Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 197
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ١ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِیْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْهُ اللّٰهُ١ؔؕ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوْنِ یٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ
اَلْحَجُّ : حج اَشْهُرٌ : مہینے مَّعْلُوْمٰتٌ : معلوم (مقرر) فَمَنْ : پس جس نے فَرَضَ : لازم کرلیا فِيْهِنَّ : ان میں الْحَجَّ : حج فَلَا : تو نہ رَفَثَ : بےپردہ ہو وَلَا فُسُوْقَ : اور نہ گالی دے وَلَا : اور نہ جِدَالَ : جھگڑا فِي الْحَجِّ : حج میں وَمَا : اور جو تَفْعَلُوْا : تم کروگے مِنْ خَيْرٍ : نیکی سے يَّعْلَمْهُ : اسے جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَتَزَوَّدُوْا : اور تم زاد راہ لے لیا کرو فَاِنَّ : پس بیشک خَيْرَ : بہتر الزَّادِ : زاد راہ التَّقْوٰى : تقوی وَاتَّقُوْنِ : اور مجھ سے ڈرو يٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو
حج کے چند مہینے ہیں ، جو معلوم ہیں۔ پس جس شخص نے حج کو لازم کرلیا ان مہینوں میں ، پس عورتوں کے ساتھ بےحجاب ہونا جائز نہیں ہے اور نہ گناہ کی بات اور نہ حج میں جھگڑا کرنا اور جو کچھ کرو تم نیکی سے اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے اور توشہ بنا لو۔ بیشک بہتر توشہ تقوی ہے اور مجھ سے ڈرو ، اے عقل مندو
ربط آیات اس سے پہلے جہاد او حج کا مشترکہ حکم بیان ہوا پھر احصار کا مسئلہ بیان ہوا کہ حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد اگر کوئی رکاوٹ پیدا ہوجائے یعنی بیماری لاحق ہوجائے یا دشمن کی وجہ سے راستہ غیر محفوظ ہوجائے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں احصار کا مسئلہ بیان ہوا۔ اس کے بعد تمتع اور قرآن کا بیان آیا کہ جسے حج اور عمرہ نصیب ہوجائے یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ایسے شخص کو دم یعنی قربانی دینا ہوگی۔ اگر قربانی کی استطاعت نہیں ہے۔ تو دس روزے رکھے یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ان آیات میں بھی حج کے مختلف احکام بیان ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ مشرکین کی اس تحریف کا رد ہے جو انہوں نے حج سے متعلق زمانہ جاہلیت میں پیدا کرلی تھی۔ حج کے مہینے ارشاد ہوتا ہے الحج اشھر معلومت ، شہر شہر کی جمع ہے مطلب یہ کہ حج کے مہینے معلوم ہیں کہ یہ شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحج کے پہلے دس دن ہیں ایسے ذی الحج کا پورا مہینہ مجازاً حج کا مہینہ ہی شمار ہوتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ حج کا احرام ان مہینوں میں باندھا جاسکتا ہے شوال سے پہلے حج کا احرام نہیں باندھا جاسکتا۔ اس مسئلہ میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے کہ اگر ماہ رمضان یا اس سے پہلے احرام باندھ کر حج کیا جائے تو حج ادا ہوگا یا نہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کا حج نہیں ہوگا۔ البتہ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ حج کے مہینوں سے قبل احرام باندھ کر اگر کوئی شخص احرام کی پوری طرح حفاظت کرتا ہے تو اس کا حج تو ہوجائے گا ۔ مگر اس میں کراہت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا حج کا احرام شوال سے پہلے نہیں باندھنا چاہئے یہ مکروہ ہوگا۔ احرام کی پابندیاں حج یا عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد محرم پر بعض پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں۔ جس طرح کوئی تکبر تحریمہ کہہ کر نماز میں داخل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایک عازم حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر نیت کرتا ہے اور تلبیہ پکارتا ہے تو وہ عملاً حج یا عمرہ میں داخل ہوجاتا ہے اور اس پر احرام کی پابندیاں عائد ہوجاتی ہیں۔ یہاں پر اسی چیز کو بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ فمن فرض فیھن الحج یعنی جس شخص نے ان مہینوں میں حج کو اپنے اوپر لازم کرلیا۔ یہاں پر فرض کا معنی لازم کرنا ہے یعنی احرام باندھ کر نیت کرلی اور تلبیہ پکارنا شروع کردیا۔ لبیک اللھم لبیک تو بعض چیزیں جو پہلے مباح تھیں وہ اب ممنوع ہوگئیں۔ جس طرح کوئی شخص روزہ کی حالت میں بیوی کے قریب نہیں جاسکتا اسی طرح حضور نے فرمایا کہ احرام کی حالت میں بھی بیوی کے پاس نہیں جاسکتا۔ مثلاً اگر کوئی شخص احرام باندھ کر وقوف عرفہ سے پہلے اپنی بیوی سے مقاربت کرلے تو اس کا حج فاسد ہوجائیگا اور آئندہ سال قضا دینا ہوگی اور اس کے علاوہ ایک سالم اونٹ یا سالم گائے بطور دم قربان کرنا ہوگی۔ اسی طرح احرام کی حالت میں کوئی مرد سلا ہوا کپڑا حتی کہ موزہ تک نہیں پہن سکتا۔ خوشبو نہیں لگا سکتا۔ سر اور منہ کو ڈھانپ نہیں سکتا۔ عورتیں سلے ہوئے کپڑے پہن سکتی ہیں مگر خوشبو نہیں لگا سکتیں۔ سر کو ڈھانپ لیں گی مگر چہرہ کھلا رہے گا اس پر کپڑا نہیں آا چاہئے۔ اگر کوئی عورت پردہ کرنا چاہے تو چہرہ پر کوئی لکڑی وغیرہ رکھ کر اوپر نقال ڈال سکتی ہے۔ جس سے کپڑا چہرہ کو نہ لگے۔ احرام کی حالت میں شکار کرنا بھی منع ہے اس کے متعلق واضح حکم ہے۔ ” حرم علیکم صید البر مادمتم حرماً جب تک تم احرام میں ہو۔ خشکی کا شکار نہیں کرسکتے بلکہ کسی جانور کو ذبح بھی نہیں کرسکتے۔ اگر کرو گے تو وہ حلال نہیں ہوگا۔ لہٰذا اس کو کوئی دوسرا شخص بھی نہیں کھا سکتا گویا یہ سب چیزیں احرام کی حالت میں ممنوع ہیں۔ بے حجابی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، جب تم میں سے کوئی اپنے اوپر حج کو لازم کرے ، تو فلارفث حج میں رفث نہیں ہے۔ لفظ رفث عام ہے۔ اس کا اطلاق معمولی بےپردگی سے لے کر مباشرت تک ہوتا ہے۔ عورت کے ساتھ بوس و کنار شہوانی باتیں اور مباشرت سب رفث میں آجاتا ہے غیر عورت کے ساتھ تو یہ چیزیں ہر وقت حرام ہیں۔ مگر احرام کی حالت میں یہ افعال اپنی بیوی کے ساتھ بھی جائز نہیں رہتے۔ نافرمانی ولافسوق احرام کی حالت میں فسق بھی جائز نہیں۔ اس سے مراد اطاعت سے باہر نکل جانا یا نافرمانی ہے۔ اگرچہ یہ چیزیں عام حالت میں بھی منع ہیں مگر جب کوئی حج یا عمرہ کی نیت سے احرام باندھ لیتا ہے تو ان کی ممانعت میں شدت پیدا ہوجاتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے حرم کے اندر کوئی گناہ کرنا عام جگہ کی نسبت زیادہ جرم ہے۔ یا جس طرح حرمت کے مہینوں میں کسی گناہ کا ارتکاب دیگر مہینوں کی نسبت زیادہ باعث وبال ہے۔ الغرض احرام کی حالت میں نافرمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ فسق کا لفظ نفاق اور اعتقاد پر بھی بولا جاتا ہے۔ عمل پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ کافروں ، منافقوں اور عام گناہگار مومنوں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ مقصد یہ کہ احرام کی حال تمہیں کسی قسم کے گناہ کی بات نہیں ہونی چاہئے۔ ہر طرح کے گناہ سے اجتناب کرنا چاہئے۔ لڑائی جھگڑا تیسری چیز فرمایا ولا دال فی الحج سفر حج کے دوران لڑائی جھگڑا ابھی نہیں ہونا چاہئے۔ یہ چیزیں ویسے ہی بری ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔ اپنے بھائی کے ساتھ جھگڑا مت کرو۔ تاہم احرام کی حالت میں لڑائی جھگڑے کی قباحت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ چیز حالت احرام کے منافی ہے۔ لہٰذا حج کے دوران اس قسم کی کوئی حرکت نہیں ہونی چاہئے۔ سخت تنبیہ یہ بات قابل غور ہے کہ اس مقام پر تینوں ممنوعات یعنی رفث ، فسوق اور جدال کو بطور اسم استعمال کیا گیا ہے۔ حالانکہ چاہئے تو یہ تھا کہ ان کو فعل کے طور پر لایا جاتا فلا ترفثوا ولا تفسقوا ولا تجادلوا یعنی بےپردگی کی بات نہ کرو۔ نافرمانی نہ کرو اور لڑائی جھ گڑا نہ کرو۔ مگر ایسا نہیں کہا گیا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ان افعال کو اسما میں بدلنے میں حکمت یہ ہے کہ اسم میں فعل کی نسبت زیادہ تاکید پائی جاتی ہے اور پھر ان اسما کو نفی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملہ میں سخت احتیاط سے کام لیا جائے۔ ظاہر ہے کہ حج کے سفر میں اجنبی لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور ہر ہر مقام یعنی منیٰ مزدلفہ عرفات اور حرم شریف میں زبردست رش ہوتا ہے۔ خصوصاً بیت اللہ شریف میں مرد اور عورتیں اکٹھے طواف کرتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات ناخوشگوار حالات کا پیدا ہوجانا بعید از قیاس نہیں ہوتا تو فرمایا کہ اس قسم کے غیر معمولی حالات میں بےپردگی ، نافرمانی یا جھگڑے کا شائبہ تک بھی نہیں ہونا چاہئے۔ حج کے عظیم اور مقدس ارکان کی ادائیگی کے دوران ان بری باتوں کا تصور تک پیدا نہیں ہونا چاہئے۔ اسم کو نفی میں لا کر گویا تاکید پیدا کی گئی ہے کہ ان باتوں کے قریب بھی نہ جائو۔ تاکہ تمہارے حج میں کوئی نقص واقع نہ ہوجائے۔ حج مبرور حضرت ابوبکر کا اونٹ گم ہوگیا۔ آپ اپنے نوکر پر سخت خفا ہوئے کہ اس کی غفلت کی وجہ سے اونٹ گم ہوا۔ حتی کہ اسے مارنا شروع کردیا۔ احرام کی حالت تھی۔ حضور ﷺ نے دیکھا تو فرمایا کہ اس احرام الے آدمی کا حال دیکھو کہ اس حال میں بھی نوکر کو مار رہا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ احرام کی حالت میں لڑائی جھگڑا ، مار کٹائی گالی گلوچ کا تو امکان تک نہیں ہونا چاہئے۔ لارفث لافسوق اور لاجدال کا یہی معنی ہے۔ حضور علیہ التحیتہ والسلام کا فرمان ہے۔ من حج جس شخص نے حج کیا فلم یرفث ولم یفسق اور اس نے دوران حج نہ بےحجابی کی بات کی اور نہ نافرمانی کی ، تو اس کی حالت ایسی ہے رجع یقوم ولدتہ امہ گویا آج ہی ماں نے اسے جنا ہے۔ جس طرح نوزائیدہ بچہ گنا ہ سے پاک ہوجاتا ہے۔ اسی حج کو حج مبرور کہا جاتا ہے۔ خود حضور ﷺ نے حج مبرور کی دعا کی اللھم اجعلہ حجاً مبروراً و ذنباً مغفوراً اے اللہ میرے حج کو حج مبرور بنا دے اور میری غلطیوں کو معاف فرما دے ایسا حج نصیب فرما جس میں نہ کوئی گناہ کی بات ہو اور نہ ساتھیوں سے کوئی جھگڑا واقع ہو۔ شیخ سعدی نے اپنی کتاب گلستان میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ حاجیوں کا قافلہ جا رہا تھا اور اس میں شامل لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ کہ ہم فلاں جگہ خوب لڑے۔ گویا انہوں نے داد فسق دیا تو کسی شریف آدمی نے کہا ” ازمن بگو حاجی مردم گزارئے را ، حاجی تونیستی شتراست ، یعنی میری طرف سے آدمیوں کو کاٹنے والے حاجی سے کہ دیں کہ تو تو حاجی نہیں ہو سکتا ، البتہ تیرا اونٹ حاجی ہو سکتا ہے جس پر تو سوار ہے۔ تیرے اندر حاجیوں والی کوئی خصلت نہیں کیونکہ تو نے فسق دجدال کا ارتکاب کیا ہے۔ اسی لیء اللہ تعالیٰ نے سخت تنبیہ کے انداز میں فرمایا کہ حج کے دوران بےپردگی گناہ اور جھگڑا قطعاً نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں بڑے احتیاط کی ضرورت ہے۔ کہیں حج میں نقص نہ واقع ہوجائے۔ وما تفعلوا من خیر یعلمہ اللہ اور تم جو بھی نیکی کا کام کرو گے اللہ تعالیٰ اسے جانتے ہیں۔ یہاں اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ حج کے دوران ہمیشہ نیکی اور بھلائی کی طرف راغب رہو۔ حاجی اللہ کا مہمان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی مہمان نوازی کرتے ہوئے اس کی دعا قبول کرتا ہے اور پھر جن جن مقامات پر حاجی جاتا ہے۔ وہ قبولیت کے مقامات ہیں۔ زمانہ یعنی حج کے مہینے بھی قبولیت کے مہینے ہیں۔ لہٰذا حاجی کو چاہئے کہ وہ ہر وقت نیکی میں مصروف رہے بلکہ ارادے تک کو جانتا ہے۔ زاد راہ آیت کے اگلے حصے میں زمانہ جاہلیت کی ایک باطل رسم کی تردید کی گئی ہے امام جلال الدین سیوطی اور بعض دوسرے مفسرین کرام نے لکا ہے۔ یمنی لوگوں کا حال یہ تھا کہ حج کا موسم آتا تو بےسروسامانی کی حالت میں چل دیتے۔ نہ کوئی سامان لیتے نہ روپیہ پیسہ ، بس ایک چادر کندھے پر ڈالی اور حج کے لئے روانہ ہوگئے کہتے تھے ہم متوکل علی اللہ ہیں اس کے راستے پر نکلے ہیں ، وہ خود مدد کرے گا اور پھر حالت یہ ہوتی کہ راستے میں بھیک مانگنا شروع کردیتے اور اس طرح زاد راہ کے بغیر کسمپرسی کی حالت میں حج کا سفر کرتے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیت حج کے لئے پہلی شرط ہی استطاعت کی لگائی ہے۔ ” من استطاع الیہ سبیلاً “ یعنی حج کے سفر پر وہ شخص روانہ ہو ، جو اس کی استطاعت رکھتا ہو۔ اگر کسی کے پاس سفر کے اخراجات نہیں ہیں تو اس پر حج فرض نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سے باز رس نہیں ہوگی کہ تم نے حج کیوں نہیں کیا البتہ شوق ایک الگ چیز ہے ، جو کہ ہر اہل ایمان کے دل میں موجزن ہوتا ہے ۔ مگر بغیر توفیق کے حج فرض نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح نصاب کے بغیر زکوۃ فرض نہیں۔ جسکے پاس نصاب کے برابر ملا نہیں ہے۔ وہ تنگ ہو کر زکواۃ ادا نہ کرے بلکہ دوسرے احکام پر عمل کرتا رہے۔ حج کے متعلق بھی یہی حکم ہے۔ اگر توفیق نہیں ہے۔ تو کوئی حرج نہیں۔ دوسرے احکام بجا لائو۔ نما ز روزے کی پابندی رکھو ، والدین اور قربات داروں کے حقوق ادا کرو جن کے متعلق بازپرس ہوگی ۔ اسی لئے فرمایا و تزو دوا زاد راہ لے لیا کرو۔ توشہ بنا کر حج کا سفر اختیار کرو آدمی کو چاہئے کہ وہ برائی اور سوال سے بچے توشہ بنانا اور اس کے لئے جائز ذرائع آدمی کو چاہئے کہ وہ برائی اور سوال سے بچے توشہ بنانا اور اس کے لئے جائز ذرائع اختیار کرنا بالکل درست ہے۔ اسباب کو ترک کرنا درست نہیں۔ البتہ ان ذرائع اور اسباب پر بھروسہ رکھنا تو کل کے خلاف ہے۔ بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر ہونا چاہئے۔ وہی ان اسباب میں تاثیر پیدا کرنے والا ہے۔ بیماری کی صورت میں علاج کرنا درست ہے۔ مگر ڈاکٹر پر بھروسہ کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ شفا تو من جانب اللہ ہے۔ اگر اللہ چاہے گا تو دوائی میں تاثیر پیدا کر دے گا اور مریض صحت یاب ہوجائے گا ، ورنہ لاکھوں دوائیں استعمال کریں کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اللہ چاہے تو پانی میں پاس بجھانے کی تاثیر پیدا کر دے اور اگر وہ نہ چاہے تو پوری نہر کا پانی پی کر بھی استفسار کے مریض کی پیاس نہ بجھے۔ یہ اس کے قبضہ قدرت میں ہے معلوم ہوا کہ اسباب پر کنٹرول ذات خداوندی کا ہے مگر اسباب کو ترک کرنا روا نہیں ہے۔ لہٰذا حج کا ارادہ کیا ہے۔ تو سواری کا انتظام کرو ، سامان ساتھ لو اخراجات کے لئے روپیہ پیسہ لے لو اور پھر توکل بر خدا روانہ ہو جائو۔ بغیر زاد راہ سفر پر نکلنا تو ویسے ہی عزت نفس اور شرافت کے خلاف ہے۔ اس میں قباحتیں پیدا ہوتی ہیں انسان دوسروں پر بوجھ بنتا ہے کہ بالکل جائز نہیں لہٰذا فرمایا کہ زاد راہ لے لیا کرو۔ گداگری حرام ہے جو شخص خالی ہاتھ سفر پر روانہ ہوگا ، ظاہر ہے کہ اسے ضروریات زندگی کے لئے ہاتھ پھیلانا پڑے گا۔ حالانکہ گداگری اسلام میں حرام ہے اس میں شک نہیں کہ آج آدھی دنیا کے مسلمان دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں۔ مگر یہ گداگری بہرحال حرام ہے شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ چوری ، ڈاکہ وغیرہ کی طرح گداگری بھی ایک مضر پیشہ ہے اور حرام ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کسی آدمی کو سوال کرنا روا نہیں ، سوائے خاص پریشانی کی حال تھیں۔ آپ نے چند آدمیوں کو کچھ وقت کے لئے سوال کر نیکی اجازت دی مگر اس وقت تک جب تک ان کی حالت درست ہوجائے۔ ہمارے ہاں تو لوگ ساری ساری عمر گداگری کو پیشہ بنائے رکھتے ہیں جو کہ عزت نفس کے خلاف ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روزگداگر اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوگا تو اس کے چہرے پر گوشت ہی نہیں ہوگا۔ عجیب شکل و صورت لے کر دیار رب العزت میں پیش ہوگا۔ وجہ یہ کہ دنیا کی زندگی میں مانگتا پھرتا تھا۔ تقویٰ بہترین زادہ راہ ہے فرمایا توشہ لے لیا کرو فان خیرالزاد التقوی کیونکہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ پرہیز گاری اختیار کرو۔ کیونکہ اگر یہ منزل حاصل ہوگئی۔ تو پھر سوال نہیں کرو گے۔ سوال کرنا ، بھیک مانگنا تقویٰ کی روح کے منافی ہے۔ واتقون یاولی الالباب یعنی اگر تم صاحب عقل و شعور ہو تو مجھ سے ڈرتے رہو اور میری نافرمانی کے قریب بھی نہ جائو۔ بلکہ صحیح راستہ اختیار کرو پہلے بھی گزر چکا ہے واتوا البیوت من ابوابھا اپنے گھروں میں دروازوں کی طرف سے آئو۔ سیدھا راستہ پکڑو گے تو منزل مقصود تک پہنچ جائو گے ورنہ راستے میں بھٹکتے رہو گے۔ فلاح نصیب نہیں ہوگی۔ مقصد یہ کہ حج کرنا ہے تو صحیح طریقہ اختیار کرو۔ رقم جمع کرو ، سواری کا انتظام کرو اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر صدقہ و خیرات اور زکواۃ کے مال سے حج کرنا کہاں کا تقویٰ ہے اللہ تعالیٰ نے ایسے کام کی تردید فرمائی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ حج کے موقع پر خریدو فروخت بھی کرتے تھے جب اسلام کا دور آیا تو بعض مسلمانوں کو تردد پیدا ہوا کہ تجارت کرنے سے ہماری عبادت میں فرق نہ آجائے۔ چناچہ وہ لین دین سے اجتناب کی سوچنے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلاً من ربکم اس بات میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ تجارت اور لین دین کا تبادلہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس سے رزق حلال میسر آتا ہے۔ لہذا حج کے دوران خریدو فروخت جائز ہے البتہ اس بات کا خیال رہے کہ حج پر روانہ ہوتے وقت نیت صرف حج کی ہو تجارت کی نہیں ہونی چاہئے۔ وہاں جا کر ضروریات کی اشیاء خرید لے تو منع نہیں اور اگر نیت ہی خریدو فروخت کی ہو تو پھر ایسا کرنا جائز نہیں۔ بعض لوگ جاتے ہی سامان خریدنے کے لئے ہیں۔ بعض سیر و تفریح کی غرض سے جاتے ہیں بعض لوگوں سے سنا کہ بھائی اس سال لندن جانا ہے۔ یا اس سال حجاز کی سیر کرنی ہے۔ یہ باطل نظریات ہیں۔ جب نیت ہی سامان خریدنے کی ہے ، تو پھر سونا بھی خریدیں گے اور کسٹم سے بچنے کے لئے طرح طرح کے حیلے بہانے بھی بنائیں گے اور اس طرح گناہ پر گناہ کے مرتکب ہوں گے۔ اگر حج کرنا ہے تو نیت خالص حج کی ہونی چاہئے اس کے باوجود اگر ضرورت کی چیزیں خرید لی ہیں تو کوئی ممانعت نہیں۔ اس ضمن میں قرآن پاک نے دو اصطلاحیں پیش کی ہیں۔ ایک اصطلاح ” رضوان “ ہے۔ جس سے مراد امور آخرت کی طلب ہے۔ اور دوسری اصطلاح ” فضل “ ہے جس سے مقصود رزق حلال ہے۔ یہ دونوں چیزیں جائز ہیں۔
Top