات لمحہ کے لئے بھی میدان عرفات پہنچ گیا اس نے حج کو پا لیا اور جو شخص ان اوقات میں وہاں نہیں پہنچ سکا۔ وہ حج سے محروم رہا۔ اسے اگلے سال قضا کرنا ہوگا۔ کیونکہ وقوف عرفہ کا کوئی بدل نہیں۔ حج کے دیگر ارکان مثلاً طواف ، قربانی ، رمی جمرات وغیرہ میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے اور کوئی چھوٹ بھی سکتا ہے۔ پھر اس کی تلافی دم ، صدقہ یا روزے کے ذریعے ہو سکتی ہے۔ مگر وقوف عرفہ ایک ایسا اہم رکن ہے جس کی کوئی تلافی نہیں۔ میدان عرفات مکہ مکرمہ سے نو دس میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ میدان تین اطراف سے پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس کے اندر جبل رحمت نامی پہاڑ ہے جس کے دامن میں حضور ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر وقوف فرمایا تھا۔ تاہم آپ نے واضح فرما دیا کہ وفقت ھھنا وکل عرفۃ موقف یعنی میں نے یہاں قیام کیا ہے ۔ مگر سارا عرفات مئوقف ہے۔ جہاں کسی کو جگہ ملے وقوف کرسکتا ہے۔ سوائے بطن عرنہ کے جو مسجد نمرہ کی پچھلی طرف ہے ، وہاں وقوف جائز نہیں۔ چناچہ آج کل پورا میدان عرفات حاجیوں سے بھر جاتا ہے۔ وقوف عرفہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ سے حج کا رکن چلا آ رہا ہے۔ اسی طرح واپسی پر مزدلفہ کا وقوف اور پھر منیٰ میں ٹھہرنا سب حج کے لوازمات ہیں۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ فقوا علی مشاعرکم اپنے مشاعر پر ٹھہرو۔ اور پھر بتائے گئے طریقے کے مطابق اللہ کا ذکر کرو فانہ ارث من ارث ابیکم ابرھیم کیونکہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وراثت میں سے ایک ورثہ ہے۔ وقوف عرفات کے لئے آدمی کا احرام میں ہونا لازمی ہے۔ اگر بغیر احرام کی تعریف میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے کن کہتے ہیں اور بعض شرط کہتے ہیں۔ بہرحال جس طرح وضو نماز کے لئے شرط ہے اور اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اسی طرح نماز کے لئے تکبیر تحریہ بھی بمنزلہ شرط کے ہے۔ اس کے بغیر نماز درست نہیں۔ اسی طرح حج کے لئے احرام شرط ہے۔ اور اس کے بغیر حج ادا نہیں ہوتا۔ عرفات کے معانی عرفات جمع ہے عرفہ کی اور عرفہ کا معنی پہچان ہے۔ اس ضمن میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں۔ اکثر تفسیروں میں اسے حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ جب ان دونوں میاں بیوی کو زمین پر اتارا گیا تو حضرت حوا کو جدہ میں نازل کیا گیا جدہ کے معنی ہی دادی یا نانی کے ہیں حضرت حوا تمام بنی انسان کی دادی یا نانی ہیں اور حضرت آدم (علیہ السلام) کو جزائر شرق الہند کے ایک جزیرہ مالدیپ یا سرنمدیپ میں اتارا گیا یہ جزیرہ سری لنکا کے قریب ہے۔ زمین پر اترنے کے بعد دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی تلاش میں مکہ مکرمہ پہنچے اور پھر ان کی ملاقات اسی میدان عرفات میں ہوئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا اس لحاظ سے اسے عرفات کا نام دیا گیا۔ اس دوران دونوں پر کیسا وقت گذرا اور کتنا عرصہ ہوا یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ عرفات کا معنی پہچان اور عرف کا معنی نیکی ہوتا ہے اور عرف گھوڑی کی گردن کے بالوں کو بھی کہتے ہیں۔ عرف اگر عین کی فتح کے ساتھ ہو تو اس کا معنی خوشبو بھی ہوتا ہے اور عرف پہچان کو بھی کہتے ہیں۔ اسی سے معرفت ہے۔ تاہم اس مقام پر پہچان والا معنی ہی زیادہ موزوں ہے۔ جب کوئی مسلمان ان جگہوں پر پہنچتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں فریضہ حج ادا کرتا ہے۔ … حضور ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ کو یاد کرتا ہے۔ تو وہ خدا کو پہچان لیتا ہے۔ یہ تمام چیز اللہ تعالیٰ کی پہچان کے لئے ہی کی جا رہی ہیں۔ کہیں وقوف ہو رہا ہے کہیں قربانی دی جا رہی ہے ، کہیں ذکر ہو رہا ہے اور کہیں مدزیں پڑھی جا رہی ہیں۔ کبھی دست بدعا بندہ اپنے رب کے حضور کھڑا ہے اور گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا ہے۔ دعائیں کر رہا ہے۔ یہ سب معرفت الٰہی کے لئے ہی کیا جاتا ہے۔ اس لئے اس مقام کو عرفہ کہا جاتا ہے۔ عرفات کی مصروفیات میدان عرفان ایک سنسان میدان ہے۔ جو سارا سال غیر آبا د رہتا ہے۔ تاہم ذی الحج کی نویں تاریخ کو سارے سال کی کسر نکل جاتی ہے ۔ جب پورا میدان حاجیوں سے بھر جاتا ہے۔ ہر طرف مخلوق خدا نظر آتی ہے۔ عجیب منظر ہوتا ہے۔ حضور ﷺ لیہ السلام کا فرمان ہے کہ شیطان جس قدر عرفہ کے دن ذلیل ہوتا ہے۔ اور کسی دن نہیں ہوتا۔ یہ اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی باران رحمت کو اترتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔ یوم عرفہ کی بعض خصوصیات ہیں کہ ذی الحج کی نویں تاریخ ہو اور انسان احرام کی حالت میں ہو۔ امام حج کے پیچھے ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی ظہر کے وقت میں ادا کی جاتی ہیں ردال کے فوراً بعد امام حج کا خطبہ دیتا ہے۔ اس کے بعد اذان ہوتی ہے۔ پھر اقامت ہوتی ہے۔ اور ظہر کے دو فرض ادا کئے جاتے ہیں۔ پھر اقامت ہوتی ہے اور عصر کی نماز دو رکعت ادا کی جاتی ہے۔ دونوں نمازوں کے درمیان کوئی وقفہ نہیں ہوتا۔ نیز دو دو فرائض کے علاوہ سنن نوافل وغیرہ بھی ادا نہیں کئے جاتے اس کے بعد جبل رحمت کے قریب وقوف ہوتا ہے۔ یہ بڑا قیمتی وقت ہوتا ہے غروب آفتاب تک انسان کھڑے ہو کر دعائیں کرتے ہیں۔ ذکر و تلاوت میں مشغول رہتے ہیں۔ رو رو کر اللہ مالک الملک سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتے ہیں یہ وقوف عرفات ہے پھر غروب آفتاب کے بعد یہاں سے نکل جانے کا حکم ہے …… مغرب سے پہلے میدان سے نکل جانا درست نہیں …” مشرکین مکہ کی بعض خرابیوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ سورج ابھی کھڑا ہوتا تھا اور وہ عرفات سے نکل جاتے تھے۔ اس سے منع فرمایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میدان عرفان میدان عرفات یا مزدلفہ کے راستہ میں نماز مغرب ادا کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔ خواہ رات کا آخری حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ عرفات سے واپسی الغرض ! میدان عرفات سے حاجیوں کی واپسی بعد غروب شمس مزدلفہ کے لئے ہوتی ہے۔ اسی کو کہا گیا ہے فاذا افضتم من عرفت پھر جب تم عرفات سے واپس پلٹو۔ افاضہ دراصل طواف کے لئے واپس لوٹنے کو کہتے ہیں اور یہ لفظ خاص طور پر کثرت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ لوگ کثیر تعداد میں گروہ در گروہ عرفات سے واپس آتے ہیں۔ اس لئے یہاں پر افضتم کا لفظ لایا گیا ہے۔ اور اسی لئے اس طواف کو طواف افاضہ یا طواف زیادہ بھی کہتے ہیں۔ یہاں پر مشرکین کی ایک اور خرابی کی طرف بھی اشارہ ہے کہ بعض لوگ تو غروب آفتاب سے پہلے ہی عرفات سے چل دیتے تھے اور بعض عرفات تک پہنچتے ہی نہیں تھے۔ بلکہ مزدلفہ میں قیام کرتے اور واپس آجاتے تو اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت فرما دی کہ نویں ذی الحج کو سب لوگ میدان عرفات میں وقوف کریں اور پھر وہاں سے سے غروف آفتاب کے بعد واپس پلٹیں۔ راستہ میں مزدلفہ کا قیام ہوتا ہے اور پھر دی تاریخ کو بیت اللہ شریف کا طواف کیا جاتا ہے۔ سورة حج میں اسی طواف کے متعلق فرمایا ” ولیطوفوا بالبینت العتیق “ پھر چاہئے کہ قدیم گھر کا طواف کریں۔ یہ وہی طواف ہے جو عرفات سے واپسی پر کیا جاتا ہے اور یہ حج کا رکن ہے۔ وقوف مزدلفہ عرفات سے واپسی پر راستہ میں مزدلفہ کی منزل آتی ہے ۔ جہاں پر حاجی رات بسر کرتے ہیں۔ قرآن پاک نے اس جگہ کو مشعر الحرام یعنی حرمت والی نشانیاں کہا ہے یہاں پر دو پہاڑیاں ہیں جن کی درمیانی جگہ کو مشعر الحرام کہتے ہیں۔ فرمایا فاذکرو اللہ عند المشعر الحرام پس مشعرالحرام کے نزدیک اللہ کا ذکر کرو۔ رات وہاں بسر کر کے اگلی صبح فجر کی نماز اول وقت ادا کر کے وہاں وپوف کیا جاتا ہے جسے وقوف مزدلفہ کہتے ہیں۔ وقوف عرفہ تو فرض ہے ۔ مگر وقوف مزدلفہ واجب کے حکم میں آتا ہے۔ بہرحال نماز فجر کے بعد وہاں پر وقوف کرنا اور دعائیں کرنا واجب ہے۔ حضور ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر ایسا ہی کیا تھا اور پھر سورج نکلنے سے پہلے ہی واں سے منیٰ کی طرف چل دیئے تھے۔ آج بھی حاجیوں کے لئے یہی حکم ہے کہ رات مزدلفہ میں قیام کریں۔ فجر کی نماز وہیں ادا کریں۔ اور پھر ذکر الٰہی میں مصروف ہوجائیں۔ اس کے بعد طلوع آفتاب سے قبل ہی منیٰ کو روانہ ہوجائیں۔ امام ابوحنیفہ کے مطابق جو شخص مزدلفہ میں وقوف نہیں کرے گا اسے دم دینا ہوگا۔ کیونکہ یہ واجب کا درجہ رکھتا ہے۔ البتہ بیمار اور ضعیف حاجیوں کو اجازت ہے کہ وہ مزدلفہ میں تھوڑی دیر قیام کے بعد رتا کو ہی منی کو چلے جائیں اور صبح کی نماز منی میں جا کر ادا کرلیں ۔ حضور ﷺ نے حضرت سودہ جو بیمار تھیں ان کو اور بعض دوسرے ضعیف اہل خاندان اور بچوں کو اجازت دیدی تھی کہ وہ مزدلفہ میں رات کے وقت تھوڑی دیر وقوف کریں دعائیں کریں اور پھر منی کے لئے روانہ ہوجائیں تاکہ وہ عام لوگوں کے پہنچنے سے پہلے پہلے آسانی کے ساتھ رمی کرلیں کیونکہ رمی کرنا بھی بہت کٹھن کام ہے آپ نے ضعیف اور بیماروں کو اول وقت میں رمی کی اجازت مرحمت فرما دی۔ بہرحال حضور ﷺ نے فرمایا کہ مزدلفہ کلھا موقف یعنی سارا مزدلفہ موقف ہے۔ جہاں کسی کو جگہ میسر آئے ٹھہر جائے البتہ وادی محسر جو منیٰ کی طرف ہے۔ وہاں نہیں ٹھہرنا چاہئے۔ باقی ہر جگہ قیام کرسکتا ہے۔ ذکر الٰہی فرمایا مشعر الحرام کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو کما ھدلکم جس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی ۔ لفظ کما مشبہ بھی بن سکتا ہے اور تعلیلہ بھی اور زائد بھی بن سکتا ہے۔ جیسے یاد کرو اللہ کو لانہ ھدلکم اس لئے کہ اس نے تمہیں ہدایت دی ہے۔ یہ کما تعلیلیہ ہے۔ اللہ نے تمہیں ایمان کی دولت بخشی ہے اس لئے اس کو یاد کرو۔ اسی قسم کا کاف تعلیلیہ حضور ﷺ کی بعثت کے ضمن میں پہلے گزر چکا ہے۔ نیا کپڑا پہننے کی دعا بھی حضور ﷺ نے ایسی ہی سکھائی ہے ۔ اللھم للک الحمد کما کسوتنی اے اللہ میں تیری حمد بیان کرتا ہوں اس لئے کہ تو نے مجھے کپڑا پہنایا ہے۔ تیری عطا کردہ اس نعمت پر تیرا شکر ادا کرتا ہوں ۔ اسی طرح یہاں بھی کا فعلت استعمال ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو ، اس لئے کہ اس نے تمہیں ہدایت بخشی ہے۔ اور اگر یہ کاف تشبیہ کا ہے۔ تو پھر اس کا معنی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا اس طرح ذکر کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد کے لئے وہ طریقہ اختیار کرو ، جس کی طرف اس نے تمہاری راہنمائی کی ہے ۔ مقصد یہ کہ اس کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق ذکر الٰہی کرو اپنے من گھڑت طریقے استعمال نہ کرو۔ اگر ایسا کرو گے تو بدعت میں شمار ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل نہیں ہوگی۔ ذکر عبادت الٰہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی عبادت ہو اس کے لئے وہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول ﷺ نے بنایا ہے۔ بنی (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فقررذ جس نے کوئی ایسا عمل کیا ، جو ہمارے عمل کے مطابق نہیں تو وہ مردود ہے۔ ایسا عمل مقبول نہیں ہو سکتا۔ یہ شریعت کا بڑا اہم اصول ہے اور ہمیشہ ہمیشہ نظر رہنا چاہئے۔ اپنی طرف سے نئے نئے طریقے ایجاد کرنا بدعت کو روان دینا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینا ہے۔ ایسا کام کما ھدکم کی روح کے منافی ہے۔ لہٰذا بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ منجملہ دیگر شرعی طریقوں کے ایصال ثواب کا بھی ایک طریقہ ہے۔ اگر اس کے مطابق عمل کرو گے تو مفید ہوگا اور اگر اپنی طرف سے نئے نئے طریقے گھڑوگے تو ثواب کے بجائے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی حاصل ہوگی۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقے اختیار کرو ، حقیقت یہ ہے کہ وان کنتم من قبلہ لمن الضآلین اور اس سے پہلے تم گمراہوں میں تھے۔ یہاں پر لفظ ان شرطیہ نہیں جس کا معنی اگر ہتا ہے۔ بلکہ اسے ان مخفعہ من المثقلہ کہتے ہیں اور اس کا مطلب یوں ہوتا ہے۔ وانہ شان یہ ہے کہ کنتم من قبلہ لمن الضآلین تم اس سے پہلے گمراہوں میں تھے۔ یعنی کفر اور شرک میں مبتلا تھے۔ اس نے تمہارے لئے نبی مبعوث کیا کتاب اور شریعت اتاری تاکہ حق کو پہچان سکو ، تم نے گھر گھر بت خانہ بنایا ہوا تھا۔ اللہ کے گھر … کو بھی منبع توحید کی بجائے … بت خانہ میں بدل دیا گیا تھا۔ رسومات باطلہ کی بھرمار تھی۔ ننانویں فیصد لوگ ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں گرے ہوئے تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہدایت سے نوازا۔ لہٰذا اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس کا ذکر کرو۔ قریش مکہ کا تشخص حج کے متعلق قریش مکہ اور ان کے رشتہ داروں بنو خزعہ اور بنو کنانہ نے اپنا علیحدہ تشخص قائم کر رکھا تھا ۔ یہ لوگ نو ذی الحج کو مزدلفہ سے آگے نہیں جاتے تھے حالانکہ عرفات کی حاضری تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے رائج تھی۔ مگر یہ اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھتے تھے اور کہتے تھے ہم احمس ہیں۔ دوسروں سے بلند تر ہیں اس لئے ہم عرفات میں نہیں جائیں گے۔ شیطان رحیم نے ان کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈال دیا تھا کہ میدان عرفات حدود حرم سے باہر ہے اور ہم خانہ کعبہ کے مجاور ہونے کے سبب حرم سے باہر کیوں جائیں۔ قریش کے اس باطل نظریے کو توڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ثم افیضوا من حیث افاض الناس پھر تم بھی وہیں سے پلٹو جہاں سے دوسرے لوگ پلٹ کر آتے ہیں۔ یعنی عرفات سے ۔ مزدلفہ سے واپس آجانے کا تمہارا نظریہ غلط ہے۔ تم اسے نیکی سمجھ رہے ہو ، حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ نسا سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں اور آپ کے لئے جمع کا صیغہ لانے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو پوری امت قرار دیا ہے۔ ” ان ابرھیم کان امۃ فانتاً للہ حنیفاً آپ مجموعہ امت کے قائم مقام ہیں۔ تمام امت کے خواص آپ میں پائے جاتے تھے۔ اس حکم کے ذریعے قریش کے تفاخر کی نفی کی گئی ہے اپنے آپ کو دوسرے انسانوں سے افضل اور برتر سمجھنا درست نہیں ہے۔ خاص طور پر عبادت و ریاضت کے معاملہ میں تو اونچ نیچ اور اعلیٰ و ادنی کا تصور ہی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو تمام لوگ برابر ہیں۔ اس کے ہاں اگر کوئی برتری ہے تو محض تقویٰ کی بنیاد پر عدم مساوات شیطانی عمل ہے۔ حج کا عمل تو مساوات کی بہترین مثال پیش کرتا ہے۔ وہاں پر ہر امیر غریب ، گورا اور کالا ایک ہی لباس اور ایک ہی وضع قطع برہنہ سر لبیک لبیک پکارتے ہیں۔ وہاں پر تفاخر کی بات ہرگز نہیں ہونی چاہئے۔ اسی طرح نماز بھی مساوات کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ آقا و غلام سب ایک ہی صف میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ تم بھی وہیں سے واپس پلٹو جہاں سے باقی لوگ پلٹتے ہیں اور اپنے لئے علیحدہ طریقہ نہ بنائو۔ استغفار کا حکم فرمایا جاہلیت کے طریقوں کو ترک کر دو اور واستغفر واللہ اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگو۔ انسان خطا کا پتلا ہے۔ اس لے لغزشیں ہوتی رہتی ہیں۔ ان کا ازالہ استغفار کے ذریعے ہوتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا کلکم خطائون تم سب خطا کار ہو اور خیر الخطائین التوابون اور بہترین خطا کار وہ ہیں۔ جو سچے دل سے توبہ کرلیں۔ کیونکہ التآئب من الذنب کمن لاذنب لہ ایسے لوگ خطائوں سے بالکل پاک ہوجاتے ہیں۔ گویا کہ انہوں نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ استغفار بہت ، بلند پایہ وظیفہ ہے۔ صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ حضور ایک مجلس میں سو مرتبہ سے زیادہ استغفار کرتے۔ اللھم اغفرلی وتب علی استغفر اللہ مجلس کے اختتام پر جو شخص استغفار کرے گا۔ اس کی کوتاہیاں معاف ہوجائیں گی۔ یہ کلمات کہنے سے تمام مجلس کی خطائوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ سبحانک اللھم وبحمدک لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے ساری کوتاہیاں معاف فرما دیتے ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ہر وقت استغفار کرنا چاہئے۔ اس کی بخشش کے طلبگار بننا چاہئے۔ ان اللہ غفور رحیم۔ بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور بیحد مہربان ہے۔ وہ کسی معافی مانگنے والے کو محروم نہیں کرتا بلکہ اس کی توبہ کو قبول کرلیتا ہے۔
Top