Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 24
وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ١ۚ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ١ؕ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَّ
: اور
الْمُحْصَنٰتُ
: خاوند والی عورتیں
مِنَ
: سے
النِّسَآءِ
: عورتیں
اِلَّا
: مگر
مَا
: جو۔ جس
مَلَكَتْ
: مالک ہوجائیں
اَيْمَانُكُمْ
: تمہارے داہنے ہاتھ
كِتٰبَ اللّٰهِ
: اللہ کا حکم ہے
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَاُحِلَّ
: اور حلال کی گئیں
لَكُمْ
: تمہارے لیے
مَّا وَرَآءَ
: سوا
ذٰلِكُمْ
: ان کے
اَنْ
: کہ
تَبْتَغُوْا
: تم چاہو
بِاَمْوَالِكُمْ
: اپنے مالوں سے
مُّحْصِنِيْنَ
: قید (نکاح) میں لانے کو
غَيْرَ
: نہ
مُسٰفِحِيْنَ
: ہوس رانی کو
فَمَا
: پس جو
اسْتَمْتَعْتُمْ
: تم نفع (لذت) حاصل کرو
بِهٖ
: اس سے
مِنْھُنَّ
: ان میں سے
فَاٰتُوْھُنَّ
: تو ان کو دو
اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً
: ان کے مہر مقرر کیے ہوئے
وَلَا
: اور نہیں
جُنَاحَ
: گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
فِيْمَا
: اس میں جو
تَرٰضَيْتُمْ
: تم باہم رضا مند ہوجاؤ
بِهٖ
: اس سے
مِنْۢ بَعْدِ
: اس کے بعد
الْفَرِيْضَةِ
: مقرر کیا ہوا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
عَلِيْمًا
: جاننے والا
حَكِيْمًا
: حکمت والا
اور (حرام قرار دی گئی ہیں تم پر) خاوند والی عورتیں عورتوں میں سے مگر وہ کہ جن کے مالک ہوں تمہارے داہنے ہاتھ۔ یہ تم پر اللہ کی طرف سے حکم ہے اور حلال قرار دی گئی ہیں تمہارے لیے ان سب عورتوں کے علاوہ یہ کہ تلاش کرو تم اپنے مالوں کے ساتھ ، قید میں لانے والے ہو۔ نہ شہوت رانی کرنے والے پس تم نے ان میں سے جس سے فائدہ اٹھایا تو دے دو ان کو ان کے مہر جو مقرر ہیں اور تم پر اس چیز میں کوئی گناہ نہیں کہ تم آپس میں راضی ہوجائو مقررہ مہر کے بعد بیشک اللہ تعالیٰ علم والا اور حکمت والا ہے
منکوحہ عورتیں گزشتہ دروس میں تین قسم کے محرمات نکاح کا تذکرہ ہوچکا ہے۔ محرمات کی پہلی قسم نسبی اعتبار سے ہے جسے ماں ، بیٹی ، بہن وغیرہ دوسری قسم رضاعی ہے اور اس میں وہ رشتے آتے ہیں جو دودھ میں شرکت کی بناء پر پیدا ہوتے ہیں۔ تیسری قسم مصاہرت کی ہے یعنی وہ رشتے جو دامادی اور سسرالی کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں آج کے درس میں محرمات کی چوتھی اور آخری قسم کا بیان ہے اور اس میں منکوحہ عورتیں آتی ہیں۔ ارشاد ہے والمحصنت من النساء اور خاوند والی یعنی منکوحہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جو عورت کسی شخص کے نکاح میں ہے اس کے ساتھ کوئی دوسرا شخص نکاح نہیں کرسکتا۔ نکاح ثانی کے لیے پہلے نکاح کا فسخ ہونا ضروری ہے اور اس کی دو صورتیں ہیں۔ یا اس منکوحہ عورت کا خاوند خود طلاق دے دے یا وہ فوت ہوجائے تو عدت گزارنے کے بعد وہ عورت کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرسکتی ہے۔ ان دو صورتوں کے علاوہ تیسری کوئی صورت نہیں جس کی رو سے کسی ایسی عورت سے نکاح کیا جاسکے جس کا نکاح پہلے کسی کے ساتھ ہوچکا ہے۔ محصنہ کا ایک معنی تو خاوند والی عورت ہے اور اس کا دوسرا معنی پاکدامنہ بھی ہوتا ہے۔ گویا محصنہ عفت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ سورة نور میں موجود ہے والذین یرمون لمحصنتجو پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں۔ اور پھر اس پر چار گواہ پیش نہیں کرسکتے انہیں اسی کوڑے لگانے کا حکم ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ اکبر الکبائر یعنی سات بڑے گناہوں میں سے ایک میں شامل ہوتے ہیں۔ بہرحال یہاں پر محصنہ کا معنی منکوحہ یعنی خاوند والی عورت ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ عورت بھی اپنے خاوند کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے حرام ہے۔ تاہم یہ قسم وقتی محرمات میں سے ہے ، ایدی نہیں۔ کوئی منکوحہ عورت طلاق یا بیوگی کے بعد دوسرے شخص کے نکاح میں جاسکتی ہے۔ ملک یمین یعنی لونڈی اب تک جتنی عورتوں کا ذکر آیا ہے یہ حرمت علیکم پر عطف آرہا ہے یعنی فلاں فلاں عورت تم پر حرام ہے۔ اب آگے استثناء کے طور پر فرمایا الا ماملکت ایمانکم سوائے ان عورتوں کے کہ جن کے مالک ہوجائیں تمہارے ہاتھ ، یعنی جو عورتیں لونڈی بن کر تمہاری ملکیت میں آجائیں وہ تمہارے لیے حلال ہیں اگر چہ وہ پہلے سے منکوحہ ہوں۔ جب کوئی عورت جنگی قیدی بن کر لونڈی میں تبدیل ہوجائے تو اس کا پہلا نکاح ختم ہوجاتا ہے اور وہ مسلمان مرد کے لیے حلال ہوجاتی ہے۔ جنگی قیدیوں کی مختلف صورتیں قرآن پاک میں بیان کی گئی ہیں۔ فریقین جنگ کی رضا مندی سے یا تو قیدیوں کا آپس میں تبادلہ کرلیا جاتا ہے۔ یا کسی مصلحت کے تحت ویسے ہی انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے یا فدیہ وصول کرکے آزاد کردیا جاتا ہے یا قیدیوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی صورت بھی مناسب نہ سمجھی جاتی تو پھر انہیں گزشتہ زمانے میں غلام اور لونڈی بنالیا جاتا۔ اس آخری صورت پر بھی عمل درآمد حکومت ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ قیدیوں کو غلام اور لونڈی میں تبدیل کرے اور پھر انہیں مسلمانوں میں تقسیم بھی کردے یہ کسی فرد واحد کے اختیار میں نہیں ہے کہ ازخود کسی کو لونڈی یا غلام بنالے بلکہ جس عورت کو حاکم وقت لونڈی بنائے گا وہی لونڈی سمجھی جائے گی اور جس آدمی کے سپرد کرے گا وہی اس سے فائدہ اٹھانے کا مجاز ہوگا۔ غلام اور لونڈی بنانے کا ذکر بیشک قرآن پاک میں موجود ہے مگر اس کی حیثیت محض اباحت کی ہے ، یہ نہ فرض ہے ، نہ واجب اور نہ سنت بلکہ جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک کا ایک ذریعہ ہے جس پر پرانے زمانہ میں ساری دنیا میں عمل ہوتا رہا ہے۔ اسلا منے بھی اسے کسی حد تک قبول کیا ، مگر اس نظام کی برائی قرآن میں جگہ جگہ مذکور ہے۔ اسی لیے قرآن پاک نے غلاموں کی آزادی کی با ربار ترغیب دی ہے۔ اور بعض جنایات میں غلام کی آزادی بطور تعزیر نافذ کی ہے۔ لونڈی سے فائدہ اٹھانے سے پہلے عدت گزارنا بھی ضروری ہے۔ اسے عدت استبزاء کہتے ہیں اور ایک حیض پر مشتمل ہے۔ اگر کوئی منکوحہ عورت قیدی ہو کر لونڈی بن جائے تو لازم ہے کہ وہ اپنے مالک کے ساتھ مباشرت سے پہلے کم ازکم ایک حیض کا توقف کرے۔ اس کے بعد اس کا مالک اس سے فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ البتہ اس میں نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی۔ عورت کاملکیت میں آجانا ہی نکاح کا قائم مقام ہوتا ہے اگر ملکیت میں آنے کے وقت لونڈی حاملہ ہو تو پھر اسے وضع حمل تک عدت پوری کرنا ہوگی ، اس کے بعد وہ صنفی تعلقات قائم کرسکتی ہے۔ اس معاملہ میں مسلمانوں نے حرج محسوس کیا کہ جن عورتوں کے پہلے خاوند موجود ہیں وہ کیسے مباح ہوسکتی ہیں تو اللہ نے فرمایا الاماملک ایمانکم تمہاری ملکیت میں آنے کے بعد ان کے سابقہ نکاح ختم ہوچکے ہیں۔ اب اللہ نے انہیں تمہارے لیے مباح کردیا ہے۔ البتہ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ مشرکہ لونڈی کے ساتھ صنفی تعلقات قائم نہیں کرنے چاہیں۔ یا تو وہ مسلمان ہوجائیں یا پھر کتابی ہوں تو ان کے ساتھ یہ تعلق قائم کیا جائے۔ غلامی کا بین الاقوامی رواج زمانہ قدیم میں غلامی کا رواج پوری دنیا میں موجود تھا جو اب ختم ہوچکا ہے ۔ ایک زمانے سے مسلمانوں میں بھی انحطاط پیدا ہوگیا ہے۔ دوسری اقوام عالم نے بھی غلامی کی لعنت کو ترک کردیا ہے۔ اب اسلام میں بھی اس کا کوئی نشان باقی نہیں۔ نزول قرآن کے زمانے میں غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔ حضور ﷺ نے ان کے حقوق بیان فرما کر رعائیتیں دیں۔ البتہ اس رواج کو یکدم ختم نہ کیا کیونکہ یہ ساری دنیا میں پھلا ہوا تھا۔ اب بھی اصول یہی ہے کہ اگر ساری دنیا اس رواج کو برداشت کرتی ہے تو اسلام بھی کرے گا اور اگر دنیا اس کو ترک کردے تو اسلام پر کوئی حرف نہیں آتا۔ قرآن پاک اشارتاً بتاتا ہے کہ غلامی ایک غیر فطری چیز ہے جو انسانوں پر سزا کے طور پر مسلط ہوتی ہے۔ یہ اچھی چیز نہیں ہے تو بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ عورتیں تم پر حلال ہیں کتب اللہ علیکم یہ اللہ کا نوشتہ اور قانون ہے جو اس نے تم پر مقرر کیا ہے لہٰذا اس کے مطابق عمل کرو۔ شرائط حلت حرمت نکاح کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد فرمایا واحل لکم ماوراء ذلکم ان کے علاوہ باقی تمام عورتیں تم پر حلال ہیں یعنی چار قسم کی محرمات کو چھوڑ کر تم باقی عورتوں سے نکاح کرسکتے ہو۔ تاہم اس کے لیے کچھ شرائط بھی ہیں۔ ان میں سے پہلی شرط یہ ہے۔ ان تبتغوا کہ تم تلاش کرو۔ یہ مرد کا فرض ہے کہ وہ اپنے لیے عورت تلاش کرے ، طلب یا PROPOSE کرے۔ اور دوسری شرط یہ ہے باموالکم اپنے مالوں کے ساتھ طلب کرو یعنی اس کے لیے مال بھی خرچ کرنا پڑے گا ، عورت کو مہر بھی ادا کرنا ہوگا۔ امام ابوحنیفہ (رح) اسی لفظ مال سے استدلال کرتے ہیں کہ مہر میں مال کا ہونا لازم ہے یا مہر میں ایسی چیز مقرر کی جائے جو مال کا معاوضہ بن سکتی ہے حضرت علی ؓ اور ابن مسعود ؓ سے منقول روایت مسلک حنفی کی دلیل ہے کہ لامھراقل من عشردواھم دس درہم سے کم مہر نہیں ہوتا۔ مال کی کم ازکم مقدار درہم ہو تو وہ مال کی تعریف میں آتا ہے اسی لیے ہاتھ کاٹنے کی سزا کے لیے کم ازکم دس درہم چوری ضروری ہے ورنہ قطع ید نہیں ہوگا۔ حدیث میں تین درہم اور پانچ درہم کا جو ذکر آتا ہے وہ تعزیری ہے مگر قطع ید کی حد جاری کرنے کے لیے دس درہم کے برابر ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ چونکہ نکاح کے لیے مہرضروری ہے اس لیے اگر کوئی شخص مہر کی ادائیگی سے انکار کرے تو امام مالک (رح) کے نزدیک ایسا نکاح ہی نہیں ہوتا۔ البتہ امام اعظم (رح) کے نزدیک نکاح تو ہوجائے گا البتہ مہر کی عدم ادائیگی کی شرط باطل سمجھی جائے گی اور مہر مثلی دینا پڑے گا۔ مہرمثلی کی مقدار وہ تصور ہوتی ہے جو اس کے خاندان کی اکثر عورتوں مثلاً پھوپھیوں یا بہنوں وغیرہ کا مہر مقرر ہوتا ہے۔ اسی طرح وٹے کے نکاح کے متعلق بھی امام صاحب فرماتے ہیں کہ نکاح تو ہوجائے گا مگر وٹے کی شرط باطل ہوگی۔ بہرحال نکاح کے لیے مال خرچ کرنا نکاح کی دوسری شرط ہے۔ نکاح کی تیسری شرط کے متعلق فرمایا محصنین غیر مسفحینعورتوں کا عقد نکاح میں لانا مقصود ہو ، محض شہوت رانی پیش نظر نہ ہو۔ احصان کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو قید نکاح میں لاکر بےحیائی سے بچایا جائے تاکہ صنفی تقاضے صحیح طور پر پورے ہوسکیں۔ نکاح کی چوتھی شرط آگے آرہی ہے ولا متخذی اخذان یہ الفاظ سورة مائدہ میں بھی آئیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد وزن کا ایجاب و قبول کھلے علی الاعلان ہو ، نہ کہ چوری چھپے ، اسی لیے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ بغیر گواہوں کے نکاح درست نہیں۔ نکاح عورت اور مرد کے درمیان ایک نہایت اہم نوعیت کا معاہدہ (AGREEMENT) ہوتا ہے ، جسے عام مجلس میں گواہوں کے روبروطے پانا چاہیے۔ گویا عورت کے حلال ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ چار شرائط مقرر فرمائی ہیں۔ ادائیگی مہر مہر کی اہمیت اور اس کی ادا ئیگی کے متعلق پہلے بھی بیان ہوچکا ہے ۔ اس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عقد نکاح کے بعد فما استمتعتم بہ منھن پس جو تم نے ان عورتوں سے فائدہ اٹھالیا فاتوھن اجورھن فریضۃ پس ان کا مقرر کیا ہوا مہر ان کو دے دو ۔ میاں بیوی کے درمیان خلوت صحیحہ ہونے یا ہم بستری ہونے کے بعد مہر موکد ہوجاتا ہے اور پورا مہر ادا کرنا لازم ہوتا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا اگر کوئی شخص بغیر مہر ادا کیے فوت ہوگیا ، تو مہر کی ادائیگی بطور واجب الادا قرضہ متوفی کے ترکہ سے کیا جائے گا ، ہاں ! اگر نکاح کے بعد خلوت صحیحہ نہیں ہوئی اور عورت کو طلاق دیدی تو اس صورت میں نصف مہر ادا کرنا ہوگا۔ متعہ حرام ہے یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض لوگوں نے اسی لفظفما ستمتعتم سے متعہ کا جواز نکالا ہے حالانکہ متعہ ہماری شریعت میں ہرگز جائز نہیں۔ ابتدائے اسلام کے زمانہ میں بعض ضرورتوں اور مجبوریوں کی وجہ سے اس کو روارکھا گیا تھا ، پھر جب مسلمانوں کو غلبہ حاصلہ ہوگیا اور وہ مجبوریاں رفع ہوگئیں تو متعہ یعنی وقتی نکاح کو ہمیشہ کے لیے حرام قرا ردید گیا۔ ظاہر ہے کہ کسی خاص مدت کے لیے نکاح کرنے سے نہ تو حقوق کماحقہ ، ثابت ہوتے ہیں اور نہ ہی اولاد صحیح ثابت ہوتی ہے۔ زوجین کے دیگر حقوق کا بھی تعین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ دوچار ماہ یا جو بھی مدت مقرر ہوئی ، اس کے ختم ہونے پر نکا ح خود بخود ختم ہوگیا ، لہٰذا اس قسم کا نکاح جائز نہیں ہے مسلم شریف اور احادیث کی دیگر کتب میں خود حضرت علی ؓ سے حدیث منقول ہے جس کی رو سے متعہ کو ابدی طور پر حرام قرا ردیا گیا ہے۔ لہٰذا عورتوں سے استفادہ حاصل کرنے کی دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو باقاعدہ عقد نکاح ہو یا پھر لونڈی ہو۔ اس کے علاوہ تیسری کوئی صورت نہیں۔ اگر کوئی ایسی صورت پیدا کرے گا تو وہ باطل ہوگی۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے بارے میں بھی ترمذی شریف میں منقول ہے کہ پہلے وہ متعہ کے قائل تھے مگر بعد میں انہوں نے رجوع کرلیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا بھی یہی قول ہے کہ نکاح اور لونڈی کے علاوہ کل فرج سواھما حرامہرذریعہ شہوت رانی حرام ہے۔ مہر میں کمی بیشی مقررہ مہر کی ادائیگی کو لازم قرا ردینے کے بعد فرمایا کہ صرف ایک صورت میں مہر کی کلی یا جزوی ادائیگی سے بچت ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ ولاجناح علیکم فیما تراضیتم بہ من بعد الفریضۃ تم میاں بیوی آپس میں راضی ہوجائو مہر مقرر ہونے کے بعد۔ آپس کی رضا مندی سے اگر عورت مہر کلی یا جزوی طور پر معاف کردیتی ہے تو تم پر کچھ گناہ نہیں اس کے مطابق عمل کرسکتے ہو۔ پھر پورا مہر ادا کرنا لازم نہیں رہے گا۔ اسی طرح اگر مرد رضا مندی سے مقررہ مہر سے زیادہ اداکردے تو بھی اس میں کوئی حرج نہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوجاتا ہے کہ نکاح کے وقت مالی حالت اچھی نہ تھی ، بعد میں بہتر ہوگئی۔ اب اگر خاوند مقررہ مہر سے زیادہ ادا کرنا چاہیے تو اسے اجازت ہے اور اگر نکاح کے وقت مہر بالکل مقرر ہی نہ کیا گیا ہو تو مہر کی ادائیگی پھر بھی لازم ہے اور اس کی مقدار وہ ہوگی جو میاں بیوی بعد میں طے کرلیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے بعض صورتوں میں مہر مثلی بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ بہرحال فرمایا کہ جس عورت سے فائدہ اٹھایا ہے اس کا مقررہ مہر ادا کرنا ضروری ہے۔ اللہ نے جو بھی احکام نازل فرمائے ہیں ان میں ہر لحاظ سے بہتری ہے اور جن عورتوں سے نکاح حرا م ٹھہرایا ہے اس میں بھی مصلحت ہے۔ جائز نکاح کے ساتھ جو شرائط اور پابندیاں عائد کی ہیں ان میں بھی حکمت پوشیدہ ہے۔ انسان کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین پر صدق دل سے یقین رکھے اور ان پر عمل پیرا رہے۔ کیوں ؟ ان اللہ کان علیماً حکیماً بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز حتی کہ ہر ضعف ، کمزوری حاجت اور پریشانی کو جانتا ہے اور اس کی ہر بات اور ہر حکم حکمت پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں حکمت پوشیدہ ہے لہٰذا انسان کے لیے لازم ہے کہ اس کی تعمیل کرے۔
Top