Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 23
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ١٘ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ١٘ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ١ۙ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ
حُرِّمَتْ : حرام کی گئیں عَلَيْكُمْ : تم پر اُمَّھٰتُكُمْ : تمہاری مائیں وَبَنٰتُكُمْ : اور تمہاری بیٹیاں وَاَخَوٰتُكُمْ : اور تمہاری بہنیں وَعَمّٰتُكُمْ : اور تمہاری پھوپھیاں وَخٰلٰتُكُمْ : اور تمہاری خالائیں وَبَنٰتُ الْاَخِ : اور بھتیجیاں وَبَنٰتُ : بیٹیاں الْاُخْتِ : بہن وَاُمَّھٰتُكُمُ : اور تمہاری مائیں الّٰتِيْٓ : وہ جنہوں نے اَرْضَعْنَكُمْ : تمہیں دودھ پلایا وَاَخَوٰتُكُمْ : اور تمہاری بہنیں مِّنَ : سے الرَّضَاعَةِ : دودھ شریک وَ : اور اُمَّھٰتُ نِسَآئِكُمْ : تمہاری عورتوں کی مائیں وَرَبَآئِبُكُمُ : اور تمہاری بیٹیاں الّٰتِيْ : جو کہ فِيْ حُجُوْرِكُمْ : تمہاری پرورش میں مِّنْ : سے نِّسَآئِكُمُ : تمہاری بیبیاں الّٰتِيْ : جن سے دَخَلْتُمْ : تم نے صحبت کی بِهِنَّ : ان سے فَاِنْ : پس اگر لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ : تم نے نہیں کی صحبت بِهِنَّ : ان سے فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر وَحَلَآئِلُ : اور بیویاں اَبْنَآئِكُمُ : تمہارے بیٹے الَّذِيْنَ : جو مِنْ : سے اَصْلَابِكُمْ : تمہاری پشت وَاَنْ : اور یہ کہ تَجْمَعُوْا : تم جمع کرو بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ : دو بہنوں کو اِلَّا مَا : مگر جو قَدْ سَلَفَ : پہلے گزر چکا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
حرام قرار دی گئی ہیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں او تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی بیٹیاں اور بہن کی بیٹیاں اور حرام قرا ردی گئی ہیں تم پر تمہاری وہ مائیں۔ جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اور تمہاری دودھ کی بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری وہ پروردہ بچیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں تمہاری عورتیں میں سے جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہے اگر تم نے ان سے صحبت نہیں کی تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے (کہ تم ان کی لڑکیوں سے نکاح کرو) اور (تم پر حرام قرار دی گئی ہیں) تمہارے ان بیٹوں کی عورتیں جو تمہاری پشت سے ہیں۔ اور (تم پر حرام قرار دی گئی ہے یہ بات) کہ تم اکٹھا کرو دو بہنوں کو (بیک وقت) مگر وہ جو پہلے بات جو ہوچکی ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا اور مہربان ہے
حرمت بوجہ رضاعت نسب کے لحاظ سے حرام عورتوں کا ذکر گزشتہ درس میں ہوچکا ہے۔ اب آج کے درس میں رضاعت اور مصاہرت کی بناء پر حرام ہونے والی عورتوں کا تذکرہ آئے گا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا وامھتکم التی ارضعنکم اور تمہاری وہ مائیں تم پر حرام قرار دی گئی ہیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے واخوتکم من الرضاعۃ اور تمہاری دودھ شریک بہنیں بھی تم پر حرام ہیں۔ آیت کریمہ میں رضاعت کے اعتبار سے صرف دورشتوں یعنی ماں اور بہن کا ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے اس کی وضاحت میں فرمایا یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب یعنی جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہیں۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ جس بچے نے جس عورت کا دودھ پیا وہ عورت بچے کی رضاعی ماں بن گئی۔ اس عورت کی بیٹیاں اس کی بہنیں ہوگئیں اور عورت کے بیٹے اس بچے کے رضاعی بھائی بن گئے۔ اسی طرح عورت کا خاوند دودھ پینے والے بچے کا رضاعی باپ ٹھہرا۔ اور اس رضاعی باپ کا بھائی بچے کا رضاعی چچا ہوا۔ لہٰذا جس طرح رضاعی ماں اور رضاعی بہن کے ساتھ نکاح حرام ہے اسی طرح رضاعی بھتیجی ، رضاعی بھانجی ، رضاعی پھوپھی اور رضاعی خالہ کے ساتھ بھی نکاح حرام ہوگیا۔ غرض یہ کہ جو رشتے نسب کے اعتبار سے حرام ہیں ، وہ رضاعت کے اعتبار سے بھی حرام ہیں۔ اور جب ماں حرام ہوگئی تو نانی ، پڑنانی وغیرہ بھی حرام ٹھہریں۔ مدت رضاعت رضاعت کی مدت کے تعین کے سلسلے میں فقہائے کرام کے دو گروہ ہیں۔ امام شافعی (رح) ، امام مالک (رح) ، امام احمد (رح) ، امام محمد (رح) اور امام ابو یوسف (رح) فرماتے ہیں۔ کہ رضاعت کی مدت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے۔ اگر کسی بچے نے دو سال کے دوران کسی عورت کا دودھ پیا ہے تو وہ عورت اس کی رضاعی ماں بن گئی اور اس لحاظ سے باقی تمام رضاعی رشتے بھی وجود میں آئے۔ اور ان رشتوں پر وہ تمام احکام نافذ ہوں گے جو حقیقی ماں کے رشتہ داروں پر عائد ہوتے ہیں۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ رضاعت کی مدت اڑھائی سال ہے۔ اڑھائی سال کے اندر اندر دودھ پینے سے رضاعت کے تمام احکام نافذ العمل ہوں گے۔ مدت رضاعت کے بعد اگر کسی بچے یا بڑے نے کسی عورت کا دودھ پیا تو اس کی رضاعت الرضاعۃ من المجاعۃ یعنی رضاعت کا اعتبار اس مدت تک کے لیے ہے جب تک بچے کو بھوک لگتی ہے مگر وہ کھانا نہیں کھا سکتا اور صرف دودھ ہی اس کی خوراک ہوتا ہے۔ رضاعت کے دیگر مسائل رضاعی ماں حقیقی ماں کی مانند ہوتی ہے ، اس سے پردہ نہیں ہوتا انسان اس کے ساتھ تنہائی میں بیٹھ سکتا ہے ۔ البتہ بعض احکام حقیقی ماں سے مختلف بھی ہوتے ہیں مثلاً حقیقی ماں اگر محتاج ہے تو اس کا خرچہ بیٹے کے ذمہ ہے مگر رضاعی ماں کے لیے یہ ضروری نہیں ہے ۔ حقیقی ماں کی وراثت بیٹے کو اور بیٹے کی ماں کو پہنچتی ہے مگر رضاعی ماں بیٹے کے درمیان وراثت نہیں چلتی۔ رضاعت ثابت ہونے کے لیے دودھ کی مقدار سلسلہ میں فقہائے کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ بچہ کم ازکم تین گھونٹ دودھ پئے تو رضاعت ثابت ہوتی ہے۔ امام شافعی (رح) پانچ گھونٹ کے قابل ہیں۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) اور اما م مالک (رح) فرماتے ہیں کہ اگر بچہ اتنی مقدار میں دودھ پی لے جس سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے تو رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔ اور روزہ ٹوٹنے کے لیے ایک قطرہ کی مقدار بھی کافی ہے اگر حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ فاسد ہوگیا۔ اس لحاظ سے رضاعت ثابت ہونے کے لیے ایک قطرہ دودھ پی لینا بھی کافی ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ دودھ حلق یاناک کے ذریعے سے جسم میں داخل ہوا ہو۔ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب (رح) فرماتے ہیں۔ کہ اگر کسی دیگر ذرائع مثلاً انجکشن وغیرہ کے ذریعہ دودھ داخل ہوا تو رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔ یہ مسئلہ بھی قابل ذکر ہے کہ رضاعت صرف عورت کا دودھ پینے سے بنتی ہے اگر دودھ بچے کسی ایک بکری یا گاڑے یا بھینس کا دودھ پی لیں تو وہ رضاعی بہن بھائی نہیں بنتے۔ البتہ اگر جانور کادودھ ملاکر پیا جائے تو مرکب میں جس دودھ کا غلبہ ہوگا اس کے مطابق حکم نافذ ہوگا۔ اگر عورت کا دودھ دوچھٹانک ہے اور بکری وغیرہ کا ایک چھٹانک تو رضاعت ثابت ہوجائے گی کیونکہ غلبہ عورت کے دودھ کو حاصل ہے اس کے برخلاف اگر گائے کا دودھ دوچھٹانک اور عورت کا ایک چھٹانک تو رضاعت قائم نہیں ہوگی۔ فقہائے کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے مرد کو دودھ اترا اور کوئی بچہ وہ دودھ پی لے تو اس سے بھی رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔ کیونکہ رضاعت صرف عورت کا دودھ پینے سے بنتی ہے۔ رضاعت کے متعلق گواہی کا ایک قانونی مسئلہ بھی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ اگر دو مرد اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں فلاں نے عورت کا دودھ پیا تو رضاعت ثابت ہوگی۔ بعض اوقات نکاح ہوجاتا ہے مگر بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی دودھ شریک ہیں تو ایسی صورت میں کم ازکم دو مردوں کی گواہی ہونی چاہیے۔ البتہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اگر ایک مرد اور ایک عورت بھی گواہی دے دیں تو مرد کو چاہیے کہ بیوی کو علیحدہ کردے۔ بہرحال قانونی لحاظ سے شہادت کی تکمیل لازم ہے بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ایک جوڑے کا نکاح ہوگیا۔ بعد میں ایک عورت نے انکشاف کیا کہ اس نے ان دونوں میاں بیوی کو دودھ پلایا تھا۔ جب حضور ﷺ کے سامنے مسئلہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ جب یہ بات کہہ دی گئی ہے تو بہتر ہے کہ ان میں تفریق کردو۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ رضاعی بھائی یا رضاعی بہن کی نسبی ماں سے نکاح جائز ہے۔ اسی طرح حقیقی بہن کی رضاعی ماں سے بھی نکاح ہوسکتا ہے۔ رضاعی بہن کی نسبی بہن کے ساتھ بھی نکاح درست ہے۔ یہ بعض استثناء ہیں اس کے علاوہ رضاعی بھتیجی یا بھانجی یا خلہ یا پھوپھی وغیرہ سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ وہ حقیقی رشتوں کی طرح ہی حرام ہیں۔ اسی طرح رضاعی چچا حقیقی چچا کی طرح ہی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی نکاح نہیں ہوسکتا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ………… اور حضرت حفصہ ؓ کی روایت میں موجود ہے۔ کہ ان کے رضاعی چچا ملنے کے لیے آئے تو ام المومنین نے اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ جب حضور ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا وہ تمہارے حقیقی چچا کی طرح ہے اس سے کوئی پردہ نہیں۔ رضاحت کی حکمت رضاعت کی بنا پر حرمت پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی مصلحت رکھی ہے اور اس میں شریعت کی بہت بڑی حکمت ہے۔ یورپ اور دہریہ ممالک میں نامعلوم عورتیں نوزائیدہ بچوں کو دودھ پلا دیتی ہیں مگر بعد میں ان کی کوئی شناخت نہیں رہتی۔ بعض اوقات ہسپتالوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو نرسیں دودھ پلادیتی ہیں مگر کون جانتا ہے کہ اسے کس نے دودھ پلایا تھا اور کون کون اس کی رضاعی بھائی یا رضاعی بہن ہے ، خود دودھ پلانے والی عورت نہ ماں بنتی ہے اور نہ دودھ پینے والا اس کا بیٹا بنتا ہے۔ یہ نہایت ہی قبیح چیز ہے۔ دودھ میں شرکت کی وجہ سے رضاعی بہن بھائیوں کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے اور پینے اور پلانے والی کی حیثیت بیٹے اور ماں کی ہوتی ہے اور ان کے درمیان نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتا ہے۔ اس کے برخلاف اسلام نے رضاعت کا ایسا اصول قائم کردیا ہے جس سے انسانی سوسائٹی میں اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ ایک امیر کبیر آدمی حتی کہ بادشاہ کا بیٹا بھی اگر کسی غریب عورت کا دودھ پیتا ہے۔ تو اس عورت کے بچے بڑے آدمی کے بیٹے کے بھائی بہن بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون نافذ کرکے کتنی بڑی مہربانی فرمائی ہے۔ اس طرح سوسائٹی میں محبت اور احترام پیدا ہوگا ، اور بہت حد تک مساوات قائم ہوگی ، خود حضور ﷺ نے جس عورت کا دودھ پیا تھا وہ عورت خود یا اس کی بیٹی غزوہ حنین کے موقع پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ تو حضور ﷺ نے اس کے لیے اپنی چادر مبارک اتار کر بچھادی۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کون عورت ہے جس کو اتنا بڑا اعزاز حاصل ہوا ہے تو بتلایا کہ یہ حضور کی رضاعی والدہ یا رضاعی بہن ہے۔ دودھ پلانے والی ماں کے ساتھ حسن سلوک کا بھی حکم ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ جس عورت کا دودھ پیا ہے اس کے ساتھ کیا احسان کیا جائے۔ فرمایا اس کے ساتھ کافی احسان کیا جائے کہ یہ دودھ پینے والے کی ذمہ داری ہے۔ اپنی رضاعی ماں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ حسن سلوک کرکے ہی بیٹا اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوسکتا ہے۔ بہرحال رضاعت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت رکھی ہے کہ اس کی وجہ سے جذبہ احسان ومروت پیدا ہوتا ہے اور آپس میں اخوت کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ حرمت بوجہ مصاہرت نسب کی بنا پر حرام ہونے والی عورتوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مصاہرت کی وجہ سے حرام ہونے والی عورتوں کے متعلق فرمایا وامھت نساء کم اور تمہاری عورتوں کی مائیں بھی تم پر حرام قرار دی گئی ہیں۔ گویا ساس کے ساتھ نکاح بھی ہمیشہ کے لیے حرام ہوگیا۔ اس کے علاوہ فرمای اور بائبکم التی فی حجورکم من نسائکم التی دخلتم بھن اور تمہاری وہ پروردہ بچیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں اور تمہاری ان عورتوں سے ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو ، وہ بھی تمہارے لیے حرام قرار دی گئی ہیں۔ فان لم تکونو دخلتم بھن فلا جناح علیکمالبتہ اگر تم نے اپنی منکوحہ عورتوں سے صحبت نہیں کی تو ایسی صورت میں اس کی بیٹی کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ مثلاً کسی شخص کی بیوی فوت ہوگئی یا اس کو طلاق دے دی گئی تو اب اگر اس عورت سے ہم بستری نہیں ہوئی تو اس کی لڑکی سے نکاح درست ہے۔ اور اگر اس سے صحبت ہوچکی ہے تو پھر اس کی لڑکی ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی۔ یاد رہے کہ صحبت کی شرط کسی عورت کی بیٹی کے ساتھ نکاح کے لیے ہے ، البتہ اس عورت کی ماں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے خواہ اس عورت کے ساتھ صحبت ہوئی یا نہ ہوئی ہو۔ آگے فرمایا وحلائل ابنائکم الذین من اصلابکم اور تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تمہارے لیے حرا م ہیں۔ یعنی حقیقی بیٹے کی بیوی اپنے سسر کے نکاح میں نہیں آسکتی یہ نکاح بھی ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے۔ البتہ لے پالک یا متنہ بولا بیٹا اس قانون کی زد میں نہیں آتا۔ اس سلسلہ میں حضور ﷺ کا اپنا عمل موجود ہے۔ آپ کے منہ بولے بیٹے زید ؓ نے جب اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو خود حضور ﷺ نے اس سے نکاح کرلیا منافقوں نے اس سلسلے میں بڑا شوروغل کیا اور معاملے کو اچھالنے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے ذریعے معاملے کی وضاحت فرمادی۔ فلما قضی زید منھا وطراً زوجنکھا لکیلا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیائھم یعنی جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اسے آپ کے نکاح میں دے دیا تاکہ مومنوں پر ان کے لے پالک بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے۔ دو بہنوں کا اجتماع اس کے بعد فرمایا وان تجمعوابین الاختین اور تم پر یہ چیز بھی حرام قرار دی گئی ہے کہ دو بہنوں کو بیک وقت اکٹھا کرو یعنی ان سے نکاح کرو۔ ایک وقت میں ایک ہی بہن سے نکاح ہو سکتا ہے۔ البتہ الاماقدسلف جو اس سے پہلے ہوچکا وہ جہالت اور نادانی کی وجہ سے تھا۔ اس پر کچھ مواخذہ نہیں ۔ اور اگر اس حکم کے نزول کے وقت کسی کے نکاح میں دوسگی بہنیں موجود تھیں تو ان میں سے ایک کو الگ کردیا گیا۔ جیسا کہ حضرت ضحاک ؓ ابن فیرز صحابی رسول اللہ ﷺ کا واقعہ ہے۔ آپ دیلم کے رہنے والے تھے اس لیے فیروز دیلمی ؓ کہلاتے تھے ۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کے نکاح میں دو سگی بہنیں تھیں آپ نے فرمایا کہ ایک کو طلاق دے دو ۔ چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اسی طرح غیلان ؓ بن سلمہ ثقضی کے نکاح میں دس عورتیں تھیں۔ حضور ﷺ نے حکم دیا کہ ان میں سے چار کو رکھ لو باقیوں کو الگ کردو۔ اس مقام پر یہ مسئلہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ جس طرح دو بہنوں کے ساتھ بیک وقت نکاح نہیں ہوسکتا اسی طرح ایک عورت اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ یا اس کی بھتیجی یا اس کی بھانجی بھی ایک وقت میں نہیں رکھی جاسکتیں۔ ہاں ان میں سے کوئی ایک فوت ہوجائے یا طلاق واقع ہواجئے تو دوسری کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے۔ اسی لیے یہ حرمت ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ ایک کے بعد دوسری کے ساتھ نکاح درست ہے فرمایا پیچھے جو کچھ ہوچکا ، سو ہوچکا ، اس کی باز پرس نہیں ، کیونکہ فرمایا وامھت نساء کم اور تمہاری عورتوں کی مائیں بھی تم پر حرام قرار دی گئی ہیں۔ گویا ساس کے ساتھ نکاح بھی ہمیشہ کے لیے حرام ہوگیا۔ اس کے علاوہ فرمایا وربائبکم التی فی ان اللہ کان غفورا رحیما خدا تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ اس نے نادانی کی بنا پر ہونے والی خطا کو معاف فرمادیا۔ اب آئندہ اس کی اجازت نہیں۔ کل کے درس میں مانکح ابائوکم آیا تھا۔ یعنی تم پر تمہاری سوتیلی مائیں حرام ہیں وہاں پر بھی الا ما قد سلف کے الفاظ آئے کہ جو کچھ پہلے ہوچکا ، اس سے درگزر کیا گیا ہے ، اب آئندہ اس فعل کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔ مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرلیا تھا۔ اس کو سمجھایا گیا مگر وہ باز نہ آیا تو حضور ﷺ نے ایک صحابی کو جھنڈا باندھ کردیا اور فرمایا کہ فلاں شخص کا سرقلم کردو یعنی اس کو تعزیراً قتل کردو کہ اس نے اپنی ماں کے ساتھ نکاح کررکھا ہے اور کہنے سے بھی باز نہیں آتا۔ یہ شخص انسانیت کا دشمن ہے۔ اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ محرمات کا تذکرہ ہوچکا۔ اب اگلی آیت میں کسی دوسرے شخص کو منکوحہ عورت سے نکاح کی حرمت کا بیان آئے گا۔
Top