Al-Qurtubi - An-Nisaa : 38
وَ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ وَ مَنْ یَّكُنِ الشَّیْطٰنُ لَهٗ قَرِیْنًا فَسَآءَ قَرِیْنًا
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں اَمْوَالَھُمْ : اپنے مال رِئَآءَ : دکھاوے کو النَّاسِ : لوگ وَ : اور لَا يُؤْمِنُوْنَ : نہیں ایمان لاتے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَا : اور نہ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : آخرت کے دن پر وَمَنْ : اور جو۔ جس يَّكُنِ : ہو الشَّيْطٰنُ : شیطان لَهٗ : اس کا قَرِيْنًا : ساتھی فَسَآءَ : تو برا قَرِيْنًا : ساتھی
اور خرچ بھی کریں تو (خدا کے لیے نہیں بلکہ) لوگوں کے دکھانے کو اور ایمان نہ خدا پر لائیں اور نہ روز آخرت پر (ایسے لوگوں کا ساتھی شیطان ہے) اور جس کا ساتھی شیطان ہوا تو (کچھ شک نہیں کہ) وہ برا ساتھی ہے
آیت نمبر 38۔ اس آیت میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والذین ینفقون اموالھم رئاء الناس “ اس کا (آیت) ” الذین یبخلون “ پر عطف فرمایا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا الکافرین پر عطف ہے اس صورت میں محل جر میں ہوگا اور جو واؤ کی زیادتی کی رائے رکھتے ہیں وہ جائز قرار دیتے ہیں کہ دوسرا ان کے نزدیک پہلے کی خبر ہو۔ جمہور علماء نے فرمایا : یہ منافقین کے بارے نازل ہوئی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : رئاء الناس “ اور رئا نفاق سے ہے مجاہد نے کہا : یہ یہود کے بارے نازل ہوئی، طبری نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس طائفہ سے ایمان باللہ اور یوم آخرت پر ایمان کی نفی کی ہے جب کہ یہودی ایسے نہ تھے، ابن عطیہ نے کہا : مجاہد کا قول مبالغہ اور الزام پر مبنی ہے، کیونکہ آخرت کے متعلق ان کا ایمان، ایمان نہ ہونے کے مترادف تھا، کیونکہ ان کے لیے وہ نفع بخش نہیں تھا (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 52 دارالکتب العلمیہ) بعض علماء نے فرمایا : یہ بدر کے دن کھلانے والے لوگوں کے متعلق نازل ہوئی اور یہ مکہ کے رؤساء تھے جو لوگوں پر اس لیے خرچ کرتے تھے تاکہ وہ بدر کی طرف نکلیں، ابن عربی نے کہا : ریا کے طور پر خرچ کرنا احکام میں اس حیثیت سے داخل ہے کہ یہ کفایت نہیں کرتا۔ میں کہتا ہوں : اس پر یہ ارشاد دلالت کرتا ہے : (آیت) ” قل انفقوا طوعا او کرھا لن یتقبل منکم “۔ (توبہ : 53) اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ومن یکن الشیطن لہ قرینا فسائ “۔ کلام میں اضمار ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے ولا یومنون باللہ ولا بالیوم فقرینھم الشیطان ومن یکن الشیطان لہ قرینا فساء قرینا “۔ اور قرین، ساتھی اور دوست کو کہتے ہیں یہ الا قران سے فعیل کے وزن پر ہے، عدی بن زید نے کہا ؛ عن المرء لاتسال وسل عن قرینہ فکل قرین بالمقارن یقتدی : آدمی کے متعلق مت پوچھ، اس کے دوست کے بارے میں پوچھ ہر دوست اپنے دوست کی پیروی کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس نے دنیا میں شیطان کی بات کو قبول کیا اس نے اس کے ساتھ دوستی کرلی، اور یہ بھی مفہوم ہو سکتا ہے کہ جس کا ساتھی آگ میں شیطان بنایا گیا وہ بہت برا ساتھی ہے، یعنی شیطان برا ساتھی ہے قرینا کو نصب تمیز کی بناء پر ہے۔
Top