Mutaliya-e-Quran - Al-Ankaboot : 12
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِیْلَنَا وَ لْنَحْمِلْ خَطٰیٰكُمْ١ؕ وَ مَا هُمْ بِحٰمِلِیْنَ مِنْ خَطٰیٰهُمْ مِّنْ شَیْءٍ١ؕ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ان لوگوں کو جو ایمان لائے اتَّبِعُوْا : تم چلو سَبِيْلَنَا : ہماری راہ وَلْنَحْمِلْ : اور ہم اٹھا لیں گے خَطٰيٰكُمْ : تمہارے گناہ وَمَا هُمْ : حالانکہ وہ نہیں بِحٰمِلِيْنَ : اٹھانے والے مِنْ : سے خَطٰيٰهُمْ : ان کے گناہ مِّنْ شَيْءٍ : کچھ اِنَّهُمْ : بیشک وہ لَكٰذِبُوْنَ : البتہ جھوٹے
یہ کافر لوگ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اُوپر لے لیں گے حالانکہ اُن کی خطاؤں میں سے کچھ بھی وہ اپنے اوپر لینے والے نہیں ہیں، وہ قطعاً جھوٹ کہتے ہیں
وَقَالَ الَّذِيْنَ [اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے ] كَفَرُوْا [انکار کیا ] لِلَّذِيْنَ [ان لوگوں سے جو ] اٰمَنُوا [ایمان لائے ] اتَّبِعُوْا [تم لوگ پیروی کرو ] سَبِيْلَنَا [ہمارے راستے کی ] وَلْنَحْمِلْ [اور ضروری ہوگا کہ ہم اٹھالیں ] خَطٰيٰكُمْ ۭ [تمہاری غلطیوں کو ] وَ [حالانکہ ] مَا هُمْ [وہ نہیں ہیں ] بِحٰمِلِيْنَ [اٹھانے والے ] مِنْ خَطٰيٰهُمْ [ان کی غلطیوں میں سے ] مِّنْ شَيْءٍ ۭ [کچھ بھی ] اِنَّهُمْ [بیشک یہ لوگ ] لَكٰذِبُوْنَ [یقینا جھوٹے ہیں ] ۔ نوٹ۔ 2: کفار مکہ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تم لوگ بلاوجہ عذاب آخرت کے خوف سے ہمارے طریقہ پر نہیں چلتے، لو ہم ذمہ داری لیتے ہیں۔ اگر تمہاری ہی بات سچی ہوئی تو تمہارے گناہوں کا بوجھ ہم اٹھالیں گے تم پر آنچ بھی نہ آئے گی۔ آیت۔ 12 ۔ 13 ۔ میں حق تعالیٰ نے اس کا حوالہ دے کر ایک تو یہ فرمایا کہ ایسا کہنے والے بالکل جھوٹے ہیں۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ ان لوگوں کا یہ کہنا تو جھوٹ ہے کہ وہ تمہارے گناہوں کا بوجھ اٹھا کر تمہیں سبکدوش کردیں گے۔ البتہ یہ ضرور ہوگا کہ تم کو بہکانا خود ایک بڑا گناہ ہے۔ اس لئے ان پر اپنے اعمال کا بھی وبال ہوگا اور جن کو بہکایا تھا ان کا بھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ہدایت کی طرف لوگوں کو دعوت دے تو جتنے لوگ اس کی دعوت کی وجہ سے ہدایت پر عمل کریں گے ان سب کے عمل کا ثواب اس داعی کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جو شخص کسی گمراہی اور گناہ کی طرف راعی کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر و ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جو شخص کسی گمراہی اور گناہ کی طرف دعوت دے تو جتنے لوگ اس کے کہنے سے اس گمراہی میں مبتلا ہوں گے ان سب کا گناہ اس شخص پر بھی پڑے گا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے وبال عذاب میں کوئی کمی ہو۔ (معارف القرآن)
Top