Al-Qurtubi - Al-Kahf : 27
وَ اتْلُ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ١ؕۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ١۫ۚ وَ لَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا
وَاتْلُ : اور آپ پڑھیں مَآ اُوْحِيَ : جو وحی کی گئی اِلَيْكَ : آپ کی طرف مِنْ : سے كِتَابِ : کتاب رَبِّكَ : آپ کا رب لَا مُبَدِّلَ : نہیں کوئی بدلنے والا لِكَلِمٰتِهٖ : اس کی باتوں کو وَ : اور لَنْ تَجِدَ : تم ہرگز نہ پاؤگے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا مُلْتَحَدًا : کوئی پناہ گاہ
اور اپنے پروردگار کی کتاب کو جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو اسکی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے
آیت نمبر 27 قولہ تعالیٰ : واتل ما اوحی الیک من کتاب ربک، لا مبدل لکلمتہ کہا گیا ہے : یہ اصحاب کہف کے تمام قصہ کے بارے میں، یعنی آپ قرآن کریم کی اتباع اور پیروی کریں پس اللہ تعالیٰ کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں اور نہ اس کے خلاف ہو سکتا ہے جو اس نے اصحاب کہف کے واقعہ کے بارے خبر دی ہے۔ اور علامہ طبری (رح) نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ نے اپنے جن کلمات کے ساتھ گنہگاروں اور اس کی کتاب کی مخالفت کرنے والوں کو وعید سنائی ہے انہیں کوئی تبدیل کرنے والا نہیں۔ ولن تجد اور آپ ہرگز نہیں پائیں گے من دونہ اس کے سوا (کوئی پناہ گاہ) اگر آپ نھے قرآن کریم کی اتباع اور پیروی نہ کی اور آپ نے اس کی مخالفت کی۔ ملتحدا یعنی پناہ گاہ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے مائل ہونے کی جگہ۔ اور اس کی اصل المیل (مائل ہونا، جھکنا) ہے ؛ اور یہ لجأت إلیہ سے ہے یعنی میں اس کی طرف مائل ہوا۔ (میں نے اس کے پاس پناہ لی) ۔ قشیری ابو نصر عبد الرحیم نے کہا ہے : یہ اصحاب کہف کے قصہ کا آخر ہے، جب حضرت امیر معاویہ ؓ روم کی طرف غزوہ المضیق پر گئے اور آپ کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ بھی تھے پس وہ اس غار کے پاس جا کر رکے جس میں اصحاب کہف تھے، تو حضرت امیر معاویہ ؓ نے کہا : اگر ہمارے لئے انہیں ظاہر کردیا جائے تو ہم انہیں دیکھ لیں، ان کی زیارت کرلیں، تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : تحقیق اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے روک دیا ہے جو آپ سے بہتر اور افضل ہے، اور ارشاد فرمایا : لو اطلعت علیہم لولیت منھم فرارا (اگر تو جھانک کر انہیں دیکھے تو ان سے منہ پھیر کر بھاگ کھڑا ہو) ۔ تو انہوں نے کہا : میں باز نہیں آؤں گا یہاں تک کہ میں ان کے بارے جان لوں اور اس کام کے لئے انہوں نے ایک جماعت بھیجی، پس جب وہ غار میں داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ہوا بھیج دی تو اس نے انہیں باہر نکال دیا، اسے ثعلبی (رح) نے بھی ذکر کیا ہے اور یہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ وہ آپ کو ان کی زیارت کرائے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بلاشبہ آپ انہیں دار دنیا میں نہیں دیکھ سکتے بلکہ آپ اپنے اخیار صحابہ کرام میں سے چار کو ان کی طرف بھیجئے تاکہ وہ آپ کی رسالت کا پیغام ان تک پہنچائیں اور انہیں ایمان کی دعوت دیں ؛ تو حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا : ” میں انہیں کیسے بھیج سکتا ہوں “ ؟ تو انہوں نے کہا : آپ اپنی چادر بچھائیں اور اس کی اطراف میں سے ایک طرف پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو، دوسری طرف پر حضرت عمر ؓ کو اور اس کی تیسری طرف حضرت عثمان ؓ کو اور چوتھی طرف پر حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو بٹھا دیں، پھر اس نرم پوا کے بلائیے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے مسخر کی گئی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے حکم دے رہا ہے کہ وہ آپ کی اطاعت اور پیروی کرے۔ پس آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا تو ہوا انہیں اٹھا کر غار کے دروازے تک لے گئی، پس انہوں نے اس کا ایک پتھر اکھیڑ دیا تو کتے نے ان پر حملہ کردیا لیکن جب اس نے انہیں دیکھا تو وہ اپنا سر اور اپنی دم ہلانے لگا اور ان کی طرف اپنے سر سے اشارہ کیا کہ داخل ہوجاؤ چناچہ وہ غار میں داخل ہوئے اور انہوں نے کہا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، تو اللہ تعالیٰ نے ان جوانوں کی طرف ان کی ارواح کو لوٹا یا اور وہ تمام کے تمام کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا : علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، تو انہوں نے ان کو کہا : اے جوانوں کے گروہ ! بیشک نبی محمد بن عبد اللہ ﷺ کو سلام فرماتے ہیں اور انہوں نے آپ ﷺ کا دین قبول کرلیا اور وہ اسلام لے آئے، پھر انہوں نے کہا : ہماری طرف سے محمد رسول اللہ ﷺ کو سلام پیش کرنا، انہوں نے اپنے بستر لے لئے اور آخر زمانہ میں امام مہدی (علیہ السلام) کے ظہور تک اپنی نیند میں ہوگئے۔ پس کہا جاتا ہے کہ امام مہدی (علیہ السلام) انہیں سلام فرمائیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں زندہ کر دے گا (بیدار کر دے گا) پھر وہ اپنی نیند کی طرف لوٹ جائیں گے اور پھر وہ قیامت قائم ہونے تک نہیں اٹھیں گے، پس حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے رسول اللہ ﷺ کو اس کے بارے خبر دی جو ان کے متعلق تھا، پھر ہوا انہیں لوٹا لائی تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” تم نے انہیں کیسے پایا ہے “ ؟ تو انہوں نے آپ کو پوری خبر سے آگاہ کیا، تو حضور نبی مکرم ﷺ نے کہا : اے اللہ ! میرے درمیان اور میرے اصحاب اور میرے سسرال کے درمیان تفریق نہ کرنا اور اسے بخش دے جس نے مجھ سے محبت کی اور میرے اہل بیت، میرے خواص اور میرے اصحاب کے ساتھ محبت کی “۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک اصحاب کہف حضرت مسیح (علیہ السلام) سے پہلے غار میں داخل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو ان کے بارے خبر دی پھر انہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے زمانہ کے درمیان زمانہ فترت میں اٹھایا گیا، بیدا کیا گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے تھے اور یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تورات میں ان کا ذکر کیا ہے، اسی وجہ سے یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ سے ان کے بارے سوال کیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے بعد غار میں داخل ہوئے، پس ان کی حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
Top