Al-Qurtubi - An-Nisaa : 24
وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ١ۚ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ١ؕ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً١ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
وَّ : اور الْمُحْصَنٰتُ : خاوند والی عورتیں مِنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں اِلَّا : مگر مَا : جو۔ جس مَلَكَتْ : مالک ہوجائیں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے داہنے ہاتھ كِتٰبَ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ہے عَلَيْكُمْ : تم پر وَاُحِلَّ : اور حلال کی گئیں لَكُمْ : تمہارے لیے مَّا وَرَآءَ : سوا ذٰلِكُمْ : ان کے اَنْ : کہ تَبْتَغُوْا : تم چاہو بِاَمْوَالِكُمْ : اپنے مالوں سے مُّحْصِنِيْنَ : قید (نکاح) میں لانے کو غَيْرَ : نہ مُسٰفِحِيْنَ : ہوس رانی کو فَمَا : پس جو اسْتَمْتَعْتُمْ : تم نفع (لذت) حاصل کرو بِهٖ : اس سے مِنْھُنَّ : ان میں سے فَاٰتُوْھُنَّ : تو ان کو دو اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً : ان کے مہر مقرر کیے ہوئے وَلَا : اور نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْكُمْ : تم پر فِيْمَا : اس میں جو تَرٰضَيْتُمْ : تم باہم رضا مند ہوجاؤ بِهٖ : اس سے مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد الْفَرِيْضَةِ : مقرر کیا ہوا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں۔ (یہ حکم) خدا نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اسطرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی۔ تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو انکا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو۔ اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرلو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے
آیت نمبر : 24۔ اس آیت میں چودہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والمحصنت “ اس کا عطف محرمات اور پہلے ذکر کی گئی عورتوں پر ہے، التحصن کا معنی بچنا ہے اس سے الحصن (قلعہ) ہے، کیونکہ اس میں حفاظت کی جاتی ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وعلمنہ صنعۃ لبوس لکم لتحصنکم من باسکم “۔ (الانبیائ : 80) (اور ہم نے سکھا دیا انہیں زرہ بنانے کا ہنز تمہارے فائدے کے لیے تاکہ وہ زرہ بچائے تمہیں تمہاری زد سے) اسی سے گھوڑے کے لیے حصان (بکسر الحائ) استعمال ہوتا ہے، کیونکہ گھوڑا بھی اپنے مالک کو ہلاکت سے بچاتا ہے، الحصان (بفتح الحائ) پاک دامن عورت جو اپنے آپ کو ہلاکت سے بچاتی ہے۔ حصنت المراۃ تحصن فھی حصان، جیسے جبنت فھی جبان، حضرت حسان ؓ نے حضرت عائشہ ؓ کے متعلق کہا تھا ؛ حصان رزان ماتزن بربۃ وتصبح غرثی من لحوم الغوافل : مصدر الحصانۃ (بفتح الحائ) اور الحصن جیسے العلم ہے، (آیت) ” المحصنت “ سے یہاں مراد خاوندوں والی عورتیں ہیں، کہا جاتا ہے : امرامحصنۃ یعنی شادی شدہ عورت اور محصنۃ آزاد عورت کو بھی کہتے ہیں اسی سے ہے (آیت) ” المحصنت من المؤمنت والمحصنت من الذین اوتو الکتب “۔ (المائدہ : 5) (پاک دامن، مومن عورتیں، اور پاک دامن عورتیں ان لوگوں کی جنہیں دی گئی کتاب) اور محصنۃ سے مراد پاک دامن عورت بھی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” محصنت غیر مسفحت “۔ ترجمہ : پاک دامن بنتے ہوئے نہ زنا کار بنتے ہوئے۔ اور فرمایا : (آیت) ” محصنین غیر مسفحین “۔ ترجمہ : پاک باز بنتے ہوئے نہ زنا کار بنتے ہوئے۔ محصنۃ، محصنۃ وحصان اس کا معنی پاک دامن عورت ہے یعنی فسق سے رکنے والی، آزادی آزاد عورت کو ایسے کام سے روکتی ہے جو غلام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والذین یرمون المحصنت “۔ (نور : 4) ترجمہ : یعنی جو آزاد عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں لونڈی کا عرف زنا تھا، کیا آپ نے ہند بنت عتبہ کا قول ملاحظہ نہیں کیا اس نے نبی مکرم ﷺ سے کہا تھا جب اس نے حضور نبی کریم ﷺ کی بیعت کی تھی : کیا آزاد عورت زنا کرتی ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، الحدیث اخرجہ ابو یصلی) خاوند اپنی بیوی کو کسی غیر سے نکاح کرنے سے روکتا ہے ؟ ح، ص اور نون کی بنا کا معنی روکنا ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے، اسلام میں الاحصان استعمال ہوتا ہے، کیونکہ یہ حافظ اور مانع ہے یہ قرآن میں اس معنی میں وارد نہیں ہوا اور سنت میں وارد ہوا ہے، اسی سے نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے الایمان قید الفتک۔ ایمان دھوکے سے قتل کرنے کی قید ہے، اسی سے ہذلی کا قول ہے : فلیس کعھد الدار یا ام مالک ولکن احاطت بالرقاب السلاسل : ایک اور شاعر نے کہا : قالت ھلم الی الحدیث فقلت لا یابی علیک اللہ والاسلام : اسی سے سحیم کا قول ہے : کفی الشیب والاسلام للمرء ناھیا : ” انسان کو بڑھاپا اور اسلام روکنے کے لیے کافی ہے “۔ مسئلہ نمبر : (2) جب یہ ثابت ہوگیا تو پھر اس آیت کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے، حضرت ابن عباس ؓ ، ابو قلابہ ابن زید ؓ ، مکحول، زہری اور حضرت ابو سعید خدری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کہا : یہاں (آیت) ” المحصنت “ سے مراد قیدی خاوندوں والی عورتیں ہیں یعنی وہ حرام ہیں مگر دارالحرب سے قیدی بن کر آنے کی وجہ سے تمہاری مملوکۃ بن جائیں تو حلال ہیں، اور یہ عورت اس کے لیے حلال ہوگی جس کے حصہ میں آئے گی اگرچہ اس کا خاوند بھی ہوگا۔ یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ قیدی ہونا، عصمت کو ختم کردیتا ہے۔ یہ ابن وہب، ابن عبدالحکم کا قول ہے۔ اور انہوں نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے، اشہب کا بھی یہی قول ہے۔ اس پر صحیح مسلم کی روایت کردہ حدیث دلالت کرتی ہے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے نبی مکرم ﷺ نے حنین کے دن اوطاس کی طرف ایک لشکر روانہ کیا، پس وہ دشمن سے ملے ان سے جنگ کی اور ان پر غالب آگئے، ان کو قیدی عورتیں ملیں تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ان سے ہم بستری کرنے سے بچنے لگے، کیونکہ ان کے مشرک خاوند موجود تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والمحصنت من النسآء الا ما ملکت ایمانکم “۔ وہ تمہارے لیے حلال ہیں، جب ان کی عدت گزر جائے یہ صریح اور صحیح نص ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین خاوندوں والی قیدی عورتوں سے وطی کرنے سے بچنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں : (آیت) ” الا ما ملکت ایمانکم “۔ کا ارشاد نازل فرمایا : یہی قول امام مالک (رح)، امام ابوحنیفہ (رح) اور انکے اصحاب، امام شافعی، امام احمد، اسحاق اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم کا ہے اور یہی صحیح ہے ان شاء اللہ، پھر اس میں اختلاف ہے کہ استبراء رحم کیسے ہوگا، حسن نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے صحابہ ایک حیض کے ساتھ قیدی عورت کا استبراء کرتے تھے یہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث سے اوطاس کی قیدی عورتوں کے متعلق مروی ہے اور حاملہ سے وطی نہیں کی جائے گی حتی کہ بچہ جنم دے دے اور دوسری عورت سے وطی نہیں کی جائے گی حتی کہ اسے حیض آجائے، اور سابق خاوند کے فراش کا کوئی اثر نہیں ہوگا حتی کہ کہا جاتا ہے کہ قیدی عورت مملوکۃ ہے لیکن وہ بیوی تھی اس کا نکاح زائل ہوگیا، پس وہ لونڈیوں والی عدت گزارے گی، جیسا کہ حسن بن صالح سے منقول ہے انہوں نے فرمایا : اس پر عدت دو حیض ہیں جب اس کا دارالحرب میں خاوند تھا، اور اکثر علماء کا نظریہ یہ ہے کہ اس کا استبراء اور اس کا استبرا جس کا خاوند نہیں ہے، ایک جیسا ہے تمام کا استبرا ایک حیض ہے۔ امام مالک (رح) کا مشہور مذہب یہ ہے کہ میاں بیوی اکٹھے قیدی ہوں یا علیحدہ علیحدہ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ابن بکیر نے ان سے روایت کیا ہے کہ میاں بیوی اگر اکٹھے قیدی کیے جائیں اور مرد کو زندہ رکھا گیا ہے تو دونوں اپنے نکاح پر قائم رکھے جائیں گے اس روایت میں انہوں نے یہ دیکھا کہ اسے زندہ باقی رکھنا اس کی ملکیت باقی رکھنا ہے، کیونکہ اس کے لیے عہد ہوگیا اور اس کی بیوی بھی اس کی ملکیت سے ہے ان کے درمیان کوئی حائل نہ کیا جائے گا۔ یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ثوری (رح) کا قول ہے اور ابن القاسم (رح) کا یہی قول ہے اور انہوں نے یہ امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے اور صحیح پہلا قول ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” الا ما ملکت ایمانکم “۔ پس ملک یمین پر اس کی پھیر دیا اور اسے موثر بنایا پس عموم اور تعلیل دونوں کے اعتبار سے حکم اس کے ساتھ معلق ہوگا مگر دلیل جس کو خاص کر دے تو اس کا حکم علیحدہ ہوگا، اس آیت کے بارے میں دوسرا قول بھی ہے وہ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت سعید بن مسیب، حضرت حسن بن ابی الحسن، حضرت ابی بن کعب، حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت ابن عباس رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا قول ہے اور ایک روایت میں عکرمہ ؓ کا بھی یہی قول ہے۔ اس آیت سے مراد خاوندوں والی عورتیں ہیں یعنی وہ حرام ہیں مگر آدمی خاوند والی عورت کا استبرا کرے۔ لونڈی کا بیچنا اس کی طلاق ہے، اس کا صدقہ کرنا اس کی طلاق ہے، اس کو میراث میں دینا اس کی طلاق ہے اور خاوند کا اسے طلاق دینا اسکی طلاق ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : جب لونڈی بیچی جائے اور اس کا خاوند ہو تو مشتری کو اس کے بضع کا زیادہ حق ہے اسی طرح دارالحرب سے قیدی ہو کر آنے والی عورت کا حکم ہے، یہ تمام اس کے اور اس کے خاوند کے درمیان جدائی کا موجب ہے، علماء نے فرمایا : جب معاملہ اس طرح ہوگا تو لونڈی کا بیچنا لونڈی کے لیے ضرور طلاق ہوگا۔ کیونکہ ایک شرمگاہ ایک حال میں دو شخصوں پر بالاجماع حرام ہے۔ میں کہتا ہوں : حدیث بریرہ اس کو رد کرتی ہے، کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت بریرہ کو خریدا تھا اور آزاد کردیا تھا پھر نبی مکرم ﷺ نے اس کو اختیار دیا اور وہ خاوند والی تھی، اس پر علماء کا اجماع ہے کہ حضرت بریرہ ؓ کو حضرت عائشہ ؓ کے خریدنے اور آزاد کرنے کے بعد اپنے خاوند مغیث کے پاس رہنے کا اختیار دیا گیا تھا یہ دلیل ہے کہ لونڈی کو بیچنا اس کی طلاق نہیں ہے۔ اس پر فقہاء اور ائمہ حدیث کا اجماع ہے، لونڈی کی طلاق نہیں ہے مگر طلاق، بعض ائمہ نے (آیت) ” الا ما ملکت ایمانکم “۔ کے عموم سے اور قیدی عورتوں پر قیاس سے حجت پکڑی ہے اور ہم نے جو حدیث بریرہ ذکر کی ہے وہ اسے خاص کرتی ہے اور اسے رد کرتی ہے۔ وہ حضرت ابو سعید ؓ کی حدیث کی بنا پر مسیبات (قیدی عورتوں) کے ساتھ خاص ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ یہی قول حق اور درست ہے۔ اور اس آیت میں تیسرا قول بھی ہے ثوری (رح) نے مجاہد (رح) سے انہوں نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا (آیت) ” المحصنت من النسآء الا ما ملکت ایمانکم “۔ سے مراد مسلمانوں اور مشرکوں کی بیویاں ہیں، حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا : مشرکوں کی بیویاں ہیں، اور مؤطا میں سعید بن مسیب ؓ سے مروی ہے کہ (آیت) ” المحصنت “۔ سے مراد خاوندوں والی عورتیں ہیں، یہ اس طرف راجع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زنا حرام کیا ہے ایک جماعت نے کہا اس آیت میں (آیت) ” المحصنت “۔ سے مراد پاک دامن عورتیں ہیں یعنی تمام عورتیں حرام ہیں جن پر احصان کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے خواہ وہ خاوند والی ہے یا خاوند والی نہیں ہے، کیونکہ شرائع اسی بات کا تقاضا کرتی ہیں۔ (آیت) ” الا ما ملکت ایمانکم “۔ علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے نکاح کے ساتھ یا خریدنے کے ساتھ جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہوئے، یہ ابو العالیہ، عبیدہ السلمانی، طاؤوس، سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہم علاء کا قول ہے، یہ عبیدہ ؓ نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے پس انہوں نے ملک یمین کے تحت نکاح کو داخل کیا ہے ان کے نزدیک اس ارشاد (آیت) ” الا ما ملکت ایمانکم “۔ کا معنی یہ ہوگگا کہ تم جن کی عصمت کے نکاح کے ساتھ مالک ہوتے ہو اور جن کی گردن کے خریدنے کے ساتھ مالک ہوتے ہو، گویا وہ تمام ملک یمین ہیں اور اس کے علاوہ زنا ہے یہ حسن قول ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا (آیت) ” المحصنت “۔ سے مراد مسلمانوں اور اہل کتاب کی پاک دامن عورتیں ہیں، ابن عطیہ (رح) نے کہا : اس تاویل سے آیت کا معنی زنا کی تحریم کی طرف لوٹتا ہے، طبری نے اپنی سند کے ساتھ لکھا ہے کہ ایک شخص نے حضرت سعید بن جبیر ؓ سے کہا : کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا : کہ حضرت ابن عباس ؓ سے جب اس آیت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے اس کے متعلق کچھ نہیں کہا ؟ حضرت سعید ؓ نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ اس کو نہ جانتے تھے، اور مجاہد (رح) سے سندا روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : اگر میں کوئی ایسا شخص جانتا جو اس آیت کی تفسیر کرتا تو میں اس کی طرف اونٹوں کے جگر پگھلاتا (یعنی مشقت کے ساتھ سفر کرکے جاتا) (آیت) ” المحصنت “۔ سے حکیما تک کا قول مراد ہے۔ ابن عطیہرحمۃ اللہ علیہ نے کہا : میں نہیں جانتا کہ حضرت ابن عباس ؓ کی طرف کیسے یہ قول منسوب کیا اور میں نہیں جانتا کہ مجاہد اس قول تک کیسے پہنچے۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” کتب اللہ علیکم “۔ مصدر مؤکد کی بنا پر اسے نصب دی گئی ہے یعنی یہ عورتیں حرام کی گئی ہیں اللہ کی طرف سے تم پر فرض کیا گیا ہے۔ (آیت) ” حرمت علیکم “۔ کا معنی (آیت) ” کتب اللہ علیکم “۔ ہے۔ زجاج اور کو فیوں نے کہا : اس کو نصب اغرا کی بنا پر ہے۔ یعنی ازموا اللہ یا علیکم کتاب اللہ (یعنی اللہ کی کتاب کو لازم پکڑو) اس میں نظر ہے جیسا کہ ابو علی نے ذکر کیا ہے، کیونکہ اغراء میں حرف اغراء پر مصوب کو مقدم کرنا جائز نہیں ہوتا، یہ نہیں کہا جاتا۔ زیدا علیک، یا زیدا دونک بلکہ علیک زیدا ودونک عمرا کہا جاتا ہے۔ علیکم سے منصوب ہونے کی بنا جو انہوں نے کہا یہ صحیح ہے، رہا فعل کے حذف کی تقدیر پر تو وہ جائز ہے اور ھذا کتاب اللہ وفرضہ کے معنی پر رفع بھی جائز ہے، ابو حیوۃ، محمد بن سمیقع نے کتب اللہ علیکم یعنی فعل ماضی کا صیغہ پڑھا ہے اور اسم جلالت کو فاعل بنایا ہے۔ معنی یہ ہے اللہ تعالیٰ نے جو تحریم بیان فرمائی ہے وہ اللہ نے تم پر فرض کی ہے۔ عبیدہ السلمانی وغیرہ نے کہا : (آیت) ” کتب اللہ علیکم “۔ یہ قرآن میں موجود ارشاد (آیت) ” مثنی وثلث وربع “۔ کی طرف اشارہ ہے، اس قول میں بعد ہے اور اظہر یہ ہے کہ (آیت) ” کتب اللہ علیکم “۔ یہ اس تحریم کی طرف اشارہ ہے جو لوگوں کے درمیان اور عرب جو کچھ کرتے تھے اس کے درمیان آڑ تھی۔ مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واحل لکم ماورآء ذلکم “۔ حمزہ، کسائی، عاصم رحمۃ اللہ علیہم اور ایک روایت میں حفص نے واحل لکم پڑھا ہے اور (آیت) ” حرمت علیکم “۔ پر عطف کیا ہے اور باقی قراء نے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، انہوں نے (آیت) ” کتب اللہ علیکم “۔ پر عطف کیا ہے، یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ عورتوں کو حرام کیا ہے جن کا ذکر اس آیت میں نہیں ہے پس انہیں بھی اس کے ساتھ ملایا جائے گا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” وما اتکم الرسول فخذوہ، وما نھکم عنہ فانتھوا “۔ (الحشر : 7) ترجمہ : جو تمہیں رسول (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عطا کرے تو اسے لیے لو اور جس سے وہ تمہیں منع کرے تو اس سے رک جاؤ۔ مسلم وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” عورت اور اس کی پھوپھی کو جمع نہ کرے اور عورت اور اس کی خالہ کو جمع نہ کرے “۔ ابن شہاب نے کہا : ہم دیکھتے ہیں کہ عورت کے باپ کی خالہ اور اس کے باپ کی پھوپھی اس کے مقام پر ہے، بعض علماء نے فرمایا : عورت اور اس کی پھوپھی کو جمع کرنے کی حرمت آیت سے پائی گئی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دو بہنوں کو جمع کرنا حرام کیا ہے اور عورت اور اس کی پھوپھی، جمع بین الاختین (دو بہنوں کو جمع کرنے) کے حکم میں ہے یا خالہ والدہ کے معنی میں ہے اور پھوپھی والد کے معنی میں ہے، صحیح پہلا قول ہے، کیونکہ کتاب اور سنت ایک چیز کے حکم میں ہیں یا فرمایا جو ہم نے کتاب میں ذکر کی ہیں اور جن کا بیان محمد ﷺ کی زبان سے میں مکمل کیا ہے ان کے علاوہ تمہارے لیے حلال ہیں۔ اور ابن شہاب کا قول کہ ہم عورت کے باپ کی خالہ اور عورت کے باپ کی پھوپھی کو اس کے قائم مقام دیکھتے ہیں۔ یہ انہوں نے اس لیے کہا ہے کہ انہوں نے خالہ اور پھوپھی کو عموم پر محمول کیا ہے اور اس کے لیے یہ تمام ہوا ہے، کیونکہ عمۃ ہر اس مؤنث کا اسم ہے جو تیرے باپ کے ساتھ دونوں اصلوں میں ایک اصل میں شریک ہے اور خالہ بھی اسی طرح ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں، اور مصنف ابو داؤد وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پھوپھی پر بھتیجی اور بھتیجی پر پھوپھی سے نکاح نہیں کیا جائے گا اور خالہ پر اس کی بھانجی سے اور بھانجی پر اس کی خالہ سے نکاح نہیں کیا جائے گا اور چھوٹی پر بڑی سے اور بڑی پر چھوٹی سے نکاح نہیں کیا جائے گا، ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے پھوپھی اور خالہ کو جمع کرنا اور دو پھوپھیوں اور دو خالاؤں کو جمع کرنا ناپسند فرمایا (1) (مسند امام احمد، حدیث نمبر 1878) لا یجمع کو عین کے رفع کے ساتھ خبر کی بنا پر پڑھنا جائز ہے اور نہی اس کے ضمن میں ہوئی۔ اس حدیث پر عمل میں اجماع ہے کہ جن کا پیچھے ذکر ہوا ہے ان کا جمع کرنا نکاح میں حرام ہے۔ خوارج نے دو بہنوں کو جمع کرنا اور پھوپھی اور بھتیجی کو جمع کرنا اور خالہ اور بھانجی کو جمع کرنا جائز قرار دیا ہے ان کے اختلاف کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ دین سے نکل گئے ہیں اور دین سے خارج ہوگئے ہیں، کیونکہ یہ ثابت سنت کی مخالفت کرتے ہیں اور حدیث کے الفاظ لا یجمع بین العمتین والخالتین، بعض علماء کے لیے سمجھنا مشکل ہوگیا وہ اس کے مفہموم میں متحیر ہوئے حتی کہ انہوں نے اسے ایسا مفہوم پہنایا جو بہت بعید ہے یا جائز ہی نہیں ہے۔ اس نے کہا : بین العمتین کا معنی مجاز پر ہے یعنی پھوپھی اور بھانجی کو جمع کرنا، ان دونوں کو عمتان کہا گیا ہے جیسے کہا جاتا ہے : سنۃ العمرین۔ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کی سنت کے لیے اور بین الخالتین “۔ کے بارے میں بھی اسی طرح کہا ہے۔ نحاس نے کہا : یہ ایسا تعسف ہے جس کو سنا بھی نہیں جاسکتا، اس میں واقعی تعسف کے ساتھ ساتھ بغیر فائدہ کے کلام میں تکرار ہے، کیونکہ جب معنی یہ ہے کہ پھوپھی اور بھتیجی کو جمع کرنا منع ہے اور پھر اگر العمتین کا بھی یہی معنی کیا جائے تو کلام میں بغیر فائدہ کے تکرار ہوگا، اگر اس طرح ہوتا جس طرح اس نے کہا ہے تو وبین الخالۃ ہونا واجب ہوتا۔ حالانکہ حدیث اس طرح نہیں ہے، کیونکہ حدیث یہ ہے کہ پھوپھی اور خالہ کو جمع کرنے سے منع فرمایا۔ پس حدیث کے لفظ پر واجب ہے کہ ایسی دو عورتوں کو جمع نہ کیا جائے جبکہ ایک دوسری کو پھوپھی ہو اور دوسری کی خالہ ہو، نحاس نے کہا : یہ صحیح معنی پر نکل سکتا ہے مثلا ایک شخص اور اس کا بیٹا ہو باپ بیٹی سے نکاح کرلے اور بیٹا اس عورت کی ماں سے نکاح کرے، پھر باپ کی بھی بیٹی پیدا ہو اور بیٹے کی بھی بیٹی پیدا ہو۔ پس باپ کی بیٹی، بیٹے کی بیٹی کی پھوپھی ہوگی اور بیٹے کی بیٹی باپ کی بیٹی کی خالہ ہوگی اور رہا دو خالاؤں کو جمع کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ دو عورتیں ہوں ان میں سے ہر ایک دوسری کی خالہ ہو یہ اس طرح ہے کہ ایک شخص، دوسرے کی بیٹی سے نکاح کرے اور دوسرا شخص پہلے شخص کی بیٹی سے نکاح کرے، ہر ایک کی بیٹی پیدا ہو، تو ان میں سے ہر ایک کی بیٹی دوسری کی خالہ ہوگی، اور رہا دو پھوپھیوں کو جمع کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ایسی دو عورتیں نہ جمع کی جائیں جن میں سے ہر ایک دوسری کی پھوپھی ہو، یہ اس طرح ہے ایک شخص، دوسرے شخص کی ماں سے نکاح کرے دوسرا اس کی ماں سے نکاح کرے ہر ایک کی بیٹی پیدا ہو تو ان میں سے ہر ایک دوسری کی پھوپھی ہوگی، یہ وہ عورتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد ﷺ کی زبان پر حرام قرار دیا جو قرآن میں سے نہیں ہیں۔ مسئلہ نمبر : (5) جب یہ ثابت ہوگیا کہ تو جن دو عورتوں کو جمع کرنا حرام ہے انکے لیے ایک عمدہ کلیہ بنایا ہے، معتمر بن سلیمان نے فضیل بن میسرہ سے انہوں نے ابو جریر سے انہوں نے شعبی (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہر دو ایسی عورتیں جب ان میں سے ایک کو مذکر تصور کیا جائے تو دوسری سے اس کا نکاح نہ ہو سکے تو ان دونوں کا جمع کرنا باطل ہے، میں نے شعبی (رح) سے پوچھا یہ کن کو سے مروی ہے ؟ شعبی نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے اصحاب سے، سفیان ثوری نے کہا : ہمارے نزدیک اس کی تفسیر یہ ہے کہ وہ نسب سے ہو اور وہ عورت اور اس کے خاوند کی بیٹی کی طرح نہ ہو، ان کو اگر چاہے تو جمع کرسکتا ہے، ابو عمر ؓ نے کہا امام مالک (رح)، امام شافعی (رح)، امام ابوحنیفہ (رح)، اوزاعی (رح) اور محدثین رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ کا یہی مذہب ہے، میری معلومات کے مطابق اس اصل میں ان کا اختلاف نہیں ہے، سلف کی ایک جماعت نے اس کو ناپسند کیا ہے کہ ایک شخص، کسی شخص کی بیٹی اور اس کی بیوی کو جمع کرے، کیونکہ اگر ان میں سے ایک کو مذکر بنایا جائے تو دوسری سے نکاح جائز نہ ہوگا اور جس پر علماء کا مدار ہے وہ یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس میں رعایت نسب کی ہے، مصاہرت کی نہیں ہے، پھر بعض اخبار میں جمع نہ کرنے کی علت پر تنبیہ کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں جمع کرنا قطع رحمی کا باعث بنتا ہے، کیونکہ غیرت کی وجہ سے سوکنوں کے درمیان دشمنی اور شر واقع ہوتا ہے، حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے پھوپھی پر اس کی بھتیجی سے اور خالہ پر اس کی بھانجی سے نکاح کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا : جب تم ایسا کرو گے تو قطع رحمی کرو گے۔ یہ ابو محمد اصیلی نے فوائد میں اور ابن عبدالبر وغیرہما نے اس روایت کو ذکر کیا ہے۔ ابو داؤد کی مراسیل سے، حسین بن طلحہ سے مروی ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے قطع رحمی کے خوف کی وجہ سے بہن پر بہن سے نکاح کرنے سے منع فرمایا، بعض علماء نے اس علت کو عام کیا ہے پس انہوں نے ہر دو قریبی عورتوں کو جمع کرنے سے معنی کیا ہے پہلی بیوی کی خواہ وہ چچا کی بیٹی ہو یا پھوپھی کی بیٹی ہو یا خالو کی بیٹی ہو، یا خالہ کی بیٹی ہو، یہ اسحاق بن طلحہ، عکرمہ، قتادہ (رح) اور عطا (رح) سے مروی ہے۔ اور ایک روایت ابن ابی نجیح سے بھی یہی ہے ابن جریج نے ابن ابی نجیح سے روایت کیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہی صحیح ہے، حضرت حسن بن حسین بن علی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ایک رات میں محمد بن علی کی بیٹی اور عمر بن علی کی بیٹی سے نکاح کیا تھا پس انہوں نے چچا کی بیٹیوں کو جمع کیا تھا، یہ روایت عبدالرزاق نے ذکر کی ہے، ابن عیینہ نے یہ زائد ذکر کیا ہے کہ عورتیں نہیں جانتی تھیں کہ کس کے پاس جائیں، امام مالک (رح) نے ایسی صورت کو ناپسند کیا ہے لیکن ان کے نزدیک یہ حرام نہیں۔ ابن القاسم (رح) کی سماع میں ہے امام مالک (رح) سے پوچھا گیا، دو چچوں کی بیٹیوں کو جمع کیا جائے گا ؟ امام مالک (رح) نے فرمایا : میں اسے حرام نہیں جانتا، پوچھا گیا کیا آپ اس کو ناپسند کرتے ہیں ؟ امام مالک (رح) نے فرمایا : لوگ اس سے اجتناب کرتے ہیں، ابن القاسم (رح) نے کہا : یہ حلال ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، ابن المنذر (رح) نے کہا : میں کسی ایسے عالم کو نہیں جانتا جس نے اس نکاح کو باطل قرار دیا ہو، یہ دونوں عورتیں ان عورتوں میں داخل ہیں جن سے نکاح مباح کیا گیا ہے یہ ان سے کتاب وسنت اور اجماع سے خارج نہیں ہیں، اسی طرح پھوپھیوں اور خالاؤں کی بیٹیوں کو جمع کرنا جائز ہے، سدی نے (آیت) ” واحل لکم ماورآء ذلکم “۔ کے متعلق فرمایا : یعنی نکاح کرنا حلال ہے، بغیر نکاح کے فرج حلال نہیں ہے، بعض علماء نے فرمایا : اس کا مطلب ہے تمہارے قریبی محارم عورتوں کے علاوہ عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں، قتادہ نے کہا : ملک یمین اس کے ساتھ خاص ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان تبتغوا باموالکم “۔ یہ لفظ نکاح کرنے اور خریدنے کو شامل ہے، ان محل نصب میں ہے ما سے بدل ہے اور حمزہ کی قرات پر محل رفع میں ہے، یہ احتمال رکھتا ہے کہ یہ لان یا بان کے معنی میں ہو پھر لام اور با کو حذف کیا گیا ہو، پھر یہ محل نسب میں ہوگیا ہو، (آیت) ” محصنین “ حال کی بنا پر منصوب ہے، اس کا معنی ہے زنا سے بچنے والے مسفحین زنا نہ کرنے والے، السفاح کا معنی زنا ہے یہ سفح الماء سے مشتق ہے جس کا معنی پانی کا بہنا ہے اسی سے نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے جب آپ نے شادی کے موقع پر دف بجانے والی آواز سنی :” یہ نکاح ہے زنا نہیں ہے۔ یہ خفیہ نکاح ہے۔ “ (1) (المحررالوجیز، جلد 2، صفحہ 36) بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” محصنین غیر مسفحین “۔ دو وجوہ کا احتمال رکھتا ہے۔ (1) جو ہم نے ذکر کی ہے وہ نکاح کی عقد کے ساتھ احصان ہے، مطلب یہ ہوگا کہ بضع کے منافع اپنے اموال کے ذریعے نکاح کے طریقہ پر حاصل کرو نہ کہ زنا کے طریقہ پر، اس وجہ پر آیت کے لیے عموم ہوگا اور یہ بھی احتمال ہے (آیت) ” محصنین “۔ یعنی احصان عورتوں کی صفت ہو، معنی یہ ہوگا کہ تم ان میں احصان کی شرط پر ان سے نکاح کرو، پہلی وجہ اولی ہے، کیونکہ جب آیت کو اس کے عموم پر جاری کرنا اور اس کے مقتضی کے تعلق پر جاری کرنا ممکن ہو تو وہ اولی ہوتا ہے، کیونکہ دوسری وجہ کا مقتضی یہ ہے کہ جو بدکارہ ہیں ان سے نکاح کرنا حلال نہیں ہے اور یہ اجماع کے خلاف ہے۔ مسئلہ نمبر : (7) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” باموالکم “۔ اللہ تعالیٰ نے فروج کو اموال کے ساتھ مباح کیا ہے اور کوئی فرق نہیں فرمایا ہے، پس جب بغیر مال کے واقع ہو تو اباحت واقع نہ ہوگی، کیونکہ وہ اس شرط کے بغیر پایا گیا ہے جس میں اجازت دی گئی ہے جیسے شراب یا خنزیر پر یا ایسی چیز پر نکاح کرے جس کا مالک ہونا ہی صحیح نہیں ہے، یہ قول امام احمد (رح) کا رد کرتا ہے جو انہوں نے فرمایا کہ آزاد کرنا مہر ہوگا، کیونکہ اس میں مال کا حوالے کرنا نہیں ہے، اس میں ملک کو ساقط کرنا ہے بغیر اس کے وہ اس کے ساتھ اس بات کی مستحق ہو کہ مال اس کے حوالے کیا جائے، مالک اپنی طرف سے جس کا مالک ہوتا ہے وہ اس کی طرف منتقل نہیں ہوتا وہ سقوط ہے پس جب خاوند اس کے حوالے کوئی چیز نہیں کرے گا تو وہ اس پر کسی چیز کی مستحق نہیں ہوگی، اس نے اس کے ساتھ خود اپنی ملک کو تلف کیا ہے، یہ آزاد کرنا مہر نہ ہوگا، یہ واضح ہے نیز یہ ارشاد بھی ہے کہ (آیت) ” واتوالنسآء “۔ عورتوں کو دو ۔ یہ حکم ایجاب کا تقاضا کرتا ہے اور آزادی کا عطا کرنا صحیح نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” فان طبن لکم عن شیء منہ نفسا فکلوہ “۔ اور یہ چیز عتق میں محال ہے پس مہر صرف مال ہی ہے کیونکہ اللہ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے : (آیت) ” باموالکم “۔ پھر مہر کی مقدار میں علماء کا اختلاف ہے امام شافعی (رح) نے (آیت) ” باموالکم “۔ کے عموم سے ہر قلیل و کثیر کو مہر ہونے کے جواز پر دلیل پکڑی ہے اور یہ صحیح ہے اور اس کی تائید نبی مکرم ﷺ کا ارشاد کرتا ہے۔ ولو کا تما من حدید “۔ (1) (صحیح، کتاب فضائل القرآن، باب القرائۃ عن ظہرالقلب، حدیث نمبر 4642، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اگر لوہے کی انگوٹھی ہی ہو اور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : ” بیواؤں کا نکاح کرو، پوچھا گیا : یا رسول اللہ ﷺ ان کے درمیان کیا مہور ہوں ؟ فرمایا : جس پر ان کے اہل راضی ہوجائیں اگرچہ کیکر کی ٹہنی ہی ہو “۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ سے عورتوں کے مہر کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : جس پر ان کے اہل صلح کرلیں، جابر نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر کوئی شخص کسی عورت کو ہاتھ بھر کھانا دے تو اس کی وجہ سے وہ حلال ہوجائے گی، ان دونوں حدیثوں کو دارقطنی نے اپنی سنن میں نقل کیا ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہنے فرمایا : ہر وہ چیز جس کے لیے کسی شئی کی قیمت بننا جائز ہے یا اس کا اجرت ہونا جائز ہو تو وہ مہر بن سکتی ہے۔ یہ جمہور اہل علم کا قول ہے اور اہل مدینہ میں سے محدثین کی ایک جماعت وغیرہ نے قلیل اور کثیر مال سے مہر مقرر کرنا جائز قرار دیا ہے۔ یہ عبداللہ بن وہب، صاحب مالک کا قول ہے، اور ابن المنذر وغیرہ نے اس کو اختیار کیا ہے۔ سعید بن مسیب نے کہا : اگر اسے کوڑا مہر کے طور دے تو اس کے ساتھ حلال ہوجائے گی، سعید بن مسیب نے اپنی بیٹی عبداللہ بن وداعہ کو دو دراہم کے مہر کے عوض نکاح کردی، ربیعہ نے کہا : ایک درہم کے ساتھ نکاح جائز ہے۔ ابو الزناد نے کہا : جس پر ان کے اہل راضی ہوجائیں، مالک نے کہا : دینار کی جو تہائی یا تین دراہم سے کم مہر نہ ہوگا۔ ہمارے بعض اصحاب نے اس کی یہ علت بیان کی ہے یہ قطع ید کے مشابہ ہے، کیونکہ بضع بھی عضو ہے اور ہاتھ بھی عضو ہے، مقدر مال کے ساتھ مباح کیا جاتا ہے اور وہ دینار کی چوتھائی ہے یا تین دراہم کیلا ہیں، امام مالک (رح) نے ہاتھ پر قیاس کرتے ہوئے بضع کو اس مقدار کی طرف لوٹایا ہے۔ ابو عمر ؓ نے کہا : امام ابوحنیفہ (رح) کا اس سے پہلے یہ قول تھا مہر کو انہوں نے قطع ید پر قیاس کیا اور ہاتھ امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک نہیں کاٹا جاتا مگر ایک دینار سونا یا دس دراہم کے بدلے میں، امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک دس دراہم سے کم مہر نہیں ہے اس پر ان کے اصحاب کی جماعت کا قول ہے۔ اور ان کے اہل مذہب کا قول ہے ان کے شہر کے اکثر علماء کا یہی قول قطع ید کے بارے میں ہے۔ کم از کم مہر کے بارے میں نہیں ہے دراوردی نے مالک (رح) سے کہا : جب انہوں نے کہا کہ چار دینار سے کم مہر نہیں ہے اے ابا عبداللہ ! اس مسئلہ میں تم عراقی ہوگئے ہو یعنی تم اہل عراق کے راستہ پر چلے ہو، امام ابوحنیفہ (رح) نے اس حدیث سے حجت پکڑی ہے جو حضرت جابر ؓ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : دس دراہم سے کم مہر نہیں ہے، اس حدیث کو دارقطنی نے نقل کیا ہے، اس کی سند میں مبشربن عبید ہے وہ متروک ہے داؤدلاودی سے مروی ہے انہوں نے شعبی (رح) سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ دس دراہم سے کم مہر نہیں ہے، امام احمد بن حنبل (رح) نے کہا : غیاث بن ابراہیم نے داؤدالاودی کو تلقین کی انہوں نے شعبی (رح) سے انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ دس دراہم سے کم مہر نہیں ہے، پس یہ حدیث ہوگئی، نخعی نے کہا : اس کی کم از کم مقدار چالیس دراہم ہے، سعید بن جبیر ؓ نے کہا 50 دراہم ہیں ابن شبرمۃ نے کہا : پانچ دراہم ہیں، یہ دارقطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ پانچ دراہم سے کم مہر نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن فریضۃ “۔ استمتاع سے مراد تلذذ ہے۔ الاجور سے مراد مہور ہیں، مہر کو اجر اس لیے کہا گیا ہے، کیونکہ یہ استمتاع کا اجر ہے یہ نص ہے کہ مہر کو اجر کہا جاتا ہے یہ دلیل ہے کہ یہ بضع کے مقابلہ میں ہے، کیونکہ جو منفعت کے مقابلہ میں ہوتا ہے اسے اجر کہا جاتا ہے، علماء کا اختلاف ہے کہ نکاح میں معقود علیہ (جس پر عقد کی گئی ہے) کیا ہے، عورت کا بدن، یا بضع کی منفعت یا تمام حلال ہونا ؟ یہ تین اقوال ہیں مجموع (تمام) ہے، کیونکہ عقد تمام کا تقاضا کرتی ہے۔ مسئلہ نمبر : (9) آیت کے معنی میں علماء کا اختلاف ہے، حسن اور مجاہد وغیرہما نے کہا : جو تم نے نکاح صحیح کے ذریعے عورتوں سے جماع کر کے نفع اور لطف اٹھایا ہے، (آیت) ” فاتوھن اجورھن “۔ تو انہوں نے ان کے مہر دو ، جب کوئی ایک مرتبہ جماع کرلے گا تو پورا مہر واجب ہوگا اگر وہ متعین ہوگا، اگر متعین نہ ہوگا تو مہر مثل واجب ہوگا، اگر نکاح فاسد ہوگا تو نکاح فاسد میں امام مالک (رح) سے روایت مختلف ہے کیا وہ مہر مثل یا مہر مسمی کی مستحق ہوگی جب کہ مہر صحیح ہوگا ؟ کبھی تو امام مالک (رح) نے فرمایا : مہر مسمی دینا ہوگا یہی امام مالک (رح) کا ظاہر مذہب ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ جس پر وہ راضی ہوئے ہیں وہ یقینی ہے اور مہر مثل میں اجتہاد ہے پس یقین کی طرف رجوع واجب ہے، کیونک شک کے ساتھ اموال کا استحقاق نہیں ہوتا اور مہر مثل کا قول اس لیے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” جو عورت اپنی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی اس کا نکاح باطل ہوگا اگر مرد نے اس سے صحبت کرلی ہے تو اسے مہر مثل ملے گا، کیونکہ اس کی فرج حلال کی گئی ہے۔ (1) ابن خویز منداد نے کہا : اس آیت کو متعہ کے جواز پر محمول کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے متعہ کے نکاح سے منع فرمایا اور اسے حرام قرار دیا۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فانکحوھن باذن اھلھن “۔ تم نکاح کرلو ان سے ان کے سرپرستوں کی اجازت سے، اور یہ معلوم ہے کہ اہل کی اجازت سے نکاح وہ نکاح شرعی ہے جو ولی اور دو گواہوں کی موجودگی میں ہو اور نکاح متعہ اس طرح نہیں ہے۔ جمہور علماء نے کہا : نکاح متعہ ابتداء اسلام میں جائز تھا، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابی اور حضرت ابن جبیر ؓ نے فما استمتعم بہ منھن الی اجل مسمی فاتوھن اجورھن پڑھا ہے۔ پھر نبی مکرم ﷺ نے اس سے منع فرما دیا تھا، سعید بن مسیب ؓ نے کہا : ایۃ المیراث نے اس کو منسوخ کردیا ہے۔ کیونکہ متعہ میں میراث نہیں تھی، حضرت عائشہ ؓ اور قاسم بن محمد (رح) نے کہا : متعہ کی حرمت اور اس کا نسخ قرآن میں ہے اور وہ اس ارشاد میں ہے ، (آیت) ” والذین ھم لفروجھم حفظون، الا علی ازواجھم اوماملک ایمانھم فانھم غیر ملومین “۔ (المومنون) ترجمہ : اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں بجز اپنی بیویوں کے اور ان کنیزوں کے جوان کی ہاتھوں کی ملکیت ہیں تو بیشک انہیں ملامت نہیں کی جائے گی۔ اور متعہ نہ نکاح ہے اور نہ ملک یمین ہے، دارقطنی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے متعہ سے منع فرمایا : فرمایا : یہ پہلے اس شخص کے لیے تھا جو نکاح نہیں پاتا تھا جب نکاح، طلاق عدت، میاں، بیوی، کے درمیان میراث کے احکام نازل ہوئے تو متعہ کا حکم منسوخ ہوگیا، حضرت علی ؓ سے مروی ہے، فرمایا : رمضان کے روزہ نے ہر روزہ کو منسوخ کردیا، زکوۃ نے ہر صدقہ کو منسوخ کردیا، طلاق، عدت اور میراث نے متعہ کو منسوخ کردیا، اور قربانی نے ہر ذبح کو منسوخ کردیا، حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے فرمایا : متعہ منسوخ ہے اس کو طلاق، عدت اور میراث نے منسوخ کیا ہے، عطا نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : متعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت تھا جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرمایا تھا اگر حضرت عمر ؓ نے اس سے منع نہ کیا ہوتا تو کوئی زنا نہ کرتا مگر بدبخت شخص۔ مسئلہ نمبر : (10) علماء کا اختلاف ہے کہ متعہ کتنی مرتبہ مباح ہوا اور کتنی مرتبہ منسوخ ہوا، صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ ؓ سے مروی ہے فرمایا : ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے تھے اور ہمارے پاس عورتیں نہیں ہوتی تھیں ہم نے کہا : کیا ہم خصی نہ ہوجائیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خصی ہونے سے منع فرمایا : پھر ہمیں رخصت دی کہ ہم ایک مدت تک کے لیے کپڑے کے بدلے میں کسی عورت سے نکاح کرلیں (1) (مسند امام احمد، حدیث نمبر 3650) ابو حاتم البستی نے اپنی صحیح میں کہا : صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا نبی کریم ﷺ سے عرض کرنا کہ کیا خصی نہ ہوجائیں ؟ یہ دلیل ہے کہ متعہ سے ان کے لیے استمتاع مباح ہونے سے پہلے ممنوع تھا اگر متعہ ممنوع نہ ہوتا تو ان کے اس سوا کا کوئی معنی نہ تھا، پھر انہیں جہاد میں ایک مدت تک ایک کپڑے کے عوض عورت سے نکاح کرنے کی رخصت دی، پھر متعہ سے خیبر کے سال منع کردیا، پھر فتح مکہ کے سال متعہ کی اجازت دی گئی پھر تین سال بعد حرام کردیا، پس متعہ قیامت تک حرام ہے۔ ابن عربی (رح) نے کہا : عورتوں سے متعہ شریعت کے غرائب سے ہے کیونکہ یہ اسلام کے ابتدائی دور میں مباح کیا گیا پھر خیبر کے دن حرام کیا گیا پھر غزوہ اوطاس میں مباح کیا گیا پھر اس کے بعد حرام کیا گیا اور تحریم پر اس کا امر قرار پا گیا سوائے مسئلہ قبلہ کے شریعت میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے، کیونکہ اس پر دو مرتبہ نسخ طاری ہوا پھر اس کے بعد قرار پا گیا، اور دوسرے علماء جنہوں نے متعہ کے متعلق احادیث کو جمع کیا انہوں نے کہا : یہ سات مرتبہ تحلیل وتحریم کا تقاضا کرتی ہیں، ابن ابی عمرہ سے مروی ہے کہ یہ ابتداء اسلام میں جائز تھا حضرت سلمہ بن اکوع نے روایت کیا ہے کہ یہ اوطاس کے سال حلال تھا اور حضرت علی ؓ کی روایت میں اس کی حرمت خبیر کے دن ہوئی، حضرت ربیع بن سمرہ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ فتح مکہ کے دن اس کی اباحت تھی، میں کہتا ہوں : یہ تمام طرق صحیح مسلم میں ہیں اور مسلم کے علاوہ میں حضرت علیٰ ؓ سے غزوہ تبوک میں اس کی نہی مروی ہے، اس کو اسحاق بن راشد نے زہری سے انہوں نے عبداللہ بن محمد بن علی سے انہوں نے اپنے باپ سے انہوں نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے اس روایت پر اسحاق بن رشد کا ابن شہاب سے روایت کرنے میں کوئی متابع نہیں ہے اور مصنف ابی داؤد میں ربیع بن سبرہ کی حدیث سے حجتہ الوداع کے موقع پر متعہ سے نہی ثابت ہے۔ ابو داؤد کا نظریہ یہ ہے کہ جتنا اس کے متعلق روایت کیا گیا ہے اس میں یہ قول اصح ہے، عمرو نے حسن سے روایت کیا ہے : متعہ کبھی حلال نہیں ہوا مگر عمرۃ القضاء میں صرف تین دن حلال ہوا، نہ اس سے پہلے حلال ہوا نہ اس کے بعد حلال ہوا، یہ بھی سبرہ سے روایت کیا گیا ہے یہ سات جگہیں ہیں جن میں متعہ حلال کیا گیا اور حرام کیا گیا۔ ابو جعفر طحاوی نے کہا : تمام لوگ جنہوں نے نبی مکرم ﷺ سے متعہ کا اطلاق روایت کیا انہوں نے بتایا کہ یہ سفر میں تھا، اس کے بعد سفر میں اس کو نہیں لاحق ہوئی اور اس سے منع فرمایا کسی نے یہ نہیں بتایا کہ متعہ حضر میں حلال تھا، اسی طرح حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے، رہی حضرت سبرہ کی وہ حدیث جس میں نبی مکرم ﷺ سے حجۃ الوداع میں اس کی اباحت کا ذکر ہے وہ ان تمام معانی سے خارج ہے اور ہم نے اس حرف کے بارے میں غور وفکر کیا تو ہمیں یہ صرف عبدالعزیز بن عمر بن عبدالعزیز کی روایت میں ملا اور اسے اسماعیل بن عیاش نے عبدالعزیز بن عمر بن عبدالعزیز سے روایت کیا اور ذکر کیا کہ یہ فتح مکہ کے موقع پر تھا کہ لوگوں نے آپ کی بارگاہ میں عورتوں سے جدائی کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے انہیں متعہ کی رخصت دی اور حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں کا عورتوں سے جدائی کی شکایت کرنا محال ہے، کیونکہ انہوں نے عورتوں کے ساتھ حج کیا تھا اور مکہ میں عورتوں سے نکاح کرنا بھی انہیں ممکن تھا اس وقت وہ اس طرح نہیں تھے جیسا کہ وہ پہلے غزوات میں تھے اور یہ بھی احتمال ہے کہ نبی مکرم ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ اس قسم کا حکم مغازی میں اور جماع مواقع پر بار بار بیان فرماتے تھے اور آپ ﷺ نے متعہ کی تحریم کا ذکر حجۃ الوداع میں اس لیے کیا کیونکہ لوگ جمع تھے تاکہ انہیں بھی سنا دیں جنہوں نے پہلے اس کے متعلق نہیں سنا تھا آپ نے اسے مؤکد فرمایا تاکہ کسی ایسے شخص کے لیے شبہ نہ رہے جو اس کی حلت کا دعوی کرتا ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ اہل مکہ متعہ کو کثرت سے استعمال کرتے تھے (اس لیے حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے اس کی تحریم کا ذکر کیا) مسئلہ نمبر : (11) لیث بن سعد نے بکیر بن اشج سے انہوں نے عمار مولی شرید سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے متعہ کے متعلق پوچھا ،: کیا یہ زنا ہے یا نکاح ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : نہ زنا ہے نہ نکاح ہے، میں نے کہا : پھر کیا ہے ؟ فرمایا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، میں نے کہا : کیا اس عورت پر عدت ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : ہاں ایک حیض، میں نے کہا : متعہ کرنے والے مرد اور عورت ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : نہیں : ابو عمر ؓ نے کہا : سلف وخلف علماء کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ متعہ ایک مدت تک نکاح ہے جس میں میراث نہیں ہے اور مدت کے پورا ہونے کے وقت بغیر طلاق کے فرقت واقع ہوجاتی ہے، ابن عطیہ (رح) نے کہا : متعہ کے پورا ہونے کے وقت بغیر طلاق کے فرقت واقع ہوجاتی ہے۔ ابن عطیہ (رح) نے کہا : متعہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی عورت سے دو گواہوں کی موجودگی میں اور عورت کے ولی کی اجازت سے مقرر مدت تک نکاح کرے اس بنا پر کہ ان دونوں کے درمیان میراث نہ ہوگی اور مرد عورت کو وہ مال دے گا جس پر ان میں اتفاق ہوا تھا، جب مدت گزر جائے گی تو مرد کو اس عورت پر کوئی راہ نہ ہوگی اور وہ استبراء رحم کرے گی، کیونکہ بلاشک اس میں بچہ لاحق ہوگا اور اگر وہ حاملہ نہ ہوگی تو وہ دوسرے کے لیے حلال ہوگی، نحاس کی کتاب میں ہے کہ اس میں خطا ہے بچہ نکاح متعہ میں لاحق نہیں ہوتا۔ میں کہتا ہوں : یہ نحاس کی عبارت کا مفہوم ہے، انہوں نے لکھا ہے کہ متعہ یہ ہے کہ مرد عورت کو کہے : میں تجھ سے ایک دن کے لیے (یا اس کی مثل کوئی مدت متعین کرے) نکاح کرتا ہوں اس شرط پر کہ تجھ پر عدت نہ ہوگی اور نہ ہمارے درمیان میراث ہوگی اور نہ طلاق ہوگی اور نہ گواہ ہوگا جو اس پر گواہی دے گا یہ بعینہ زنا ہے اور اسلام میں یہ کبھی مباح نہیں تھا اسی وجہ سے حضرت عمر ؓ نے کہا تھا ؛ میرے پاس متعہ کے ذریعے نکاح کرنے والا شخص نہیں لایا جائے گا مگر میں اسے پتھروں کے نیچے غائب کر دوں گا (1) الناسخ والمنسوخ، جلد 2 صفحہ 193) مسئلہ نمبر : (12) ہمارے علماء کا اختلاف ہے کہ جب نکاح متعہ میں مباشرت کرے گا تو کی حد لگائی جائے گی اور بچہ اس کے ساتھ لاحق نہ ہوگا یا حد شبہ کی وجہ سے نہ لگائی جائے گی اور بچہ اس کے ساتھ لاحق ہوگا، اس شخص کو تعزیر لگائی جائے گی اور اسے سزا دی جائے گی، جب آج بچہ بعض علماء کے قول میں نکاح متعہ میں لاحق ہوگا جبکہ تحریم متعہ کا قول بھی موجود ہے تو پھر اس وقت بچہ اس مرد کے ساتھ کیسے لاحق نہ ہوگا جبکہ متعہ مباح تھا، پس یہ دلیل ہے کہ نکاح متعہ نکاح صحیح کے حکم پر تھا اور نکاح متعہ، نکاح صحیح سے جدا ہوتا ہے مدت میں اور میراث میں، مہدوی نے حضرت ابن عباس ؓ سے حکایت کیا ہے کہ نکاح متعہ بغیر ولی اور بغیر گواہوں کے ہوتا تھا، جو اس نے حکایت کیا ہے کہ نکاح متعہ بغیر ولی اور بغیر گواہوں کے ہوتا تھا، اس میں ضعف ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، ابن عربی (رح) نے کہا : حضرت ابن عباس ؓ متعہ کے جواز کے قائل تھے، پھر ان کا متعہ کے جواز کے قول سے رجوع ثابت ہے، پس متعہ کی حرمت پر اجماع منعقد ہے جب کوئی نکاح متعہ کرے گا تو اسے مشہور مذہب میں رجم کیا جائے گا اور دوسری روایت امام مالک (رح) سے یہ ہے کہ اسے رجم نہیں کیا جائے گا، کیونکہ نکاح متعہ حرام نہیں ہے لیکن ہمارے علماء کے لیے ایک دوسری غریب اصل ہے جس کی وجہ سے وہ دوسرے تمام علماء سے منفرد ہوگئے وہ یہ ہے کہ جو سنت کی وجہ سے حرام کیا جاتا ہے کیا وہ قرآن سے حرام کیے گئے کی مثل ہے یا مثل نہیں ہے ؟ بعض مدنی علماء کی امام مالک (رح) سے روایت یہ ہے کہ وہ برابر نہیں ہیں۔ یہ ضعیف ہے، ابوبکر طرطوسی نے کہا : نکاح متعہ کی رخصت صرف حضرت عمران بن حصین، حضرت ابن عباس ؓ ، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور اہل بیت کی ایک جماعت نے دی، حضرت ابن عباس ؓ کے قول کے بارے میں شاعر کہتا ہے : اقول للرکب اذ طال الثواء بنایا صاح ھل لک فی فتیا ابن عباس : فی بضۃ رخصۃ الاطراف ناعمۃ تکون مثواک حتی مرجع الناس : علماء، فقہاء، صحابہ، تابعین، اور سلف صالحین، میں سے تمام کا نظریہ یہ ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور متعہ حرام ہے، ابو عمر نے کہا : اہل مکہ اور یمن سے حضرت ابن عباس ؓ کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ کے مذہب پر متعہ کو حلال سمجھتے تھے اور تمام لوگوں نے اس کو حرام قرار دیا، معمر نے کہا : زہری (رح) نے کہا ہے کہ لوگ متعہ سے زیادہ ناراض ہونے لگے حتی کہ شاعر نے کہا : قال المحدث لما ھال مجسلہ یا صاح ھل لک فی فتیا ابن عباس : جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (13) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” اجورھن “۔ یہ مال وغیرہ کو شامل ہے پس اعیان کے منافع کا مہر ہونا جائز ہے۔ اس میں علماء کا اختلاف ہے، امام مالک، مزنی، لیث، امام احمد، امام ابوحنیفہ، رحمۃ اللہ علیہم اور ان کے ساتھی اس سے منع کرتے ہیں مگر امام ابوحنیفہ (رح) نے کہا : جب وہ اس پر نکاح کرے گا تو نکاح جائز ہوگا اور اس کے حکم میں ہوگا جس کا مہر متعین نہ کیا گیا ہو اور عورت کو مہر مثل ملے گا اگر وہ اس سے دخول کرچکا ہوگا اور اگر دخول نہ کرچکا ہو تو اسے متعہ (تین کپڑے) ملے گا، ابن القاسم (رح) نے محمد کی کتاب میں ناپسند کیا ہے اور اصبغ نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔ ابن شاس نے کہا : نکاح واقع ہوجائے تو وہ اکثر اصحاب کے قول میں نکاح ہوجائے گا، یہ اصبغ کی ابن القاسم سے روایت ہے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : نکاح ثابت ہے اور اس پر لازم ہے کہ جو اس کے لیے شرط ہے وہ اس کو تعلیم دے اگر وہ دخول سے پہلے طلاق دے گا تو اس میں امام شافعی (رح) کے دو قول ہیں ایک یہ کہ عورت کو اس سورت کی تعلیم کے اجر کا نصف ملے گا اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس کو مہر مثل کا نصف ملے گا، اسحاق نے کہا : نکاح جائز ہے۔ ابو الحسن لخمی نے کہا : اور اس تمام کے جواز کا قول بہتر ہے، اجارہ اور حج وغیرہ اموال کی طرح ہیں جو ملکیت دیئے جاتے ہیں، بیچے جاتے ہیں اور خریدے جاتے ہیں، امام مالک (رح) نے اس کو مکروہ کہا ہے، کیونکہ مستحب ہے کہ مہر معجل ہو، اجارہ اور حج مؤجل کے معنی میں ہیں اور پہلے قول والوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” باموالکم “۔ سے حجت پکڑی ہے اور مال کی حقیقت یہ ہے کہ جس کے ساتھ طمع متعلق ہو اور نفع حاصل کرنے کے لیے شمار کیا جائے گا اور اجارہ میں رقبہ کی منفعت اور علم کے لیے تعلیم کی منفعت یہ تمام مال نہیں ہیں۔ امام طحاوی نے فرمایا : وہ اصل جس پر اجماع ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اجرت پر لے اس شرط پر کہ وہ اسے قرآن کی فلاں سورت ایک درہم کے بدلے سکھائے گا تو یہ جائز نہیں، کیونکہ اجارات جائز نہیں ہیں مگر دو معانی میں سے ایک معنی کے لیے یا تو متعین عمل پر اسے لے گا جیسے کپڑا سینے کے لیے یا کسی اور متعین کام کے لیے یا وقت معلوم پر لے گا اور جب کسی سورت کی تعلیم پر اجرت پر ہلے گا تو یہ اجارہ نہ وقت معلوم پر ہو گا اور نہ عمل معلوم پر ہوگا اس نے اس کو تعلیم دینے پر اجرت پر لیا ہے جب کہ تھوڑی تعلیم اور زیادہ تعلیم تھوڑے وقت میں اور زیادہ وقت میں سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی اپنا گھر کسی کو اس شرط پر بیچے کہ وہ اسے قرآن کی ایک سورت سکھائے گا تو مذکورہ معانی کی وجہ سے جائز نہ ہوگا، جب تعلیم کے ذریعے منافع اور اعیان الاموال کی ملکیت حاصل نہیں کیا جاسکتی تو نظر سے ثابت ہوا کہ تعلیم کے ذریعے بضع کی ملکیت بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ واللہ الموفق۔ اور جنہوں نے اس کی اجازت دی ہے انہوں نے حدیث الموھوبۃ میں حضرت سہل کی حدیث سے حجت پکڑی ہے اس میں آپ ﷺ نے فرمایا : ” تو جا میں نے تجھے اس کا مالک بنادیا اس کے عوض جو تیرے پاس قرآن ہے “ (1) (صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب القرائۃ عن ظھر القلب، حدیث نمبر 4642، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ایک روایت میں ہے ” تو جا میں نے تیرا اس کے ساتھ نکاح کردیا تو اسے قرآن میں سے سکھا دے “۔ علماء فرماتے ہیں : اس حدیث میں یہ نکاح کے انعقاد اور مہر (جو تعلیم تھی) کو مؤخر کرنے کی دلیل ہے اور یہ بما معک من القرآن سے ظاہر الفاظ پر ہے، کیونک باعوض کے لیے ہے جس طرح تو کہتا ہے، : خذ ھذا، بھذا یعنی اس چیز کے بدلے یہ چیز لے، اور دوسری روایت میں ہے : فعلمھا ” تو اسے سکھا ‘ یہ تعلیم دینے کا حکم میں نص ہے اور کلام کا سیاق گواہی دیتا ہے کہ یہ نکاح کے لیے تھا، اس شخص کے قول کی طرف کوئی التفات نہیں کیا جائے گا جو کہتا ہے کہ یہ اس شخص کے اکرام کے لیے تھا، کیونکہ اس نے قرآن یاد کیا ہوا تھا اور بالمعنی لام ہے، کیونکہ دوسری حدیث اس کے خلاف کی تصریح کرتی ہے فرمایا : فعلمھا من القرآن “۔ اور ابو طلحہ سے جو مروی ہے اس میں بھی حجت نہیں ہے کہ انہوں نے ام سلیم کو نکاح کا پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا کہ تو اسلام قبول کر میں نکاح کرلوں گی انہوں نے اسلام قبول کیا پھر اس سے نکاح کیا، پس کوئی مہر اس کے مہر سے معزز نہ تھا، اس کا مہر اسلام تھا، کیونکہ یہ اس کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ ام سلیم کو ابو طلحہ کی طرف سے کچھ نہ ملا تھا بخلا تعلیم اور دوسرے منافع کے، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی بیٹی کا نکاح موسیٰ (علیہ السلام) سے اس شرط پر کیا تھا کہ وہ اس کے مہر میں شعیب (علیہ السلام) کی بکریاں چرائے گا اس کا بیان سورة القصص میں آئے گا اور حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا : اے فلاں ! کیا تو نے شادی کی ہے ؟ اس نے کہا : نہیں میرے پاس کوئی ایسی چیز ہی نہیں ہے جس کے عوض میں نکاح کروں، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تیرے پاس (آیت) ” قل ھو اللہ احد “۔ سورة نہیں ہے ؟ اس نے کہا : کیوں نہیں یہ تو ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ ثلث القرآن (قرآن کا تہائی) ہے کیا تیرے پاس آیۃ الکرسی نہیں ہے ؟ اس نے کہا : کیوں نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا : یہ قرآن کا چوتھائی ہے کیا تیرے پاس (آیت) ” اذا جاء نصر اللہ والفتح “۔ نہیں ہے ؟ اس نے کہا : کیوں نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا : یہ قرآن کا چوتھائی ہے کیا تیرے پاس ” اذا زلزلت “َ ( سورة ) نہیں ہے ؟ اس نے کہا : کیوں نہیں : آپ ﷺ نے فرمایا : وہ قرآن کا چوتھائی ہے، نکاح کر نکاح کر (1) (جامع ترمذی کتاب فضائل القرآن، باب ما جافی اذا زلزلت، حدیث نمبر 2820، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) میں کہتا ہوں : دارقطنی نے حضرت سہل کی حدیث، حضرت ابن مسعود ؓ کی حدیث سے روایت کی ہے اس میں اس چیز کی زیادہ وضاحت ہے جس سے امام مالکرحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے حجت پکڑی ہے، اس میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس عورت سے کون نکاح کرے گا ؟ ایک شخص کھڑا ہوا اس نے کہا میں یارسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے پوچھا : کیا تیرے پاس مال ہے ؟ عرض کیا : نہیں یا رسول اللہ ! آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو نے قرآن میں سے کچھ پڑھا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں سورة بقرہ اور سورة مفصل، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تیرا اس سے نکاح کردیا اس پر کہ تو اسے پڑھائے گا اور اسے تعلیم دے گا اور جب اللہ تعالیٰ تجھے عطا فرمائے گا تو تو اس کو عوض دے گا، پس اس شخص نے اس عورت سے اس شرط پر نکاح کرلیا، یہ نص ہے، اگرچہ صحیح ہے کہ تعلیم مہر نہیں ہوگی، دارقطنی نے کہا : اس حدیث کو روایت کرنے میں عتبہ بن سکن منفرد ہے اور وہ متروک الحدیث ہے فریضۃ مصدر کی بنا پر منصوب ہے حال بن رہا ہے یعنی مفروضۃ۔ مسئلہ نمبر : (14) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا جناح علیکم فیما ترضیتم بہ من بعد الفریضۃ “۔ یعنی مہر میں کمی بیشی کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ فریضۃ کے استقرار کے بعد باہم رضا مندی سے کمی بیشی کرنا جائز ہے، مقصود مہر سے عورت کا بری کرنا ہے، یا مرد کا پورا مہر ادا کرنا ہے، اگر وہ اسے دخول سے پہلے طلاق دے دے، جو لوگ کہتے ہیں کہ آیت متعہ کے بارے میں ہے وہ کہتے ہیں : یہ اشارہ ہے جس پر متعہ کی مدت میں زیادتی کرنے میں راضی ہوجاتے تھے ابتداء اسلام میں (مثلا) ایک شخص کسی عورت سے ایک دینار کے بدلے میں ایک مہینہ کے لیے نکاح کرتا تھا جب مہینہ مکمل ہوجاتا تھا تو وہ اسے کہتا : مدت میں میرے لیے زیادتی کر میں تیرے لیے مہر میں زیادتی کروں گا پس ظاہر ہوا کہ یہ تراضی کے وقت جائز تھا۔
Top