Al-Qurtubi - An-Nisaa : 37
اِ۟لَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّهِیْنًاۚ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَبْخَلُوْنَ : بخل کرتے ہیں وَيَاْمُرُوْنَ : اور حکم کرتے (سکھاتے) ہیں النَّاسَ : لوگ (جمع) بِالْبُخْلِ : بخل وَيَكْتُمُوْنَ : اور چھپاتے ہیں مَآ : جو اٰتٰىھُمُ : انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل وَاَعْتَدْنَا : اور ہم نے تیار کر رکھا ہے لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے عَذَابًا : عذاب مُّهِيْنًا : ذلت والا
جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو (مال) خدا نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کر رکھیں اور ہم نے ناشکروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے
آیت نمبر : 37۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الذین یبخلون ویامرون الناس بالبخل “ میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” الذین یبخلون “ ، الذین من کان سے بدل ہونے کی بنا پر محل نصب میں ہے اور یہ صفت نہیں ہے، کیونکہ من اور ما نہ صفت بنتے ہیں نہ ان کی صفت بیان کی جاتی ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ فخور میں مضمر سے بدل ہونے کی وجہ سے محل رفع میں ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ محل رفع میں ہو اور اس پر عطف کیا گیا ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ مبتدا ہو اور خبر محذوف ہو، یعنی (آیت) ” الذین یبخلون لہم کذا، اور یہ بھی جائز ہے کہ خبر یہ ہو (آیت) ” ان اللہ لایظلم مثقال ذرۃ “۔ یہ بھی جائز ہے کہ اعنی کے اضمار کے ساتھ منصوب ہو، پس پھر یہ آیت مومنین کے متعلق ہوگی اور یہ آیت اس تاویل پر ہوگی کہ بخل کرنے والوں سے اللہ کی محبت کی نفی کی گئی ہے پس اے مومنو ! جس کا ذکر کیا گیا ہے ان سے احسان کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں فرماتا ہے جس میں ایسی خصلتیں ہوں جو احسان سے مانع ہوں۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” (آیت) ” یبخلون ویامرون الناس بالبخل، بخل شرع میں مذموم ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو انسان پر واجب کیا ہے اسے ادا نہ کرے، یہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی مثل ہے (آیت) ” ولا یحسبن الذین یبخلون بما اتھم اللہ من فضلہ “۔ (آل عمران : 180) یہ آیت سورة آل عمران میں گزر چکی ہے اور بخل اور اس کی حقیقت کے متعلق کلام بھی ہوچکی ہے اور بخل اور شح کے فرق پر تفصیلی بحث ہوچکی ہے، حضرت ابن عباس وغیرہ کے قول میں اس آیت سے مراد یہود ہیں، کیونکہ انہوں نے تکبر، فخر، مال پر بخل اور حضرت محمد ﷺ کی تورات میں نازل شدہ صفات کو چھپانے کی قبیح صفات جمع کی ہوئی تھیں، بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد وہ منافق ہیں جن کا خرچ کرنا اور ایمان تقیہ تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر تکبر کرنے والے، فخر کرنے والے اور بخل کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا، یہ ان تمام اعرابی صورتوں کی بنا پر ہے جو ہم نے ذکر کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واعتدنا للکفرین عذابا مھینا “۔ اللہ تعالیٰ نے بخل کرنے والے مومنین کی دھمکی کو کافروں کی دھمکی سے جدا فرمایا ہے پہلے (مومینن) لوگوں کے لیے محبت کے نہ ہونے کی دھمکی دی اور کافروں کو عذسب مہین کی دھمکی دی۔
Top