Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Nisaa : 23
حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ١٘ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ١٘ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ١ۙ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ
حُرِّمَتْ
: حرام کی گئیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اُمَّھٰتُكُمْ
: تمہاری مائیں
وَبَنٰتُكُمْ
: اور تمہاری بیٹیاں
وَاَخَوٰتُكُمْ
: اور تمہاری بہنیں
وَعَمّٰتُكُمْ
: اور تمہاری پھوپھیاں
وَخٰلٰتُكُمْ
: اور تمہاری خالائیں
وَبَنٰتُ الْاَخِ
: اور بھتیجیاں
وَبَنٰتُ
: بیٹیاں
الْاُخْتِ
: بہن
وَاُمَّھٰتُكُمُ
: اور تمہاری مائیں
الّٰتِيْٓ
: وہ جنہوں نے
اَرْضَعْنَكُمْ
: تمہیں دودھ پلایا
وَاَخَوٰتُكُمْ
: اور تمہاری بہنیں
مِّنَ
: سے
الرَّضَاعَةِ
: دودھ شریک
وَ
: اور
اُمَّھٰتُ نِسَآئِكُمْ
: تمہاری عورتوں کی مائیں
وَرَبَآئِبُكُمُ
: اور تمہاری بیٹیاں
الّٰتِيْ
: جو کہ
فِيْ حُجُوْرِكُمْ
: تمہاری پرورش میں
مِّنْ
: سے
نِّسَآئِكُمُ
: تمہاری بیبیاں
الّٰتِيْ
: جن سے
دَخَلْتُمْ
: تم نے صحبت کی
بِهِنَّ
: ان سے
فَاِنْ
: پس اگر
لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ
: تم نے نہیں کی صحبت
بِهِنَّ
: ان سے
فَلَا جُنَاحَ
: تو نہیں گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَحَلَآئِلُ
: اور بیویاں
اَبْنَآئِكُمُ
: تمہارے بیٹے
الَّذِيْنَ
: جو
مِنْ
: سے
اَصْلَابِكُمْ
: تمہاری پشت
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَجْمَعُوْا
: تم جمع کرو
بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ
: دو بہنوں کو
اِلَّا مَا
: مگر جو
قَدْ سَلَفَ
: پہلے گزر چکا
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
غَفُوْرًا
: بخشنے والا
رَّحِيْمًا
: مہربان
تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کردی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کرچکے ہو ان کی لڑکیاں جنہیں تم پرورش کرتے ہو (وہ بھی حرام ہیں) ہاں اگر ان کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (تو ان کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرلینے میں) تم پر کچھ گناہ نہیں تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہوچکا (سو ہوچکا) بیشک خدا بخشنے والا (اور) رحم والا ہے
آیت نمبر :
23
۔ اس آیت میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) (آیت) ” حرمت علیکم امھتکم وبنتکم “۔ یعنی تم پر اپنی ماوؤں سے نکاح کرنا اور اپنی بیٹیوں سے نکاح کرنا حرام کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان عورتوں کا ذکر فرمایا جن سے نکاح کرنا حلال ہے اور جن سے نکاح کرنا حرام ہے جیسا کہ باپ کی بیوی سے نکاح کرنے کی حرمت ذکر کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے سات عورتین نسب کی وجہ سے اور چھ عورتیں حرمت رضاعت اور حرمت مصاہرت کیوجہ سے حرم کی ہیں اور سنت متواترہ نے ساتویں عورت کو اسکے ساتھ لاحق کیا ہے وہ ہے پھوپھی، بھتیجی کو جمع کرنا، اس پر اجماع ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت ثابت ہے کہ انہوں نے فرمایا : نسب کی وجہ سے ساتھ عورتیں حرام ہیں اور حرمت مصاہرت کی وجہ سے سات عورتیں حرام ہیں ہیں پھر یہ آیت تلاوت کی، عمرو بن سالم مولی الانصار نے اس کی مثل کہا ہے اور فرمایا : ساتویں صورت اس ارشاد میں ہے (آیت) ” والمحصنت “۔ اور وہ ساتھ عورتیں جو نسب کہ وجہ سے حرام ہیں وہ یہ ہیں مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں اور وہ عورتیں جن کی حرمت کا سبب مصاہرت اور رضاعت ہے وہ سات ہیں رضاعی مائیں، رضاعی بہنیں، عورتوں کی مائیں، کسی دوسرے مرد سے بیوی کی بیٹیاں، بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنوں کو جمع کرنا اور ساتویں وہ عورت جن سے تمہارے باپ دادا نکاح کرچکے ہوں۔ امام طحاوی نے فرمایا : یہ تمام محکم اور متفق علیہ طور پر حرام ہیں ان میں سے کسی عورت سے بالاجماع نکاح کرنا جائز نہیں ہے مگر ان عورتوں کی مائیں جن کے ساتھ دخول نہیں ہوا، جمہور علماء سلف کا نظریہ یہ کہ بیٹی سے عقد کرنے سے ماں حرام ہوجاتی ہے اور ماں، بیٹی کو حرام نہیں کرتی مگر جب ماں سے دخول ہوچکا ہو۔ تمام ائمہ فتوی کا یہی قول ہے، سلف کی ایک جماعت نے کہا : ماں اور ربیۃ (بیوی کی بیٹی جو دوسرے خاوند سے ہے) برابر ہیں ان میں سے کوئی ایک حرام نہیں ہوتی مگر دوسری سے صحبت کرلینے کے بعد، یہ علماء کہتے ہیں (آیت) ” امھت نسآئکم “۔ سے مراد وہ عورتیں ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو، یہ علماء کہتے ہیں : دخول کی شرط امہات اور ربائب تمام کی طرف راجع ہے، خلاس نے حضرت علی بن ابی طالب سے یہ روایت کیا ہے۔ حضرت ابن عباس، حضرت جابر، حضرت زید بن ثابت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے بھی مروی ہے، یہی ابن زبیر اور مجاہد (رح) کا قول ہے، مجاہد (رح) نے کہا : دونوں میں دخول مراد ہے : اگر عورت سے زنا سے وطی کی یا شہوت کے ساتھ بوسہ دیا یا چھوا تو اس عورت کی بیٹی اس شخص پر حرام ہوجائے گی، مالکیوں اور شوافع کے نزدیک نکاح صحیح کے ساتھ حرام ہوگی، حرام، حلال کو حرام نہیں کرتا جیسا کہ آگے آئے گا اور خلاس کی حدیث جو حضرت علی ؓ سے مروی ہے اس سے حجت قائم نہیں ہوسکتی، علماء حدیث کے نزدیک اس کی روایت صحیح نہیں ہے۔ حضرت علی ؓ سے صحیح، جمہور کے قول کے مثل مروی ہے، ابن جریج نے کہا : میں نے عطا سے پوچھا ایک شخص کے لیے اس عورت کی ماں حلال ہوگی ؟ عطا نے کہا : نہیں۔ یہ مطلق ہے خواہ اس نے دخول کیا ہو یا نہ کیا ہو۔ میں نے عطا سے پوچھا کیا حضرت ابن عباس ؓ (آیت) ” وامھت نسائکم وربآئبکم التی فی حجورکم من نسآئکم التی دخلتم بھن “۔ پڑھتے تھے ـ ؟ انہوں نے کہا : نہیں نہیں۔ سعید نے قتادہ سے انہوں نے عکرمہ ؓ سے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے (آیت) ” وامھت نسآئکم “ کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ آیت مبہم ہے بیٹی پر عقد کی وجہ سے ماں حلال نہیں ہوگی، اسی طرح مالک (رح) نے اپنے موطا میں حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا ہے۔ اس میں ہے زید نے کہا : نہیں الام (ماں) مبہم ہے اس میں شرط نہیں ہے، شرط صرف ربائب میں ہے، ابن المنذر نے کہا : یہ صحیح ہے، کیونکہ (آیت) ” امھت نسآئکم “۔ کے ارشاد میں تمام عورتوں کی مائیں داخل ہیں، اس قول کی تائید اعراب کی جہت سے بھی ہوتی ہے جب دو خبریں عامل میں مختلف ہوں تو ان کی نعت ایک نہیں ہوتی اور نحویوں کے نزدیک مررت بنسائک وھریت من نساء زید الظریفات “۔ اس بنا پر جائز نہیں کہ الظریفات، نسائک اور نساء زید کی نعت ہو، اسی طرح اس آیت میں اللاتی کا دونوں کی نعت ہونا جائز نہیں، کیونکہ دونوں خبریں مختلف ہیں لیکن معنی کے اعتبار سے جائز ہے خلیل اور سیبویہ نے یہ شعر پڑھا ہے : ان بھا اکتل اور زاما خویریین ینقفان الھاما : یعنی اکتل اور رزام یعنی خویربان کھوپڑی کو توڑتے ہیں۔ اور عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عن النبی ﷺ کے سلسلہ سے صراحۃ مروی ہے کہ ” جب کوئی شخص عورت سے نکاح کرے تو اس کے لیے اس عورت کی ماں سے نکاح کرنا حلال نہیں خواہ بیٹی سے صحبت کرچکا ہو یا صحبت نہ کی ہو اور جب ماں سے نکاح کرے اور اس نے ابھی دخول نہ کیا وہ پھر اسے طلاق دے دے تو پھر اگر چاہے تو اس کی بیٹی سے نکاح کرلے “ اس حدیث کو صحیحین میں نقل کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) جب یہ ثابت ہوگیا تو تو جان لے کہ تحریم اعیان کی صفت نہیں اور نہ اعیان تحلیل وتحریم کامورد ہیں نہ مصدر ہیں امر ونہی کے ساتھ تکلیف کا تعلق مکلفین کے افعال کے ساتھ ہے لیکن اعیان جب افعال کا مورد ہیں تو امر ونہی اور حکم کو انکی طرف منسوب کیا گیا اور مجاز ان کے ساتھ معلق کیے گئے محل کے اعتبار سے کہ فعل یہاں پایا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
3
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” امھتکم “۔ امہات کی حرمت ہر حال کو شامل ہے کسی وجہ کے ساتھ خاص نہیں ہے اسی وجہ سے اہل علم اسے المبہم کہتے ہیں یعنی اس میں نہ باب ہے، نہ اس کی تحریم کو روکنے کا کوئی راستہ ہے۔ اسی طرح بیٹیوں اور بہنوں اور محرمات کی حرامت ہے جن کا ذکر آیت میں گیا ہے۔ امہات، امہۃ کی جمع ہے کہا جاتا ہے۔ ام وامہۃ کا ایک معنی ہے۔ قرآن میں یہ دونوں لفظ آئے ہیں، سورة فاتحہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے، بعض علماء نے فرمایا : ام کی اصل امھۃ ہے فعلۃ کے وزن پر جیسے قبرۃ وحمرۃ یہ دو پرندوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں پہلے ۃ ساقط ہوگئی پھر جمع میں واپس آگئی، شاعر نے کہا : امھتی خندف والدوس ابی : بعض علماء نے فرمایا : ام کی اصل امۃ ہے، انہوں نے بطور دلیل یہ شعر پڑھا ہے : تقبل تھا عن امۃ لک طالما تثوب الیھا فی النوائب اجمعا : اور اس کی جمع امات ہوگی، چرواہے نے کہا تھا۔ کانت نجائب منذر ومحرق اماتھن وطرقھن فحیلا : پس الام کا لفظ ہر مونث کا اسم ہے جس کے لیے تجھ پر والادت پر رشتہ ہو، پس اس میں قریبی والدہ اس کی والدہ اور اس کی دادی، باپ کی والدہ اور دادی سب داخل ہیں اگرچہ بہت اوپر کی ہوں اور البنت ہر اس مؤنث کا نام تیرے لیے اس پرولادت کا رشتہ ہو، اگر تو چاہے تو کہہ سکتا ہے، ہر وہ مؤنث جس کا نسب تیری طرف ولادت کی وجہ سے لوٹے خواہ ایک درجہ ہو یا زیادہ درجات ہوں، پس اس میں صلبی بیٹی، اس کی بیٹیاں، بیٹوں کی بیٹیاں اگرچہ بہت نیچے کی ہوں سب داخل ہیں، الاخت ہر اس مؤنث کا اسم ہے تیرے دونوں اصلوں میں تیری پڑوسی ہو یا ایک اصل میں تیری پڑوسی ہو۔ بنات، جمع ہے بنت کی اس کی اصل بنیۃ ہے اور مستعمل ابنۃ اور بنت ہوتا ہے۔ فراء نے کہا : بنت کی باکو کسرہ دیا گیا ہے تاکہ یا پر دلالت کرے اور اخت میں ہمزہ پر ضمہ دیا گیا ہے تاکہ واؤ کے حذف پر دلالت کرے، کیونکہ اخت کی اصل اخوۃ ہے اور جمع اخوات ہے اور العمۃ ہر مونث کا اسم ہے جو تیرے باپ یا تیرے دادا کے ساتھ اس کی دونوں اصل میں شریک ہو یا ایک اصل میں شریک ہو یا ایک اصل میں شریک ہو اگر تو چاہے تو یہ کہہ سکتا ہے ہر مذکر جس کا نسب تیری طرف لوٹے تو اس کی بہن تیری پھوپھی ہے کبھی پھوپھی ماں کی جہت سے ہوتی ہے یہ تیری ماں کے باپ کی بہن ہے، خالہ ہر اس مونث کا اسم ہے جو تیری ماں کے ساتھ دونوں اصلوں میں شریک آیا ایک اصل میں شریک ہو، اگر چاہے تو کہہ سکتا ہے ہر وہ مونث جس کا نسب تیری طرف ولادت کے ساتھ لوٹے تو اس کی بہن تیری خالہ ہے کبھی خالہ باپ کی جہت سے ہوتی ہے وہ تیرے باپ کی ماں کی بہن ہے اور بنت الاخ اس مونث کا اسم ہے تیرے بھائی کا اس پر ولادۃ کا رشتہ ہو بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ ہو، اور اسی طرح بنت الاخت (بھانجی) ہے، یہ سات عورتیں ہیں جن کی حرمت کا سبب نسب ہے نافع نے اور ایک روایت میں ابوبکر بن ابی اویس نے الاخ کی وجہ خاکی تشدید کے ساتھ پڑھا ہے جب اس میں الف، لام ہو حرکت کے نقل کے ساتھ۔ مسئلہ نمبر : (
4
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وامھتکم التی ارضعنکم “۔ یہ تحریم میں ان کی طرح ہیں جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : رضاعت کی وجہ سے وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں، عبداللہ نے وامھاتکم الائی بغیر تا کے پڑھا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” والی یئسن من المحیض “۔ (الطلاق :
4
) شاعر نے کہا : من اللاء لم یحججن یبغین حسبۃ ولکن لیقتلن البری المغفلا : (آیت) ” ارضعنکم “۔ جب عورت بچے کو دودھ پلا دے تو وہ اس پر حرام ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اس کی ماں بن جاتی ہے اور اس کی بیٹی حرام ہوجاتی ہے، کیونکہ وہ اس کی ہوجاتی ہے اور اس کی بہن حرام ہوجاتی ہے، کیونکہ وہ اس کی خالہ بن جاتی ہے اس کی ماں حرام ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اس کی نانی بن جاتی ہے اور اس کے خاوند کی بیٹی حرام ہوجاتی ہے، کیونکہ وہ اس کی بہن بن جاتی ہے اور اس خاوند کی بہن حرام ہوجاتی ہے۔ کیونکہ وہ اس کی پھوپھی بن جاتی ہے اور اس خاوند کی ماں حرام ہوجاتی ہے، کیونکہ وہ اس کی دادی بن جاتی ہے اور اس عورت کے بیٹوں اور بیٹیوں کی بیٹیاں حرام ہوجاتی ہیں، کیونکہ وہ اس کے بھائیون اور بہنون کی بیٹیاں بن جاتی ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
5
) ابو نعیم عبید اللہ بن ہشام الحلبی نے کہا : امام مالک (رح) سے پوچھا گیا : کیا عورت حج کرے اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ ؟ امام مالک نے فرمایا : ہاں ابو نعیم نے کہا : امام مالک (رح) سے پوچھا گیا : ایک عورت نے شادی کی اس کے خاوند نے اس کے ساتھ صحبت کی پھر ایک عورت آئی اور اس نے کہا : میں نے ان دونوں (میاں، بیوی) کو دودھ پلایا تھا، اماممالک (رح) نے فرمایا : انہیں جدا کردیا جائے گا اور جو کچھ عورت نے مرد سے مہرلیا تھا وہ اس کا ہوگا اور جو باقی ہے وہ اس خاوند پر باق نہ رہے گا۔ پھر امام مالک (رح) نے کہا : نبی کریم ﷺ سے اس کی مثل مسئلہ دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے یہی کہا تھا، صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ یہ بوڑھی عورت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کیا یہ نہیں جائے گا کہ فلاں نے اپنی بہن سے نکاح کیا ہے ؟ مسئلہ نمبر : (
6
) رضاع سے حرمت تب ثابت ہوتی ہے جبکہ دو سال کے دوران دودھ پلایا جائے، جیسا کہ سورة بقرہ میں گزر چکا ہے، ہمارے نزدیک قلیل ددوھ پلانے یا زیادہ دودھ پلانے کے درمیان کوئی فرق نہیں جب معدہ تک دودھ پہنچ جائے گا اگر ایک گھونٹ بھی ہوگا تو رضاعت ثابت ہوجائے گی، امام شافعی (رح) نے دودھ پلانے میں دو شرائط کا اعتبار کیا ہے ایک شرط پانچ چسکیاں، کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے ” جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اس میں تھا کہ دس معلوم چسکیاں حرام کردیتی ہیں پھر پانچ چسکیوں کے ساتھ دس والا حکم منسوخ ہوگیا اور رسول اللہ ﷺ کا وصال ہوا جب کہ یہ قرآن سے پڑھی جاتی تھیں “۔ اس سے استدلال یہ ہے کہ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ دس چسکیاں، پانچ کے ساتھ منسوخ ہوگئیں اگر تحریم پانچ سے کم چسکیوں کے ساتھ معلق کریں تو یہ پانچ کے لیے نسخ ہوں گی اور اس میں خبر واحد اور قیاس قبول نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان دونوں کے ساتھ نسخ واقع نہیں ہوتا اور سہلہ کی حدیث میں ہے ” توا سے (سالم) پانچ چسکیاں دودھ پلا دے وہ ان کی وجہ سے حرام ہوجائے گا “۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وددھ پلانا دو سال میں ہو، اگر دو سال سے زائد عمر میں دودھ پلایا جائے گا تو حرمت ثابت نہ ہوگی، کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے (آیت) ” حولین کاملین لمن اراد ان یتم الرضاعۃ “۔ (بقرہ :
233
) تمام اور کمال کے بعد کوئی چیز نہیں ہوتی۔ امام ابوحنیفہ نے اڑھائی سال کا اعتبار کیا ہے اور امام مالک (رح) نے ایک ماہ زائد کا اعتبار کیا ہے، امام زفر (رح) نے کہا : جب تک وہ دودھ پیتا ہے اور اس چھڑایا نہیں گیا تو وہ رضاع ہے اگرچہ اس پر تین سال بھی گزر چکے ہوں، اوزاعی نے کہا : جب ایک سال بعد دودھ چھڑا دیا گیا ہو پھر متواتر دودھ چھوڑا ہی رہے تو اس کے بعد رضاع ثابت نہ ہوگا، لیث بن سعد علماء کے درمیان منفرد ہیں۔ وہ کہتے ہیں : کہتے ہیں : بڑے کو دودھ پلانا بھی حرمت کا موجب ہے، یہ حضرت عائشہ ؓ کا قول ہے، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے بھی روایت ہے اور حضرت ابو موسیٰ ؓ سے اس سے رجوع بھی مروی ہے، یہ ابو حصین نے ابو عطیہ سے روایت کیا ہے، فرمایا : ایک شخص مدینہ طیبہ سے اپنی بیوی کے ساتھ آیا اس نے بچہ جنم دیا اور اس کے پستان پھول گئے تھے پس اس کے خاوند نے اسے چوسنا شروع کردیا اور کلی کرنا شروع کردیا تو دودھ کا گھونٹ اس کے پیٹ میں چلا گیا اس نے حضرت ابو موسیٰ ؓ سے مسئلہ پوچھا تو حضرت ابو موسیٰ ؓ نے کہا : تیری بیوی تجھ سے جدا ہوگئی اور تو حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس جا اور اسے یہ مسئلہ بتا، اس شخص نے ایسا کیا حضرت ابن مسعود اس اعرابی کے ساتھ حضرت ابو موسیٰ ؓ کے پاس آئے اور کہا : کیا تم اس سفید، سیاہ بالوں والے کو رضیع خیال کرتے ہو ! حرمت رضاعت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب دودھ گوشت اور ہڈیوں کو بڑھاتا ہے اشعری ؓ نے کہا : تم مجھ سے کوئی مسئلہ نہ پوچھا کرو جب کہ تمہارے درمیان یہ بہت بڑا عالم موجود ہے۔ پس ” پس تم نہ پوچھا کرو “ کے الفاظ دلیل ہیں کہ آپ نے اس سے رجوع کرلیا تھا، حضرت عائشہ ؓ نے سالم مولی ابن حذیفہ ؓ کے واقعہ سے حجت پکڑی ہے کہ وہ اس وقت مرد تھا جب نبی مکرم ﷺ نے سہلہ بنت سہیل کو کہا تھا کہ تو اسے دودھ پلادے، اس حدیث کو مؤطا وغیرہ میں نقل کیا گیا ہے، ایک طائفہ نے شاذقول کیا ہے اور دس چسکیاں پینے کا اعتبار کیا ہے انہوں نے ” عشر رضعات “ جو قرآن میں تھا اس کا اعتبار کیا ہے گویا انہیں ناسخ نہیں پہنچا تھا۔ داؤد نے کہا : حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی مگر تین چسکیاں پینے کے ساتھ اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے قول سے حجت پکڑی ہے ” ایک چسکی اور دو چسکیاں حرمت رضاعت کو ثابت نہیں کرتی ہیں “ اس حدیث کو مسلم نے نقل کیا ہے، یہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابن زبیر ؓ سے مروی ہے، یہی امام احمد، اسحاق، ابو ثور اور ابوعبید (رح) کا قول ہے، یہ دلیل الخطاب سے تمسک (دلیل پکڑنا) ہے، اس میں اختلاف ہے، ان علماء کے علاوہ ائمہ فتوی کا یہ نظریہ ہے کہ ایک گھونٹ بھی حرام کردیتا ہے جب یقین ہوجائے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے انہوں نے کم از کم مقدار جس پر رضاع کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے اس سے حجت پکڑی ہے۔ اس کی تائید اہل مدینہ کے عمل سے اور مصاہرت پر قیاس کے ساتھ کی گئی ہے، اس علت کے ساتھ کہ یہ لاحق ہونے والا معنی ابدی تحریم کا تقاضا کرتا ہے، پس اس میں عدد شرط نہیں ہے جس طرح مصاہرت میں عدد شرط نہیں ہے۔ لیث بن سعد (رح) نے کہا : مسلمانوں کا اجماع ہے کہ دودھ تھوڑا پینا اور زیادہ پینا، پنگھوڑے میں حرام کردیتا ہے جو روزہ دار کے روزہ کو افطار کردیتا ہے، ابو عمر (رح) نے کہا : لیث اس کے خلاف پر آگاہ نہیں تھے، میں کہتا ہوں : اس باب میں نبی مکرم ﷺ کا ارشاد : لا تحرم المصۃ ولا المصتان (ایک اور دو چسکیاں حرام نہیں کرتی ہیں) نص ہے۔ اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے، یہ (آیت) ” امھتکم التی ارضعنکم “ کی تفسیر کرتا ہے۔ یعنی وہ تمہیں تین چسکیاں پلائیں یا زیادہ مگر یہ ممکن ہے کہ اسے اس پر محمول کیا جائے جب دودھ کا بچے کے پیٹ میں پہنچنا متحقق نہ ہو، کیونکہ دس معلوم چسکیوں اور پانچ معلوم چسکیوں کا ارشاد موجود ہے پس معلوم کے ساتھ وصف ذکر فرمایا تو حرام نہیں کرتیں۔ واللہ اعلم۔ امام طحاوی نے ذکر کیا ہے کہ املاجۃ ولا ملاجتین “۔ والی حدیث ثابت نہیں ہے کیونکہ حضرت ابن زبیر ؓ کبھی تو نبی مکرم ﷺ سے روایت فرماتے ہیں، کبھی حضرت عائشہ ؓ سے روایت فرماتے ہیں، کبھی اپنے باپ سے روایت فرماتے ہیں اس قسم کا اضطراب حدیث کو حجت ہونے سے ساقط کردیتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ صرف سات چسکیاں پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی بہن حضرت ام کلثوم ؓ کو حکم دیا کہ وہ سالم کو دس چسکیاں پلا دے، حضرت حفصہ ؓ سے اس کی مثل مروی ہے ان سے تین چسکیاں پلانا بھی اور پانچ چسکیاں پلانا بھی مروی ہے، جیسا کہ امام شافعی (رح) نے فرمایا۔ اسحاق (رح) سے یہ حکایت کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” جن علماء نے نر کے دودھ کی نفی کی ہے انہوں نے اس جملہ سے استدلال کیا ہے، یہ سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی، ابو سلمہ بن عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے یہ علماء فرماتے ہیں : نر کا دود مرد کی طرف سے کسی چیز کو حرام نہیں کرتا۔ اور جمہور علماء فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” امھتکم التی ارضعنکم “۔ دلیل ہے کہ نر باپ ہے کیونکہ دودھ اس کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ وہ اپنی اولاد کے سبب دودھ دیتا ہے یہ ضعیف ہے، کیونکہ بچہ مرد اور عورت دونوں کے پانی سے پیدا ہوا ہوتا ہے اور دودھ عورت سے ہوتا ہے مرد سے دودھ نہیں نکلتا اور مرد کی طرف سے وطی ہوتی ہے جو مرد سے پانی کے نزول کا سبب ہے، جب بچہ ماں سے جدا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ دودھ پیدا فرماتا ہے کسی اعتبار سے مرد کی طرف مضاف نہیں ہوتا اسی وجہ سے مرد کو دودھ میں کوئی حق نہیں ہے، دودھ عورت کے لیے ہوتا ہے پانی پر قیاس سے اس کو لینا ممکن نہیں اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد : یحرم من الرضاع مایحرم من النسب “۔ (
1
) (سنن نسائی، کتاب النکاح باب مایحرم من الرضاع، حدیث نمبر
3246
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاع سے بھی حرام ہوتے ہیں) یہ رضاع کی وجہ سے تحریم کا تقاضا کرتا ہے اور مرد کی طرف رضاع کی نسبت کی وجہ اس طرح ظاہر نہیں ہوتی جس طرح پانی کی نسبت مرد کی طرف اور رضاع کی نسبت عورت کی طرف ظاہر ہوتی ہے ہاں اس میں اصل زہری، ہشام بن عروہ عن عائشہ ‘ ؓ کے سلسلہ سے مروی حدیث ہے کہ افلح ابی قعیس کا بھائی حضرت عائشہ ؓ کے پاس آنے کی اجازت طلب کر رہا تھا، وہ حضرت عائشہ ؓ کا رضاعی چچا تھا یہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد کا واقعہ ہے تو حضرت عائشہ ؓ نے کہا : میں اسے اجازت نہیں دیتی، جب نبی مکرم ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓ نے مسئلہ عرض کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وہ تیرے پاس آنا چاہیے، کیونکہ وہ تمہارا چچا ہے تربت یمینک، ابو القعیس اس عورت کا خاوند تھا جس نے حضرت عائشہ ؓ کو دودھ پلایا تھا، یہ بھی خبر واحد ہے یہ بھی احتمال ہے کہ افلح نے حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ دودھ پیا ہو اسی وجہ سے آپ نے فرمایا ہو : وہ تیرے پاس داخل ہو، کیونکہ وہ تمہارا چچا ہے۔ بہرحال اس میں حتمی قول کرنا مشکل ہے، اور حقیقی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہیی لیکن عمل اس پر ہے اور تحریم میں احتیاط بہتر ہے، جبکہ یہ ارشاد بھی موجود ہے۔ (آیت) ” واحل لکم ماورآء ذلکم “۔ (اس کے علاوہ عورتیں تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں) یہ مخالف کے قول کو تقویت دیتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
8
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واخوتکم من الرضاعۃ “۔ اس سے مراد سگی بہن ہے اور وہ بہن ہے جس کو تیرے باپ کے دودھ سے تیری ماں نے دودھ پلایا ہے خواہ اس کو تیرے ساتھ دودھ پلایا ہو یا وہ تجھ سے پہلے پیدا ہوئی ہو یا بعد میں اور وہ جو صرف باپ کی طرف سے تیری بہن ہے اور وہ وہ ہے جس کو تیرے باپ کی بیوی نے دودھ پلایا ہے اور صرف ماں کی طرف سے بہن یہ وہ ہے جس کو تیری ماں نے کسی دوسرے مرد کے دودھ سے دودھ پلایا ہے پھر حرمت مصاہرت کا ذکر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وامھت نسآئکم “۔ تمہاری بیویوں کی مائیں، مصاہرت کے سبب حرام ہونے والی عورتیں چار ہیں۔ بیوی کی ماں، بیوی کی بیٹی، باپ کی بیوی، بیٹے کی بیوی اور بیوی کی ماں، بیٹی سے عقد صحیح سے حرام ہوجاتی ہے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
9
) (آیت) ” وربائبکم التی فی حجورکم من نسآئکم التی دخلتم بھن “۔ یہ ایک مستقل کلام ہے اور “۔ (آیت) ” نسآئکم التی دخلتم بھن “۔ کا ارشاد پہلے فریق کی طرف راجع نہیں ہے بلکہ یہ ربائب کی طرف راجع ہے، کیونکہ یہ قریب مذکور ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، الرییبۃ خاوند کی بیوی کی بیٹی جو پہلے خاوند سے ہو اس کو ربیبۃ اس لیے کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنی گود میں اس کی تربیت کرتا ہے پس یہ مربوبۃ ہے، فعیلۃ بمعنی مفعولۃ ہے، فقہاء نے اتفاق کیا ہے کہ ربیبۃ اپنی ماں کے خاوند پر حرام ہوتی ہے جب وہ ماں سے صحبت کرلیتا ہے اگرچہ ربیبۃ اس کی پرورش میں نہ بھی ہو۔ بعض متقدمین اور اہل ظواہر نے شاذ قول کیا ہے کہ ربیبۃ اس مرد پر حرام نہیں ہوتی مگر جب کہ وہ اس شخص کی پرورش میں ہو جس نے اس کی ماں سے نکاح کیا ہے اگر وہ بچی دوسرے شہر میں ہو اور ماں کو وہ دخول کے بعد جدا کردے تو اس شخص کے لیے اس بچی سے نکاح کرنا جائز ہے۔ انہوں نے اس آیت سے حجت پکڑی ہے۔ وہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے ربیبۃ کو دو شرطوں کے ساتھ حرام کیا ہے (
1
) (صحیح بخاری کتاب النکاح، باب امھاتکم التی ارضعنکم حدیث نمبر
4711
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) وہ ماں سے نکاح کرنے والے کی پرورش میں ہو، دوسری یہ کہ وہ ماں سے دخول کرچکا ہو، جب ان دو شرطوں میں سے ایک مفقود ہو تو تحریم نہیں پائی جائے گی اور انہوں نے نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد سے بھی حجت پکڑی ہے کہ ” اگر یہ میری گود میں پرورش نہ پاتی تب بھی میرے لیے حلال نہ تھی، کیونکہ یہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے “۔ (
1
) پس آپ ﷺ نے گود میں پرورش کو شرط قرار دیا ہے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے اس کی اجازت روایت کی ہے، ابن المنذر اور طحاوی نے کہا کہ رہی حضرت علی ؓ کی حدیث تو وہ ثابت نہیں ہے، کیونکہ اس کا راوی ابراہیم بن عبید غیر معروف ہے اور اکثر اہل علم نے اس کو دور کیا ہے اور اس کے خلاف قول کیا ہے، ابو عبید نے کہا : اس کو فلا تعرضن علی بناتکن ولا اخوتکن دور کرتا ہے، آپ ﷺ نے اس کو عام فرمایا ہے اور آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ اپنی بیٹیاں پیش نہ کرو جو میری گود میں ہیں بلکہ تحریم میں سب کو برابر کیا، امام طحاوی نے فرمایا : گود میں ہونے کی اضافت غالب طور پر ہے کہ وہ ربائب ہوتی تھیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ گود میں پرورش نہ پا رہی ہوں تو حرام ہی نہیں ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
10
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فان لم تکونوا دخلتم بھن “۔ یعنی ماں کے ساتھ دخول نہ کیا ہو تو اس کی بیٹی سے نکاح کرنے میں تجھ پر کوئی حرج نہیں ہے جب تم انہیں طلاق دے دو یا وہ مرجائیں، علماء کا اجماع ہے کہ آدمی جب ایک عورت سے نکاح کرے پھر اسے طلاق دے دے یا وہ دخول سے پہلے مرجائے تو اس آدمی کے لیے اس عورت کی بیٹی سے نکاح کرے پھر اسے طلاق دے دے یا وہ دخول سے پہلے مر جائے تو اس آدمی کے لیے اس عورت کی بیٹی سے نکاح کرنا حلال ہے، امہات کے ساتھ دخول میں اختلاف ہے جس سے ربائب کی تحریم واقع ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا دخول سے مراد جماع ہے۔ طاؤس اور عمرو بن دینار وغیرہما کا یہی قول ہے، امام مالک (رح)، ثوری، امام ابوحنیفہ (رح)، اوزاعی (رح) اور لیث (رح) کا اتفاق ہے کہ جب عورت کو شہوت کے ساتھ چھولے تو اس پر اس عورت کی ماں اور اس کی بیٹی حرام ہوجائے گی اور وہ عورت اس کے باپ اور اس کے بیٹے پر حرام ہوجائے گی، امام شافعی (رح) کا بھی ایک قول یہی ہے۔ دیکھنے میں اختلاف ہے امام مالک (رح) نے فرمایا : جب اس کے بالوں یا سینے کو یا دوسرے محاسن کو لذت کے لیے دیکھا تو اس پر اس کی ماں اور اس کی بیٹی حرام ہوجائے گی، کو فیوں نے کہا : جب اس کی شرمگاہ کو شہوت کے ساتھ دیکھے گا تو یہ شہوت کے ساتھ چھولے تو اس پر اس عورت کی ماں اور اس کی بیٹی حرام ہوجائے گی اور وہ عورت اس کے باپ اور اس کے بیٹے پر حرام ہوجائے گی، امام شافعی (رح) کا بھی ایک قول یہی ہے۔ دیکھنے میں اختلاف ہے امام مالک (رح) نے فرمایا : جب اس کے بالوں یا سینے کو یا دوسرے محاسن کو لذت کے لیے دیکھا تو اس پر اس کی ماں اور اس کی بیٹی حرام ہوجائے گی۔ کو فیوں نے کہا : جب اس کی شرمگاہ کو شہوت کے ساتھ دیکھے گا تو یہ شہوت سے چھونے کے قائم مقام ہوگا، ثوری نے کہا : جب وہ اس کی فرج کی طرف جان بوجھ کر دیکھے گا یا اسے چھوئے گا تو حرمت ثابت ہوجائے گی، انہوں نے شہوت کا ذکر نہیں کیا، ابن ابی لیلی نے کہا : دیکھنے سے حرام نہ ہوگی حتی کہ چھولے، یہی امام شافعی (رح) کا قول ہے دلیل اس پر کہ دیکھنے سے تحریم واقع ہوجاتی ہے، یہ ہے کہ اس میں استمتاع کی ایک قسم ہے پس یہ نکاح کے قائم مقام ہوگا کیونکہ احکام معانی سے متعلق ہوتے ہیں نہ کہ الفاظ کے، یہ کہنے کا بھی احتمال ہے کہ یہ استمتاع کے ساتھ جمع ہونے کی ایک نوع ہے، کیونکہ دیکھنا اجتماع اور ملاقات ہے اس میں محبت کرنے والوں کے درمیان استمتاع ہے، شعراء نے اس میں مبالغہ کیا ہے : الیس اللیل یجمع ام عمرو ایانا فذاک بنا تدان : نعم تری الھلال کما اراۃ ویعلوھا النھار کما علانی : تو پھر دیکھنے مل کر بیٹھنے، باتیں کرنے اور لذت میں یہ کیفیت کیسے نہ ہوگی۔ مسئلہ نمبر : (
11
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وحلائل ابنائکم “۔ الحلائل جمع ہے حلیلۃ کی، اس سے مراد بیوی ہے بیوی کو حلیلہ اس لیے کہا جاتا ہے، کیونکہ تحل مع الزوج حیث حل یعنی یہ خاوند کے ساتھ اترتی ہے جہاں وہ اترتا ہے یہ فعیلہ بمعنی فاعلۃ ہے، زجاج اور ایک اور قوم کا یہ نظریہ ہے کہ یہ لفظ الحلال سے ہے یہ حلیلہ بمعنی محللہ ہے، بعض علماء نے فرمایا : یہ نام اس کو اس لیے دیا جاتا ہے کہ میاں بیوی سے ہر ایک دوسرے کا ازار کھولتا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
12
) علماء کا اجماع ہے باپ، دادا جن عورتوں سے نکاح کرتے ہیں وہ بیٹوں پر حرام ہوجاتی ہیں اور جس سے بیٹے نکاح کرتے ہیں، وہ باپ، دادا پر حرام ہوجاتی ہیں خواہ نکاح کے ساتھ وطی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” ولا تنکحوا ما نکح ابآؤکم من النسآء “۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وحلائل ابنائکم الذین من اصلابکم “۔ اگر ان دونوں سے کوئی ایک نکاح فاسد کرے تو دوسرے پر اس سے عقد کرنا حرام ہوگا جس طرح عقد صحیح سے حرام ہوتا ہے، کیونکہ نکاح فاسد یا تو ایسا ہوگا کہ اس کے فساد پر اتفاق ہوگا یا اس میں اختلاف ہوگا، اگر اس کے فساد پر اتفاق ہو تو وہ حکم کو ثابت نہیں کرتا اور اس کا تو ایسا ہوگا کہ اس کے فساد پر اتفاق ہوگا یا اس میں اختلاف ہوگا، اگر اس کے فساد پر اتفاق ہو تو وہ حکم کو ثابت نہیں کرتا اور اس کا وجود نہ ہونے کی طرح ہوتا ہے اگر اس میں اختلاف ہے توا اس کے ساتھ وہ حرمت متعلق ہوتی ہے جو نکاح صحیح کے ساتھ متعلق ہوتی ہے کیونکہ احتمال ہے کہ وہ نکاح صحیح ہو پس وہ مطلق اللفظ کے تحت داخل ہوگا، اور فروج جب ان میں تحریم وتحلیل کا تعارض ہو تو تحریم کو غلبہ دیا جاتا ہے، واللہ اعلم، ابن المنذر نے کہا : علماء امصار کا اجماع ہے کہ جب کوئی شخص نکاح فاسد کے ساتھ عورت سے وطی کرے تو اس کے باپ اور بیٹے پر وہ عورت حرام ہوجاتی ہے اور ذلیل کے مسئلہ پر علماء کا اجماع ہے۔ مسئلہ نمبر : (
13
) لونڈی کو کسی کا خریدنا اسے اس کے باپ اور بیٹے پر حرام نہیں کرتا، جب کوئی شخص لونڈی خریدے پھر اسے چھوئے یا بوسے دے تو وہ اس کے باپ اور بیٹے پر حرام ہوجائے گی، میں ان علماء کو نہیں جانتا جو اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہوں، ابن المنذر (رح) نے کہا : جو کچھ ہم نے کہا کسی صحابی رسول اللہ ﷺ سے اس کے خلاف صحیح مروی نہیں۔ یعقوب (رح) اور محمد (رح) نے کہا : جب کوئی شخص کسی عورت کی شرمگاہ کو شہوت سے دیکھے تو وہ عورت اس کے باپ اور اس کے بیٹے پر حرام ہوجائے گی اور اس عورت پر اس عورت کی ماں اور اس کی بیٹی حرام ہوجائے گی، امام مالک (رح) نے فرمایا : جب لونڈی سے وطی کرے یا وطی کے لیے اس کے پاس بیٹھے اور اس کا پردہ بکارت نہ پھاڑے یا اسے بوسہ دے یا اس کے جسم کے ساتھ جسم لگائے یا اسے ہاتھ لگائے اور یہ بطور تلذذ ہو تو اس کے بیٹے کے لیے وہ حلال نہ ہوگی، امام شافعی (رح) نے فرمایا : چھونے سے حرام ہوگی نظر سے حرام نہ ہوگی، یہی قول اوزاعی کا بھی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
14
) زنا سے وطی میں اختلاف ہے کہ کیا وہ حرام کرے گا یا نہیں ؟ اکثر علماء کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے تو اس پر اس سے اس کی وجہ سے نکاح کرنا حرام نہ ہوگا اسی طرح اس پر اس کی بیوی حرام نہ ہوگی جب وہ بیوی کی ماں یا بیٹی سے زنا کرے گا اور اس پر حد لگائی جائے گی پھر وہ اپنی بیوی سے صحبت کرے گا اور جس نے ایک عورت سے زنا کیا پھر اس کی ماں یا بیٹی سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا تو وہ دونوں اس وجہ سے اس پر حرام نہ ہوگی اور ایک جماعت نے کہا کہ وہ حرام ہوجائے گی، یہ قول عمران بن حصین سے مروی ہے یہی قول امام شعبی (رح)، عطا (رح)، حسن (رح)، سفیان ثوری (رح)، احمد (رح)، اسحاق (رح)، اور اصحاب رائے کا ہے، امام مالک (رح) سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ زنا ماں اور بیٹی کو حرام کردیتا ہے اور یہ حلال وطی کے قائم مقام ہے، یہ اہل عراق کا قول ہے اور امام مالک (رح) اور اہل حجاز کا صحیح قول یہ ہے کہ زنا کا کوئی حکم نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” امھت نسآئکم “۔ اور جس سے زنا ہوا ہے وہ اس کی عورتوں کی ماؤں سے نہیں ہے نہ اس کی ربائب بیٹیوں میں سے ہے۔ یہ امام شافعی (رح) اور ابو ثور (رح) کا قول ہے، کیونکہ جب زنا کی وجہ سے مہر، عدت کا وجوب، میراث، لحوق الولد کا حکم اٹھ گیا اور حد واجب ہوئی تو اس کے لیے جائز نکاح کا حکم بھی اٹھ گیا، دارقطنی سے زہری عن عروہ عن عائشہ ؓ کی حدیث سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے ایک عورت سے زنا کیا پھر وہ عورت سے یا اس کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حرام۔ حلال کو حرام نہیں کرتا حرام وہ وطی کرتی ہے جو نکاح سے ہو۔ اور دوسرے قول کی حجت میں سے نبی مکرم ﷺ کا جریج کے متعلق خبر دینا ہے جب جریج نے اس بچے سے پوچھا اے بچہ ! تیرا باپ کون ہے ؟ تو بچہ بول پڑا اس نے کہا : فلاں چرواہا۔ یہ دلیل ہے کہ زنا بھی حرام کرتا ہے جس طرح حلال وطی حرام کرتی ہے پس جس عورت سے زنا کیا گیا وہ اور اس کی بیٹی زانی کے باپ، دادا اور اس کی بیٹوں کے لیے حلال نہیں ہے، یہ ابن القاسم کی روایت المدونۃ میں ہے، اس سے بھی استدلال کیا جاتا ہے، کہ زانی کے پانی سے ہونے والی اس کی ماں سے زنا کرنے والے کے لیے حلال نہیں ہے۔ یہ مشہور ہے اور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا جس نے عورت اور اس عورت کی بیٹی کی فرج کو دیکھا، آپ نے حلال اور حرام کے درمیان فرق نہیں فرمایا اور آپ ﷺ کا ارشاد ہے ” اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا جس نے عورت (ماں) اور بیٹی دونوں کا پردہ کھولا “۔ ابن خویز منداد نے کہا : اسی وجہ سے ہم نے کہا کہ بوسہ اور استمتاع کی تمام صورتیں حرمت کو پھیلاتی ہیں، عبدالملک الماجشون نے کہا : وہ حلال ہے اور یہی صحیح ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” وھو الذی خلق من المآء بشرا فجعلہ نسبا وصھرا “۔ (الفرقان :
54
) یعنی نکاح صحیح کے ساتھ نسب اور سسرال بنائے اس کی تفصیل سورة الفرقان میں آئے گی۔ ان دو مسئلوں پر حدیث سے استدلال اس طرح ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے جریج کے بارے میں حکایت کی کہ اس نے زانی کے بیٹے کو زانی کی طرف منسوب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت کی تصدیق فرمائی کہ اس نے خلاف عادت بچہ کو اس کی شہادت دینے کے لیے قوت گویائی عطا فرمائی اور نبی مکرم ﷺ نے اس کو جریج سے مدح اور اظہار کرامت کے طور پر بیان فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ کی تصدیق اور اس کے متعلق نبی مکرم ﷺ کے خبر دینے کے ساتھ یہ نسبت صحیح ہے پس بنوت اور اس کے احکام ثابت ہوئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ زنا کی صورت میں بنوت، ابوت کے احکام جاری ہوں گے مثلا توراث، ولایات وغیرہ، جب کہ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ ان کے درمیان توارث نہیں ہے تو پھر یہ نسبت کیسے صحیح ہے۔ ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے یہ اس کو موجب ہے اور وہ احکام جن پر اجماع ہے ہم نے ان کی استثنا کی ہے اور دوسروں کو باقی رکھا ہے اس دلیل کی اصل پر۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
15
) لواطت کرنے والے کے مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے۔ امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم اور ان کے اصحاب نے کہا ہے کہ لواطت کرنے والے سے نکاح حرام نہیں۔ ثوری (رح) نے کہا : جب کسی لڑکے سے کوئی ملاعبت کرے تو اس پر اس کی ماں حرام ہوگی، یہ امام احمد بن حنبل (رح) کا قول ہے۔ انہوں نے فرمایا : جس نے اپنی عورت کے بیٹے، عورت کے باپ یا عورت کے بھائی سے لواطت کی تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی، امام اوزاعی (رح) نے کہا : جو کوئی کسی لڑکے سے لواطت کرے پھر جس سے لواطت کی گئی ہے اس کی لڑکی پیدا ہو تو لواطت کرنے والے کے لیے اس لڑکی سے نکاح کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ اس کی بیٹی ہے جس کے ساتھ وہ دخول کرچکا ہے۔ یہ امام احمد (رح) کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (
16
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الذین من اصلابکم “۔ یہ تخصیص ہے تاکہ اس سے ہر وہ شخص خارج ہوجائے جس کو عرب متبنی بتاتے ہیں جو صلب سے نہیں ہوتا تھا۔ جب نبی مکرم ﷺ نے زید بن حارثہ کی (مطلقہ) بیوی سے نکاح کیا تو مشرکین نے کہا : اس نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کیا ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے حضرت زید ؓ کو اپنا متبنی بنایا تھا جیسا کہ اس کا بیان سورة الاحزاب میں آئے گا، رضاعی بیٹے کی بیوی حرام ہے اگرچہ وہ بھی صلب سے نہیں ہوتا، اس پر اجماع ہے اور اس کی دلیل نبی مکرم ﷺ کا یہ ارشاد ہے۔ یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب “۔ (
1
) (سنن نسائی : کتاب النکاح، باب مایحرم من الرضاع، حدیث نمبر
3248
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) رضاع سے وہ رشتے حرام ہوجاتے ہیں ہیں جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
17
) (آیت) ” وان تجمعوا بین الاختین “۔ اس کا عطف حرمت علیکم امھتکم “۔ پر ہے اس وجہ سے ان محل رفع میں ہے اور دو بہنوں کا لفظ تمام صورتوں کو شامل ہے خواہ انہیں نکاح کے ساتھ جمع کیا جائے یا ملک یمین کے ساتھ جمع کیا جائے اور امت کا اجماع ہے کہ اس آیت کی وجہ سے ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرنا ممنوع ہے اور اس کی دوسری دلیل نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے۔ لا تعرض علی بناتکن ولا خواتکن “۔ (
2
) (صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب وربائبکم اللاتی فی حجورکم ‘ الخ، حدیث نمبر
4715
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) تم مجھ پر اپنی بیٹیاں اور اپنی بہنیں پیش نہ کرو، اور ملک یمین میں دو بہنوں کو جمع کرنے میں اختلاف ہے، اکثر علماء کا نظریہ یہ ہے کہ ملکیت کے ذریعے وطی میں جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ اگرچہ ملکیت میں ویسے جمع کرنا بالاجماع جائز ہے، اسی طرح ماں اور بیٹی کو ایک سودے میں خریدنا جائز ہے لیکن جس لونڈی سے وطی کی گئی ہو اس کی بہن سے نکاح کرنے میں اختلاف ہے۔ امام اوزاعی نے فرمایا : جب وہ اپنی لونڈی سے ملک یمین کی وجہ سے وطی کرچکا ہو تو اس کے لیے اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : ملک یمین، بہن کے نکاح سے مانع نہیں، ابو عمر (رح) نے کہا : جنہوں نے عقد نکاح کو شرا (خریدنا) کی طرح بنایا انہوں نے اس کی اجازت دی اور جنہوں نے اس کو وطی کی طرح بنایا تو انہوں نے جائز قرار نہیں دیا، اور علماء کا اجماع ہے کہ بیوی کی بہن سے نکاح کرنا جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” وان تجمعوا بین الاختین “۔ یعنی دونوں کو عقد نکاح کے ذریعے جمع کرنا حرام ہے پس تم ٹھہر جاؤ جس پر علماء نے اجماع کیا اور جس میں اختلاف کیا انشاء اللہ تعالیٰ درست نظریہ تیرے لیے واضح ہوجائے گا۔ مسئلہ نمبر : (
18
) اہل ظواہر نے ایک علیحدہ نظریہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا : وطی میں ملک یمین کے ذریعے دو بہنوں کو جمع کرنا جائز ہے جس طرح ملکیت میں ان کو جمع کرنا جائز ہے اور انہوں نے اس روایت سے حجت پکڑی ہے جو ملک یمین سے دو بہنوں کو جمع کرنے کے متعلق حضرت عثمان سے مروی ہے، حضرت عثمان ؓ نے فرمایا : ایک آیت نے ان دونوں کو حرام کیا اور ایک آیت نے دونوں کو حلال کیا، یہ عبدالرزاقرحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کی ہے، عبدالرزاق (رح) نے کہا : ہمیں معمر نے بتایا انہوں نے زہری سے روایت کیا انہوں نے قبیصہ بن ذویب سے روایت کیا کہ حضرت عثمان ؓ سے ان دو بہنوں کے متعلق پوچھا گیا جو ملک یمین میں جمع کی جائیں، تو حضرت عثمان ؓ نے فرمایا : نہ میں اس کا تجھے حکم دیتا ہوں اور نہ تجھے منع کرتا ہوں، ایک آیت نے انہیں حلال کیا اور ایک آیت نے انہیں حرام کیا۔ پس وہ سائل وہاں سے نکلا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے کسی شخص سے ملام، معمر (رح) نے کہا : میرا خیال ہے وہ حضرت علی ؓ تھے، اس شخص نے کہا : تو نے عثمان ؓ سے کیا پوچھا ہے ؟ اس نے جو پوچھا تھا اور جو حضرت عثمان ؓ نے بتایا تھا سب کچھ بتایا، اس صحابی ؓ نے کہا : لیکن میں تجھے منع کرتا ہوں۔ اگر مجھے تجھ پر گرفت کا اختیار ہوتا پھر تو ایسا کرتا تو میں تجھے سخت سزا دیتا (
1
) (مصنف عبدالرزاق،
12728
) امام طحاوی (رح) اور دارقطنی نے حضرت علی ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے حضرت عثمان ؓ کے قول کی مثل ذکر کیا ہے اور وہ آیت جو انہیں حلال کرتی ہے وہ یہ ہے (آیت) ” واحل لکم ماورآء ذلکم “ ان کے علاوہ تمہارے لیے عورتیں حلال کی گئی ہیں۔ لیکن فتوی دینے والے ائمہ نے اس قول کو لائق التفات نہیں سمجھا، کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کی تاویل سے اس کا خلاف سمجھا ہے اور ان پر تاویل کی تحریف جائز نہیں، اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے جن کا یہ نظریہ تھا ان میں حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت عثمان، حضرت ابن عباس، حضرت عمار، حضرت ابن عمر، حضرت عائشہ، حضرت ابن زبیر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پس یہ کتاب اللہ کو جاننے والے تھے جو ان کی مخالفت کرنے والا ہے وہ تاویل میں ہٹ دھرمی کرنے والا ہے، ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہنے ذکر کیا ہے کہ اسحاق بن راہویہ (رح) نے وطی کے ساتھ جمع کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔ جمہور اہل علم نے اس کو مکروہ کہا ہے، امام مالک (رح) کو بھی ان میں شمار کیا جنہوں نے اس کو مکروہ قرار دیا ہے۔ صرف ملکیت میں جمع کرنے کے جواز میں اختلاف نہیں، اسی طرح ماں اور بیٹی کو ملکیت میں جمع کرنے میں کوئی اختلاف نہیں، ابن عطیہ (رح) نے کہا : اسحاق (رح) کا قول ہے کہ وطی میں دونوں کو جمع کرنے والے کو رجم کیا جائے گا، امام مالک (رح) کے قول سے کراہیت ثابت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا : جب وہ ایک سے وطی کرے پھر دوسری سے وطی کرے تو دونوں سے توقف کرے حتی کہ ایک کو حرام کرے، پس اس پر حد لازم نہ ہوگی، ابو عمر ؓ نے کہا : حضرت علی ؓ کا یہ قول کہ ” میں اسے سزا دیتا “۔ آپ نے یہ نہیں کہا کہ میں اسے زانی کی حد لگاتا، کیونکہ اس نے یہ فعل آیت یا سنت کی تاویل سے کیا ہے اور اس نے از خود حرام وطی نہیں کی پس بالاجماع وہ زانی نہیں ہے اگرچہ وہ خطا کرنے والا ہے مگر وہ صورت جس میں وہ ایسا دعوی کرتا ہے جس میں جہالت کی وجہ سے معذور نہیں سمجھا جاتا اور ملک یمین کی وجہ سے دو بہنوں کو جمع کرنے میں بعض سلف کا قول انہیں ایک آیت حلال کرتی ہے اور ایک آیت حرام کرتی ہے، معلوم محفوظ ہے، پس جو اتنے قومی شبہ کی موجودگی میں کوئی ایسا فعل کرتا ہے تو اسے زانی کی حد کیسے لگائی جائے گی، وباللہ التوفیق۔ مسئلہ نمبر : (
19
) علماء کا اختلاف ہے جب ایک سے وطی کرچکا تھا پھر دوسری سے وطی کرنے کا ارادہ کرتا ہے، حضرت علی، حضرت ابن عمر، حسن، بصری، اوزاعی، شافعی، امام احمد، اور اسحاق، رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین رحمۃ اللہ علیہم نے فرمایا : دوسری سے اس کا وطی کرنا جائز نہیں ہے حتی کہ پہلی اپنی ملکیت سے نکا کر اس کی فرج کو حرام کر دے مثلا اسے بیچ دے یا آزاد کر دے یا اس کا کسی اور سے نکاح کر دے ابن المنذر (رح) نے کہا : اس میں دوسرا قول قتادہ (رح) کا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب ایک سے وطی کرچکا ہو اور دوسری سے وطی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ پہلی کو اپنے اوپر حرام کرنے کی نیت کرلے اور اس کے قریب نہ جانے کی نیت کرے، پھر دونوں سے رکا رہے حتی کہ پہلی جس کو حرام کیا تھا اس کا رحم صاف ہوجائے، پھر دوسری سے صحبت کرے، اس میں تیسرا قول بھی ہے وہ یہ ہے کہ کسی کے پاس دو بہنیں ہوں تو وہ کسی کے بھی قریب نہ جائے حکم اور حماد نے اسی طرح کہا ہے۔ اس کا مفہوم نخعی سے بھی مروی ہے، امام مالک (رح) کا مذہب یہ ہے کہ جب کسی شخص کی ملکیت میں دو بہنیں ہوں، تو اس کے لیے جائز ہے جس سے چاہے وطی کرے اور دوسری سے رکنا اس کی امانت کے سپرد ہے اگر وہ دوسری سے وطی کرنے کا ارادہ کرے تو اس پر لازم ہے کہ اپنے اوپر پہلی کی فرج کو حرام کر دے اپنے کسی فعل سے جو اسے اس کی ملکیت سے نکال دے مثلا اس کا کسی دوسرے سے نکاح کر دے یا اسے فروخت کر دے یا اسے ایک مدت تک آزاد کردے یا اسے مکاتبہ بنا دے یا طویل خدمت کرنے کے لیے کسی کو دے دے، اگر ایک سے وطی کرچکا تھا پھر فورا دوسری سے وطی کردی جب کہ جب کہ پہلی کو حرام نہیں کیا تھا تو دونوں سے رک جائے۔ اس کے لیے کسی کے قریب جانا جائز نہیں حتی کہ دوسری کو حرام کردے اور یہ اس کی امانت کے سپرد نہیں کیا جائے گا، کیونکہ وہ اب متہم ہوچکا ہے اور پہلے وہ متہم نہ تھا جب اس نے صرف ایک سے وطی کی تھی، اس باب میں کو فیوں، ثوری، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم اور ان کے اصحاب کا مذہب یہ ہے کہ وہ اگر لونڈی سے وطی کرچکا ہے تو دوسری سے وطی نہ کرے، اگر پہلی کو بیچ دے یا اس کا نکاح کر دے، پھر وہ اس کی طرف لوٹ آئے تو دوسری سے رک جائے اور اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اس سے وطی کرے، جب تک اس کی بہن طلاق کی یا وفات کی عدت میں ہے اور عدت کے گزرنے کے بعد نہیں، حتی کہ اس عورت کی فرج کا کسی دوسرے کو مالک بنا دے جس سے وہ وطی کرچکا ہے، یہ مفہوم حضرت علی ؓ سے مروی ہے، یہ علماء فرماتے ہیں : کیونکہ ملک جو ابتداء میں لونڈی کی وجہ سے مانع تھی وہ اب بھی موجود ہے کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ اس کی طرف دوبارہ لوٹ کر آئے یا اس کی ملک میں باقی رہے، امام مالک کا قول عمدہ ہے کیونکہ یہ فی الحال صحیح تحریم ہے، مآل کی رعایت کو لازم نہیں اور یہ کافی ہے کہ جب وہ بیع یا آگے نکاح کرنے کے ساتھ اس کی فرج اپنے اوپر حرام کر دے گا تو وہ اس پر فی الحال حرام ہوگی اور آزاد کرنے میں کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ وہ اس میں کسی حالت میں تصرف نہیں کرسکتا، رہا اس لونڈی کو مکاتبہ بنانا کبھی وہ زر کتابت ادا کرنے سے عاجز آجاتی ہے اور پھر اس کی ملک کی طرف لوٹ آتی ہے، اگر کسی شخص کے پاس لونڈی ہو جس سے وہ وطی کرتا ہو اور پھر وہ اس کی بہن سے نکاح کرے تو اس کے نکاح کے بارے میں تین اقوال ہیں، تیسرا قول مدونہ میں یہ ہے کہ وہ دونوں سے رک جائے جب عقد نکاح واقع ہوحتی کہ ایک کو حرام قرار دے، کیونکہ اس نکاح کی وجہ سے وطی میں کراہت آگئی ہے، کیونکہ یہ ایسی جگہ میں عقد ہے جس میں وطی جائز نہیں ہے، اس میں دلیل ہے کہ ملک یمین نکاح سے مانع نہیں ہے جیسا کہ امام شافعی (رح) سے گزر چکا ہے، اس باب میں ایک اور قول بھی ہے کہ نکاح منعقد ہی نہ ہوگا اور یہی اوزاعی (رح) کے قول کا معنی ہے، اشہب نے کتاب الاستبراء میں لکھا ہے کہ ایک میں نکاح کی عقد مملوکۃ (لونڈی) کی فرج کو حرام کردیتی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
20
) علماء کا اجماع ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ایسی طلاق دے جس سے رجوع کرسکتا ہے تو اس کے لیے اس مطلقہ عورت کی بہن سے یا اس کے علاوہ چار عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے حتی کہ مطلقہ کی عدت گزر جائے اس میں اختلاف ہے کہ جب ایسی طلاق دے جس میں رجوع کا مالک نہیں ہے تو ایک جماعت نے کہا کہ نہ اس کی بہن سے اور نہ چوتھی سے نکاح کرنا جائز ہے حتی کہ مطلقہ کی عدت گزر جائے، یہ حضرت علی ؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓ سے مروی ہے، اور مجاہد (رح) عطا بن ابی رباح، نخعی، سفیان ثوری، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم اور اصحاب الرائے کا یہی مذہب ہے، اور ایک جماعت نے کہا : اس کے لیے اس کیبہن سے اور اس کے سوا چار عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے، یہ عطا سے مروی ہے اور عطا سے یہ اثبت روایت ہے، یہ حضرت زید بن ثابت ؓ سے بھی مروی ہے اور یہی سعید بن مسیب، حسن، قاسم، عروہ بن زبیر، ابن ابی لیلی، امام شافعی، ابو ثور، اور ابو عبید رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے۔ ابن المنذر (رح) نے کہا : امام مالک (رح) کا قول میں بھی یہی خیال کرتا ہوں اور ہم بھی یہی کہتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
21
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الا ما قد سلف “۔ اس میں احتمال ہے کہ اس کا مطلب بھی وہی ہو جو (آیت) ” ولا تنکحوا ما نکح ابآؤ کم من النسآء الا ماقدسلف “۔ میں جو (آیت) ” الا ما قد سلف “۔ کا معنی ہے اور یہ زائد کا ابھی احتمال رکھتا ہے اور وہ ہے گزشتہ فعل کا جواز، زمانہ جاہلیت میں جمع کرنا دو بہنوں کو جائز تھا اور یہ نکاح صحیح تھا جب اسلام آیا تو دو بہنوں میں اختیار دیا گیا جیسا کہ امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے مگر اسلام کے موجب اور شرع کے متقضی پر کفار کی عقود کو جاری کیے بغیر خواہ ان دونوں بہنوں کو ایک عقد سے جمع کیا ہو یا دو عقدوں سے جمع کیا ہو۔ امام ابوحنیفہ دونوں کے نکاح کو باطل قرار دیتے ہیں اگر ایک عقد میں جمع کی گئی ہوں، ہشام بن عبداللہ نے محمد بن حسن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : زمانہ جاہلیت کے لوگ ان تمام محرمات کو جانتے تھے جو اس آیت میں ذکر کی گئی ہیں سوائے دو کے، ایک بات کی عورت سے نکاح کرنا اور دوسرا دو بہنوں کو جمع کرنا، کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ولا تنکحوا ما نکح ابآؤ کم من النسآء الا ماقدسلف “۔ میں جو (آیت) ” الا ما قد سلف “۔ اور (آیت ” وان تجمعو بین الاختین الا ما قد سلف “۔ اور باقی تمام محرمات میں (آیت) ” الا ماقد سلف “۔ کا ذکر نہیں فرمایا۔ واللہ اعلم۔
Top