Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 23
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ١٘ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ١٘ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ١ۙ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ
حُرِّمَتْ
: حرام کی گئیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اُمَّھٰتُكُمْ
: تمہاری مائیں
وَبَنٰتُكُمْ
: اور تمہاری بیٹیاں
وَاَخَوٰتُكُمْ
: اور تمہاری بہنیں
وَعَمّٰتُكُمْ
: اور تمہاری پھوپھیاں
وَخٰلٰتُكُمْ
: اور تمہاری خالائیں
وَبَنٰتُ الْاَخِ
: اور بھتیجیاں
وَبَنٰتُ
: بیٹیاں
الْاُخْتِ
: بہن
وَاُمَّھٰتُكُمُ
: اور تمہاری مائیں
الّٰتِيْٓ
: وہ جنہوں نے
اَرْضَعْنَكُمْ
: تمہیں دودھ پلایا
وَاَخَوٰتُكُمْ
: اور تمہاری بہنیں
مِّنَ
: سے
الرَّضَاعَةِ
: دودھ شریک
وَ
: اور
اُمَّھٰتُ نِسَآئِكُمْ
: تمہاری عورتوں کی مائیں
وَرَبَآئِبُكُمُ
: اور تمہاری بیٹیاں
الّٰتِيْ
: جو کہ
فِيْ حُجُوْرِكُمْ
: تمہاری پرورش میں
مِّنْ
: سے
نِّسَآئِكُمُ
: تمہاری بیبیاں
الّٰتِيْ
: جن سے
دَخَلْتُمْ
: تم نے صحبت کی
بِهِنَّ
: ان سے
فَاِنْ
: پس اگر
لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ
: تم نے نہیں کی صحبت
بِهِنَّ
: ان سے
فَلَا جُنَاحَ
: تو نہیں گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَحَلَآئِلُ
: اور بیویاں
اَبْنَآئِكُمُ
: تمہارے بیٹے
الَّذِيْنَ
: جو
مِنْ
: سے
اَصْلَابِكُمْ
: تمہاری پشت
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَجْمَعُوْا
: تم جمع کرو
بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ
: دو بہنوں کو
اِلَّا مَا
: مگر جو
قَدْ سَلَفَ
: پہلے گزر چکا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
رَّحِيْمًا
: مہربان
حرام قرار دی گئی ہیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں او تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی بیٹیاں اور بہن کی بیٹیاں اور حرام قرا ردی گئی ہیں تم پر تمہاری وہ مائیں۔ جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اور تمہاری دودھ کی بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری وہ پروردہ بچیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں تمہاری عورتیں میں سے جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہے اگر تم نے ان سے صحبت نہیں کی تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے (کہ تم ان کی لڑکیوں سے نکاح کرو) اور (تم پر حرام قرار دی گئی ہیں) تمہارے ان بیٹوں کی عورتیں جو تمہاری پشت سے ہیں۔ اور (تم پر حرام قرار دی گئی ہے یہ بات) کہ تم اکٹھا کرو دو بہنوں کو (بیک وقت) مگر وہ جو پہلے بات جو ہوچکی ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا اور مہربان ہے
حرمت بوجہ رضاعت نسب کے لحاظ سے حرام عورتوں کا ذکر گزشتہ درس میں ہوچکا ہے۔ اب آج کے درس میں رضاعت اور مصاہرت کی بناء پر حرام ہونے والی عورتوں کا تذکرہ آئے گا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا وامھتکم التی ارضعنکم اور تمہاری وہ مائیں تم پر حرام قرار دی گئی ہیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے واخوتکم من الرضاعۃ اور تمہاری دودھ شریک بہنیں بھی تم پر حرام ہیں۔ آیت کریمہ میں رضاعت کے اعتبار سے صرف دورشتوں یعنی ماں اور بہن کا ذکر کیا گیا ہے۔ تاہم حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے اس کی وضاحت میں فرمایا یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب یعنی جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہیں وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہیں۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ جس بچے نے جس عورت کا دودھ پیا وہ عورت بچے کی رضاعی ماں بن گئی۔ اس عورت کی بیٹیاں اس کی بہنیں ہوگئیں اور عورت کے بیٹے اس بچے کے رضاعی بھائی بن گئے۔ اسی طرح عورت کا خاوند دودھ پینے والے بچے کا رضاعی باپ ٹھہرا۔ اور اس رضاعی باپ کا بھائی بچے کا رضاعی چچا ہوا۔ لہٰذا جس طرح رضاعی ماں اور رضاعی بہن کے ساتھ نکاح حرام ہے اسی طرح رضاعی بھتیجی ، رضاعی بھانجی ، رضاعی پھوپھی اور رضاعی خالہ کے ساتھ بھی نکاح حرام ہوگیا۔ غرض یہ کہ جو رشتے نسب کے اعتبار سے حرام ہیں ، وہ رضاعت کے اعتبار سے بھی حرام ہیں۔ اور جب ماں حرام ہوگئی تو نانی ، پڑنانی وغیرہ بھی حرام ٹھہریں۔ مدت رضاعت رضاعت کی مدت کے تعین کے سلسلے میں فقہائے کرام کے دو گروہ ہیں۔ امام شافعی (رح) ، امام مالک (رح) ، امام احمد (رح) ، امام محمد (رح) اور امام ابو یوسف (رح) فرماتے ہیں۔ کہ رضاعت کی مدت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے۔ اگر کسی بچے نے دو سال کے دوران کسی عورت کا دودھ پیا ہے تو وہ عورت اس کی رضاعی ماں بن گئی اور اس لحاظ سے باقی تمام رضاعی رشتے بھی وجود میں آئے۔ اور ان رشتوں پر وہ تمام احکام نافذ ہوں گے جو حقیقی ماں کے رشتہ داروں پر عائد ہوتے ہیں۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ رضاعت کی مدت اڑھائی سال ہے۔ اڑھائی سال کے اندر اندر دودھ پینے سے رضاعت کے تمام احکام نافذ العمل ہوں گے۔ مدت رضاعت کے بعد اگر کسی بچے یا بڑے نے کسی عورت کا دودھ پیا تو اس کی رضاعت الرضاعۃ من المجاعۃ یعنی رضاعت کا اعتبار اس مدت تک کے لیے ہے جب تک بچے کو بھوک لگتی ہے مگر وہ کھانا نہیں کھا سکتا اور صرف دودھ ہی اس کی خوراک ہوتا ہے۔ رضاعت کے دیگر مسائل رضاعی ماں حقیقی ماں کی مانند ہوتی ہے ، اس سے پردہ نہیں ہوتا انسان اس کے ساتھ تنہائی میں بیٹھ سکتا ہے ۔ البتہ بعض احکام حقیقی ماں سے مختلف بھی ہوتے ہیں مثلاً حقیقی ماں اگر محتاج ہے تو اس کا خرچہ بیٹے کے ذمہ ہے مگر رضاعی ماں کے لیے یہ ضروری نہیں ہے ۔ حقیقی ماں کی وراثت بیٹے کو اور بیٹے کی ماں کو پہنچتی ہے مگر رضاعی ماں بیٹے کے درمیان وراثت نہیں چلتی۔ رضاعت ثابت ہونے کے لیے دودھ کی مقدار سلسلہ میں فقہائے کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ امام احمد (رح) فرماتے ہیں کہ بچہ کم ازکم تین گھونٹ دودھ پئے تو رضاعت ثابت ہوتی ہے۔ امام شافعی (رح) پانچ گھونٹ کے قابل ہیں۔ البتہ امام ابوحنیفہ (رح) اور اما م مالک (رح) فرماتے ہیں کہ اگر بچہ اتنی مقدار میں دودھ پی لے جس سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے تو رضاعت ثابت ہوجاتی ہے۔ اور روزہ ٹوٹنے کے لیے ایک قطرہ کی مقدار بھی کافی ہے اگر حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ فاسد ہوگیا۔ اس لحاظ سے رضاعت ثابت ہونے کے لیے ایک قطرہ دودھ پی لینا بھی کافی ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ دودھ حلق یاناک کے ذریعے سے جسم میں داخل ہوا ہو۔ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب (رح) فرماتے ہیں۔ کہ اگر کسی دیگر ذرائع مثلاً انجکشن وغیرہ کے ذریعہ دودھ داخل ہوا تو رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔ یہ مسئلہ بھی قابل ذکر ہے کہ رضاعت صرف عورت کا دودھ پینے سے بنتی ہے اگر دودھ بچے کسی ایک بکری یا گاڑے یا بھینس کا دودھ پی لیں تو وہ رضاعی بہن بھائی نہیں بنتے۔ البتہ اگر جانور کادودھ ملاکر پیا جائے تو مرکب میں جس دودھ کا غلبہ ہوگا اس کے مطابق حکم نافذ ہوگا۔ اگر عورت کا دودھ دوچھٹانک ہے اور بکری وغیرہ کا ایک چھٹانک تو رضاعت ثابت ہوجائے گی کیونکہ غلبہ عورت کے دودھ کو حاصل ہے اس کے برخلاف اگر گائے کا دودھ دوچھٹانک اور عورت کا ایک چھٹانک تو رضاعت قائم نہیں ہوگی۔ فقہائے کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے مرد کو دودھ اترا اور کوئی بچہ وہ دودھ پی لے تو اس سے بھی رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔ کیونکہ رضاعت صرف عورت کا دودھ پینے سے بنتی ہے۔ رضاعت کے متعلق گواہی کا ایک قانونی مسئلہ بھی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ اگر دو مرد اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں فلاں نے عورت کا دودھ پیا تو رضاعت ثابت ہوگی۔ بعض اوقات نکاح ہوجاتا ہے مگر بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی دودھ شریک ہیں تو ایسی صورت میں کم ازکم دو مردوں کی گواہی ہونی چاہیے۔ البتہ احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اگر ایک مرد اور ایک عورت بھی گواہی دے دیں تو مرد کو چاہیے کہ بیوی کو علیحدہ کردے۔ بہرحال قانونی لحاظ سے شہادت کی تکمیل لازم ہے بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ایک جوڑے کا نکاح ہوگیا۔ بعد میں ایک عورت نے انکشاف کیا کہ اس نے ان دونوں میاں بیوی کو دودھ پلایا تھا۔ جب حضور ﷺ کے سامنے مسئلہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ جب یہ بات کہہ دی گئی ہے تو بہتر ہے کہ ان میں تفریق کردو۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ رضاعی بھائی یا رضاعی بہن کی نسبی ماں سے نکاح جائز ہے۔ اسی طرح حقیقی بہن کی رضاعی ماں سے بھی نکاح ہوسکتا ہے۔ رضاعی بہن کی نسبی بہن کے ساتھ بھی نکاح درست ہے۔ یہ بعض استثناء ہیں اس کے علاوہ رضاعی بھتیجی یا بھانجی یا خلہ یا پھوپھی وغیرہ سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ وہ حقیقی رشتوں کی طرح ہی حرام ہیں۔ اسی طرح رضاعی چچا حقیقی چچا کی طرح ہی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ بھی نکاح نہیں ہوسکتا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ………… اور حضرت حفصہ ؓ کی روایت میں موجود ہے۔ کہ ان کے رضاعی چچا ملنے کے لیے آئے تو ام المومنین نے اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ جب حضور ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا وہ تمہارے حقیقی چچا کی طرح ہے اس سے کوئی پردہ نہیں۔ رضاحت کی حکمت رضاعت کی بنا پر حرمت پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی مصلحت رکھی ہے اور اس میں شریعت کی بہت بڑی حکمت ہے۔ یورپ اور دہریہ ممالک میں نامعلوم عورتیں نوزائیدہ بچوں کو دودھ پلا دیتی ہیں مگر بعد میں ان کی کوئی شناخت نہیں رہتی۔ بعض اوقات ہسپتالوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو نرسیں دودھ پلادیتی ہیں مگر کون جانتا ہے کہ اسے کس نے دودھ پلایا تھا اور کون کون اس کی رضاعی بھائی یا رضاعی بہن ہے ، خود دودھ پلانے والی عورت نہ ماں بنتی ہے اور نہ دودھ پینے والا اس کا بیٹا بنتا ہے۔ یہ نہایت ہی قبیح چیز ہے۔ دودھ میں شرکت کی وجہ سے رضاعی بہن بھائیوں کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے اور پینے اور پلانے والی کی حیثیت بیٹے اور ماں کی ہوتی ہے اور ان کے درمیان نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتا ہے۔ اس کے برخلاف اسلام نے رضاعت کا ایسا اصول قائم کردیا ہے جس سے انسانی سوسائٹی میں اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ ایک امیر کبیر آدمی حتی کہ بادشاہ کا بیٹا بھی اگر کسی غریب عورت کا دودھ پیتا ہے۔ تو اس عورت کے بچے بڑے آدمی کے بیٹے کے بھائی بہن بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون نافذ کرکے کتنی بڑی مہربانی فرمائی ہے۔ اس طرح سوسائٹی میں محبت اور احترام پیدا ہوگا ، اور بہت حد تک مساوات قائم ہوگی ، خود حضور ﷺ نے جس عورت کا دودھ پیا تھا وہ عورت خود یا اس کی بیٹی غزوہ حنین کے موقع پر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ تو حضور ﷺ نے اس کے لیے اپنی چادر مبارک اتار کر بچھادی۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کون عورت ہے جس کو اتنا بڑا اعزاز حاصل ہوا ہے تو بتلایا کہ یہ حضور کی رضاعی والدہ یا رضاعی بہن ہے۔ دودھ پلانے والی ماں کے ساتھ حسن سلوک کا بھی حکم ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ جس عورت کا دودھ پیا ہے اس کے ساتھ کیا احسان کیا جائے۔ فرمایا اس کے ساتھ کافی احسان کیا جائے کہ یہ دودھ پینے والے کی ذمہ داری ہے۔ اپنی رضاعی ماں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ حسن سلوک کرکے ہی بیٹا اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوسکتا ہے۔ بہرحال رضاعت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت رکھی ہے کہ اس کی وجہ سے جذبہ احسان ومروت پیدا ہوتا ہے اور آپس میں اخوت کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ حرمت بوجہ مصاہرت نسب کی بنا پر حرام ہونے والی عورتوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مصاہرت کی وجہ سے حرام ہونے والی عورتوں کے متعلق فرمایا وامھت نساء کم اور تمہاری عورتوں کی مائیں بھی تم پر حرام قرار دی گئی ہیں۔ گویا ساس کے ساتھ نکاح بھی ہمیشہ کے لیے حرام ہوگیا۔ اس کے علاوہ فرمای اور بائبکم التی فی حجورکم من نسائکم التی دخلتم بھن اور تمہاری وہ پروردہ بچیاں جو تمہاری پرورش میں ہیں اور تمہاری ان عورتوں سے ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو ، وہ بھی تمہارے لیے حرام قرار دی گئی ہیں۔ فان لم تکونو دخلتم بھن فلا جناح علیکمالبتہ اگر تم نے اپنی منکوحہ عورتوں سے صحبت نہیں کی تو ایسی صورت میں اس کی بیٹی کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ مثلاً کسی شخص کی بیوی فوت ہوگئی یا اس کو طلاق دے دی گئی تو اب اگر اس عورت سے ہم بستری نہیں ہوئی تو اس کی لڑکی سے نکاح درست ہے۔ اور اگر اس سے صحبت ہوچکی ہے تو پھر اس کی لڑکی ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی۔ یاد رہے کہ صحبت کی شرط کسی عورت کی بیٹی کے ساتھ نکاح کے لیے ہے ، البتہ اس عورت کی ماں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے خواہ اس عورت کے ساتھ صحبت ہوئی یا نہ ہوئی ہو۔ آگے فرمایا وحلائل ابنائکم الذین من اصلابکم اور تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تمہارے لیے حرا م ہیں۔ یعنی حقیقی بیٹے کی بیوی اپنے سسر کے نکاح میں نہیں آسکتی یہ نکاح بھی ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے۔ البتہ لے پالک یا متنہ بولا بیٹا اس قانون کی زد میں نہیں آتا۔ اس سلسلہ میں حضور ﷺ کا اپنا عمل موجود ہے۔ آپ کے منہ بولے بیٹے زید ؓ نے جب اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو خود حضور ﷺ نے اس سے نکاح کرلیا منافقوں نے اس سلسلے میں بڑا شوروغل کیا اور معاملے کو اچھالنے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے ذریعے معاملے کی وضاحت فرمادی۔ فلما قضی زید منھا وطراً زوجنکھا لکیلا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیائھم یعنی جب زید نے اس سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اسے آپ کے نکاح میں دے دیا تاکہ مومنوں پر ان کے لے پالک بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی تنگی نہ رہے۔ دو بہنوں کا اجتماع اس کے بعد فرمایا وان تجمعوابین الاختین اور تم پر یہ چیز بھی حرام قرار دی گئی ہے کہ دو بہنوں کو بیک وقت اکٹھا کرو یعنی ان سے نکاح کرو۔ ایک وقت میں ایک ہی بہن سے نکاح ہو سکتا ہے۔ البتہ الاماقدسلف جو اس سے پہلے ہوچکا وہ جہالت اور نادانی کی وجہ سے تھا۔ اس پر کچھ مواخذہ نہیں ۔ اور اگر اس حکم کے نزول کے وقت کسی کے نکاح میں دوسگی بہنیں موجود تھیں تو ان میں سے ایک کو الگ کردیا گیا۔ جیسا کہ حضرت ضحاک ؓ ابن فیرز صحابی رسول اللہ ﷺ کا واقعہ ہے۔ آپ دیلم کے رہنے والے تھے اس لیے فیروز دیلمی ؓ کہلاتے تھے ۔ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کے نکاح میں دو سگی بہنیں تھیں آپ نے فرمایا کہ ایک کو طلاق دے دو ۔ چناچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اسی طرح غیلان ؓ بن سلمہ ثقضی کے نکاح میں دس عورتیں تھیں۔ حضور ﷺ نے حکم دیا کہ ان میں سے چار کو رکھ لو باقیوں کو الگ کردو۔ اس مقام پر یہ مسئلہ بھی واضح کردینا ضروری ہے کہ جس طرح دو بہنوں کے ساتھ بیک وقت نکاح نہیں ہوسکتا اسی طرح ایک عورت اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ یا اس کی بھتیجی یا اس کی بھانجی بھی ایک وقت میں نہیں رکھی جاسکتیں۔ ہاں ان میں سے کوئی ایک فوت ہوجائے یا طلاق واقع ہواجئے تو دوسری کے ساتھ نکاح ہوسکتا ہے۔ اسی لیے یہ حرمت ہمیشہ کے لیے نہیں بلکہ ایک کے بعد دوسری کے ساتھ نکاح درست ہے فرمایا پیچھے جو کچھ ہوچکا ، سو ہوچکا ، اس کی باز پرس نہیں ، کیونکہ فرمایا وامھت نساء کم اور تمہاری عورتوں کی مائیں بھی تم پر حرام قرار دی گئی ہیں۔ گویا ساس کے ساتھ نکاح بھی ہمیشہ کے لیے حرام ہوگیا۔ اس کے علاوہ فرمایا وربائبکم التی فی ان اللہ کان غفورا رحیما خدا تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے۔ اس نے نادانی کی بنا پر ہونے والی خطا کو معاف فرمادیا۔ اب آئندہ اس کی اجازت نہیں۔ کل کے درس میں مانکح ابائوکم آیا تھا۔ یعنی تم پر تمہاری سوتیلی مائیں حرام ہیں وہاں پر بھی الا ما قد سلف کے الفاظ آئے کہ جو کچھ پہلے ہوچکا ، اس سے درگزر کیا گیا ہے ، اب آئندہ اس فعل کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے۔ مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص نے اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرلیا تھا۔ اس کو سمجھایا گیا مگر وہ باز نہ آیا تو حضور ﷺ نے ایک صحابی کو جھنڈا باندھ کردیا اور فرمایا کہ فلاں شخص کا سرقلم کردو یعنی اس کو تعزیراً قتل کردو کہ اس نے اپنی ماں کے ساتھ نکاح کررکھا ہے اور کہنے سے بھی باز نہیں آتا۔ یہ شخص انسانیت کا دشمن ہے۔ اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ محرمات کا تذکرہ ہوچکا۔ اب اگلی آیت میں کسی دوسرے شخص کو منکوحہ عورت سے نکاح کی حرمت کا بیان آئے گا۔
Top