Mualim-ul-Irfan - An-Noor : 35
اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌ١ؕ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍ١ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍ١ۙ یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ١ؕ نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ١ؕ یَهْدِی اللّٰهُ لِنُوْرِهٖ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌۙ
اَللّٰهُ : اللہ نُوْرُ : نور السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین مَثَلُ : مثال نُوْرِهٖ : اس کا نور كَمِشْكٰوةٍ : جیسے ایک طاق فِيْهَا : اس میں مِصْبَاحٌ : ایک چراغ اَلْمِصْبَاحُ : چراغ فِيْ زُجَاجَةٍ : ایک شیشہ میں اَلزُّجَاجَةُ : وہ شیشہ كَاَنَّهَا : گویا وہ كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ : ایک ستارہ چمکدار يُّوْقَدُ : روشن کیا جاتا ہے مِنْ : سے شَجَرَةٍ : درخت مُّبٰرَكَةٍ : مبارک زَيْتُوْنَةٍ : زیتون لَّا شَرْقِيَّةٍ : نہ مشرق کا وَّلَا غَرْبِيَّةٍ : اور نہ مغرب کا يَّكَادُ : قریب ہے زَيْتُهَا : اس کا تیل يُضِيْٓءُ : روشن ہوجائے وَلَوْ : خواہ لَمْ تَمْسَسْهُ : اسے نہ چھوئے نَارٌ : آگ نُوْرٌ عَلٰي نُوْرٍ : روشنی پر روشنی يَهْدِي اللّٰهُ : رہنمائی کرتا ہے اللہ لِنُوْرِهٖ : اپنے نور کی طرف مَنْ يَّشَآءُ : وہ جس کو چاہتا ہے وَيَضْرِبُ : اور بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ الْاَمْثَالَ : مثالیں لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اللہ تعالیٰ نور ہے آسمان کا اور زمین کا۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں ایک چراغ ہو۔ اور چراغ شیشے میں رکھا ہوا ہو۔ اور شیشہ بھی ایسا چمکیلا گویا کہ وہ ایک چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ جس کو جلایا جاتا ہے ایسے تیل سے جو زیتون کے مبارک درخت سے حاصل کیا گیا ہو ، جو نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف۔ قریب ہے کہ اس کا تیل چمک اٹھے اگرچہ نہ پہنچے اس کو آگ ، روشنی پر روشنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے اپنی روشنی کے لئے جس کو چاہے ۔ اور بیان کرتا ہے اللہ تعالیٰ مثالیں لوگوں کے لئے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے
ربط آیات : اس سورة میں پہلے اللہ نے حدود کا ذکر کیا ، پھر واقعہ افک بیان ہوا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے نظام عفت وعصمت کے مختلف قوانین بیان ہوئے۔ دوسروں کے گھروں میں جانے کے آداب بیان ہوئے ، غیر محرموں اور اجنبیوں سے ملاقات کے وقت نظریں نیچی رکھنے کا حکم ہوا ، عورتوں کے لئے پردے کے خصوصی احکام دیئے گئے کہ وہ اپنی زیب وزینت کو محرموں کے علاوہ کسی پر ظاہر نہ کریں۔ پھر اللہ نے نکاح کرنے کی ترغیب دی تاکہ سوسائٹی میں بدکاری کا سلسلہ پیدا نہ ہو۔ اور نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو معاشرے میں پاکدامن بن کر رہنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد مکاتبت کا قانون بیان ہوا۔ کہ اس معاملہ میں غلاموں کے ساتھ مالی تعاون کروجو لوگ اپنی لونڈیوں سے بدکاری کے ذریعے مال کمانا چاہتے تھے ان کی مذمت بیان ہوئی۔ پھر اللہ نے نصیحت کے طور پر فرمایا کہ ہم نے تمام واضح احکام نازل کردیے ہیں اور پہلے لوگوں کی بعض مثالیں بھی پیش کی ہیں جن میں تمہارے لئے عبرت اور نصیحت کا سامان ہے۔ مشکل ترین آیت : آج کی آیت نور قرآن پاک کی مشکل ترین آیت سمجھی جاتی ہے جس میں اللہ نے اپنے آپ کو آسمانوں اور زمین کا نور قرار دے کر اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھایا ہے۔ قرآن پاک میں کئی ایک چیزوں کو نور کا نام دیا گیا ہے مثلاً قرآن پاک کے متعلق فرمایا وانزلنا الیکم نور ا مبینا (النساء 175) گویا قرآن کو نور کہا گیا ہے۔ پھر آسمانی کتابوں تورات اور انجیل کو بھی نور کہا گیا ہے۔ جیسے ارشاد ہے انا انزلنا التورۃ فیھا ھدی ونور (مائدہ 44) اسی طرح انجیل کے متعلق فرمایا واتینہ… ………ونور (مائدہ 46) حدیث (ابن ماجہ ص 310 وتفیر مظہری ص 305 ج 4 وکنز العمال ص 206 ج 7 (فیاض) میں نماز کو بھی نور کہا گیا ہے الصلوٰۃ نور المومن (ابن ماجہ) ہدایت کو بھی نور کہا گیا ہے اور اس کے برخلاف کفر ، شرک ، بدعت ، گمراہی اور برائیوں کو ظلمت اور تاریکی کا نا دیا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کی ایک مثال بیان فرمائی ہے جس کا سمجھنا انتہائی مشکل ہے اور اس کے لئے بڑی کاوش کی ضرورت ہے۔ امام غزالی (رح) نے اس آیت کی تشریح میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس کا نام مشکوۃ الانوار ہے۔ شاہ رفیع الدین محدث دہلوی (رح) نے بھی اس آیت کی تفسیر میں ایک رسالہ موسومہ (یہ رسالہ ادارہ نشرواشاعۃ مدرسہ نصرۃ العلوم نے شائع کیا ہے (فیاض) تفسیر آیت نورلکھا ہے ۔ اس رسالہ میں پچیس مختلف تفسیریں بیان کی گئی ہیں۔ امام رازی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین نے بھی اس آیت کی تشریح میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اللہ نے اپنے آپ کو آسمانوں اور زمین کا نور فرمایا ہے۔ ادھر سورج اور چاند کا اپنا نور ہے ، آگ کا بھی نور ہے مگر یہ سارے نور حادث ہیں جو اللہ نے پیدا کیے ہیں مگر اللہ تو قدیم ہے۔ چناچہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس نور کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کرکے آسمانوں اور زمین کا نور فرمایا ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ مفسرین کرام نے اپنے اپنے طریقے پر اس کی تشریح بیان کی تاکہ اس کا مطلب ہمارے ذہنوں کے قریب آسکے۔ شاہ ولی اللہ (رح) کی تفسیر : شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے اپنے فارسی ترجمہ قرآن فتح الرحمان اور اصول تفسیر کی کتاب الفوز الکبیر میں اللہ نور السموت والارض میں نور سے مراد ہادی لیا ہے ۔ اور مطلب یہ نکالا ہے کہ اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے اہل سماوات اور اہل ارض کو ، پھر فرماتے ہیں مثل نورہ کمشکوۃ فیھا مصباح اس کے نور کی مثال ایک طاق کی ہے۔ جس میں چراغ ہو۔ اس سے مراد اللہ کی دی ہوئی ہدایت اور روشنی ہے جو مومن کے دل میں ہے۔ یہ تو اللہ کے نور کی تشبیہ ہے اور اصل بات یہ ہے کہ جب عبد مومن طہارت اور خدا تعالیٰ کی عبادت پر مواظبت کرتا ہے تو اس کے اندر یہ نور پیدا ہوتا ہے اور اس کی مثال اس چراغ کے ساتھ دی ہے جس کی روشنی نہایت ہی چمکدار ہے۔ پھر اس میں جلائے جانے والے تیل کی تعریف کی ہے اور اس کی شفافیت کا ذکر کیا ہے۔ تو اس طریقے سے شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں نور سے مراد ہادی اور راہنما ہے۔ عبداللہ بن عباس ؓ کی تفسیر : حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی اسی قسم کی تفسیر منقول ہے ۔ کہ انہوں نے نور سے مراد ہادی لیا ہے یعنی خدا تعالیٰ زمین وآسمان والوں کے لئے ہادی اور راہنما ہے ، پس وہ اللہ کے دیے ہوئے نور کے ساتھ ہی حق کی طرف ہدایت پاتے ہیں ، اور اس ہدایت کے ذریعے وہ گمراہی کی حیرت سے نجات پاتے ہیں۔ گویا اس نور سے وہی نور مراد ہے جس کے ذریعے مومن آدمی خدا تعالیٰ کی ذات ، اس کی صفات اور اس کے فرمودات کی تصدیق کی طرف راہنمائی حاصل کرتا ہے اور یہ نور مومن کے دل میں ہوتا ہے۔ مومن کے دل میں تو پہلے سے ہی علوم ومعارف اور اطمینان کا نورہوتا ہے ، پھر جب اس کے پاس باہر سے کتاب و سنت کا علم آتا ہے تو اس کی روشنی بہت بڑھ جاتی ہے۔ جسے نور علی نور کا نام دیا گیا ہے۔ گویا ایک قلب کا نور ہے اور دوسرا قرآن وسنت کا۔ مومن کے دل کے ابتدائی علوم ومعارف کی بناء پر ہی حضور ﷺ کا فرمان (مظہری ص 531 ج 6 (فیاض) ہے۔ استفت قلبک ونفسک وان افتک المفتون اگرچہ مفتی لوگ تمہیں فتویٰ دیں مگر پہلے تم اپنے قلب اور نفس کے اطمینان کی حالت کو دیکھو اور اس سے دریافت کرو کہ وہ کیا کہتا ہے۔ ابی ابن کعب ؓ کی تفسیر : حضرت ابی ابن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ مشکوٰۃ سے مرادسینہ ہے ، اور مصباح سے مراد قرآن اور شیشے سے مراد مومن کا دل ہے۔ مطلب یہ کہ مرد مومن کا قلب شیشے کی طرح شفاف ہے اور اس کے سینے میں قرآن کریم کا چراغ روشن ہے۔ فرماتے ہیں کہ مومن میں چار خصلتیں پائی جاتی ہیں (1) جب اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نعمت حاصل ہو تو شکر ادا کرتا ہے (2) اگر کسی مصیبت میں گرفتار ہوجائے تو صبر سے کام لیتا ہے (3) جب وہ فیصلہ کرتا ہے تو عدل سے کرتا ہے۔ کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کرتا ۔ اور (4) جب بات کرتا ہے تو ہمیشہ سچائی کی بات کرتا ہے ، جھوٹ ، فریب اور کذب بیانی کو قریب نہیں آنے دیتا۔ ایسا شخص نور علی نور پر ہے اور وہ پانچ قسم کے انوار سے منور ہوتا ہے۔ اس کا کلام بھی ہوتا ہے اور عمل بھی۔ اس کا کسی جگہ داخل ہونا بھی نورہوتا ہے۔ اور خارج ہونا بھی نور ہوتا ہے۔ اور پانچویں بات یہ کہ اس کا چلنا بھی بالا نتہا نور کی طرف ہوگا یعنی قیامت والے دن وہ شخص جنت کی طرف چلے گا جو مقام نور ہے۔ گویا ایسے شخص کو ہر طریقے سے نور ہی نور حاصل ہوگا۔ اس تفسیر کو امام ابن کثیر (رح) نے بھی اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے۔ امام ابوبکر حصاص (رح) پہلے نور سے مراد نور توحید اور نور ایمان لیتے ہیں جو مومن کے دل میں پایا جاتا ہے اور دوسرے نور سے قرآن مراد لیتے ہیں۔ اور اس طرح قرآن وسنت کی صورت میں آنے والا بیرونی نور نور قلب میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) کی تفسیر : صاحب تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ نور السموت والارض میں نور اللہ تعالیٰ کا اسم پاک اور اس کی صفت بھی ہے۔ اللہ کے اسمائے پاک میں نور اور ہادی کے اسماء آتے ہیں۔ تو آپ فرماتے ہیں کہ یہاں پر لفظ نور فاعل کے معنوی میں استعمال ہوا ہے اللہ منور السموت والارض یعنی اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو روشن کرنے والے ہے۔ فرماتے ہیں کہ اللہ نے آسمان اور بلندی کو سورج ، چاند اور ستاروں کے ذریعے قائم کیے جانے والے نظام شمسی کے ذریعے روشن کیا ہے۔ اور زمین کی روشنی سب سے پہلے انبیاء (علیہم السلام) ، پھر ملائکہ اور پھر ایمان والوں کے ذریعے پیدا ہوتی ہے غرضیکہ قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں نور بمعنی منور آیا ہے۔ امام غزالی (رح) کی تشریح : امام غزالی (رح) نے آیت نور کی تشریح اپنی کتاب مشکوٰۃ الانوار میں کمی ہے۔ فرماتے ہیں کہ نور ایک ایسی چیز ہے جو خود ظاہر ہوتا ہے اور دوسری چیزوں کو ظاہر کرتا ہے اور اس مقام پر اللہ نور السموت والارض سے مراد یہ ہے اور اس مقام پر اللہ نور السموت والارض سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا موجد یعنی ظاہر کرنے والا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہر چیز کا موجد اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ساری کائنات کتم عدم میں تھی اور عدم سے بڑھ کر کوئی تاریکی نہیں۔ پھر اللہ نے عدم کے اندھیرے سے کائنات کو ظاہر کیا ، اس کو وجود بخشا اور وجودنور ہی ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات خدا تعالیٰ کے وجود کا عکس ہے اس طرح اللہ ہی حقیقت میں آسمانوں اور زمین کی ہستی کا موجد یعنی اس کو ظاہر کرنے والا ہے۔ فرماتے ہیں کہ کائنات کا وجود دو عدموں کے درمیان ہے۔ کائنات کی تخلیق سے پہلے بھی عدم تھا اور اس کے فنا ہوجانے کے بعد بھی عدم ہوگا ، اور جو چیز دو عدموں کے درمیان ہو وہ معدوم ہی سمجھی جاتی ہے ۔ تو اس لحاظ سے کائنات کا کوئی وجود نہیں کیونکہ یہ بالکل عارضی ہے اور فنا ہوجانے والی ہے۔ حقیقت میں وجود صرف ذات خداوندی کا ہے جو لازوال ہے بہرحال امام غزالی (رح) نے نور کو موجد کے معنی میں لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کو ظاہر کرنے والا ہے ، تاہم عام مفسرین نے نور کا معنی ہادی کیا ہے کہ آسمانوں اور زمین والوں کی راہنمائی کرنے اور ہدایت دینے والا اللہ ہی ہے۔ نورربط مدح : عربی زبان میں نور مدح کے طور پر بھی استعمال کیا گیا ہے اور اس سے مراد قبیلے کا سردار ہوتا ہے۔ مثلاً کسی قبیلے کا سردار اپنی قوم پر فخر کرتے ہوئے کہتا ہے۔ الم ترانا نور قوم وانما یبین فی الظلماء للناس نورھا کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہم قوم کے نور یعنی راہنما ہیں اور ہم ہی لوگوں کے لئے اندھیروں میں روشنی کی شمع جلاتے ہیں یعنی مشکلات میں ہم ہی کام آتے ہیں۔ جب بھی کوئی معرکہ پیش آتا ہے تو م قبیلے کے فخر کو برقرار رکھتے ہیں۔ اسی طریقے سے ایک شاعر نہ بھی کہا ہے ؎ اذا سار عبداللہ من مرولیلۃ فقد سار منھا نورھا وجما لھا جب عبداللہ کسی رات مرو سے چلا جائے تو شہر کی روشنی اور خوبصورتی ہی چلی جاتی ہے۔ یہ غالباً حضرت عبداللہ بن مبارک (رح) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپ مرو کے رہنے والے تھے۔ اس کے علاوہ محدثین کرام نے بھی نور کی تشریح بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ جب رات کو سو کر بیدار ہوتے تو اس طرح دعائیہ کلمات ادا فرماتے اللھم لک الحمد انت نورالسموت والارض ولک الحمد انت قیام السموت والارض…الخ اے اللہ سب تعریفیں تیرے لئے ہیں تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور تو ہی آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے۔ آپ یہ کلمات بھی ادا فرماتے تھے الھم اجعل فی قلبی نورا وفی بصرف نورا وفی سمعی نورا…الخ اے اللہ میرے دل میں نورہدایت ڈال دے ، اور آنکھوں اور کانوں میں نور بنادے۔ حضور ﷺ تمام اعضاء کا ذکر فرماتے کہ مولا کریم ! ان کو منور کردے۔ نور الٰہی کی مثال : فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے مثل نورہ کمشکوۃ اس کے نور کی مثال ایک طاق ہے فیھا مصباح جس میں چراغ ہو المصباح فی زجاجۃ چراغ شیشے کی قندیل میں ہو الزجاجۃ کانھا کوکب دری اور قندیل چمکدار ستارے کی طرح شفاف ہو۔ یوقد من شجرۃ مبرکۃ زیتونۃ چراغ ایسے تیل سے جلایا جاتا ہو جو زیتون کے مبارک درخت سے حاصل کیا گیا ہو۔ لا شرقیۃ ولا غربیۃ جو نہ مشرقی ہو اور نہ مغربی ۔ بعض فرماتے ہیں کہ یہاں پر خاص طور پر حضور ﷺ کے قلب مبارک کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ عتالیٰ نے آپ کے قلب میں قرآن کا نور ڈالا ہے اور آپ نہ مشرق کے رہنے والے ہیں اور نہ مغرب کے بلکہ آپ کو اللہ نے عرب کے خطہ وسطیٰ میں پیدا کیا جہاں کی بود وباش مشقت طلب تھی اور اللہ نے اس خطے میں ہدایت کے سلسلے کو جاری فرمایا۔ بعض فرماتے ہیں کہ اس سے حضور ﷺ کا قلب مراد لیا جائے یا عام ایمان والوں کا ، اس میں جس تیل کا ذکر ہے وہ باغ کے مشرق ومغرب کی بجائے وسطی حصے سے ہو ، ظاہر ہے کہ جو تیل باغ کے بیرونی گرم حصوں سے لیا جائے وہ اتنا لطیف نہیں ہوگا جتنا باغ کے وسطی حصے کے درخت سے حاصل کیا گیا ہو۔ اس لئے فرمایا کہ چراغ کو ایسے درخت کے تیل سے روشن کیا گیا ہو جو نہ شرقی ہو اور نہ غربی۔ اور وہ تیل اتنا شفاف اور لطیف ہوگا یکاد زیتھا یضیء ولولم تمسسہ نار قریب ہے وہ چمک اٹھے اگرچہ آگ اس کو چھوٹے بھی نہ۔ گویا اس تیل میں جل اٹھنے کی اتنی صلاحیت ہو کہ وہ بغیر آگ دکھائے جل اٹھے۔ چراغ کے ساتھ تشبیہ کیوں ؟ : امام ابوبکر محمد ابن عبدالقادر رازی (رح) نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کی مثال چراغ کے ساتھ کیوں دی ہے۔ حالانکہ اس کے مقابلے میں سورج لاکھوں کروڑوں درجے زیادہ چمکدار اور روشن ہے۔ پھر خدا ہی بیان کرتے ہیں کہ نور ایمان اور توحید مومن کے قلب میں ہوتا ہے ، قلب سینے اور سینہ انسان کے جسم میں ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے چراغ کی مثال ہی زیادہ موزوں ہے کہ چراغ ایک شیشے میں ہے اور شیشہ طاق میں رکھا ہوا ہے۔ یہ تشبیہ سورج کے ساتھ کسی طرح بھی موزوں نہیں ہوسکتی۔ دوسری وجہ یہ فرماتے ہیں کہ جس طرح چراغ جلانے کے لئے تیل ، بتی اور قندیل وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے ، اسی طرح نور قلب کے لئے بھی ذہن ، فہم ، بیداری اور انشراح کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی نور ایمان کو چراغ کے ساتھ ہی زیادہ مناسبت ہے کیونکہ سورج میں یہ لوازمات نہیں پائے جاتے۔ اس تشبیہ کی تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ سورج کی روشنی کا رخ عالم زیریں کی طرف ہوتا ہے جب کہ نور معرفت کا رخ عالم بالا کی طرف ہوتا ہے۔ چراغ کی روشنی کا رخ بھی چونکہ اوپر کی طرف ہوتا ہے اس لئے چراغ کی مثال بیان کی گئی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ سورج کی روشنی تو صرف دن کے وقت ہوتی ہے۔ چونکہ نور معروفت بھی دن رات جاری رہتا ہے ، اس لئے اس کی چراغ کے ساتھ زیادہ مشابہت ہے۔ اس تشبیہ کی پانچویں وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ سورج کی روشنی اور گرمی تو مومن کافر ، ملحد سب کے لئے یکساں مفید ہے۔ جب کہ نور معرفت خواص کو حاصل ہوتا ہے۔ چونکہ چراغ کی روشنی بھی عام کے لئے نہیں بلکہ خواص کے لئے ہوتی ہے ، اس لئے نور کو چراغ کے ساتھ تشبیہ دی گئی۔ بعض کہتے ہیں کہ نور الٰہی کو چراغ کی بجائے شمع کے ساتھ تشبیہ دینی چاہیے تھی ، مگر امام ابوبکر بن عبدالقادر رازی (رح) فرماتے ہیں کہ یہ نسبت بھی مناسب نہیں کیونکہ شمع میں روشنی والے اصل مادہ کے علاوہ ملاوٹ بھی ہوتی ہے۔ جس کہ نور ایمان کسی ملاوٹ سے بالکل پاک ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ شمع کا فوری جلانا صرف اغنیا کا کام ہے جس میں غرباء کو حصہ نہیں ملتا۔ اس کے برخلاف نور معرفت زیادہ فقرا کے حصے میں آتا ہے ، اس لئے بھی شمع کے ساتھ تشبیہ موزوں نہیں ہے۔ قلب کی حالت : مسند احمد میں ابو سعیدخدری ؓ سے روایت بیان کی گئی ہے۔ کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ قلوب چار قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کو قلب اجرد کہا جاتا ہے جو بالکل صاف شفاف ہوتا ہے اور جس میں نور ایمان کا چراغ روشن ہوتا ہے یہ مومن کا قلب ہے دوسری قسم کا قلب بند قلب ہوتا ہے اور جس پر غلاف چڑھا ہوتا ہے ، یہ کافر کا دل ہے جس میں ہدایت کی کوئی چیز داخل نہیں ہوتی۔ تیسرا قلب الٹا ہے جو منافق کا ہے ۔ وہ حقیقت کو دل سے تسلیم نہیں کرتا ، بلکہ پہچان کر پھر انکار کردیتا ہے۔ چوتھا دل پہلودا ر ہے۔ اس کے کئی پہلو ہیں ، کسی میں ایمان ہے اور کسی میں نفاق ہے ۔ ایمان کی مثال ایک پاکیزہ پودے کی ہے جس کو پانی ملتا رہے تو وہ نشونما پاتا رہتا ہے اور خوب پھلتا پھولتا ہے اس کے برخلاف نفاق کی مثال ایک پھوڑے کی ہے جس میں خون اور پیپ دو قسم کے مادے پائے جاتے ہیں۔ اگر خون غالب آجائے تو آدمی صحت یاب ہوجاتا ہے اور اگر پیپ غالب آجائے تو وہ مہلک ثابت ہوتی ہے ، منافق کا دل بھی ایسا ہی ہے۔ اگر اس میں ایمان کو غلبہ ہوجائے تو وہ ایماندار بن جاتا ہے اور اگر نفاق غالب آجائے تو کافر ہوجاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ (رح) کا فلسفہ : امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے تفیہمات الٰہیہ میں بیان کیا ہے کہ اس مقام پر قلب سے مراد قلب محمدی بھی ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ نے سب سے زیادہ روشنی اسی قلب میں رکھی ہے۔ تاہم عام مومنین کے قلوب بھی مراد ہوسکتے ہیں۔ آپ نے اپنی کتاب سطعات میں لکھا ہے کہ اگر کج فہمی مانع نہ ہو تو میں یہ کہوں گا کہ یہاں بیان کردہ مثال کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے طلسم الٰہی کو ظاہر کیا ہے۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ربط یا تعلق کائنات کے ساتھ کس طرح ہے۔ فرماتے ہیں کہ ساری کائنات ایک شخص واحد کی طرح ہے جس کے اندر تجلی اعظم کار فرما ہے۔ یہ تجلی سب سے پہلے خطیرہ القدس کے مقام پر اترتی ہے۔ پھر یہ عالم مثال کے ذریعے ملاء اعلیٰ اور ملاء سافل کے فرشتوں تک پہنچتی ہے۔ عالم مثال مادی جہان اور مجرد جہان کے درمیان واقع ہے مگر اس کی نسبت مادی جہان سے کم اور مجرد جہان کے ساتھ زیادہ ہے۔ تاہم یہ درمیان میں ایک واسطہ ہے جس کے ذریعے تجلی اعظم فرشتوں تک پہنچتی ہے اور پھر فرشتوں کے ذریعے اس کا ظہور تمام کائنات پر ہوتا ہے۔ خلاصہ کلام : بہرحال مفسرین کرام نے اس مشکل ترین آیت کی تشریح مختلف طریقوں سے بیان کی ہے۔ میں نے ان میں سے آسان آسان باتیں ذکر کردی ہیں۔ ان میں سے ہادی یا منور یا موجدنور الٰہی کے آسان مطالب ہیں اور اس نور کو حضور ﷺ کے قلب مبارک اور عام مومنین کے قلب پرچیاں کرنا زیادہ آسان ہے۔ فرمایا نور علی نور روشنی ہے۔ یعنی ایک روشنی مومن کے نور ایمان اور نور توحید کی روشنی ہے اور باہر سے آنے والی قرآن وسنت کی روشنی ہے یہ مل کر نور علی نور ہوجاتا ہے اور پھر یھدی اللہ لنورہ من یشاء ، اللہ تعالیٰ اپنے نور کے لئے جس کو چاہتا ہے راہ دکھاتا ہے۔ ویضرب اللہ الامثال للناس اور لوگوں کو سمجھانے کے لئے مثالیں بھی بیان کرتا ہے واللہ بکل شیء علیہم اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ کوئی چیز اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں ہے۔
Top