Mutaliya-e-Quran - An-Noor : 20
وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ وَ اَنَّ اللّٰهَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَلَوْلَا : اور اگر نہ فَضْلُ اللّٰهِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ رَءُوْفٌ : شفقت کرنیوالا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان ہے
اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ بڑا شفیق و رحیم ہے (تو یہ چیز جو ابھی تمہارے اندر پھیلائی گئی تھی بدترین نتائج دکھا دیتی)
وَلَوْلَا [ اور اگر نہ ہوتا ] فَضْلُ اللّٰهِ [ اللہ کا فضل ] عَلَيْكُمْ [ تم لوگوں پر ] وَرَحْمَتُهٗ [ اور اس کی رحمت ] وَاَنَّ اللّٰهَ (اور یہ کہ اللہ) رَءُوْفٌ [ بےانتہا نرمی کرنے والا ہے ] رَّحِيْمٌ [ ہر حال میں رحم کرنے والا ہے ] نوٹ۔ 1: اعلی اخلاقی اقدار کے رواج کی وجہ سے مدینہ میں اخوت و محبت پر مبنی جو مسلم معاشرہ پروان چڑھ رہا تھا وہ مخالفین اسلام خصوصا منافقین کو سخت ناگوار تھا۔ ان کی یہ خواہش تھی مسلمان بھی انہی اخلاقی پستیوں کے مکین رہیں جن میں وہ خود مبتلا تھے تاکہ ان کی اخلاقی گراوٹ نمایاں نہ ہو۔ واقعہ افک ان کی اسی دبی ہوئی خواہش کا ایک حقیر سا مظہر یعنی Tip of the lceberg تھا۔ اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو جانتا تھا جبکہ عام مسلمان اس سے بیخبر تھے۔ آیت ۔ 19 ۔ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا تاکہ اس سورة میں دئیے جانے والے احکام کی گہرائی اور گیرائی مسلمانوں کے ذہنوں میں پوری طرح واضح ہوجائے۔ آج کے دور میں ایک عالمی تہذیب (Globalization) رائج کرنے کا جو طوفان برپا ہے وہ مخالفین اسلام کی اس خواہش کا مظہر ہے کہ وہ مسلم معاشروں میں اسی فحاشی اور اخلاقی پستیوں کو رواج دینا چاہتے ہیں جنہیں وہ اپنی ” اعلیٰ تہذیب “ کا طرۂ امتیاز سمجھتے ہیں۔ فحاشی اور بےحیائی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوششیں فی الحال ہر جگہ ناکام ہوتی نظر آرہی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں کی یہ جدوجہد بےسود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کرتا۔ (آل عمران۔ 195) ۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری اس بظاہر ناکام جدوجہد کا نتیجہ ایک دن ضرور نکلے گا۔ اگر ہماری زندگی میں نہیں تو ہمارے بعد نکلے گا مگر ان شاء اللہ نکلے گا ضرور۔ ہمیں خبر ہے ہم ہیں چراغ آخر شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے (ظہیر کا شمیری)
Top